محمد ﷺ مرد ربانی

0

قسط: 06

مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید

ُآپؐ کی مدنی زندگی

نبی مبارکؐ 12 ربیع الاول ، یکم ہجری ،بمطابق 24 ستمبر 622 ء کو شہر یثرب میں داخل ہوئے جسے بعد میں مدینۃ النبی یا محض مدینہ کے نام سے جانا گیا۔ اس وقت یہ شہر بٹوارے کا شکار تھا ۔ اوس اور خزرج ، دو مقامی قبائل کے درمیان نسل در نسل ایک تنازعہ چلا آرہا تھا ۔ یہاں ایک یہودی قوم بھی تھی جس نے پہلے تو آپؐ سے صلح کی لیکن بعد میں نبی پاکؐ کے لئے پریشانی کا باعث بن گئی۔ مکہ مکرمہ سے آنے والے تارکین وطن تھے جنہیں مہاجر کہا گیا اور مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے والے انصار کہلائے۔ نبی مبارکؐ کو ایک نئی دینی جماعت قائم کرنا تھی اور ان متنوع عناصر کو اسلام کے اصولوں پر مبنی ایک متحد معاشرے میں ضم کرنا تھا۔ آپؐ کو نہ صرف عربوں کی طرف سے بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی مذہبی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے آپؐ کے پیغمبرانہ مشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا، اس میں اس قوم کے کچھ ان افراد کی بغاوت بھی تھی جو صرف نام نہاد مسلمان ہو چکے تھے ۔ایک خاص خطرہ مکہ والوں سے تھا جنہیں آپؐ کی نئی پوزیشن سے خوف تھا اور اس سے پہلے کہ آپؐ نئی اسلامی جماعت کو مستحکم کرسکیں، وہ اسے ختم کر دینا چاہتے تھے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ تکلیف ان مدنیوں اور مہاجروں سے پہنچی جن کا ایمان آدھا ادھورا تھا اور جنھیں قرآن پاک نے منافقین کہا ہے۔
اس کے علاوہ نبی بابرکت کا مقابلہ ان لوگوں سے تھا جن کی وفاداری اس وقت تک کسی مرکزی حکومت کے بجائے مکمل طور پر صرف اپنے قبیلے کے ساتھ رہی تھی۔ آپؐ کو ایک ایسے معاشرے کا سامنا تھا جس میں مرکز گریز قوتوں کا غلبہ رہا تھا اور جہاں کی انسانی تاریخ میں خدائی مداخلت یعنی وحی نے ابھی تک کوئی نظم یا اتحاد قائم نہ کیا تھا۔
رسول مبارکؐ نے معمولی ذرائع سے ان ناقابل یقین حد تک مشکل رکاوٹوں کا سامنا کیا۔ اسی دوران قرآن پاک نے دنیا کے سامنے یہ حقیقت پیش کی کہ آپؐ ”مہر نبوت” ہیں (”وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں،” (33:40)) اور وہ نبی جس کے آنے کی پیش گوئی مسیحؑ نے کی تھی، (اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو اتاری گئی ہےاور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمدہوگا۔ ”(61:06) خدا نے انبیاء کرام میں آپ کے درجات کو بلند کیا اور اس دنیا میں بھی اس حد تک فتح بخشی کہ صحرائے عرب میں مدینہ نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم ایک چھوٹی سی جماعت جلد ہی ایک سلطنت کا مرکز بن گئی جو چین سے فرانس تک پھیلی ہوئی تھی، ایک ایسا مرکز جو تمام جہاں کے مسلمانوں کے لئے کامل اسلامی جماعت کے نمونہ کے طور پر صدیوں باقی رہنے والا تھا۔
رسولؐ اللہ کے لئے سب سے اولین اور سب سے اہم چیلنج فوجی محاذ تھا۔ مکہ کی فوجوں نے اکثر مدینہ منورہ کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ مل کر اہلِ مدینہ پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سن 2 ہجری میں اسلامی تاریخ کی پہلی بڑی جنگ ہوئی جسے جنگ بدر کہا جاتا ہے۔ جو آج تک مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں سب سے اہم ”مقدس جنگ” یاجہاد کی شکل میں رچی بسی ہوئی ہے، ایک ایسی جنگ جس میں اسلامی معاشرے کا وجود ہی نشانے پر تھا۔ ایک چھوٹا سا مسلمان دستہ مدینہ سے باہر اس جنگ میں ایک بہت بڑی اور بہتر منظم فوج کو فتح کرنے میں کامیاب رہا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا پرانا دشمن ابو جہل مارا گیا اور نبی کریمؐ کے چچا عباس کو قید کر کے مدینہ لایا گیا۔ یہ فتح نوجوان اسلامی جماعت کے لئے براہ راست خدائی نشانی تھی۔ اس فتح نے نوزائیدہ حکومت کی طاقت کو مستحکم کیا اور رسول مبارکؐ کو مدینہ کے آس پاس کے قبائل کے ساتھ معاہدے کرنے اور اس خطے میں اپنے مقام کو مستحکم کرنے کے قابل بنا دیا۔
اگرچہ جنگ بدر اور اس کے بعد میں ہونے والی تمام جنگیںنئی اسلامی جماعت کی بقاء کے لئے بہت اہم تھیں پھر بھی پیغمبر ؐ خدا نے ان لڑائیوں کو “الجہاد الصغر”(جہاد صغیرہ)کہا اور جب کچھ صحابہ کرام نے آپؐ سے پوچھا کہ پھر “الجہاد الاکبر” کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا، ” یہ اپنے نفس کے خلاف جنگ ہے۔” یہ حدیث اس حقیقت کا کامل ثبوت ہے کہ اسلام صرف تلوار کا مذہب نہیں ہے۔ جب خدا کے ذریعہ ایک نیا مذہبی نظام قائم کیا جاتا ہے تو زمین کو صاف کر دیا جاتا ہے ۔ آیا یہ ”مقدس جنگوں” کے ایک سلسلے کے ذریعے ہو جو گرتے ہوئے نظام کو ختم کردے یا پرانی عمارت کی بنیادوں میں آہستہ دخول ہو جس کی وجہ سے یہ گرتی ہوئی عمارت نیست و نابود ہو جاتی ہے۔ پہلا معاملہ اسلام پر اور دوسرا عیسائیت پر ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دخول کے ” غیر متحرک یا سست ” ذرائع ”متحرک” ذرائع پر فطری برتری رکھتے ہیں ، خاص طور پر اگر اسلام کے طرز عمل کو مد نظر رکھا جائے کہ یہ جہاں بھی پہنچا اس نے تمام مستند مذاہب کے لئے احترام کا رویہ ہی اختیار کیا۔ اسلام جنگ کے سوال کو نظرانداز کرنے کی بجائےگویا کہ اس کا وجود ہی نہیں ہے۔اور اس کے لئے قانون سازی کی اور اس طرح اس کو قوائد و ضوابط میں محدود کردیا۔ جہاد کا مطلب جنگ سے چشم پوشی نہیں بلکہ اس پر حدود طے کرنا تھا۔ نہ صرف عیسائی مغرب بلکہ تمام دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں عالم اسلام کی بعد کی تاریخ اس دعوے کا کافی ثبوت ہے۔ یقینی طور پر عالم اسلام نے ان مذاہب کے موازنہ میں جو خود جنگ کی مخالفت کرتے ہیں، کچھ زیادہ جنگیں نہیں لڑیں ۔ مزید ،ہم یہ وثوق سے کہ ہی سکتے ہیں کہ جنگِ کلی ـ اور پوری آبادی کی تباہی کا نظریہ اسلامی دنیا کی پیداوار نہیں ہے ۔
اسلام اور نبی مبارکؐپر اس بنیاد پر جدید تنقید کہ بدر جیسی لڑائیاں لڑی گئیں جن میں رسول بابرکتؐ نے خود حصہ لیا ، بانی اسلام کے کردار اور آپؐ کے کام کا غلط فہم ہے۔نبی مبارکؐ نے مسیح یا بدھ کی طرح دنیا سے کٹ کر نہیں بلکہ عہد نامہ قدیم کے نبی داؤد اور سلیمان کی طرح دنیا کے مسائل میں ر ہ کر اور اس کوحل کرتے ہوئےکمال حاصل کیا۔ اسلام جنگ و جدوجہد جو زندگی کا حصہ ہیں، کے سوال پر غور کیے بغیر ایک مکمل طریقہ حیات نہیں بن سکتا تھا۔ اسلام جنگ کی علامت کو مثبت معنوں میں دیکھتا ہے گویا زندگی حق و باطل کے مابین ایک مستقل جنگ ہے۔ انسانی زندگی کے لازمی جز یعنی تناؤاور حرکت کو روکنے اور زندگی کا توازن برقرار رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ ایک مستقل جدوجہد جاری رہے تاکہ زندگی میں ہم آہنگی باقی رہے جوسلام (سلامتی) اور فرمانبرداری(اسلام ) کا ثمر ہے۔ اور یہ اسلام کی فطرت میں تھا کہ یہ زمین پر قائم ہو، یہ ہم آہنگی ایک محدود نوعیت کی جنگوں کے سلسلے لیکن ان کے حیرت انگیز دور رس نتائج کی حامل تھی۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سن 2 ہجری میں جنگ بدر کی فتح اور نئے اسلامی معاشرے کی طاقت کے بتدریج استحکام کے متوازی اسلام کے کچھ انتہائی اہم اداروں اور ارکان کا حکم اور قیام عمل میں آیا ۔ اسی سال قبلہ یروشلم سے مکہ مکرمہ تبدیل کردیا گئی۔ اس سال کے دوران ہی رمضان المبارک کا روزہ ایک اہم عبادت اور رکن اسلام کے طور پر قائم کیا گیا۔ اسی طرح سفرِ حج اور 10 ذی الحجہ کی قربانی کو ایک اہم اسلامی عبادت کے طور پر قائم کیا گیا حالانکہ رسول مبارکؐ اگلے کئی سال بعد تک یہ زیارت نہ کر سکے۔ یہ خدا کی منشاء تھی کہ اس اہم سال کے دوران تاریخ میں اسلام کی پہلی فتح کے ساتھ بطور مذہب اسلام روایات کے مختلف اجزاء کو بھی منظر عام پر لایا جائے اور ان کو رسول مبارکؐ کے ذریعہ مدینہ منورہ میں پہلی بار عملی جامہ پہنایا جائے ۔
مکہ والے بلا شبہ ایک شکست کے بعد اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ بلکہ انہوں نے ابو سفیان کی سربراہی میں تقریبا تین ہزار جوانوں کی ایک بڑی فوج جمع کرکے جنگ بدر کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور سن 3 ہجری میں مدینہ کی طرف کوچ کیا ۔اس دنیا کی ہر کوشش میں فتح و شکست، کامیابی اور ناکامی لازمی نتیجہ ہے۔ چاہے یہ خدا کے دین کی دعوت ہی کیوں نہ ہو اور اس لئے مسلمانوں کو بھی اس جنگ میں احد کے مقام پر ایک خو ف ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے تو مسلمان بہادری سے لڑے اور کامیابی حاصل کر رہے تھے لیکن جلد ہی ان کی پشت پر مشہور جنگجو خالد ابن ولید نے حملہ کردیا۔ بعد میں خالد بن ولیدؓ ابتدائی اسلامی فتوحات کے ہیرووں میں شمار ہوئے ۔ تاہم، اس جنگ میں وہ مخالف فریق سے تھے۔ اس حملے کے دوران، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور بہت سے لوگوں نے آپؐ کے شہید ہو جانے کا گمان کر لیا لیکن آپؐ کو جنگ کے مقام پر اور مکی فوج کے محل وقوع سے پرے ایک پہاڑی کے دوسری طرف لے جایا گیا۔ لڑائی کے دوران رسول مبارکؐ کے چچا حمزہؓسمیت بہت سے مسلمان شہید ہوئے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مکہ والوں نے مدنی فوج پر اپنی فتح مکمل نہیں کی اور مکہ لوٹ گئے۔ لہذا مسلمان شکست کا مزہ چکھنے اور بہت سے مردوں کا نقصان اٹھانے کے بعد بھی تباہ نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس رسول بابرکتؐ اور علیؓ جیسے عظیم الشان رہنماؤں کی قیادت میں انہوں نے اور بھی عزم کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔
مکہ کی فوجوں کی جانب سے مدینہ پر آخری حملہ سن 5 ھ میں ہوا جب 19000 جوانوں کی ایک بڑی نفری نے مکمل فتح حاصل کرنے کی امید کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر دیا۔ اس بار نبی مبارکؐ نے سلمانؓ فارسی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک بہت ہی کامیاب فوجی حکمت عملی کا استعمال کیا، جس کے مطابق شہر کے چاروں طرف گڑھے کھودے گئے اور اس لئے یہ جنگ ، جنگ خندق کے نام سے مشہور ہوئی۔ جب شہر اس طرح خندق سے محفوظ ہو گیا اور مکہ والے گڑھے کو عبور کرنے سے قاصر رہے، رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارتی ہتھکنڈوں کا ایک سلسلہ انجام دیا اور آپؐ مدینہ منورہ کے آس پاس کے متعدد قبائل کے ساتھ مذاکرات اور صلح کر نے میں کامیاب ہو گئے۔ اس سے، شہر کی کھائیوں کو عبور نہ کر پانے کی مایوسی میں اضافہ ہوا، اور مکہ والوں کے حوصلے پست ہو گئے اور انہوں نے آخر میں محاصرے کو بڑھاوا نہ دینے اور مکہ مکرمہ واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ان کی یہ شکست عرب میں اسلام کے دفاعی مرحلے کا آخری لمحہ ثابت ہوئی ۔ اس کے بعد مسلمان نہ صرف ہمیشہ سے زیادہ متحد ہو گئے بلکہ ان کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا اور اسلام کی توسیع کا آغاز ہوا جس میں جلد ہی پورا عرب شامل ہو گیا۔
خطروں کے ان تجربات سے جن میں پوری مدنی قوم ہی نشانے پر تھی ،اس نو تشکیل شدہ معاشرے کو جوڑنے میں مدد ملی۔ لیکن اصل بنیاد یقینا دین اسلام ہی تھا جس کو نبی پاکؐ روزمرہ کی زندگی کے ساتھ ساتھ مذہبی، فکری اور یہاں تک کہ فنی قسم کے مسائل پر بھی لاگو کرتے تھے۔ حاکم، جج، رہنما اور استاد کی حیثیت سے آپؐ مختلف عناصر کو ایک اسلامی امت میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئے۔ سن 6 ہجری تک یہ امت وجود میں آچکی تھی۔ اسلامی معاشرہ ایک الگ مذہبی طبقہ کے طور پر پیدا ہوا تھا جو جلد ہی بنی نوع انسان کے ایک بڑے حصے کو اپنی آگوش میں لے لینے والا تھا۔ خدا کے آخری نبیؐ کا یہ ایک قابل ذکر کارنامہ تھا کہ آپؐ بہت ہی کم وقت میں ایک آبادی کو ایک امت میں تبدیل کرنے ، ممکنہ بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرنے اور اس کے ساتھ ہی ان عظیم صحابہ کے دلوں میں روحانیت کے بیج لگانے میں کامیاب ہوئے جو اسلامی روحانیت کی خوشبو کو اگلی نسلوں تک لے جانے والے تھے۔
اگرچہ مدینہ اب اسلام کا مستحکم مرکز تھا، لیکن مکہ مکرمہ کی کشش اتنی ہی شدید رہی خاص طور پر اس لئے کہ اب خدا نے اس قدیم شہر ابراہیمی کی زیارت کو نئے دین کی لازمی رسومات کا حصہ بنا دیا تھا۔ نبی مبارکؐکو زیارت یا حج کی گہری خواہش تھی، اور اب جب آپ نے مدینہ میں اسلامی امت قائم کر دی تھی اور اسے خارجی خطرات سے محفوظ کردیا تھا، تو آپؐ نے سال ۶ ہجری کے آخر میں عمرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے آپؐ پیروکاروں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ بیت اللہ کی جانب روانہ ہوئے۔ مکہ والوں نے شہر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے آپؐ کو اپنے پیدائشی شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ لہذا آپ ؐ شہر کے باہر حدیبیہ نامی ایک مقام پر ڈیرا ڈالنے پر مجبور ہوئے۔ یہ سوچ کر کہ اس مسئلے کو مذاکرات کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔ آپؐ نے عثمانؓ کو مکہ والوں سے بات کرنے کے لئے اپنا سفیر بنا کر بھیجا اور ان کے جواب کا انتظار کرنے لگے۔تاہم، سفیر توقع کے مطابق فوری طور پر واپس نہیں آیا اور رسول مبارکؐ اور آپ کے پیروکاروں کے لئے ایک بڑا بحران پیدا ہوگیا۔ آپ بغیر کسی ردعمل کے پیچھے ہٹ سکتے تھے اور نہ ہی مسلح جدوجہد کے بغیر آگے بڑھ سکتے تھے جس کے لئے آپ تیار نہیں تھے،کیوں کہ آپؐ زیارت کرنے کے ارادے سے آئے تھے۔ تصادم کی نازکی کا احساس سب کو تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپﷺ کے پاس تشریف لائے اور ایک درخت کے نیچے آپؐ سے آپ کے لئے اور دین اسلام کے لئے آخر دم تک لڑنے کے عزم کے ساتھ بیعت کی۔ اس وقت مبارک پیغمبرؐ اور نئی اسلامی جماعت کے مابین وفاداری اور بیعت کا ایک ایسا نیا تعلق پیدا ہوا جو اسلامی معاشرے کی بعد کی مذہبی تاریخ کے لئے بہت اہم ثابت ہوا۔ اس وقت جب آپؐ دور رس نتائج کے حامل اس بحران میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے، مکہ والوں نے جواب دیا کہ وہ مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دیں گے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ اگلے سال تک اس کو ملتوی کر دیں۔اس اہم سفارتی فیصلے میں بہترین مدبرانہ سیاسی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی پاکؐ نے اس پیش کش کو قبول کرلیا اور یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے جانا گیا۔ مسلمانوں کو مقدس حرم تک رسائی کی اجازت مل گئی اور فوری مسلح تصادم سے گریز کیا گیا جس سے اس وقت مسلمانوں کو غیر متوقع نتائج بھگتنے پڑسکتے تھے۔اس نقطہ سےاسلامی معاشرے کے لئے تقدیر کا رخ مڑ گیا اور نو قائم شدہ معاشرہ مدینہ کے خطے سے باہر تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا۔ سال ۷ ھ میں مسلمانوں نے ایک یہودی کالونی سے خیبر کے نخلستان کو آزاد کیا اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیا۔لیکن شکست خوردہ یہودیوں کو بے دخل نہیں کیا گیا بلکہ ان سے ”اہل کتاب” ہونے کے ناطے ایک مذہبی اقلیت کی طرح سلوک کیا گیا جو ٹیکس ادا کرنے پر رضامند ہو گئے۔ اس رواج کا جسے شریعت نے جزیہ کے طور پر پیش کیا ہے، بعد میںپوری اسلامی تاریخ میںاس کی پیروی کی جاتی رہی۔ ”اہل کتاب” کی تشریح ان حالات کے مطابق جس کا سامنا مسلمانوں کو ہوا، نہ صرف یہودیوں، عیسائیوں اور صابیوں کے لئے بلکہ زرتشتیوں اور بعد میں ہندوؤں، بودھوں اور دیگر لوگوں کے لئے بھی قبول کی جاتی رہی۔ قرآن مجید میں موجود وحی کی آفاقیت کا اصول اور غیر مسلم مذہبی جماعتوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں آسمانی وحی ، جس کی عملی مثال خیبر میں رسول مبارکؐ کے ذریعہ یہودیوں کے ساتھ سلوک میں ملتی ہے، یہ اگلی صدیوں میںاسلام کے پوری دنیا میں پھیلنے اور چین سے لے کر افریقہ تک کی متعدد مذہبی جماعتوں کا سامنا کرنے میں ہدایت کے سر چشمہ کے طور پر کام آئی۔
خیبر کی لڑائی کے دوران، علیؓ نے جو تمام مشکل لمحات اور اہم لڑائیوں میں آنحضور کے ساتھ رہے تھے، غیر معمولی جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ در حقیقت آپؓ تبوک کے علاوہ ہر جنگ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ شریک تھے۔ لیکن خیبر میں آپؓ کی طاقت، ہمت اور جنگ میں پختگی اس طرح کی تھی کہ وہ ہر جگہ مسلمانوں میں محاورہ بن گئی۔ علیؓ نے کسی جنگ میں کبھی دشمن سے پیٹھ نہیں موڑی ، لیکن یہ خاص خیبر ہی پر تھا کہ آپؓ کی مثالی ہمت نے جوار کو موڑ دیا اور مسلمانوں کو فتح کا حصول ممکن ہوا۔آپؓ کے لقب ”شیرِ خدا” (اسداللہ) کی مکمل حقیقت پہلے سے کہیں زیادہ واضح طور پر اس جنگ میں ظاہر ہوئی۔
اسی سال کے دوران، جب اسلام عرب میں مزید پھیلنا شروع ہوا تو نبی پاکؐ نے اپنی توجہ اس سے آگے کی سرزمین کی طرف موڑ دی اور آپؐ نے ملحقہ ممالک کے حکمرانوں کودین کی طرف دعوت دینے کا فیصلہ کیا۔ آپؐ نے فارسی ، بازنطینی شہنشاہوں ، حبشیہ اور کوپٹس کے بادشاہوں کو قبول اسلام کےسلسلے میںخطوط ارسال کیے۔ ایک سادہ اور پر وقار انداز میں آپؐ نے خود کو ”رسول اللہ” کے طور پر متعارف کرایا اور ان حکمرانوں کو خدا کے ذریعہ نازل کردہ دین ، الاسلام کو قبول کرنے کی دعوت دی۔
۸ ہجری میں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے معاہدے میںطے کردہ عمرہ ادا کیا۔اپنے ہی شہر سے کئی سال دور رہنے کے بعد، آپؐ کے لئے یہ خوشی اور اطمینان کا باعث تھا کہ آپ وہاں واپس گئے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ آپؐ پہلی بار اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک انجام دے رہے تھے۔ یہ زیارت پر سکون اور خاموش انداز میں مکمل ہوئی۔ اس کا سب سے اہم سیاسی نتیجہ مکہ مکرمہ کی متعدد اہم شخصیات کا اسلام قبول کرنا تھا جن میں مشہور فوجی رہنما اور جنگجو، خالد بن ولید، اور عمرو بن العاص شامل تھے۔ دریں اثنا، بہت سی دوسری اہم شخصیات جیسے ابوسفیان نے تقدیر کی دیوار پر لکھی تحریر دیکھ کر اپنا مرتبہ کھوئے بغیراسلام کی راہ میں شامل ہونے کے لئے خفیہ طور پر منصوبہ بندی شروع کردی۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights