فروغ تجارت اور اقامت دین

0

س: سب سے پہلے تو ادارہ رفیق منزل کی جانب سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور آپ سے گذارش کروں گا کہ قارئین رفیق کے لئے اپنا مختصر سا تعارف پیش کریں۔
ج: میرا نام مرزا افضل بیگ ہے اور میں نے ڈپلوما میکانکل اوربی ای کیا اور تین سال کا ایک مختصر وقت رہا جب میں نے جاب کی۔اس سے پہلے بزنس کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا ، سوچا تک نہ تھا۔کچھ ایسا ہوا کہ کچھ مخصوص حالات کمپنی کے ساتھ درپیش ہوئےاور وہ کمپنی شفٹ ہوگئی۔اور حالات ایسے بن گئے کہ میں نے اور میرے کولیگس نے مل کر ۱۹۹۴ء میں بزنس شروع کیا۔اور اب تک گویا ۲۲ سال سے لگے ہوئے ہیں۔تحریک کا معاملہ یہ کے کہ گذشتہ دو میقات میںناظم علاقہ ممبئی رہا اور اس میقات میں حلقہ ء مہاراشٹر نے جس نئے شعبہ کا اضافہ کیا ہے ’شعبۂ صنعت و تجارت‘ اس کا ناظم ہوں۔

س: حلقہ مہاراشٹر کی جماعت نے شعبۂ صنعت و تجارت کا آغاز کیا ہے ، تو اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
ج: ابتداء میں مجھے بھی بڑا عجیب لگا۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ دنیا سے ہم جتنا تعلق کم سے کم رکھیںبہتر ہے، اپنی ضروریات پوری ہوجائیں بس یہی کافی ہے۔ یہی بات جماعت میں بھی اور طلبائی دور بھی سنتے آئے تھے۔لیکن یہ شعبہ بنایا گیا اور امیر حلقہ سے ،دیگر اہل علم حضرات سے گفتگو کی، اس تناظر میں مطالعہ کیا تو سمجھ میں آیا کہ ہماری جو غرض ہے معاشی جدوجہد سے متعلق وہ یہ ہے کہ ہم ’اپنے لئے کما رہے ہیں‘۔اگرچہ یہ بات بھی غلط نہیں ہے لیکن اگر ایک مشن کے طور پر آپ اقامت دین کی بات کرتے ہیں اور قوت کے مراکز تک پہنچنا چاہتے ہیںتو معاشی میدان کو نظرانداز کرکے ہم بالکل یہ کام نہیں کرسکتے۔اسی طرح اگر آپ سیرتؐ کا مطالعہ کریں تو ہمارے سامنے ابوزر غفاریؓ اور اصحاب صفہ کے اسوہ موجود ہیں لیکن ساتھ ہی عثمان غنیؓ اور عبدالرحمن ابن عوفؓ کے اسوہ بھی موجود ہیں۔ تصور کیجیے غزوۂ تبوک میں جب رسول اللہؐ نے کھانے کے لئے اور سواریوں کے لئے بندوبست کے انتظامات کا ذکر کیا تو بہت ساری چیزوں کی فراہمی عبدالرحمن ابن عوفؓنے کی تھی۔ مدینہ میں قحط پڑا تھا تو اونٹوں سے لدا ہوا قافلہ عثمانؓ نے خرید کر تقسیم کردیا تھا۔ اور ایسے بے شمار واقعات ہیں۔ عرب میں یہ جو آنٹرپرینورشپ تھی ، تو یہ صرف ان کے لئے نہیں تھی۔ آج اگر غور کریں تو تمام امور میں معیشت کا درجہ بنیادی نوعیت کا ہے۔سیاست اور اخلاقیات پر بھی معیشت کے بڑے اثرات ہیں۔ گویا معاش صرف اپنی ذات ہی کی ضروریات کی تکمیل نہیں بلکہ اقامت دین کی حصولیابی کا ایک ذریعہ ہے۔

س:مسلم نوجوانوں میں بزنس اور آنٹرپرینورشپ کی طرف بڑھنے کے رجحان کی کیا کیفیت ہے؟
ج: بزنس کا میدان تجربہ کا متقاضی ہے۔ نوسیکھیوں کے لئے بزنس بہت زیادہ جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر خاندانی کاروبار ہو تو بچہ بچپن سے دیکھتے دیکھتے کئی چیزیں سیکھ جاتا ہے۔البتہ جو لوگ بزنس بیک گراؤنڈ سے تعلق نہیں رکھتے ان کے لئے بزنس کرنا کئی مرتبہ بہت دشوارثابت ہوتا ہے۔میرے پورے خاندان میں کسی نے بزنس نہیں کیا۔ میرے دادا ریلوے میں تھے ، والد صاحب ایر لائنس میں؛ اور میرا بھی کوئی بزنس کا ارادہ نہیں تھا۔اس لئے ابتداء کے چھ سات سال بہت مشکل میں گذرے۔ ایسا لگتا تھا کہ شاید بزنس نہیں کر پاؤں گا۔ لیکن چونکہ پھنس چکا تھا اس لئے برداشت کیا اور آگے بڑھتا گیا۔ گویا یہ کہ نوجوانوں کے لئے یہ کام مشکل تو ہے۔
۲۰ سے ۳۰ سال کی عمر میں جبکہ سیکھنے کی عمر ہوتی ہے اس وقت بالعموم نوجوانان جاب کرتے ہیں، تو چاہیے کہ اپنی دلچسپی کی فیلڈ کا انتخاب کریں، صرف پیسوں کے پیچھے نہ بھاگیں۔یہ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان کارپوریٹس اور بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر آپ بزنس کرنا چاہتے ہیں تو ان بڑی بڑی کمپنیوں میں بھول کر بھی نہ جائیں۔ جب آپ کسی بڑے گروپ کے تحت کام کرتے ہیں تو وہاں وہ Process کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگرچہ پیکیج تو اچھا مل جاتا ہے لیکن آپ ایک آلہ کی طرح کام کرتے ہیں اور آپ کا ڈیولپمنٹ رک جاتا ہے۔اگر آپ اس کارپوریشن سے نکل کر کچھ خود سے کرنا چاہیں تو آپ کے پاس اتنی استعداد نہیں تیار ہوپاتی تو اگر کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو کسی چھوٹی کمپنی میںجاب کریں جہاں آپ کو کچھ سیکھنے ملے۔ اور وہاں ایک اچھا نگراں Mentor تلاش کریں۔ چھوٹی کمپنی میں سارے Process پر نظر رکھنا ، خود جدوجہد کرنا، غلطیاں کرنا فطری طور پر انسان کو کئی چیزیں سکھا دیتا ہے۔

س: ملت اسلامیہ کی بزنس سے متعلق کیا صورتحال ہے؟
ج: ملت اسلامیہ Skills میں بہت آگے ہے۔لیکن اس ہنر کا استعمال وہ لوگ کرتے ہیں جن کے ہاں سرمایہ ہے۔بھیونڈی، مالیگاؤں،باندرہ وغیرہ کے جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والے ہنر مند لوگ اکثر و بیشتر مسلمان ہوتے ہیں۔ لیکن ایک شئے کے بنانے اور اس کو خریدنے والے کے درمیان میں جو واسطے ہوتے ہیں ان میں ملت اسلامیہ کی موجودگی نہیں ہے ۔ دوسرا مسئلہ سوچ کا بھی ہے جس کی وجہ سے ہم ارادۃً اپنے بزنس کو فروغ نہیں دینا چاہتے۔جس میں مروجہ تصور قناعت ہے، کہ اللہ نے دے دیا ہے، بس اپنی ضروریات کی تکمیل ہو جائے تو کافی ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ Organised کام نہیں ہے ، اکثر معاملات نقدی میں طیٔ ہوتے ہیں Current Accounts تک لوگوں کے پاس نہیں ہوتے اس وجہ سے ایک سطح تک پہنچ کر مزید ترقی نہیں کرپاتے۔ چوتھا مسئلہ یہ بھی ہے کہ باہمی اعتماد میں کمزوری ہے۔ اگر کوئی شخص اچھا بزنس کرتا ہے تو بہت سارے لوگوں کو حریف سمجھتا ہے اور اس کی ترقی کو اپنے لئے نقصاندہ سمجھتا ہے۔ اسلام کا مزاج تو صحت مند مسابقت کو فروغ دینے کا ہے۔ اگر یہ مسابقت باقی رہے گی تو انسان ہمیشہ Always on my Toesکے مصداق کچھ نہ کچھ نیا اور جدید کرنے کی کوشش کرے گا، کسی ایک مقام پر رک نہیں جائے گا۔ بزنس کی حس، طویل المعیاد منصوبہ بندی وغیرہ کی بھی کمی پائی جارہی ہے۔

س: یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت اور دیگر ادارے بھی اکثر بالفعل مسلمانوں کے کاروبار کو زک پہنچانے کے درپئے ہوتے ہیں۔ اس تأثر کی کیا حقیقت ہے؟
ج: اگر حکومت کی نوکریوںکا معاملہ ہے تو ممکن ہے تعصب برتا جاسکتا ہے۔لیکن میرے تجربے کی روشنی میں کہوں گا گذشتہ ۲۲ سالوں میں میرے بیشتر کلائنٹس غیر مسلم ہیںلیکن اس کی بنیاد پر کبھی مشکل درپیش رہی ہو ایسا نہیں ہو۔ ہر شخص معیاری اشیاء کی فراہمی چاہتا ہے اور یہ چیز کس عقیدہ اور مزاج کے حامل فرد سے ملتی ہے اسکے بارے میں غو ر نہیں کیا جاتا۔دنیا کافی پروفیشنل ہوچکی ہے ، اگر آپ معیاری اشیاء فراہم کرتے ہوں تو ایسا نہیں ہوگا کہ آپ کو مسلمان ہونے کی وجہ سے نقصان برداشت کرنا پڑے۔

س: موجودہ حکومت نے جو پروگرام شروع کیے ہیںMake In India اور دیگرSkills Developments وغیرہ تو اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
ج:حکومت کی کئی بڑی فائدہ مند اسکیمیں موجود ہیں۔ اور جماعت کی حد تک ہمارا پہلا ایجنڈایہی ہے کہ بزنس سَمِٹ کے ذریعے سے اس کے متعلق بیداری لائی جائے۔NSIC, MSME وغیرہ کا مقصد وجود یہی ہے کہ نئے بزنس ڈیولپ ہوں ، وہ آپ کے ہنر، مارکیٹنگ،وغیرہ میں رہنمائی کریں گے۔ اگر کسی غیر ملکی بزنس نمائش میں آپ کو شرکت کرنا ہے تو وہ تفصیلات فراہم کریں گے۔لیکن حکومت کی ان اسکیمس سے بالخصوص امت مسلمہ بہت کم فائدہ اٹھا رہی ہے۔اورنگ آباد، پونہ، احمد نگر، ممبئی، ناگپور، ناندیڑ ،اکولہ، ہر مہینہ ہماری بزنس سَمِٹ میں ہم لوگوں کو بالخصوص ان اسکیمات سے متعلق رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان بزنس سَمِٹ میں حکومتی اداروں کے ذمہ داران خود شریک ہوتے ہیں اور رہنمائی کرتے ہیںکہ کن چیزوں کی پیداوار آسان ہے، ان کو برآمد کیسے کیا جائے، امدادی ادارے کونسے ہیں۔ وغیرہ
دوسری بات یہ ہے کہ حکومت خواہ مخواہ آپکی دشمنی نہیں کرتی۔ ایک آنٹرپرنیور کسی بھی ملک کے لئے ایک بہت اہم Asset ہوتا ہے۔وہ مقامی وسائل میں قدر کا اضافہ کرتا ہے۔اپنے آئیڈیاز اور محنت کے ذریعے مجموعی طور پر اس ملک کے لوگوں کے لئے معیاری زندگی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔اس لئے بالعموم حکومت ایک اچھے تاجر کے ساتھ ہی مل کر کام کرتی ہے۔

س: بزنس کا کام بہت زیادہ سرمایہ کی فراہمی چاہتا ہے۔نئے لوگوں کے لئے یہ چیز بڑی مشکل تصور کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کیا رہنمائی کرسکتے ہیں؟
ج: بزنس کے لئے دو چیزیں بڑی اہم ہیں ۔ ایک تو ہنر، دوسرا سرمایہ۔ میں اس بات کو قبول کرونگا کہ سرمایہ کی فراہمی ایک مشکل امر ہے۔ وہیںیہ بات اب ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملّت میں کروڑوں روپئے بے کار پڑے ہوئے ہیں۔ اور وہ سوال کرتے ہیں کہ ان کو کہاں لگایا جائے۔ مشرق وسطیٰ کے بہت سے بڑے بزنس ہاؤسیس یہاں سرمایہ بھیجتے ہیں لیکن ان کا استعمال بہت کم پیداواری استعداد رکھنے والے کاموں اور تجارتی اداروں میں ہوتا ہے۔وہیں بہت سارے بڑے Ambitious پروجیکٹس ہیں جو سرمایے کی عدم فراہمی کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ گویا یہاںسرمایہ اور مستحق اداروں کے درمیان ایک خلاء ہے اور اسکو پُر کرنے سے یقینا ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔یہاں دو اہم مسائل توجہ طلب ہیں؛ پہلا تو معاملہ اعتبار کا ہے ، دوسرا ہے مناسب ہنر مندی کا۔پہلے مسئلہ کو جماعت کے وسیع و عریض نیٹورک کے ذریعے سے دور کیا جاسکتا ہے۔دوسرے مسئلہ کے حل کے لئے کئی بزنس مشیروں Consultantsسے جماعت ربط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔تاکہ وہ ہنر مندی کے معاملے میں سرمایہ کاروں کو بروقت اور صحیح مشورے دے سکیں۔جس میں وہ ہنر مندی، نفع و نقصان کے امکانات، Commercial Viability پر غور کرکے اپنے مشورے دیتے ہیں۔ کبھی کبھار ہنر نہ ہو تو بھی ان skillsکو پیدا کیسے کیا جائے اس کی بھی رہنمائی ہونا ضروری ہے۔ ان تین محاذ پر ہم کام کررہے ہیں اور کچھ عرصے میں جب کامیابی کی کچھ مثالیں مل جائیں گی تو اس کام کو مزید مہمیز ملے گا۔

س: یہ بات کافی پر زور انداز میں کہی جاتی ہے کہ آج کا پورا نظام غیر اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔ اگر آپ بزنس کرنا بھی چاہیںتو اس میں لامحالہ شمولیت کرنا پڑے گا۔اور اسلامی اصولوںکے تحت بزنس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کا کیا حل ہو سکتا ہے؟
ج:جی ہاں۔ یہ دشواری تو درپیش ہے۔ جیسے میں بزنس کرتا ہوں اور اس کے لئے مجھے کم از کم تین مہینے کے متعین اخراجات Fixed Cost جمع رکھنے ہوتے ہیں تاکہ اگر کچھ بھی بزنس نہ ہو تب بھی تنخواہیں وغیرہ کے اخراجات کے لئے قرض نہ لینا پڑے۔ جبکہ دوسرے تاجر فوراً بینک سے سودی قرض لے سکتے ہیں۔تو گویا دوسروں کو یہ Reserves رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔جب تک ہم کو کوئی متبادل نہیں مل جاتا تب تک بہر حال یہ مشکل باقی رہے گی۔ لیکن یہ کہنا کہ، اس سے بچا نہیںجاسکتا،درست نہیں ہے۔ مجھ پر اپنے سارے بزنس کے تجربے میں کبھی سودی قرض لینے کی نوبت نہیں آئی، الحمدللہ۔

س: اب تک جماعت کے تجربات کیسے رہے ہیں؟ راحت فریش ، عثمان آباد وغیرہ اور مستقبل میں کیا امکانات ہیں؟
ج: کچھ لوگ کافی عرصہ سے اس ضمن میں کام کررہے تھے،عثمان آباد کی جماعت نے اس ضمن میں سروے کیا ۔ معاملہ یہ تھا کہ جس کے پاس سرمایہ ہے وہ زیادہ تر فائدہ ہڑپ جاتا ہے۔ کسانوں اور صارف کو اس کے زیادہ فائدے نہیںمل پاتے۔تو انہوں نے کسانوں کو ان کی پیداوار، مارکیٹ کی قیمت سے بڑھ کر خریدنے کا معاملہ طٔے کیا ۔ کسانوں نے کہا کہ اس بڑھی ہوئی قیمت پر تو ہم پورے عثمان آباد میں جہاں چاہیں وہاں سبزیاں پہنچادیں گے۔ پھر مختلف بڑے سرمایہ داروں کو جمع کیا ،۵۰۰۰۰ روپئےکے شیئرز لیکرشہر کے ایک اہم علاقے میں راحت فریش کے نام سے مال بنایا۔ یہ سارا کام انہوں نے خیراتی بنیادوں پر نہیں کیا بلکہ مکمل طور پر پرفیشنل انداز میں۔ پہلے سال انہوں نے 9.8% منافع دیا ۔ اور دوسرے سال 12.5%منافع حاصل ہوا ہے۔ عوام میں نفوذ کی راہیں بھی اس ذریعے سے ہموار ہوتی جارہی ہیں۔کسانوں، سرمایہ داروں اور کنزیومرس کے درمیان جماعت کا بہت مؤثر تعارف جارہا ہے۔ اصل میں جب آپ دعوہ کرتے ہیں کہ آپ حکومت کا انتظام و انصرام کرنا چاہتے ہیں تو عوام یہ دیکھتی ہے کہ ایک دُکان ٹھیک طرح چل نہیں پا رہی ہے۔گھر بار کا حال دگرگوں ہے تو اگر حکومت آئے گی تو نہ جانے کیا حال ہوگا۔ اگر آپ نے ایک بزنس ایمپائر قائم کیا اس کو تقویت دی تو عوام کو بھی آپ کی استعداد کا اندازہ ہوتا ہے۔بزنس اور پیسے کی لین دین میں انسان کے سارے جوہر کھل جاتے ہیں۔اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو آپ کے سارے تعلقات میں اسلام کی دعوت کے پھیلانے کا بہت مؤثر موقع ہوتا ہے۔اسی طرح سے اسلام پھیلا ہے۔

س: بزنس کے بہت سے Domains آج کل موجود ہیں۔ ان میں سے بالخصوص کن Domains میں مسلم طلباء کو بزنس کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟
ج: چار قسم کے بزنس بالعموم کیے جاتے ہیں ، ایک ہے Manufacturing سیکٹر، دوسرا ہے Trading، تیسراServices خدمات اور مشاورت یا Consultancy ۔دوسرا جو حصہ ہے Trade سے متعلق، وہ بڑا مشکل کام ہے، کیونکہ وہ بہت زیادہ سرمایہ کا مطالبہ کرتا ہے۔البتہ Manufacturing میں آپ بڑے آزاد ہوتے ہیں ، اپنی ہنرمندی کا استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے نرخ اور قیمت متعین کرسکتے ہیں۔اور ان skills کے معاملے میں مسلم قوم بہت بہتر صورتحال رکھتی ہے۔میرے تجربے کہ اعتبار سے کم سرمایہ اور زیادہ بہتر ہنر کے ساتھ بڑی آسانی سے اس بزنس میں تفوق حاصل کیا جاسکتا ہے۔

س: قارئین رفیق کے لئے آپ کا کیا پیغام ہوگا؟
ج: بزنس کاشعبہ تحریک کا ایک بڑا اہم جز ہے اس بات کو واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جماعت کا اتنا وسیع نیٹورک ہے اور ارکان جماعت کے اجتماع میں جو تجربات جاننے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ہم گویا سونے کی کان پر بیٹھے ہوئے ہیں۔اشیاء کی فراہمی کی خدمات Flipkart, Snapdeal کا سب سے بڑا Asset یہ ہے کہ ان کے پاس ایک لسٹ ہے اشیاء اور خدمات کی فراہمی کرنے والوں کی۔ جماعت کے پاس بھی اس کی کوشش جاری ہے کہ ہم ایک Data Bank تعمیر کریں۔ حلقہ مہاراشٹر میںہم کم ازکم ۳۰۰۰؍ افراد اور بزنس پر مشتمل لسٹ تیار کررہے ہیں۔ایک ہی گروپ میں کچھ لوگ خدمات فراہم کرتے ہیں اور اسی گروپ میں ان خدمات کو حاصل کرنے والے بھی ہوتے ہیں، صرف ان کے درمیان اعتماد اور چیمبرس بن جائیں تو اسی گروپ میں ہم بہت بڑے بزنس کو فروغ دے سکتے ہیں۔ان وسائل کا استعمال بھی تحریکی مقاصد کے تحت بزنس کے فروغ میں کیا جانا چاہیے۔

از : افضل بیگ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights