مہنگائی: رجحانات اور بھارت کی معیشت پر اثرات

ڈاکٹر ایس ایم ولی اللہ خان

افراطِ زر یا تو مجموعی طلب میں اضافے یا مجموعی رسدکی فراہمی میں ناکامی یا دونوں کا نتیجہ ہے۔ لہذا، توازن لانے کے لیے، ماہر اقتصادیات کو طلب اور رسد(demand-supply) کے دونوں پہلوؤں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

کووڈ -19 کے بعد  دنیا کی جدید معاشی طاقتوں کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمت کا ہے۔ جسے انفلیشن (Inflation)کہتے ہیں۔ جسے اردو میں ‘مہنگائی ‘ یا ‘افراطِ زر’ سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ دنیا بھر کے مرکزی بینک اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ وہیں بھارت کا مرکزی بینک، ریزرو بینک آف انڈیا بھی 2016ء سے اپنی انفلیشن پر مرکوز پالیسی(Inflation Targeted Mechanism) کے ذریعے اس مسئلہ کے حل کی کوشش کر رہا ہے۔اس پالیسی کے تحت امید ہے کہ RBI اوسط درجے کا افراط زر4 فیصد اور +/-2 کی حدودو میں لے آئے گا۔ فروری 2023ء میں جاری کردہ مانیٹری پالیسی کے بیان کے مطابق، دسمبر 2022ء کے مہینے کے لیے کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) کی افراطِ زر 5.7 فیصد تھی۔

اپریل 2012ء سے دسمبر 2022ء کی مدت کے لئے ریزرو بینک آف انڈیا  CPI کے اعداد و شمار شائع کیا ہے۔ جس کے مطابق، فروری 2013ء کے مہینے میں انفلیشن ریٹ 10.6 فیصد نوٹ کیا گیا جو کہ سب سے زیادہ تھا۔ اور جون 2017ء میں سب سے کم یعنی 1.5 فیصد نوٹ کیا گیا۔مہنگائی کی اوسط شرح 2012ء سے 2022ء کی مدت میں 2.15 فیصد کے معیاری انحراف کے ساتھ 5.7 فیصد تھی۔یہ اعداد و شمار 2012ء سے 2022ء کے دوران افراطِ زر کے رجحان میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ کی نشاندہی کرتےہیں۔اگر مہنگائی پر توجہ مرکوز کرنے کی پالیسی کے بعد کی مدت یعنی اپریل 2016ء سے دسمبر 2022ء پر غور کیا جائے تو اپریل 2022ء کے مہینے میں افراطِ زر کی بلند ترین شرح 7.8 فیصد اور جون 2017ء میں سب سے کم 1.5 فیصد نوٹ کی گئی تھی۔2016ء سے 2022ء کی مدت کے دوران اوسط مہنگائی کی شرح( 1.6 فیصد کے معیاری انحراف کے ساتھ) 4.9 فیصد تھی۔اس کا مطلب ہے کہ 2016ء سے 2022ء کے دوران، انفلیشن نسبتاً معتدل تھا اور کم اتار چڑھاؤ کا شکار تھا۔ تاہم، اس مدت کے دوران، تقریباً 24 مہینوں تک (جو کل مدت کا %30 ہے)، افراط زر درمیانی مدت کے ہدف کی حد میں نہیں تھا۔ (+/- 2 فیصد کے بینڈ کے اندر 4 فیصد)۔ اس کا مطلب ہے کہ آر بی آئی کو افراطِ زر کو استحکام پر لانے کے لئے بہت محنت کرنی ہے۔ مزید معلومات کے لیے براہ کرم نیچے دیے گئے جدول- 1 سے رجوع کریں۔

کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) کو عام طور پر Headline Inflation یا General Inflation کہا جاتا ہے۔تاہم، افراطِ زر کو بنیادی افراطِ زر، خوراک اور مشروبات کی افراطِ زر، غیر خوراک اشیاء اور مشروبات کی افراطِ زر، صارفین کی خوراک کی قیمتوں میں افراطِ زر، وغیرہ کے لحاظ سے بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں، کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) اور کنزیومر فوڈ پرائس انڈیکس (CFPI) کے درمیان ایک مختصر موازنہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

سی پی آئی ، تمام عام اشیاء اور خدمات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے برعکس  سی ایف پی آئی صرف کھانے کی مصنوعات کی قیمتوں میں تبدیلی کا ایک پیمانہ ہے۔فروری 2014ء سے دسمبر 2022ء کی مدت میں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، CPI کے معاملے میں مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح 8.48 فیصد نوٹ کی گئی جب کہ CFPI کے معاملے میں یہ 16.12 فیصد تھی۔ CPIکی سب سے کم شرح 1.5 فیصد نوٹ کی گئی تھی. جبکہ یہ CFPI کے معاملے میں شرح 10.50 فیصد تھی۔ اوسط کے لحاظ سے اس مدت میں CPI کا معیاری انحراف 1.60 فیصد ہے۔ جبکہ CFPI کے لیے یہ 3.97 فیصد ہے۔اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ CPI کے مقابلے میں CFPI زیادہ غیر مستحکم تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں تمام عام اشیاء اور خدمات کے مقابلے میں زیادہ غیر مستحکم تھیں۔ مزید تفصیلات کے لیے براہ کرم نیچے دیے گئے گراف-1 کو دیکھیں۔

دراصل افراط زر متعدد عوامل کےعلت ومعلول(cause-and-effect) کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ باریکی سے دیکھا جائے تو افراط زر ، اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ اور پیسے کی قوت خرید میں کمی،   دونوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔

 رسد(Supply) کے اعتبار سے ، بڑھتی آبادی، بڑھتی ہوئی آمدنی ، حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ، deficit financing  اورپیسے کی فراہمی میں اضافہ ، وہ اہم عوامل ہیں جن پر توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ طلب(Demand) کے اعتبار سے، ناکافی پیداوار، speculative holding of stocks اور زیادہ قیمت والی اشیاء کی درآمد، نمایاں عوامل ہیں۔ ان عوامل کے باہمی انحصار اور رابطے کی وجہ سے ہندوستان جیسی معیشتوں میں افراطِ زر پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔اس حالت میں اور بھی مشکل تب پیش آتی ہے جب ملکی معیشت اور عالمی معیشتوں میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ عالمی پالیسیز، جیسے کچے تیل کی قیمتوں میں اضافہ، supply chain کا متاثر ہوناملکی معیشت پر براہ راست یا بالواسطہ اثر انداز ہوتا ہے۔

ماضی میں آر بی آئی اور حکومت ہند نے چند اعلی سطحی کمیٹیز جیسے چکرورتی کمیٹی، نرسمھم کمیٹیز، ارجیت پٹیل کمیٹی، بنائی تھیں تاکہ وہ انفلیشن کے مسئلے کے لئے  حکمت علمی  بنائیں۔ مذکورہ ‘انفلیشن پر مرکوز پالیسی’ دراصل ارجیت پٹیل کمیٹی کا نتیجہ ہے۔

Table-1 

 

 

Graph-1

افراط زر، اگر حد میں نہ ہو تو مختلف پہلوؤں سے معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔ مثال کے طور پر، یہ افراد اور تنظیموں دونوں کے ہاتھ میں قابل استعمال آمدنی کی مقدار کو کم کر دے گا۔ یہ مزید کم کھپت اورکم پیداواری سرگرمی کا باعث بنے گا۔ مزید برآں، یہ معیشت میں بچت کے رویے اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کرے گا۔ اس کے علاوہ، کم پیداواری سرگرمی، برآمدات میں کمی اور زیادہ درآمد کا باعث بنے گی، جس سے ادائیگی کا توازن متاثر ہوگا۔ مہنگائی دو دھاری تلوار کے طور پر کام کرتی ہے، جہاں یہ موجودہ کھپت کی سطح کو متاثر کر رہی ہوتی ہے، وہیں یہ  معیشت میں پیداوار کی سطح کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس لیے اگر اس مسئلے کو ٹھیک طریقے سے نمٹایا نہیں گیا تو پوری معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، افراطِ زر یا تو مجموعی طلب میں اضافے یا مجموعی رسدکی فراہمی میں ناکامی یا دونوں کا نتیجہ ہے۔ لہذا، توازن لانے کے لیے، ماہر اقتصادیات کو طلب اور رسد(demand-supply) کے دونوں پہلوؤں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان عوامل میں ، پیسے کی ضرورت سے زیادہ فراہمی ، پیسے کے تبادلے کی رفتار میں اضافہ، حکومت ہند کی deficit financing اور ناکافی پیداوار(کرونا کی وجہ سے) نیز عالمی حالات کی وجہ سے اشیاء اور خدمات کی رسد میں کمی وغیرہ توجہ طلب امور ہیں۔

انفلیشن (افراطِ زر یا مہنگائی) ایک  پیچیدہ امر  ہے، جس کے لئے صرف ایک حل کافی نہیں ہوسکتا ۔بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ریزرو بینک آف انڈیا اور حکومت ہند کا کردار قابل ستائش ہے۔ تاہم، انھیں کم اتار چڑھاؤ کے ساتھ افراطِ زر کو مستحکم کرنے پر مزید کام کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معیشت میں مستحکم قیمتیں، سرمایہ کاروں، پروڈیوسرز اور صارفین کے اعتماد میں اضافہ کریں گی جس سے مزید اقتصادی سرگرمیاں اور زیادہ اقتصادی ترقی ہوگی۔

حوالہ جات:

Agarwal, A. N. and Agarwal, M. K. (2023). Indian Economy: Developments, Problems and Policies (44 ed.). New Delhi: New Age International (P) Ltd. ISBN 978-93-93159-73-1.

Mahajan, M. M. (2020). Indian Economy (1 ed.). Noida: Pearson India Education (P) Ltd. ISBN 978-93-593-4063-8.

Monetary Policy Statement (February 2023). Reserve Bank of India. Mumbai. Available on: https://rbi.org.in/Scripts/BS_PressReleaseDisplay.aspx?prid=55178

Puri, V. K. and Misra, S. K. (2021). Indian Economy (39 ed.). Mumbai: Himalaya Publishing House (P) Ltd. ISBN 978-93-5495-118-3.

Website: https://rbi.org.in/

 

از: ڈاکٹر ایس ایم وسیع اللہ

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں