بی ۔ایچ۔یو اساتذہ کی خاموشی ،خوف کے ماحول و جمہوری عدم موجودگی کا شاخسانہ

0

شریا چودھری

ترجمہ: جویریہ ارم

ستمبر ۲۰۱۷ کے ایک جمعہ کو52 گھنٹوں کے احتجاج، جو کہ طالبات نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں ساتھی طلبا کے چھیڑ چھاڑ کے خلاف کیا تو پچھلے سال حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی اورجواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی میں ہوئے طلباء تحریکوں سے موازنہ کا موقع فراہم کر دیا۔ فروری 2016 میں کنہیا کمار ،عمر خالد اور دوسرے طلباء جب گرفتار کئے گئے تو اساتذہ ایسوسی ایشن کا کردار قابل ذکر تھا۔ وہ طلباء کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ اسی سال دہلی یونیورسٹی کے رام جس کالج میں طلباء کے ساتھ اساتذہ نے بھی عمر خالد کو سیمینار میں شرکت سے روکے جانے کے خلاف مارچ کیا اس سے قبل دلت اسکالر روہت ویمولا کی موت کے بعد جنوری2016 میں طلباء کے ساتھ ساتھ چند اساتذہ بھی حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی میں احتجاجی تھے اور گرفتار کر لئے گئے۔ اے بی وی پی طلباء کے ایماء پر روہت ویمولا کے ساتھ ہوئی نا انصافیوں کے چلتے دلت اسکالر نے اپنی جان دے دی تھی اور موت سے قبل اپنے ساتھ ہو رہے بد سلوکی کے خلاف وہ آواز اٹھاتا رہا۔ اس کے بر خلاف بنارس ہندو یونیورسٹی کے اساتذہ خاموش دکھائی دیے۔ جب کہ احتجاجی طلباء پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ جس کی مختلف گوشوں نے مذمت کی تھی۔

ہندی ڈپارٹمنٹ کی ایک ریسرچ اسکالرپریتی کماری نے تہِ دل سے دو موظف ہندی پروفیسر جنہوں نے میڈیا سے گفتگو کی ،کا شکریہ ادا کیا کہ کوئی ہمارے لئے بولنے والا نہ تھا پر نہ جانے وہ واحد ٹیچر تھی جنھوں نے Scroll.in کو اپنے نام کے ساتھ اپنی بات کو چھاپنے کی اجازت دی اور مزید یہ کہا کہ باقی اساتذہ پابندی والے قوانین ،یونین کی غیر موجودگی اور مکمل اختیارات اپنے ہی پاس رکھنے والی انتظامیہ کو اپنی خاموشی کی وجہ بتا رہے ہیں۔انہیں اپنے خلاف تادیبی کاروائیوں جیسے ترقی کے رکنے کا خدشہ لگا ہواہے۔ جس کی بنا پر اساتذہ ان احتجاجوں سے اپنے آپ کو دور رکھ رہے ہیں۔ جبکہ طلباء کا خیال ہے کہ اساتذہ نے2015 میں بی سی ترپاٹھی کے چارج لینے سے قبل ہی ان کے حق میں آواز اٹھانی چھوڑ دی ہے۔

طلباء یونین کی عدم موجودگی:

1997 میں انتخاب کے بعد ہوئے تشدد اور دو طلبا کی موت کے بعد سے ہی یونیورسٹی میں کوئی یونین نہیں بنی ہے ۔اس سے قبلہی 2002 سے ہی بنارس ہندو یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن بھی بند ہو گئی تھی۔ چھ سال پہلے اس کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش رائگاں گئی۔یونیورسٹی کی ٹیچرس ایسو سی ایشن کے مطابق پچھلے وائس چانسلر ڈی۔پی۔ سنگھ نے اس ایسو سی ایشن کی سرپرستی سے انکار کر دیاتھا۔ مزید یہ کہ یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل اور اگزیکیوٹو کونسل میں ٹیچرس کے تقررات کیے جاتے ہیں نہ کہ انتخابا ت جو کہ یونیورسٹی کے تمام اہم بڑے معاملات طے کرتی ہے ان سب باتوں نے زیادہ تر اساتذہ میں یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ ان پر بھی سول سروسز جیسے قوانین نافذ عمل ہے لہٰذا انہیں کسی معاملے میں یکجا ہونے اور اقدامات اٹھانے کی اجازت نہیں۔
فلسفہ اور مذہب شعبہ سے تعلق رکھنے والے ٹیچر نے بتایا کہ ہمیں پریس کانفرنس کرنے ، حکومت پر تنقید کرنے یا یونیورسٹی انتظامیہ پر یا وی۔سی پر تنقید کرنے کی اجازت نہیں۔ پانڈے نے مزید بتایا کہ نئے اساتذہ سے یونیورسٹی میں ایک انڈر ٹیکنگ لی جارہی ہے۔ تاکہ ایسے معاملا ت میں وہ لب کشائی نہ کرپائیں ورنہ ان کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے۔

بی۔یچ۔یو۔ کے اقدار:

ہرن جا پے نے یہ اعتراف کیا کہ انتظامیہ کسی شدید کاروائی کے بجائے ناقدین کے لئے دوسرے مسائل کھڑے کرتی تھی۔ خود ان کے پروموشن کوروک دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی انتظامیہ سے سیمناروں کے لئے جگہ کی منظوری یا گرانڈس کو روک دینے جیسے تادیبی امورانجام دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید یونیورسٹی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے خواتین کے ساتھ مساویانہ سلوک روا، نہ رکھنے اور ان کی عدم نمائندگی کا بھی الزام لگایا۔ فلسفہ کی ٹیچر کے مطابق ان کے شعبہمیں صرف 19 خواتین اساتذہ ہیں۔ شعبہ تاریخ کے ایک ٹیچر کے مطابق صرف 20%ہی خواتین ہیں پولیٹکل سائنس کے ٹیچر جنہیں فیمنسٹ کہا جاتا ہے بتاتے ہیں کہ منو اسمرتی ہندوستان کے آئین سے بھی بالا تر ہے۔ فلسفہ کے ٹیچر کے مطابق سماج کو پسماندہ اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ یونیورسٹی کے ماحول میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ یونیورسٹی پر اونچی ذات کے لوگوں کا دبدبہ ہے اور زیادہ ترافراد یہاں زن بیزار جاتیوادی اور مسلمانوں کے مخالف ہیں۔

پسماندہ طبقات کو دئیے جانے والے تحفظات پر بھی اونچی ذات کے اساتذہ کھلے عام ناراضگی ظاہر کرتے ہیں ان طبقات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کچھ زائد ڈیوٹی انجام دینی پڑتی ہے یا پھر صبح سویرے کلاس لینی پڑتی ہیں۔ اونچے طبقات کے اساتذہ بظاہر کھلے ذہن کے نظر آتے ہوں پھربھی اپنی نجی زندگی میں فرسودہ ذہنیت کے حامل ہیں۔ چند اساتذہ نے گروہ بندی کی بھی شکایت کی اپنے کام کروانے کے لئے اساتذہ کو سفارش اور گروہوں میں شمولیت سے ہی مدد ملتی ہے۔

پیشوائی /یک طرفہ نظام:

ایک ٹیچر کے مطابق یونیورسٹی کا نظام کچھ حد تک جاگیردارانہ اور نو آبادیاتی ہے۔ یہاں طاقت کی طوطی بولتی ہے اور اوپر سے نیچے تک فیصلے اکثر یکطرفہ لئے جاتے ہیں خود انہوں نے بھی ایک شعبہ کے فیصلوں میں اس طرح کی ناانصافی محسوس کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے ماحول میں اساتذہ مایوس ہیں اوردوبارہ ٹیچر ایسو سی ایشن کی بازیابی سے بھی ان مسائل کے حل ہونے کا یقین نہیں رکھتے۔ بلکہ خود پچھلے ٹیچر ایسو سی ایشن کے صدر خود کو ٹیچرس کے منتخب نمائندے کے بجائے ان کا باس سمجھ لیا کرتے تھے۔ ٹیچرس کے مطابق بنارس ہندو یونیورسٹی میں تبدیلی صرف اس وقت ہی آسکتی ہے جب ایک ایسے وی۔سی۔ کا تقرر یونیورسٹی میں ہو جس میں شجاعت اور دلیری ہواور وہ جمہوری اقدار کا حامل ہو۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights