محمد ﷺ مرد ربانی

0

قسط: 04

مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید

معراج

مکہ مکرمہ میں رسول بابرکتؐ کے قیام کے آخری سالوں میں ایک انتہائی اہم واقعہ پیش آیا جس نے اسلام کی پوری دینی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور جس کو سمجھنا ان لوگوں کے لئے نہایت مشکل ہے جن کی دنیا حقیقت کی طبعی جہت تک محدود ہوچکی ہے ۔یہ واقعہ جنت کی جانب رات کے وقت آپؐ کاسفر اور بالآخر خود خدا کی بارگاہ میں حاضری تھی۔ ماہ رجب کی شاید ستائیس تاریخ کو، نبی مبارکؐ کو ایک معجزہ کے ذریعہ مکہ مکرمہ سے یروشلم لے جایا گیا اور وہاں سے معراج یا وجود کے تمام درجات سے بلند ہوتے ہوئے کائنات کے بیرونی علاقہ ، جسے سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتا ہے ،بلکہ اس سے بھی آگے خدا کے بالکل قریب تک جسے ” دو کمانوں کا فاصلہ ”قرار دیا گیا ہے، تک لے جایا گیا۔ آپؐ کو معجزاتی گھوڑے براق پر سوار کیا گیا جس کی کمان جبرئیل ؑکے ہاتھ میں تھی۔ قرآن پاک اس رات کے سفر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے، ”پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کومسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے،تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ۔ـــ ” (17:01)
رسول بابرکتؐ کا یہ طاقتور، مرکزی روحانی تجربہ ،روحانی عروج اور روحانی زندگی کا نمونہ ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے کے آخری حصے میں ”قرآن کے نزول” کی شب لیلۃ القدر، لیلۃ المعراج کی ہم منصب ہے۔ نبی کریمؐ کا تجربہ معراج اسلامی ادب کے بے شمار شاہکاروں کا منبع ہے جن میں ابن عربی اور سنایی کی تصنیفات شامل ہیں جو یورپی ادب ،خاص طور پر دانتے کی Divine Comedy -جو خود معراج کے خیال پر مبنی ہے، پر اثر انداز ہوئیں ۔ واقعہ معراج مسلم صوفیوں اور اولیاء کے لئے ایک روحانی منبع رہا ہے اور اس نے اسلامی کائنات کی تصویر کشی کی ہے۔ نیز روزانہ کی نماز یا صلاۃ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے دوران گزرے ہوئے داخلی تجربات ہیں جو اس کی کی نقل و حرکت سے ظاہر ہوتے ہیں ۔یہ اسلام کا مرکزی اور بنیادی عمل ہے۔
قرآن کریم مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی ہدایت کرتا ہے لیکن نماز کی اصل شکل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ یا سنت پر مبنی ہے اور اس کا تعلق آپؐ کی معراج سے ہے۔ اسی لئے آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا، ”روزانہ کی نمازیں مومن کی معراج ہیں۔ ” روایتی اسلامی ذرائع کے مطابق تمام مسلمان روحانی طور پر معراج کا تجربہ کرسکتے ہیں جبکہ رسول بابرکتؐکے معاملے میں اور صرف ان کے معاملہ میں معراج نہ صرف روحانی تھی بلکہ جسمانی بھی تھی۔ اس عظیم دعوے اور اس کی سچائی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ معراج کے روایتی بیانوں اور اس روایتی کائنات کے معنی سمجھنے کی طرف رجوع کیا جائے جس میں معراج کا واقعہ پیش آیا ۔اس کوشش کے نتیجے میں کچھ اعتراضات کا جواب دینا ضروری ہے جو جدید سائنس کی طبعی سطح پر کچھ کامیابیوں سے اندھے ہو گئے کچھ جدید نقادوں نے کئے ہیں اور جو ایک قسم کی مطلق العنانیت کا نتیجہ ہوتے ہیں جس میںاکثر لاشعوری طور پر کسی خاص سطح کی سائنسی حقیقت کو مکمل حقیقت کی سائنس میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح اس حقیقت کو اس حد تک محو کردیا جاتا ہے کہ یہ غیر انسانی (subhuman) بن جاتی ہے۔
برصغیر پاک و ہند اور فارس کے مسلمانوں میں طویل عرصہ سے مشہور حیات القلوب میں موجود معراج کے روایتی بیانوں میں سے ایک کا مختصر خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ مکہ مکرمہ سے یروشلم کے سفر کے بارے میں بتانے کے بعد نبی مبارکؐ نے فرمایا: “جبر یل مجھے پہلے آسمان پر لے گئے۔ وہاں میں نے اس مسکن کے فرشتہ ، اسماعیلؑ اور الکاس کے داروغا کو دیکھا جس سے مار کر شیاطین کو آسمان سے بھگایا جاتا ہے۔ یہاں اسماعیلؑ کے حکم کے تحت ستر ہزار فرشتے ہیں، اور ہر فرشتہ ستر ہزار فرشتوں پر حاکم ہے۔ اسماعیل نے جبریل سے پوچھا، ‘یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟’ میرے رہنما نے جواب دیا محمد۔کیا وہ تشریف لائے ہیں ؟’ ‘ہاں،’ رہنما نے جواب دیا۔ پھر اسماعیلؑ نے جنت کا دروازہ کھولا اور ہم نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور رحمت الہی کی دعا مانگی۔ انہوں نے کہا کہ میرے لائق بھائی اور پیغمبر پر سلام ہو اور ان کا استقبال کیا جائے۔ فرشتے میرے قریب آئے اور مجھے دیکھنے والے سب خوشی سے جھوم اٹھے۔ آخر میں میں نے ایک ایسے فرشتہ سے ملاقات کی جس کے جیسی قوی ھیکل شئے میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ اس کے چہرے پر بدصورتی نظر آرہی تھی اور وہ غصے میں تھا۔ اس نے بھی دوسروں کی طرح مجھ پر سلام کہا لیکن ان کی طرح مسکرایا نہیں ۔ میں نے جبریلؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہے کیوں کہ مجھے اس سے خوف ہوا ہے۔ میرے رہنما نے جواب دیا، ‘ اس سے ڈرنے کا سبب ہے۔ ہم بھی اس سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ جہنم کا نگران ہے اور جب سے اللہ رب العزت نے اسے اس خوفناک دنیا کانگراںبنا یا ہے وہ کبھی بھی مسکرایا نہیں ۔ خدا کے دشمنوں اور خدا کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے گنہگاروں کے خلاف اس کا غضب ہمیشہ بڑھتا ہی جارہا ہے، اور اسی کے ذریعہ خدا ان سے انتقام لیتا ہے۔” (جے ایل میرک، دی لائف اینڈ ریلیجن آف محمد، بوسٹن، 1850 کے ترجمہ پر مبنی)
اس طرح نبی مبارکؐ وجود کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچتے رہے، اور مختلف جہانوں سے گزرتے ہوئے، مختلف آسمانوں جن میں ہر ایک پر کسی نبی اور فرشتوں کی جماعت کا غلبہ تھا، ساتویں آسمان تک اور اس سے آگے بیت المعمور (فرشتوں کے عبادت کا مقام) تک پہنچ گئے جہاں آپؐ نے دو رکعت نماز ادا کی۔پھر آپؐ نے جنت کا وہ درخت دیکھا جسے شجرۃ طوا کہتے ہیں، اس کے بعد آپؐ سدرۃالمنتہی یعنی ”انتہائی حد کے قریب” پہنچے اوربالآخر خدا کے حضور حاضر ہوئے۔
رسول بابرکتؐ کے سفر کے آخری مرحلے کو السیوطی نے اپنی ”اللالیء المنصوعۃ” میںاس طرح بیان کیا ہے:
اب جب مجھے اپنے اس سفر پرعرش کے مقام پر لایا گیا اور میں اس کے قریب پہنچا تو، ایک سبز رفرف (ریشمی کم خواب کا ٹکڑا) میرے پاس اتارا گیا، اس کی خوبصورتی بیان سے باہر ہے، جبریل نے آگے بڑھ کر مجھے اس پر بٹھایا۔ پھر اس خوف سے کہ ان کی نظر عرش کے نور سے خراب نہ ہوجائے انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی،، اور زور زور سے روتے ہوئے، تسبیح، تحمید اور تثنیہ کرنے لگے۔ خدا کی اجازت سے، مجھ پر اس کی رحمت اور اس کے احسان کے کمال کی حیثیت سے، اس رفرف نے مجھے عرش کے رب کے خدمت میں داخل کردیا، اس کا بیان زبان اور اس کا تصور تخیل سے بعید ہے۔میری نگاہ اس سے اس قدر حیرت زدہ تھیں کہ مجھے اندھا ہونے کا خدشہ ہو گیا۔ اس لئے خدا کے احسان سے میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ جب میں نے اس طرح اپنی نظروں پر پردہ کیا تو خدا نے میری نگاہ میرے دل میں منتقل کردی، لہذا میں اپنے دل سے اس کی طرف دیکھنے لگا جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ ایک ایسا نور تھا جس کی چمک اور عظمت کے بارے میں، کہ جو کچھ میں نے دیکھا اسے بیان کرنے میں بے بس ہوں۔ پھر میں نے اپنے رب سے التجا کی کہ وہ میرے دل سے اس کا مستحکم نظارہ کرنے کا اعزاز دے کر مجھ پر اپنا احسان پورا کرے۔ یہ میرے پروردگار نے مجھے عطا فرمایا، لہذا میں نے اپنے دل سے اس کی طرف نگاہ ڈالی یہاں تک کہ یہ مستحکم ہو ا اور میں نے اس کا بھرپور دیدار کیا۔جب اس نے اپنا پردہ اٹھایا تو میں نے اسے، عرش پر اپنے وقار، اپنی قوت، اپنی شان، اپنی عظمت کے ساتھ تشریف فرما دیکھا۔ لیکن مجھے اجازت نہیں کہ میں اس سے زیادہ بیان کروں۔ اللہ اکبر! کیسی شان ہے اس کی! اس کے کام کتنے با برکت ہیں! اس کا مقام کتنا بلند ہے! اس کا نور کتنا روشن ہے! پھر اس نے میرے لئے اپنے جلال کو کچھ حد تک کم کردیا اور مجھے اپنے قریب کرلیا، جو اس نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہےکہ تم کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ میرے ساتھ کیسا سلوک کرے گا اور کیسی میری تکریم کرے گا: ”جو بڑا صاحب حکمت ہے۔وہ سامنے آ کھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا، ”پھر وہ قریب آیا اور اوپر معلق ہو گیا،یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا” (53:6-9)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ میری طرف متوجہ ہوا تو اس نے مجھے کمان کے دونوں سروں کے درمیانی فاصلہ ، بلکہ کمان کی لٹک اور اس کے مڑے ہوئے سروں کے مابین فاصلہ سے بھی زیادہ قریب کر لیا۔” تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی” (53:10) یعنی، جن معاملات کا اس نے مجھے حکم دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ”نظر نے جو کچھ دیکھا، دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا” (53:11)، یعنی میرے قلب سے اس کا دیدار۔” اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ”(53:18)
جب اس نے،اللہ اکبر،میرے لئے اپنے جلال کو کم کردیا تو اس نے اپنے ایک ہاتھ کو میرے کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک کو تھوڑی دیر کے لئے اپنے دل پر محسوس کیا، کیا ہی بہترین مٹھاس ، کیسی زبردست خوشبو، کیسی پر سکون ٹھنڈک، اور[ اس کے دیدار کا] اس قدر اعزاز کہ میری ساری دہشت ختم ہوگئی اور میرا خوف مجھ سے دور ہوگیا، لہذا میرا دل پر سکون ہوگیا۔ میں خوشی سے بھر گیا، میری آنکھیں تازہ ہوگئیں، اور اس طرح کی خوشی اور مسرت نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا کہ میں دائیں اور بائیں ڈولنے -جھکنے لگا ، جیسے نیند کی زد میں ہوں۔ بے شک، مجھے ایسا لگا جیسے آسمان و زمین میں سب کچھ ختم ہوچکا ہے، کیوں کہ نہ میں نے فرشتوں کی آواز سنی، نہ اپنے رب کی بارگاہ میں مجھے کوئی تاریک شئے نظر آئی۔ میرے پروردگار نے مجھے جب چاہا وہاں چھوڑ دیا، پھر مجھے ہوش میں لایا، اور یہ ایسا ہی تھا جیسے میں سو کر جاگ گیا ہوں۔ میرے حواس مجھ میں لوٹ آئے اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ میں کہاں تھا اور کس طرح کے غیر معمولی احسان سے لطف اندوز ہورہا تھا اور کیسی واضح ترجیح سے نوازا گیا،میں پرسکون ہوگیا۔پھر میرے پروردگار نے،جس کے لئے تمام تسبیح و تعریف ہے، مجھ سے مخاطب ہو کر کہا: اے محمد، کیا تم جانتے ہو کہ اعلیٰ ترین مجلس کس بات پر بحث کررہی ہے؟ میں نے جواب دیا: ‘اے خداوند، میں یہ جانتا ہوںکہ سب چیزوں علم تیرے ہی پاس ہے اور تو ہی غیب کو جاننے والا ہے’ ۔ اس نے کہا، ‘وہ درجات اور حسنات کے بارے میں بحث کر رہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں، اے محمد، درجات اور حسنات کیا ہیں؟ ‘ میں نے جواب دیا، ‘اے رب، تو ہی سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔’ پھر اس نے فرمایا، ‘درجات کا تعلق اس وقت وضو کرنے سے ہے جس پر کوئی اختلاف نہیں ہے، دینی مجلس میں پیدل چل کر جانااور ایک نماز کا وقت ختم ہونے پر اگلی نماز کا منتظر رہنا۔ اور بھوکے کو کھانا کھلانا، امن قائم کرنا، اور رات کے اس پہر جب دوسرے لوگ سو رہے ہوں تہجد کی نماز پڑھنا حسنات میں شامل ہے۔ ‘ میں نے کبھی اس جیسی میٹھی اور اس جیسی خوشگوار آواز نہیں سنی ہے۔اس کی آواز میں ایسی مٹھاس تھی کہ اس نے مجھے اعتماد دلایا، اور میں نے اس سے اپنی ضرورت کی بات کی۔ میں نے کہا: ‘اے رب، تو نے ابراہیم کو دوست سمجھا۔ تو موسیٰ سے ہم کلام ہوا۔ تُو نے ادریس کو اونچا مقام عطا کیا۔ تُو نے سلیمان کو ایسی بادشاہت عطا کی کہ جس کے بعد اس جیسی بادشاہت کسی اور کو نہ ملے گی اور تو نے داؤد کو زبور عطا کی۔ اَے خداوند! میرے لئے کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، ‘ محمد، میں آپ کو اسی طرح دوست سمجھتا ہوں جس طرح میں نے ابراہیم کو دوست بنایا تھا۔ میں آپ سے ویسے ہی بات کر رہا ہوں جس طرح میں نے موسیٰ سے آمنے سامنے بات کی تھی۔ میں آپ کو فاتحہ (سورہ اول) اور البقرہ کی آخری آیات ( 284-2:286) دے رہا ہوں، یہ دونوں میرے عرش کے خزانوں میں سے ہیں اور جو میں نے آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا ہے۔ میں آپ کو زمین کے سفید فام اور سیاہ فام اور سرخ لوگوں کے لئے نبی کی حیثیت سے ،اور تمام جنوں اور انسانوں کے لئے بھیج رہا ہوں، حالانکہ میں نے آپ سے پہلے کسی نبی کو ان سب کے لئے نہیں بھیجا۔ میں تمام زمین کو، اس کی سوکھے اور اس کے سمندر کو آپ کے اور آپ کی امت کے لئے پاکیزگی حاصل کرنے اور عبادت کی جگہ مقرر کر رہا ہوں۔ میں آپ کی امت کو مال غنیمت کا حق دے رہا ہوں جو میں نے ان سے پہلے کسی امت کو بطور رزق نہ دیا۔ میں آپ کو ایسا جلال عطا کروں گا جس سے آپ کے دشمن آپ کے سامنے سے بھاگ جائیں گے جبکہ آپ ابھی ان سے ایک مہینہ کے فاصلے پر ہوگے۔ میں آپ کو تمام کتب کی سرتاج اور ان کی نگہبان کتاب بھیجوں گا، ایک ایسا قرآن جس کو ”اس قرآن کو ہم نے نازل کیا ہے” (17:106/107)۔ اور میں نے ”تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا” 94:4))، یہاں تک کہ اس کو اپنے نام سے جوڑ دیا، تاکہ میرے ساتھ آپ کا ذکر کیے بغیر میرے دین کے کسی بھی ضابطہ کا تذکرہ نہ کیا جاسکے گا۔
پھر، اس کے بعد اس نے مجھ سے ان امور کو بتایا جو مجھے تم سے بتانے کی اجازت نہیں ہے، اور جب اس نے مجھ سے اپنا عہد باندھ لیا تو اس وقت جب اس نے چاہا مجھے چھوڑ دیا ، پھر اپنے عرش پر دوبارہ تخت نشین ہوا۔ پاک ہے اس کی عظمت، اس کی شان، اس کی قوت۔ پھر میں نے دیکھا کہ ہمارے درمیان سے کچھ گزر گیا اور اس کے سامنے روشنی کا پردہ کھڑا ہو گیا، جس کی تجلی اتنی دور تک جا رہی تھی جس کا علم خدا ہی کو ہے اور شدت ایسی تھی کہ اگر اسے بے قابو چھوڑ دیا جائے تو تمام مخلوق کو جلا کر راکھ کر دے ۔ پھر وہ سبز رفرف جس پر میں تھا میرے ساتھ اتر آیا اور آہستہ آہستہ اٹھتا ڈولتا میرے ساتھ اللین سے گزرا ، یہاں تک کہ مجھے جبرئیل کے پاس واپس لایا، جہاں سے میں ان کے ساتھ ہو گیا۔ پھر وہ رفرف اوپر اٹھتا ہوا میری نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ ( اسلام ، محمد اور ان کا مذہب)
نبی بابرکتؐ کی معراج، اسلام کا جتنا ہی مرکزی موضوع ہے، جدید سائنس کے نظریہ حیات سے متاثر بہت سے نوجوان مسلمانوں کے لئے اسلام کی تعلیمات کااتنا ہی مشکل عنصر بن گیا ہے۔ درحقیقت، کچھ جدید مسلمان جو اسلام کو عقلیت پسندی کی حد تک محدود کرنا چاہتے ہیں اور اس کی خوبصورتی اور عظمت سے اس کو خالی کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے اس مرکزی واقعے کو عقلی بنیادوں پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت میں رات کے اس مبارک سفر کے بارے میں غیر منطقی یا ”غیر سائنسی” کچھ بھی نہیں ہے بشرط یہ کہ لوگ صرف ان حدود کو یاد رکھیں جن سے طبیعیاتی سائنس کا آغاز ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عام طور پر ان حدود کو فراموش کردیا جاتا ہے اور ان شرائط و حدود کو جنہیں طبیعیاتی حقیقت کے مطالعے کے لئے جدید طبیعیاتی سائنس خود اپنے اوپر عائد کرتی ہے، انہیں غلطی سے اصل حقیقت کی حدود ہی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہی نظریہ تخفیفیت ہے جو معراج یا مسیح کے زندہ اٹھائے جانے یا دیگر متعدد مذہبی واقعات کو جو قرآن پاک اور دیگر مقدس صحیفوں میں مذکور ہیں، انہیں ”غیر حقیقی” اور ” پرفریب” بنا کر پیش کرتا ہے ۔
جدید سائنس صرف طبیعیاتی حقیقت کا مطالعہ کرنے کا دعوی کرتی ہے نہ کہ روحانی حقیقت کی دوسری سطحوں کا۔ سرکردہ سائنس دان، در حقیقت ، اس حد کو قبول کرنے والے اولین لوگ ہوتے ہیں اور عام طور پر شہرت پسند اور نیم فلسفیوں کے ذریعہ جدید سائنسی نقطہ نظر کی عمومیت کاری کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ بہر حال، آج سائنس کی مقبولیت ایسی ہے کہ لوگ جدید سائنسی نقطہ نظر کے بعید کسی بات کو قبول نہیں کرتے اور ہر چیز کو غیر حقیقی سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقت جدید سائنس کا ایک عظیم المیہ ہے جو بعض مثبت پہلوؤں کے باوجود ایک تباہ کن قوت بنتی جا رہی ہے۔
جہاں تک معراج کا تعلق ہے، اس سے مراد صرف فلکیاتی خلا کا سفر نہیں بلکہ وجود کے بلند مقامات تک کا سفر ہے۔ چونکہ روحانیت نفسیات کا اصول ہے اور نفسیات طبیعیات کا اصول ہے، لہذا حقیقت کے نچلے درجے کے لئے یہ ہمیشہ ممکن ہے کہ اعلی درجہ میں مربوط اور جذب ہو جائے۔ نبی پاکؐ کے جسمانی ، نیز نفسیاتی اور روحانی عروج کا مطلب یہ تھا کہ آپؐ کے وجود کے تمام عناصر اس آخری تجربے میں مربوط ہوگئے جو توحید کا مکمل ادراک تھا ۔ آپؐ کی جسمانی معراج خدا کے تخلیق کردہ انسانی جسم کے شرف اور وقار کی بھی علامت ہے۔ اگر کوئی شخص روایتی کائنات کی متعدد سطحوں اور تمام جدید سائنس کی محدودیت کو حقیقت کی ایک ہی سطح یعنی طبیعیاتی سطح کے طور پر تھوڑا بہت بھی سمجھتا ہو، قطع نظر اس کے اسے کتنی ہی گہرائی و گیرائی تک برآمد کر لیا گیا جائے ، اس کے لئے واقعہ معراج میں کوئی بھی بات غیر سائنسی یا غیر منطقی نہیں رہ جاتی ۔اس سے بری بات کچھ ہو ہی نہیں سکتی کہ مذہب کے بزرگوں سے وابستہ عظیم واقعات کو ، صرف انہیں مقبول بنانے کے لئے،”عام زندگی” کے بے ضرر واقعات میں محدود کر دیا جائے۔ یہ ایسے وقت میں اور زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جب نام نہاد ”عام زندگی” اپنی پستی کی انتہا پر ہے اور ان تمام تر عظمتوں و خوبصورتی سے خالی ہو چکی ہے جو انسانی وجود کی اصل خصوصیات ہوتی ہیں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights