شیخ یوسف القرضاوی اور مسلم دنیا کے مسائل

0

اشتیاق عالم فلاحی


علامہ یوسف القرضاوی ایک جری اور بے باک عالم دین، مربی، فقیہ، مجاہد، شاعر اور ادیب ہیں۔ شیخ قرضاوی کی شخصیت مختلف کمالات کامجموعہ ہے۔ حق گوئی ، مظلومین کی تائید اور ظلم کے خلاف جدو جہد علامہ کی شخصیت کے بنیادی عناصر ہیں۔ علامہ قرضاوی نے جہاں قرآن و سنت کی خدمت کے لیے خود کو لگادیا، علم و فکر کے چراغ روشن کیے اور فقہ و اجتہاد کے میدان میں امت کی خدمت کی، وہیں انہوں نے عالم اسلام کے مختلف مسائل میں بے باکی کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔


علامہ قرضاوی نے اپنی پوری زندگی علم کی خدمت اور اسلام کی سربلندی کے لیے جدو جہد میں صرف کی۔ ان کی کوششوں کا دائرہ بہت وسیع اور مختلف میدانوں میں پھیلا ہواہے۔ علامہ کے علمی و ملی کاموں کا ایک حصہ امت کے مسائل میں رہنمائی اور عالم اسلام کے متعدد مسائل میں ان کے اجتہادی اور مجاہدانہ کردار سے متعلق ہے۔


مسئلہ فلسطین اور تحفظِ مسجدِ اقصیٰ


امت کا انتہائی اہم مسئلہ فلسطین کی آزادی اور مسجدِ اقصیٰ کا تحفظ ہے۔ مسئلہ فلسطین ہمیشہ سے شیخ قرضاوی کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’سیرۃ و مسیرۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جو مسائل میرے دل و دماغ پر چھائے رہے ان میں سے شروع ہی سے مسئلہ فلسطین پہلا مسئلہ رہا ہے۔ 1940 میں جب میں نے طنطا میں المعہد الدینی میں داخلہ لیا اس وقت سے ہر سال 2؍ نومبر کو دیگر طلبہ کے ساتھ برطانوی وزیرِ خارجہ کے اعلان ’’اعلانِ بالفور‘‘ کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتا رہا، یہ وہ اعلان تھا جس میں دنیا بھر کے یہود سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے لیے فلسطین میں ایک قومی ریاست قائم کی جائے گی۔‘‘


شیخ قرضاوی نے اپنی متعدد کتابوں میں یہ واضح کیا ہے کہ ہمار ی اصل لڑائی سرزمینِ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں سے ہے، اور جب تک یہود ہماری سرزمین پر قابض رہیں گے ہمارا معرکہ جاری رہے گا۔ کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ فلسطین کی سرزمین سے یہود یوں کے حق میں دستبردار ہو جائے ۔ شیخ قرضاوی نے یہ بھی کہا کہ اگر یہود فلسطین کے اندر دین کے نام پر جنگ کرتے ہیں تو ہمارے لیے بھی جائز کہ ہے ہم بھی ان سے ان ہی کی زبان میں جنگ کریں۔ اگر ان کی جنگ کا ہتھیار تورات ہے تو ہم قرآن کو ہتھیار بنائیں گے۔ اگر وہ موسیٰ علیہ السلام کے نام پر فوجی تیاری کریں گے تو ہم موسیٰ و عیسیٰ و محمد (علیہم صلوات اللہ) کے نام پر فوج تیار کریں گے کیونکہ ان کے مقابلے میں ہم موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’یہود کا یہ دعویٰ ہے کہ سرزمینِ فلسطین پر ان کا تاریخی اور دینی حق ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب وہ اس سرزمین میں داخل ہوئے تو یہ کوئی بے آباد زمین نہیں تھی اور جب وہ وہاں سے نکلے تو اسے خالی چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ یہاں انسانی آبادی تھی۔ یہاں اہلِ فلسطین تھے جن کا ذکر خود تورات میں ہے۔ یہ یہود کی آمد سے پہلے بھی تھے، ان کی آ مد کے بعد بھی اور یہود کے یہاں سے نکلنے کے بعد بھی تھے۔ لہٰذا وہ جس تاریخی حق کی بات کرتے ہیں اس کی کوئی سچائی نہیں بلکہ محض ایک فریب ہے۔‘‘ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں کہ’’عربوں پر یہ واجب ہے کہ وہ القدس کی آزادی کے مقصد سے ایک طویل جہاد کی تیاری کریں کیوں کہ اسرائیل اس میں ہمارے حق کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔


علامہ قرضاوی نے فلسطین کی مدد کے لیے بھر پور جد و جہد کی۔ مادی طور پر مدد کے لیے خدمتِ خلق کے ادارے قائم کیے مثلاً مؤسسۃ ائتلاف الخیر اور مؤسسۃ القدس الدولیۃ۔ فلسطین کی مالی مدد کے لیے کئی ممالک میں مہمات چلائیں۔ اسی طرح سیاسی طور پر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے انہوں نے جد و جہد کی۔ کئی حکمرانوں اور بادشاہوں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کی آزادی کے لیے جد و جہد کی دعوت دی۔ فلسطین کے اندر جاری اسرائیلی دہشت گردی پر حکمرانوں کی خاموشی پر تنقید کی اور فلسطینی تنظیموں کی مددپر انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی۔


علامہ قرضاوی نے سرزمین فلسطین میں جاری معرکہ کی نوعیت کو امت پر واضح کرنے کی کوشش کی۔ یہ بتایا کہ زمین کے دفاع کے لیے اہلِ زمین پر جہاد فرضِ عین ہے ، اور اس جہاد کا دائرہ پوری امت تک بھی پھیل سکتا ہے۔ اور جب معاملہ قبلہ اول اور تیسرے حرم کی آزادی کا ہو تو اس راہ میں جہاد کا وجوب اور شرف اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ شیخ نے دہشت گردی اور مزاحمت کا فرق بھی واضح کیا۔ وہ اپنی کتاب فقہ الجھاد میں لکھتے ہیں:
’’اسرائیل وہ ریاست ہے جس کی بنیاد اول روز سے دہشت گردی پر قائم ہے۔ یہ Haganah(یہودیوں کی عسکری تنظیم) کے غنڈوں کی دہشت گردی اور ان کے ذریعے دَیریاسین اور دیگر مقامات پر فلسطینیوں کا قتلِ عام کر کے اہلِ فلسطین کو جبراً ان کے گھروں سے نکال کر قائم کی گئی ایک ریاست ہے۔ لہذا اہلِ فلسطین جو کچھ کر رہے ہیں وہ جہاد اور مقاومت ہے، وہ اپنی سرزمین اور اپنے حق کی بازیابی کے لیے مزاحمت کر رہے ہیں۔ اگر اس مقاومت کا نام دہشت گردی ہے تو وہ ہمیں دہشت گرد کہتے رہیں۔‘‘


مسئلہ فلسطین کی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے شیخ قرضاوی نے ادب اور فن کا بھی استعمال کیا۔ فلسطینیوں کے حقوق کو یاد دلانے والے قصائد لکھے، خطبے، مقالات اور آڈیو اور ویڈیو ذرائع کا بھی استعمال کیا۔ شیخ نے بہت سے مسائل میں درباری علماء اور واعظین کے فتوؤں سے ہٹ کر بے باکانہ اپنی رائے کا اظہار کیا۔ فلسطین کے اندر کچھ مخصوص موقع پر انہوں نے فدائی حملوں کو جائز قرار دیا۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں کہ فلسطین میں ہونے والے فدائی حملوں کی شرعی حیثیت کے بارے میں بہت سے لوگ پوچھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جہاد کی عظیم ترین شکلوں میں سے ایک ہے۔ یہ دشمن کو ڈرانے کے ان طریقوں میں سے ہے جن کی طرف قرآن نے سورہ انفال کی آیت 60 میں اشارہ کیا ہے

۔فلسطین کے اندر یہ فدائی حملے اس وقت جائز ہیں جب دفاع کی کوئی اور سبیل باقی نہ رہے۔ بعد میں انہوں نے واضح کیا کہ جب فلسطینیوں کو اپنی دفاع کے لیے میزائیل اور دوسرے جنگی آلات حاصل ہو گئے ہیں تو فدائی حملوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ انہوں نے صہیونی حکومت کے ساتھ دوستی کو حرام قرار دیا۔ امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی دعوت دی۔ سرزمین ِ فلسطین کی قیمت قبول کرنے کو حرام قرار دیا۔ اسی طرح انہوں نے واضح کیا کہ القدس سے دستبرداری اللہ، اللہ کے رسولﷺ اور پوری امت کے ساتھ خیانت ہے۔ جب قطر نے 1996 میں اسرائیلی وزیرِ اعظم شمعون پیریز کا استقبال کیا اور امیرقطر نے اس سے ہاتھ ملایا تو شیخ نے جمعہ کے خطبہ میں (جو کہ ہمیشہ قطر ٹی وی اور ریڈیو پر لائیو نشر کیا جاتا تھا) کہا کہ جن لوگوں نے شمعون پیریز سے مصافحہ کیا ہے ان کو چاہیے کہ سات بار اپنے ہاتھ دھوئیں اور ایک بار مٹی سے دھوئیں۔ اسی طرح بین المذاہب ڈائیلاگ میں جب قطر نے متشدد یہود کو دعوت دی تو اس پر شیخ نے تنقید کی اور کانفرنس کا بائیکاٹ بھی کیا۔ البتہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بہت سے معتدل یہود کے ساتھ آپ کے روابط بھی رہے۔


الربیع العربی (عرب بہاریہ)


عرب حکمرانوں کی اکثریت خواہ وہ دین کا نام لینے والے ہوں یا لا دین، وہ انسانی و اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے میں دوسروں سے بہت آگے رہے ہیں۔ ظلم و جبر کو رواج دے کر بزورِ شمشیر حکمرانی کرنا اور ملک و قوم کے وسائل کو ذاتی ملکیت سمجھ کر بے دریغ ان پر تصرف کرنا ان میں سے بیشتر کی شناخت رہی ہے۔ شیخ قرضاوی نے ہمیشہ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کی۔ مصر کے اندر انہیں دو بار جیل میں ڈالا گیااور ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا مصری پاسپورٹ رد کردیا گیا۔ شامی حکمرانوں کے خلاف ان کے موقف کی وجہ سے شام میں ان کے داخلہ پر پابندی لگائی گئی۔بعض افراد کی کوششوں سے 2003 میں ایک کانفرنس میں شرکت کی اجازت دی گئی۔ عراق میں ہونے والے مظالم پر بے باکانہ اظہار اور وہاں کے حکمرانوں کی روِش کی وجہ سے سالہاسال تک انہوں نے عراق میں داخلہ سے گریز کیا۔


2011ء میں جب تیونس سے استبدادی حکمراں کے خلاف عرب بہاریہ کی چنگاری پھوٹی اور بہت تیزی کے ساتھ اس کے اثرات کئی عرب ممالک میں پھیلنے لگے تو بڑی تعدا د میں سلاطین پرست اور درباری علماء عوامی جد وجہد کی حوصلہ شکنی اور ظالم حکمرانوں کی تائید میں کھڑے ہوگئے۔ البتہ علامہ قرضاوی اس وقت پوری قوت کے ساتھ انقلاب پسندعوام کے ساتھ کھڑے رہے۔


عرب بہاریہ کا بنیادی پیغام ان بنیادی قدروں کا فروغ تھا جن کو سینے سے لگانے کی اسلام نے بڑی تاکید کی ہے۔ شیخ قرضاوی نے کہا کہ عرب بہاریہ کی جد و جہد اسلامی جد وجہد ہے، اس جدوجہد کا محور آزادی، حریت، احترامِ انسانیت، تکریمِ بنی آدم اور امن و امان کا قیام تھا۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جن کی دعوت اسلام نے بڑی شدت اور تاکید کے ساتھ دی ہے۔ علامہ قرضاوی نے اپنے خطبات، مقالات، اور گفتگوؤں میں بہت زور دے کر بار بار یہ بات کہی کہ امت کے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے احیاء کا کام کریں۔ اور امت کو درندہ صفت حکمرانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر خاموش نہ بیٹھ رہیں۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں:’’علماء امت کا حصہ ہیں، اور یہ بات جائز نہیں کہ علماء کسی اور وادی میں رہیں اور امت کسی اور وادی میں۔ علماء کا یہ فریضہ ہے کہ امت کو بیدار کریں۔ بھیڑیوں اور مستبد حکمرانوں کے لیے امت کو نہ چھوڑ دیں۔ اس احساس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم ربیعِ عربی کے آغاز سے ہی امت کے ساتھ ہم آواز ہو جائیں۔‘‘


لیبیا میں جب قذافی نے پوری بے دردی کے ساتھ بے گناہوں کا خون بہانا شروع کیا تو شیخ قرضاوی نے پورے اعتماد کے ساتھ فتویٰ دیا کہ قذافی جیسے حکمراں کو قتل کرنا جائز ہے۔ شیخ قرضاوی اور ان جیسے دیگر حوصلہ مند علماء کی سرپرستی نے عرب بہاریہ کی جدو جہد کو تیونس، مصر، یمن، لیبیا اور شام میں قوت بخشی اور یہ کوششیں کامیابی کی طرف بڑھنے لگیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خلیجی ممالک سمیت دیگر ملکوں کے حکمراں سڑک کی آواز سنتے لیکن ان میں سے بیشتر کو اپنی کرسی کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ شیوخ کہے جانے والے پٹرو ڈالر کی کھنک میں سانس لینے والے خلیجی ممالک کے حکمرانوں نے دن و رات سازش کر کے اس جد و جہد کو کچلنے کی بھر پور کوشش کی۔ امید ہے ایک دن وہ ضرور آئے گا جب عرب بہاریہ کو ایک نئی توانائی ملے گی۔


افغانستان اور عراق کی جنگ میں امریکی مسلم فوجی کی شرکت


شیخ قرضاوی نے عراق پر امریکی صدر جارج ڈبلیوبوش کی طرف ہونے والے صلیبی حملے کی بھر پور مذمت کی۔ اس بات کا اعلان کیا کہ مسلم ممالک کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ افغانستان پر حملے میں امریکہ کا ساتھ دیں۔ عراق و افغانستان پر امریکی جارحیت کے خلاف مسلسل خطبے دیے۔ امریکی دھمکیوں کے جواب میں انہوں نے یہاں تک کہا کہ ’’میں موت سے نہیں ڈرتا بلکہ میرے دل میں شہادت کی تمنا ہے۔‘‘


البتہ عراق پر امریکی جنگ کے سلسلے میں شیخ کے ایک فتویٰ سے کئی حلقوں میں کافی بے چینی پیدا ہوئی۔ امریکہ نے عراق اور افغانستان پر جب حملہ کیا اس موقع پر کچھ امریکی مسلم فوجیوں نے اس جنگ میں شرکت کے جواز یا عدمِ جواز سے متعلق شرعی حکم جاننا چاہا تو محمد سلیم العوا نے اس کے جوا ب میں ایک فتویٰ تحریر کیا۔ اس پر شیخ قرضاوی نے بھی دستخط کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ :امن کو برباد کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کو یک آواز ہونا چاہیے۔ امریکی فوج میں ہمارے جو مسلم بھائی ہیں ان کو چاہیے کہ اس شرعی اصول کو سامنے رکھیں۔ امریکہ میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان کے اصل مجرموں کی تلاش اور ان کا محاکمہ ضروری ہے۔ لیکن امریکی مسلم فوجی کے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ جو جنگ ہوگی اس میں یہ فرق کرنا تو ناممکن ہے کہ کون واقعی مجرم ہے اور کتنے بے گناہ لوگ نشانہ بن رہے ہیں۔۔۔ امریکی مسلم فوجیوں کو چاہیے کہ جنگ کے اس مرحلے میں راست جنگ میں شرکت کے بجائے وقتی طور پر فوج کی دیگر خدمات میں شرکت کی درخواست کریں۔ اور اگر یہ نہ ہو سکے تو ان جنگوں میں شرکت میں کوئی حرج نہیں ہے جن میں شرکت کے لیے ان کا ملک فیصلہ کرتا ہے کیونکہ وہ فیصلہ ساز نہیں بلکہ ملک کے لیے صادر ہونے والے فیصلوں کو نافذ کرنے والے ہیں۔


اس فتویٰ پر شیخ کے دستخط کی وجہ سے مختلف حلقوں میں کافی بے چینی پیدا ہوئی۔ شیخ کے شاگرد ڈاکٹر صلاح الدین عبد الحلیم سلطان (جو مصر میں قید و بند کی مشقت برداشت کر رہے ہیں، فک اللہ أسرہ) نے شیخ کے اس فتویٰ سے اختلاف کیا اور لکھا کہ: ’’ افغانستان میں مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ میں شرکت شرعی اعتبار سے بالکل جائز نہیں ہے۔ اگر جنگ سے مکمل طور پر علحدگی ممکن نہ ہو تو مسلم فوجی کو چاہیے کہ فوج میں جنگ کے علاوہ دیگر ذیلی خدمات میں کام کرنے کی درخواست کرے۔ شیخ صلاح سلطان نے تفصیل سے اپنے دلائل بھی بیان کیے۔ اس میں شیخ نے یہ بھی بیان کیا کہ 11 ستمبر کے واقعات کے فوری بعد انہوں نے اپنی جامعہ(الجامعۃ الاسلامیۃ الامیرکیۃ۔ ڈیٹرویٹ) کے اساتذہ سے مشورے کے بعد ایک بیان جاری کیا اور یہ کہا کہ نہ تو کوئی مذہب اور نہ ہی انسانی معروف روایات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ واضح شواہد کے بغیر کسی پر اس جرم کا الزام تھوپا جائے۔


شیخ صلاح سلطان نے ایک موقع پر اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ جن لوگوں نے شیخ قرضاوی کے سامنے امریکہ کی اندونی صورتِ حال کا تذکرہ کیا تھا انہوں نے شیخ قرضاوی کے سامنے صحیح صورتِ حال نہیں رکھی تھی اور وہاں کے مسلم فوجیوں کے حالات کو بیان کرنے میں مبالغہ سے کام لیا تھا، ڈاکٹر صلاح سلطان نے جب شیخ سے گفتگو کی اور صحیح صورتِ حال رکھی تو انہوں نے ڈاکٹر صلاح سلطان کے موقف کی تائید کی۔


مسلم ممالک میں استبدادی نظام یا جمہوریت


جمہوریت کے سلسلے میں مسلم علماء کے درمیان مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض کے نزدیک جمہوری نظام بعض ظاہری خوبیوں کے باوجود اسلامی نظام و فکر سے میل نہیں کھاتا۔ جمہوریت کا مطلب حاکمیتِ جمہور اور اسلامی نقطہ نظر سے حکمرانی جمہور کے لیے زیبا نہیں بلکہ یہ صرف اللہ کا حق ہے۔’’ اِن الحُکم اِلّا لِلّہِ‘‘۔(ترجمہ:حکمرانی تو صرف اللہ کے لیے خاص ہے ،الانعام 57)۔ جب کہ کچھ علماء یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دورِ جدید میں بہتر حاکم کے انتخاب کا یہ ایک مناسب طریقہ ہے۔ اگر عالم اسلام پر ہم نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مسلم ممالک میں عوام کی اکثریت اسلام پسند اور اسلامی نظامِ حکومت کی متمنی ہے۔ پر یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر مسلم ممالک میں حکمراں منتخب نہیں ہوتے بلکہ طالع آزما زور آور قوت اور فوج کو استعمال کر کے اور کبھی دیگر ذرائع سے اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ اقتدار ہی ان کی منزل ہوتی ہے۔

ملکی ترقی، خدمتِ دین، اور عوام کی بہبود کے بجائے اقتدار پر برقرار رہنا ان کا اصل ہدف ہوتا ہے اور پھر جبر و استبداد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ اس سلسلے کو ختم کرکے دین پسند عوام کی امنگوں کی ترجمان حکمرانی کے لیے عصرِ حاضر میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس سوال پر متعدد اہلِ علم نے گفتگو کی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس کا ایک حل یہ ہے کہ عالم اسلام میں عوام حکمراں کے انتخاب کی آزادی سے محروم ہیں۔ جمہوریت کی بحالی کے نتیجے میں یہ اور اس جیسے دیگر فیصلوں میں عوامی پسند کی ترجمانی ہو سکتی ہے اور یہ عمل اپنے جوہر کے اعتبار سے مزاجِ شریعت سے متصادم نہیں ہے۔
شیخ قرضاوی نے اسلام اور جمہوریت (الإسلام والدیمقراطیۃ) کے نام سے ایک کتاب لکھی، ساتھ ہی مختلف مواقع پر اپنی تحریروں میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم فقہ اور اسلامی ثقافت کی زبان میں جس چیز کو شوریٰ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اس کے لیے عصری تعبیر نظامِ جمہوریت ہے۔ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ یہ اسے جہاں بھی ملے وہ اس کا زیادہ حق دارہے۔‘‘


شیخ قرضاوی کہتے ہیں: ’’کچھ لوگ جمہوریت کو صریح منکر اور کفر کہتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔علمی اصطلاح میں یہ کیا ہے اس سے قطعِ نظر، جمہوریت لوگوں پر حکمرانی کون کرے، ان کے اوپر کوئی ناپسندیدہ حکمراں نہ تھوپ دیا جائے، اگر وہ غلطی کرے تو اس کا محاسبہ ہو اور ظلم کرے تو اسے معزول کیا جائے، اس کے لیے فیصلے کا ایک طریقہ ہے۔ جمہوریت میں اگر یہ جوہر موجود ہو تو کیا یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ جو غور و فکر سے کام لے گا اسے اندازہ ہوگا کہ یہ اسلامی طریقے سے قریب ہے۔ اسلام میں یہ بات ناپسندیدہ ہے کہ جس شخص کی امامت کو لوگ ناپسند کریں وہ ان کی نماز کا امام بنا دیا جائے۔‘‘


شیخ قرضاوی کہتے ہیں کہ ’’دورِ جدید میں اسلام، اسلام کی دعوت اور امتِ مسلمہ کو جن گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کی بنیادی وجہ بزورِ شمشیر قائم کیا گیا استبدادی نظام ہے۔ عالمِ اسلام میں شرعی نظام کی پامالی، لامذہبیت اور مغرب پرستی کو فروغ ہی دیا گیا ہے قہر و جبر کے ذریعہ، آگ اور خون کا کھیل کھیل کر۔ استبدادی حکمرانوں نے ہی اسلامی دعوت، اسلامی تحریکات اور داعیانِ دین کو کچلنے کا کام کیا ہے۔‘‘


شیخ قرضاوی نے یہ بھی کہا کہ بہت سے ظالم اور مستبد حکمرانوں نے جمہوریت کا نام لے کر اپنے استبدادی پنجے گاڑے۔ جہاں یہ کچھ ہوا وہاں اپنے جوہر کے اعتبار سے جمہوریت موجود ہی نہیں تھی۔ پھر آگے وہ کہتے ہیں کہ یقینا اصولی اعتبار سے حکمرانی کا حق صرف اللہ کا ہے۔ تکوینی اعتبار سے اللہ ہی حکمراں ہے، کائنات پر اسی کا تصرف ہے، وہی مدبر ہے اور تقدیر کا مالک ہے۔ وہی اپنی سنت کے مطابق فیصلے صادر کرتا ہے۔ اور تشریعی حکمرانی کے نفاذ کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بھیجا، کتاب نازل کی، حلال اور حرام کا دائرہ بتایا۔ جو مسلمان جمہوریت کی دعوت دیتے ہیں وہ اسے حکمرانی کی ایک ایسی شکل کے طور پر اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں جس میں حکمراں کے انتخاب کے لیے اسلام کی سیاسی تعلیمات کی پاسداری کی جائے، جو شوریٰ اور نصح و خیر خواہی کے ماحول کر فروغ دے۔ جو اجتہادی معاملات ہیں، جن کے ضمن میں نص موجود نہیں ہے، یا ایسا نص موجود ہے جس میں ایک سے زیادہ تعبیر کا احتمال موجود ہے ان پر اختلاف کو دور کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ تو ہونا چاہیے اور اس طرح کے معاملات میں انسانوں نے ووٹنگ کے طریقے کو اختیار کیا ہے۔ شریعت اس طریقے کو اختیار کرنے سے نہیں روکتی۔


عالمِ اسلام کے دیگر مسائل


شیخ قرضاوی کی زندگی ایک متحرک داعی کی زندگی ہے۔ انہوں نے عالم اسلام کے جملہ مسائل پر اپنی رائے دی اور موقع بموقع اپنا کردار ادا کیا۔ عرب بہاریہ ہو یا شام میں جاری خوں ریزی۔ ترکی کے اندر بعض عرب حکمرانوں کی مدد سے انقلاب کی کوشش ہو یا قطر کا سفارتی بائیکاٹ ہو یا اس کا محاصرہ کر کے اس کو تنہا کرنے کوشش ہو۔ اسلام دشمنوں اور مستبد حکمرانوں کی طرف سے اسلامی تحریکات کو دبانے اور کچلنے کی کوشش ہو یا اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی گھناؤنی سازش ہو، شیخ نے اپنا جرأت مندانہ موقف رکھا۔ شیخ کو اس بے باکی کے نتیجے میں قید وبند کی تکلیف بھی برداشت کرنی پڑی، سفری پابندیوں، اور موت کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بیگانوں سے بڑھ کر اپنوں نے ان کی کوششوں کو لگام دینے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرنے والا، اور دین کے لیے سعی کرنے والوں کی کوششوں کو بار آور کرنے والا ہے۔


ISHTEYAQ ALAM FALAHI
Doha, Qatar

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights