بھارت کی معاشی پالیسیوں میں تبدیلیوں کاتجزیہ(قسط-3)

پچھتر سالہ معاشی صورتحال کاایک جائزہ (1947ء – 2023ء)

0

قسط-3


موجودہ حکومت کا اقتصادی وژن

2014ء میں پہلی بار نریندر دامودر داس مودی کی قیادت میں بی جے پی کو واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا۔ لہذا یہ بھارت کی سیاسی تاریخ میں ایک نہایت اہم موڑ ہے۔

باوجودیہ کہ مودی حکومت دستور سے وفاداری کادم بھرتی ہے ا ور اس کواپنے لئے سب سے مقدم رہنما کتاب مانتی ہے، اس حکومت کے اقدامات سے دستور سے واضح انحراف دیکھا جاسکتاہے۔ نتیجتا یہ حکومت اندرون اور بیرون ملک تنقید کانشانہ بن رہی ہے۔مگر 2019ء کے بعد اور واضح اکثریت سے برسر اقتدار آنے کے بعد اس نے ان تمام تنقیدوں کونظر انداز کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے کے تحت ملک کوچلارہی ہے۔ جس کی زد میں ملک کی معیشت بھی آتی ہے۔ ہم یہاں صرف اس حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اس کے انجام وعواقب سے بحث کریں گے۔

اس مضمون کی دوسری قسط۔۔۔

2014 ءکے الیکشن مہم کے دوران ایک کتاب مودتو کے نام سے شائع کی گئی تھی جس میں مودی کے وژن کو14نکات میں بانٹ کر پیش کیاگیا تھا۔ ان میں سے جن نکات کے معاشی اثرات ہیں ہم ان کاذکر کریں گے۔

  • حکومت کم حکمرانی زیادہ۔ حکومت کابزنس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
  • وفاقی امداد باہمی کو فروغ۔
  • قوت کی عدم مرکزیت اورتعاون پر زور۔
  • گاؤں میں شہری سہولیات کافروغ۔
  • آبپاشی کے اسمارٹ طریقے سے زرعی پیداوار میں اضافہ۔
  • زراعت، صنعت اورخدمات کے ذریعہ عالمی بازار پرقبضہ
  • عوام کے ذریعہ زیادہ پیداوار
  • پبلک اور پرائیوٹ پارٹنر شپ کو فروغ۔ ان جی او اورلوکل کمیونیٹیز کے ذریعہ ترقیاتی کاموں کی سوشل اڈیٹنگ

یہ وہ وژن تھا جس کو لے کر یہ حکومت برسر اقتدار آئی تھی۔ ان کی خوش قسمتی رہی کہ ملک میں مانسون اچھارہا جس سے زرعی پیداوار میں رکارڈ اضافہ ہوا اور کچے تیل کی قیمت میں بھاری کمی آئی۔ جس کی وجہ سے بیرونی زرمبادلہ کی کافی بچت ہوئی۔

نوٹ بندی اور اس کے اثرات

ای ایم ایف کے مطابق 2015ء میں اور 2016ء میں جی ڈی پی گروتھ 7.5% تھا۔ ایکونومی بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی کہ 8 نومبر 2016ء کو8 بجے شب میں وزیر اعظم ہند ٹیلی ویژن پر اعلان کرتے ہیں کہ500 اور 1000 روپے کے نوٹ رات کے بارہ بجے کے بعدلیگل ٹنڈر نہیں رہیں گے۔ یہ نوٹ کل کرنسی کا80 -90% تھے۔ اس ایک قدم نے ملک کی چلتی معیشت کی گاڑی کویکایک روک دیا۔ دعویٰ کیاگیا تھاکہ اس سے کالادھن باہر آئے گا، جعلی نوٹ پر روک لگے گی اور دہشت گردی کی روک تھام ہوگی۔ کالادھن کامسئلہ ملکی معیشت کاایک بڑ امسئلہ رہا ہے۔ جس پر زوردار سیاست ہوتی رہی ہے لیکن تمام ماہرین معیشت کی رائے ہے کہ کالا دھن نقد شکل میں بہت کم ہے۔وہ گولڈ، رئیل اسٹیٹ، بانڈ اور فورن کرنسی کی شکل میں ہے۔ لہذا اس طرح کے اقدام سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مگرحکومت نے تمام ماہرین کی رائے بلکہ ریزرو بنک کی رائے کو جو کرنسی کی نکاسی کی ذمہ دار ہے، نظر انداز کرتے ہوئے یہ غیر معمولی قدم اٹھایا۔ اس کے بعد جوواقعات ہوئے وہ ایک المیہ سے کم نہیں ہیں۔کالادھن تو واپس نہیں آیا اور نہ دیگر مقاصد پورے ہوئے، ہاں ملک ایک نئے معاشی بحران میں مبتلا ہوگیا۔ جس کو من موہن سنگھ نےMonumental Mismanagement قرار دیا جس کے نتیجہ میں ملک کی جی ڈی پی میں 2%فی صدکی کمی آئی یعنی دولاکھ کروڑ کانقصان ہو اجو ملک کاانفورمل اور غیر منظم سکٹر ہے جس میں زراعت شامل ہے اور جو کل ملکی معیشت کا پچاس فیصد ہے اور جس کاسارا کاروبار نقد پر ہوتاہے۔اس پربجلی گر گئی اور لاکھوں لوگ غریب، بےروزگااور قلاش ہوگئے۔ درراصل جس جلدبازی میں اور بغیر کسی پیش بندی کے یہ قدم اٹھایا گیاتھا اس نے جو تباہی مچائی وہ اگر ماہرین کی رائے کے مطابق قدم اٹھایا جاتا تو شاید اتنی تباہی نہیں آتی۔

میک ان انڈیا پروجیکٹ

 2014ء میں مودی حکومت نے بڑے زور شور سے Making Indiaکا نعرہ دیاتھا اور اس کے لئے 11 کروڑ صرف کرکے تمام طرح کے کل پرزوں سے مزین ایک شیر کا لوگو ایک امریکی اشتہار کمپنی سے بنوایا ۔ مقصد تھاکہ بھارت کے صنعتی پیداوار کو بڑھاوا دیاجائے گا۔ 2014ء میں صنعتی پیداوار کا جی ڈی پی میں حصہ 16% تھا جس کو اس مہم کے ذریعہ بڑھاکر 2025ء تک 25% کرنا تھا۔ لیکن 2019ء میں جاری ورلڈبنک کے ڈاٹا کے مطابق یہ 16% سے گھٹ کر 13.6% ہوگیا۔2020ء میں اس میں مزید کمی آئی جبکہ اس درمیان بنگلہ دیش اور ویتنام کے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو اجو بالترتیب 16سے19%اور13 سے16% ہوگئی۔

 اسی طرح مارچ2014ء میں مودی جی کے حکومت سنبھالنے سے پہلے 312 بلین ڈالر کا بھارت نے ایکسپورٹ کیا تھا۔ جو اس کے بعد کے سال میں لگاتار گھٹتا گیا۔ ایک سال بعد یہ 310 بلین ڈالر تھا جو 2015 -2016میں پھر ایک بار اس میں کمی آئی اور 290 بلین ڈالرہوگیا۔ اس طرح اور بھی جو معاشی اشاریات ہیں ان میں کمی دیکھنے کو ملی۔

جی۔ ایس۔ ٹی کانفاذ

جی ایس ٹی جس کو گڈس اور سروسیز ٹیکس کہتے ہیں۔ اسے گڈ اور سمپل ٹیکس کے طور پر پیش کیا گیا۔ جس کا نفاذ بہت دھوم دھام سے ایک جولائی 2017ء کو آدھی رات کویہ کہتے ہوئے کیاکہ یہ ہماری دوسری آزادی ہے اور تاریخی قدم ہے اور Co – operative federalism کی مثال ہے اس سے چھوٹے تاجروں کوفائدہ ہوگا۔

 دراصل دنیامیں جب سے لبرلائزیشن کے دروازے کھولے گئے ہیں بھارت پرعالمی اداروں کا دباؤ تھا کہ ٹیکس ریجیم کو سہل بنایا جائے اورٹیکس کی شرح گھٹائی جائے۔ دنیا کے کئی چھوٹے ممالک نے اس کواپنایا بھی تھا۔ یوپی اے کے زمانے سے ہی اس پر بحث چل رہی تھی لیکن اس کی عملی دشواریوں کودیکھتے ہوئے حکومت نے اس کانفاذ نہیں کیا۔ خود نریندر مودی جس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے اس قدم کی سخت مخالفت کی۔ مگر جب وہ دہلی میں اقتدار میں آئے توانہوں نے ان ساری دشواریوں کو ہوا میں اڑاکر اس کے نفاذ کا فیصلہ کیا۔ بہت ساری ریاستیں آخر آخر تک اس کے نفاذ پر راضی نہیں تھیں مگر ان پر دباؤ ڈال کر راضی کرلیا گیا اور انہیں بتایا گیاکہ ان کے ٹیکس آمدنی میں جو کمی ہوگی وہ مرکز پوری کرے گی۔

میری رائے میں یہ باہمی تعاون پرمبنی وفاق نہیں بلکہ جبری وفاق کی بدترین مثال ہے۔ جوبھارت کے فیڈرل اسٹرکچر ا ور ریاستوں کے اٹونومی کو گروی رکھنے والا قدم ہے۔ اس سے مرکز کے ہاتھ میں ایسی قوت آجاتی ہے جس سے کسی ریاست کوآسانی سے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کیاجاسکتا ہے۔ دراصل ہمار ٹیکس اسٹیکچر دوشعبوں میں بٹاہو اہے۔پہلے قسم کے ٹیکس کوہم ڈائریکٹ ٹیکس کہتے ہیں جس میں انکم پرٹیکس۔ کورپوریٹ اور سنٹرل ایکسائزٹیکس اور ڈی وڈنڈ ٹیکس آتے ہیں۔ جس کے نفاذ کاحق مرکزی حکومت کوہے۔ عموما گڈس اور سروسز پر جوٹیکس لگائے جاتے تھے جس کو پہلے سیلس ٹیکس اور بعد میں ویلو ایڈڈ ٹیکس کہا گیا اس کے علاوہ لینڈ رینیو، سروس ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس اسٹیت اکسائز۔آبکاری ٹیکس یہ سب ریاستی ٹیکس ہوتے تھے۔ اب جی اس ٹی کے نفاذ کے بعد ریاستوں کے جوٹیکس کے اہم اور بڑے ذرائع تھے ان سے ان کو لے لیاگیا اور پورے ہندوستان میں ایک شرح ٹیکس لگانے کااعلان کیا گیا۔ جس کی شرح مرکزی سرکار طے کرے گی۔ اس کے لئے جی ایس ٹی کونسل بنائی گئی ہے جس میں ریاستوں کے وزیر مالیات ممبر ہوں گے اور مرکزی وزیر مالیات اس کے صدر ہوں گے مگر اس میں آخری رائے مرکزی حکومت کی ہوگی۔ چونکہ سارے پیسے مرکزی خزانے میں جمع ہوں گے۔ اب یہ بات مرکزی حکومت طے کرے گی کہ کس ریاست کو کب اور کتناپیسہ دیناہے۔ ظاہر سی بات ہے ایسے فیصلے سیاسی مفادات سے خالی نہیں ہوتے ہیں۔

 اب جبکہ حکومت نے منصوبہ بندی کمیشن کوتوڑ دیا ہے ا ور اس کی جگہ پرنیشنل انی شیئٹوفار ٹرانسفور منگ انڈیا جس کو عرف عام میں NITI آیوگ کہا جاتاہے کی تشکیل کی ہے۔ پہلے منصوبہ بندی کمیشن ملک کے معاشی حالات کامطالعہ کرکے ترقیاتی منصوبہ وضع کرتی تھی اور اس کے لئے پلان ایلوکیشن کرتی تھی۔اب اس سے یہ اختیار چھین گیا اب نیتی آیوگ مرکزی حکومت کے ایک معاشی صلاح کار کے طور پر کام کرتی ہے اور وہ حکومت کو معاشی امور میں مشورہ دیتی ہے یا حکومت کسی معاملہ میں اس کواپنی رائے یارپورٹ پیش کرنے کاحکم دیتی ہے۔

 بہرحال جی اس ٹی کے نفاذ نے چھوٹے کاروباریوں، عام صارفین اورریاستی حکومتوں کوپریشانی میں ڈال دیا جس کی وجہ سے ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوگیا۔ اس کااثر اندرونی تجارت، لوگوں کی آمدنی، روزگار کے مواقع سب پر پڑا۔ خاص طور سے مرکز اور ریاستوں کے تعلقات بالخصوص ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی سرکار نہیں ہے، خراب ہونے لگے۔

 ابھی تک ریاستوں کو پلاننگ کمیشن سے ترقیاتی منصوبہ کے مد میں، سنٹرل پول سے فائنس کمیشن کی سفارشوں کے مطابق فنڈ ایلوکیشن ہوتا تھا اور سنٹرل بجٹ کے ذریعہ ان کورقم دی جاتی تھی۔ ریاستیں اس سے قبل ٹیکس لگاکر بینک اور بازار سے لون لے کر اپناکام کرتی تھیں۔ اب انہیں سب کاموں کے لئے مرکز پرمنحصر رہناپڑتاہے۔

 کووڈ کے اثرات

ان اقدامات کے نتیجے میں 2018ء کے بعد سے لگاتار بھارت کی معاشی ترقی کی رفتار روبہ زوال رہی۔ سرکارکے اپنے ڈاٹا کے مطابق 2018ء اور 2020-2021 کے درمیان ہرچارمہینہ میں 8%سے 7% پھر6%پھر5%پھر4% اور پھر تین فی صدہوگئی۔ ملک چالیس سال کی محنت کے بعد جس مقام پرپہنچا تھاوہ اس سے قبل کی صورتحال میں پہنچ گیا۔

 رہی سہی کسر کووڈ نے نکال دی۔ حکومت نے جس جلد بازی میں اور جس سختی کے ساتھ 24 مارچ2020ء کو 8 بجے رات میں مکمل لاک ڈاؤن کااعلان کیا، اس نے بہت سارے لوگوں کی جان لے لی بلکہ ملک کو غریبی کے دلدل میں دھکیل دیا۔عظیم پریم جی یونیورسٹی کے رپورٹ کے مطابق ملک کے 23 کرروڑ لوگ غریب ہوگئے۔ اور بے روزگار وں کی تعدادمیں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ یہ وہ صورتحال ہے جوان پالیسیوں کے اپنانے کی وجہ سے رونما ہوئے جس کا معیشت پر دیرپاثر ہوگا۔ آخیر میں موجودہ صوتحال پرایک طائرانہ نظر ڈالتے چلنامناسب ہوگا۔

 موجودہ احوال معیشت

 نیتی آیوگ کے مطابق2021 میں مختلف الجہات غربت دیہی علاقوں میں 32.7% تھی جبکہ شہری علاقوں میں غربت 8.8%تھی یعنی شہری اور دیہاتی علاقوں میں ملٹی ڈائمنشنل غربت41.5% تھی۔

اکتوبر 2020 میں بھارت 107 ملکوں کی فہرست میں ورلڈ ہنگر انڈکس میں 94 ویں مقام پرتھا جو بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی نیچے ہے۔ 2014 میں بھارت کی فی کس جی ڈی پی 1573 ڈالر تھی جو بنگلہ دیش سے50% آگے تھی یعنی اس وقت بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 1118 ڈالر فی کس تھی 2021 کے اخیر میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی فی کس 2227 ڈالر ہوگئی جبکہ بھارت میں اس سے کم اضافہ ہوا اوروہ1947 ڈالر رہی۔ گویا اس مدت میں خاموشی سے بنگلہ دیش نے اپنی جی ڈی پی کودوگنا کردیا اور بھارت اس ریس میں پیچھے رہ گیا۔

بے روزگاری

بھارت میں بیروزگاری جس تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ بہت تشویشناک ہے۔اپریل 2020 میں 23-50% تک بڑھ گئی تھی۔ستمبر2022 میں 6.40% کی رکارڈ گراوٹ آئی اور اوسطاً اس دوران8.22% رہی۔ اس وقت ملک میں گگ ایکونومی پائی جاتی ہے یعنی لوگوں کومستقل روزگار کے بجائے عارضی اورپارٹ ٹائم روزگار ملتاہے اور انہیں بہت کم مزدوری پرکام کرناپڑتاہے۔

افراط زر

 افراط زر جس کو عام زبان میں مہنگائی کہاجاتاہے اس میں بے تحاشہ اضافہ ہورہاہے۔آمدنی میں اس اعتبار سے اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے لوانکم گروپ اور فکسڈ انکم گروپ کی حالت بہت نازک ہے۔جنوری 2023ء میں خودرہ مہنگائی کی در6.50% بتائی گئی ہے جبکہ تھوک مہنگائی میں تھوڑی کمی دیکھنے کومل رہی ہے اور وہ 4.73 پر ہے۔

 امیر اور غریب کی کھائی

2022 ءمیں شائع ورلڈ ان ایکولیٹی رپورٹ کے مطابق بھارت دنیاکاآمدنی اور دولت کے اعتبار سے سب سے غیر مساوی ملک ہے جہاں بے حد غریب آبادی کے درمیان ارب پتیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بھارت کے 10% ارب پتی ملک کی کل قومی آمدنی کے57% حصہ پرقابض ہیں ان میں 1% لوگ22% دولت رکھتے ہیں جبکہ 2021 تک50% لوگوں کی حصہ داری محض13%تھی۔

ارب پتیوں کی بڑھتی تعداد

بھارت میں ارب پتیوں کی تعدا سال بہ سال بڑھتی جارہی ہے۔ جنوری 2023ء تک ان کی تعداد 166 ہوگئی جو امریکہ اور چین کے بعد دنیا میں سب سے بڑی تعدا د ہے۔لیکن جس تیزی سے کروڑ پتیوں اورارب پتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے بڑی آمدنی رکھنے و الے دولت مند لوگوں کی ملک چھوڑ نے کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔

دولت مند لوگوں کے ملک چھوڑنے کی رفتار

2021ء تک ان کروڑ پتیوں کی ملک چھوڑنے کی تعداد1.63 لاکھ تھی جو بڑھ کر 3.9 لاکھ ہوگئی ہے اور 2023 میں مزید 8000لوگوں کے ملک چھوڑنے کی توقع ہے۔

بینکوں کا گھاٹا

ملک میں 91 بڑے لوگ ہیں جنہوں نے بینکوں سے اربوں کاقرضہ لیاہے ا ور وہ اس کو چکانہیں رہے ہیں۔ 400 کمپنیاں ایسی ہیں جنہوں نے جان بوجھ کرقرض نہیں چکایاہے۔ بھارت سرکار نے پچھلے پانچ سال میں ایسے ول فل بنک ڈیفالٹرس کا10.09 لاکھ کروڑ روپیہ معاف کردیا ہے۔ ریزرو بنک آف انڈیا نے اس سال جنوری میں وارننگ دی ہے کہ ملک میں قرض کابحران پیدا ہوسکتاہے۔ 2020ء میں اس کا تناسب 7.5%تھا جو 2021 میں بڑھ کر13.5% ہوگیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ بہت سے بینک دیوالیہ ہونے کے کگار پر ہیں۔

 زرعی سکٹر کا بحران

بھارت کازرعی سکٹر بحران کے دور سے گزر رہاہے مگر اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ کووڈ کے دوران جبکہ سارے سکٹر میں منفی ترقی دیکھنے کو مل رہی تھی صرف زراعت نے 3% مثبت گروتھ درج کی تھی۔ فروری 2023ء میں ورلڈ بنک کی جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں 3.0109% زراعت میں ویلوایڈیڈ ہواتھا جس میں زراعت کے ساتھ جنگلات اورماہی گیری کاشعبہ شامل ہے۔

صنعتی پیداوار میں کمی

صنعتی پیداوار میں نومبر 2022ء میں 7.3% اضافہ کی امید رکھی گئی تھی اور بازار کی امید 4.5% تھی جب کہ حقیقی اضافہ 4.3% ہو ا۔

سروس سکٹر امید کی کرن

بھارت میں سروس سکٹر جس تیزی سے بڑھ رہاہے اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ یہ گروتھ انجن ثابت ہوگا۔2021 -2022 میں موجودہ قیمت پر اس نے بھارتی معیشت میں 53% ویلوایڈ کیاہے جو ایک خوش آئند بات ہے یہ ہے وہ صورتحال جس میں اس وقت ہم جی رہے ہیں۔

کرونی کٹلزم اور گگ ایکونومی

بھارت میں دوطرح کی ایکونومی کادور دورہ ہے۔ ایک کوCrony capitalismکہتے ہیں اور دوسرے کو Gig economy کہتے ہیں۔کرونی کیپٹلزم کامطلب ہے کہ حکومت مٹھی بھر اپنے ہم نوا دوستوں اورصنعت کاروں کے لئے کام کرتی ہے اور نجی کرن کے نام پرتمام پرانے صنعتوں جو چاہے نفع دے رہے ہوں یا نقصان کچھ خاص لوگوں کے ہاتھ اونے پونے بیچ دے اورانہیں تمام نئے پروجیکٹ بڑی صنعتیں اور انفراسٹیچر کے ٹھیکے دے دے۔دوسری طرف لوگوں کی مستقل (پرمننٹ) نوکری چھن کر اور لیبر لاز میں ترمیم کرکے ان کو ایڈھوک اور بغیر کسی سوشل سیکورٹی کے کام کرنے پرمجبور کررہی ہے۔ اس کی وجہ سے عام مزدوروں کی حالت بہت خراب ہے۔ 2019ء کے اعداد وشمار کے مطابق23.4% لوگوں نے خود کشی کی تھی جوپچھلے چھ سال میں دوگنا ہے۔نیشنل کرائم برانچ بیوروکے رپورٹ کے مطابق کل 1,39,123 لوگوں میں 23,563 روز مزدوری کرنے والے لوگوں نے خود کشی کی تھی اور زرعی مزدوروں میں 4,324 نے خود کشی کی تھی۔ ظاہر سی بات ہے اتنی خود کشی مالی پریشانیوں سے تنگ آکر کی گئی ہوگی۔ جس میں مہاجن کادباؤ اہم فیکٹر ہے۔

بھارت سرکار کی ترجیحات

بھارت کی موجودہ سرکار کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ کورپوریٹ کی اور کورپوریٹ کے لئے چنی گئی عوامی جمہوریہ ہے۔ جس میں ایک طبقہ کے لئے کام ہوتاہے اورباقی کے حصوں میں صرف دکھاوا ہے۔

 لیکن ایک معاملہ میں بھارت سرکار بہت ایماندار ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے عام طور پر غریبوں کو تو نظر انداز کیاہی ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے منریگا کےبجٹ کو کم کردیاہے اورتعلیم وصحت کے بجٹ کو بھی کم کردیا۔ سرکار کومعلوم ہے کہ الیکشن آنے والاہے اور لوگ بہت ڈسٹرس میں ہیں۔ اس لئے 80 کروڑ آبادی کو فی کس پانچ کلو راشن اگلے سال تک دینے کااعلان کیاہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں عام لوگوں کی کیاحالت ہے۔ بھارت سرکار ملک کے جس ایک طبقہ کوپوری طرح نظر انداز کرکے آگے بڑھ رہی ہے وہ مسلمان ہیں۔ ایک طرف مسلسل انہیں خوف ودہشت میں رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور دوسری طرف جوان کوکچھ مونگ پھلیاں دے کر بہلایاجاتا رہاتھااب اس کو بھی کم اور ختم کیاجارہاہے۔ مولاناآزاد کے نام پرجوطلبہ کو تعلیمی وظیفہ دیاجارہاتھا، وہ بند کردیا گیااور اقلیتی فلاح کی وزارت کااب صرف بورڈ لگاہو اہے جوبہت جلد اتاراجانے والا ہے۔

 بجٹ اور اس سے امیدیں

اس حالت زار کے باوجود اگر مثبت رخ تلاش کرنے کی کوشش کیا جائے تو چند باتیں ذہن میں ابھرتی ہیں۔ بھارت سرکار کے اعلان کے مطابق ملک کووڈ کے اثرات سے پوری طرح باہر آچکاہے اور آئندہ مالی سال 2023ء-2024ء میں 6% سے6.8% تک جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہوگا۔ سرکاری پروجیکٹس کے مطابق بھارت اس وقت دنیاکی سب سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے جوبہت جلد چین جاپان اور دیگرممالک کوپیچھے چھوڑدے گا۔ بھارت اس وقت دنیاکی پانچویں بڑی معیشت ہے۔

 یکم فروری 2023ء کو جو بجٹ پیش کیا گیاہے اس میں کل خرچ کاتخمینہ 45,03097 کروڑ ہے اور کیپیٹل اکیسپنڈیچر 1000961 کروڑ ہوگا۔ جس سے امید کی جاتی ہے کہ معاشی افزونی میں اضافہ ہوگا اور انفراسٹیکچر میں ترقی ہوگی اورمعیشت کی رفتار ترقی کو ایک نئی پنکھ لگ جائے گی۔ ان کے حصے میوہ حلوہ۔ ہمارے حصے دور کاحلوہ۔بہرحال مجموعی طور پربھارت کے عام لوگوں کے مسائل حل ہوتے ہیں اورغربت جہالت، بیماری، بےروزگاری اور استحصال پرروک لگتی ہے تو اس کااستقبال کیا جانا چاہئے۔

– پروفیسر سید ابوذر کمال الدین

اس کی مضمون کی دوسری قسط۔۔۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights