اظہارِ دین اور کسبِ علم

0

’اظہارِ دین‘ کی اصطلاح قرآن کریم کی تین سورتوں میں مذکور آیات سے ماخوذ ہے۔ دو مقامات پر ایک طرح کی آیات ہیں اور تیسرے مقام پر تھوڑی سی تبدیلی ہے۔
سورہ توبہ اور سورہ صف میں الفاظ ایک طرح کے ہیں۔
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَo
(القرآن: ۹:۳۳، ۴۱:۹)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ تاکہ اسے پورے جنس دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
سورہ فتح کی متعلقہ آیت درجِ ذیل ہے:
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفَی بِاللَّہِ شَہِیْداً o
(القرآن، ۴۸:۲۸)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اس کو پورے جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘
سورہ توبہ میں اس آیت سے قبل یہ گفتگو چل رہی ہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں نے اللہ کے ماسوا رب بنالیے ہیں۔ یہود کہتے ہیں کہ عزیز ابن اللہ ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیںکہ مسیح ابن اللہ ہیں۔ انھوںنے اپنے علماء (احبار و رہبان) کو بھی رب بنالیا ہے جب کہ انھیں تعلیم دی گئی تھی کہ الٰہِ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس طرح اس مقام پر اللہ واحد کے علاوہ کسی کی بھی پیروی کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے اور خود متذکرہ آیت کے آخری حصہ میں کہا گیا ہے کہ اللہ اپنے فیصلے کو نافذ کرکے رہے گا، اس کے باوجود کہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔
سورہ صف میں آیت سے قبل نصاریٰ کا ذکر کیا گیا ہے جو چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتناہی ناگوار گزر ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سورہ توبہ میں دینِ اسلام کی مخالفت میں غیر اللہ کی اطاعت کرنے کو شرک اور یہاں اس دین حق کی مخالفت کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے اور دونوں مقامات پر یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ کا فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا خواہ مشرکین اسے کتنا ہی ناپسند کریں۔
سورہ فتح میں یہ مضمون صلح حدیبیہ کے حوالہ سے آیا ہے۔ آں حضرت ﷺ کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر مشرکین مکہ کے نمائندوں کو اعتراض تھا اور صلح کے کاغذات میں یہ الفاظ حذف کردیے گئے تھے جس سے مسلمانوں کی صف میں بے چینی تھی۔ اس کے ازالہ کے لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے اس صلح کو ’’فتح مبین‘‘ اور ’’فتحاً قریباً‘‘ بتاتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ دینِ اسلام غالب ہوکر رہے گا کیوں کہ اللہ اس پر شاہد ہے۔ آں حضرت ﷺ کی رسالت ہو اور دین کے غلبہ کی صورت میں ان کے مشن کی تکمیل ہو ان سب پر اللہ گواہ ہے۔ اللہ کی گواہی اس فیصلہ الٰہی کے نفاذ کے لیے کافی ہے ۔(وکفی باللّٰہ شہیداً)
ان تینوں مقامات پر اہلِ کتاب اور مشرکین اور تمام کافرین کی تمام تر سعی و جہد اور خواہشات کے علی الرغم دینِ حق کے تمام دیگر ادیان پر ’’اظہار‘‘ ہونے کا یقین دلایا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے لایا ہوا دین کفار و مشرکین بشمول اہلِ کتاب کے تمام ادیان کے مقابلہ میں ’’ظاہر‘‘ ہونے کے لیے آیا ہے۔ (یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ قرآن میں یہ وہ استثنائی مقامات ہیں جہاں پر اہلِ کتاب کے حوالہ سے شرک اور کفر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ سورہ البینہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ جب کہ عموماً قرآن اہلِ کتاب کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کرتا ہے۔)
اس مقام پر دو سوالات کے جوابات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ’’اظہارِ دین‘‘ سے مراد کیا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہونے والے اظہارِ دین سے ہے یا قیامت تک ہونے والے کسی عمل سے ہے۔
اظہارِ دین سے کیا مراد ہے؟
اردو زبان میں بھی ظاہر ہونے کا مطلب نمایاں ہوجانے، پہچان لیے جانے، نظر آجانے وغیرہ ہے۔ عربی زبان میں بھی ظَہَرَ کے یہی معنی ہوں گے۔ لیکن کسی ایک شے کا دوسری شے یا اشیاء کے مقابلے میں ظاہر ہونے میں چھا جانے اور غالب ہوجانے کا مفہوم خود بخود پیدا ہوجائے گا۔یہی معاملہ اس مقام پر ہے۔ لیظہرہ علی الدین کلہ کا مطلب صرف نمایاں ہوجانے، متعارف ہوجانے یا دیکھ لیے جانے کا مفہوم نہیں ہوگا بلکہ دیگر ادیان پر حاوی ہوجانے، انہیں بے بس کردینے اور مغلوب کردینے سے عبارت ہوگا۔ دوسرے لفظوں میںدرج بالا آیات میں یہ خبر دی جارہی ہے کہ دینِ اسلام، دیگر تمام ادیان کو شکست دے کر ’’ظاہر‘‘ ہوجائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ کرلیا ہے کہ یہ دین غالب ہوکر رہے گا اور اس کے داعی کامیاب و کامران ہوں گے۔ باطل کی تمام کوششوں کے باوجود اور اس کی تمام تر ناگواریوں کے باوجود دینِ حق مراد پائے گا اور ادیانِ باطلہ کی تقدیر میں ناکامی و نامرادی ثبت ہے۔ ویسے یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ مذکورہ وعدے مدینہ میں اس زمانہ میں کیے گئے تھے جب بدر و اُحد و احزاب کے معرکے ہوچکے تھے اور حضور ﷺ کے اصحاب ان معرکوں میں صبر وثبات کی تاریخ رقم کرچکے تھے۔
غلبہ کی نوعیت کے بارے میں بھی غور کرنا چاہیے۔ مخصوص حالات میں سیاسی و عسکری غلبہ کا تصور اس میں لازماً شامل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دینِ اسلام ہی ہمیشہ غالب رہا ہے اور ادیانِ باطلہ اپنی تمام تر ظاہری چمک و دمک اور دنیاوی سازوسامان وسائل کے باوجود شکست و ریخت سے دوچار ہوئے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا تصور بھی یاد رکھنے کا ہے۔ اس اظہارِ دین میں علم و عقل کے لحاظ سے غلبہ بھی مراد ہے۔ قرآنِ کریم کی پہلی وحی علَّم بالقلم یاد دلاتی ہے اور اس کتابِ مقدس کی بہت سی آیات میں غوروتدبر کی دعوت دی گئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے پسندیدہ بندوں کو اولی الالباب (ہوش مند) اور ناپسندیدہ لوگو ںکو السفہاء (نادان) کہتا ہے کیوں کہ اول الذکر عقل کا استعمال کرتے ہیں اور آخر الذکر نے عقل کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ قرآنِ کریم عقل کے استعمال کی دعوت دیتا ہے اور تمام عقائد کی دعوت حقائق کی بنیاد دیتا ہے۔ آفاق و انفس کے دلائل، تاریخ کے حوالے اور جذبات کو مہمیز دینے والی باتوں سے اپنے قاری کو خطاب کرتا ہے۔ دوسری طرف کفر، شرک اور ہوائے نفس کی پیروی کرنے کے نقصانات کو بیان کرتا ہے۔ اس طرح قرآنِ کریم اور سنتِ رسول اللہ ﷺ نے دین کی عمارت مضبوط دلائل پر اٹھائی اور ادیانِ باطلہ کو علم اور عقل کی بنیاد پر بے دست و پا کردیا۔ اظہار دین میں یہ مفہوم بھی لازماً شامل ہے۔ اور اس معنی میں اظہارِ دین قیامت تک کے لیے ہوگیا ہے۔ باطل جس چولہ میں بھی آئے بے لباسی اس کا انجام ہے۔
اظہارِ دین کب اور کیسے؟
عربی زبان میں اردو، ہندی یا انگریزی کی طرح ماضی، حال اور مستقبل کے تین زمانوں میں نہیں بانٹا گیا ہے بلکہ صرف دو زمانوںکا ذکر ہے۔ ایک ماضی جو گزر چکا ہے اور دوسرا مضارع جو نہیں گزرا ہے۔ اس طرح حال اور مستقبل دونوں ایک ہی زمانہ میں بیان کیے جاتے ہیں۔ یظہرہ فعل مضارع ہے، یعنی جس زمانہ میں یہ بات کہی گئی تھی اس حال سے لے کر قیامت تک آنے والے مستقبل پر محیط بیان ہے۔ مدینہ میں جب یہ بات کہی گئی تھی اس وقت بھی یہ دین ظاہر (غالب) ہوا اور قیامت تک تمام ادیان باطلہ پر ظاہر (غالب) رہے گا۔اب جہاں تک سیاسی و عسکری غلبہ کا تعلق ہے تو اللہ کی سنت کے مطابق یہ واقعہ بھی ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ لیکن علمی غلبہ کے لحاظ سے ادیانِ باطلہ کے پاس دینِ حق کے مقابلہ میں ضد، ہٹ دھرمی اور ظلم کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں بچا ہے۔ علمی طور پر باطل پسپا ہوچکا ہے اور اسلام غالب۔ توحید کے حق میں دلائل ہوں یا معاد کے درست ہونے کا معاملہ ہو، رسالت محمدی (ﷺ) کی حقانیت ہو یا قرآنِ کریم کے محفوظ وحی الی اللہ کی حیثیت ہو، یہ سب عقلی دلائل اور تاریخی شواہد سے ثابت شدہ ہیں۔ اس معنی میں تو یہ دین غالب ہوچکا ہے اور تا قیامت غالب رہے گا۔ اس طرح دینِ اسلام کا یہ آخری ایڈیشن جسے رسول اللہ ﷺ حراء سے لے کر پہلے مکہ میں آئے اور پھر مدینہ میں اسے غالب کیا، وہ نور تاریخ کے ڈیڑھ ہزار سالہ دور میں کبھی مدھم نہیں ہوا اور اس کی شعائیں چاروں سمت پھیلتی ہی چلی جارہی ہیں۔ عقائد اور اعمال کا یہ حسین مرقعہ اتنا سادہ، فطرت انسانی سے اتنا ہم آہنگ اور ہر زمانے اور ہر علاقے کے لیے اتنا قابلِ عمل ہے کہ یہ جس سعید روح تک پہنچتا ہے وہ اسے پہچان لیتی ہے اور پکار اٹھتی ہے:
رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْن (القرآن، ۵:۸۳)
’’پروردگار ہم ایمان لائے اور ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔‘‘
غلبہ دین (اظہارِ دین) کا یہ تصور نہیں ہے کہ دیگر تمام ادیان صفحہ ہستی سے مٹ جائیں اور صرف حق باقی رہے۔ ایسا نہ تو رسول اللہ ﷺ کے دور میں ہوا اور نہ کبھی اس زمین پر قیامت سے قبل ہونے جارہا ہے۔ خلافت علی منہاج النبوۃ کی جو بشارت احادیث میں دی گئی ہے وہاں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ہر بشر کلمہ گو ہوجائے گا، بلکہ یہ خبر دی گئی ہے کہ ہر گھر سے کلمہ بلند ہوجائے گا، یعنی روئے زمین کے چپہ چپہ تک دین حق کی صدا پہنچ جائے گی۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس طرح نہیں بنائی ہے کہ تمام دیگر ادیان مٹ جائیں اور صرف دینِ حق باقی رہے۔ یہ مرحلہ تو زندگی بعد موت کا ہے، میدانِ حشر کا ہے، کہ جہاں صرف اللہ تبارک تعالیٰ کا اقتدار ہوگا اور باطل کے تمام سر کچلے جاچکے ہوں گے۔
ہمارا لائحۂ عمل:
درج بالا گفتگو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود باطل نے ہار مان لی ہے اور اب علمی ، فکری اور عملی میدان میں حق کے متبعین کا کوئی کام نہیں بچا ہے؟ یہ درست ہے کہ اصولی طور پر ادیانِ باطلہ شکست خوردہ ہیں۔ وہ ہمیشہ نئے محاذ جنگ کھولتے رہتے ہیں اور پسپا ہوتے رہتے ہیں۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ادیانِ باطلہ کے پاس اپنے وجود کے حق میں سادہ، عام فہم اور دلنشین دلائل نہیں رہے تو اس نے اپنی بقاء کے لیے دو طریقے اپنائے:
(۱) اپنے بیانیہ (Discourse)کو فلسفیانہ گتھیوں میں الجھایا اور صاف اور واضح گفتگو سے پرہیز کیا۔
(۲) دین حق کے سلسلے میں معلومات حاصل کیں اور اس مضبوط عمارت میں سیندھ لگانے کی سعی کی۔
حق کا بیانیہ ہمیشہ یکساں رہا ہے۔ باطل کی طرح اسے اپنے خول میں بند ہونے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ اس کے برخلاف باطل پینترے بدلتا رہا ہے۔ اس لیے حق کے دفاع کے لیے بھی ضروری ہوگیا کہ وہ ان بدلتے ہوئے بیانیہ پر نگاہ رکھے۔ ہر زمانہ میں اسلوب بدلتا رہتا ہے۔ حق کے حق میں دلائل کا انبار لگانے والے داعیوں اور متکلمین نے اپنے اپنے زمانہ کے اسلوب میں حقانیت واضح کی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے دور میں جو اسلوبِ جدید ہے اس میں دینِ حق کے سلسلہ میں گفتگو کی جائے۔ بنیادی تعلیمات تو بنیادی مصادر میں موجود ہیں، ان سے استفادہ کرکے اپنے زمانہ کو خطاب آج کی زبان اورآج کے انداز میں کرنا مفید ہے۔
باطل نے ’’حملہ دفاع کا بہترین طریقہ ہے‘‘ (Offence is the best defence)کے اصول پر کاربند ہوکر دینِ حق کے سلسلہ میں معلومات حاصل کیں اور اس بات کااعتراف کرنا چاہیے کہ اس کے لیے بہت محنت کی اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کی بیشتر جامعات میں علومِ اسلامیہ کے اساتذہ کی زیادہ تر تعداد ان حضرات پر مشتمل ہے جو اسلام پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ اور ان حضرات نے یہ مقام حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ ایسی صورتحال میں امتِ مسلمہ کی نئی نسل کو خوابِ غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ میں نے امریکہ کے ایک اسلامی تنظیم کے سالانہ اجلاس میں ایک یہودی عالم کی تقریر کی روداد سنی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ مذہباً یہودی ہے اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کا پروفیسر ہے۔ اس نے آگے کہا کہ آپ تمام لوگ ہندوستان اور پاکستان سے یہاں آکر ڈاکٹر یا انجینئر بن کر اپنی روزی روٹی کا انتظام کررہے ہیں۔ آپ میں سے کسی نے اپنے سرمایہ کی حفاظت کے لیے اپنے ہی علوم میں محنت نہیں کی ہے۔ اب آپ کس طرح یہ شکایت کرسکتے ہیںکہ آپ کا علمی سرمایہ بکھر رہا ہے۔ اور جہاں تک دنیا کمانے کا معاملہ ہے میں آپ کے دینی علوم کا ماہر ہوکر بھی آپ میں سے کسی سے بھی کم مشاہرہ نہیں پاتا ہوں۔
ہمارے پاس دین اپنے بنیادی ماخذ یعنی قرآن وسنت میں محفوظ حالت میں موجود ہے۔ اظہارِ دین کی سعی میں ہمارے بزرگوں نے جو کوششیں کی ہیں، ہم ان سے واقف ہوسکتے ہیں۔ دوسرے ہم جس زمانہ میں جی رہے ہیں اس کے مزاج، اسلوب، معروفات، طور طریقوں تک ہماری راست رسائی ہے۔ صرف اس بات کی حاجت ہے کہ ہم کمر کس لیں اور دینِ حق کے اظہار (غلبہ) کی کوشش میں یکسو ہوجائیں۔ کامیابی کا وعدہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کررکھا ہے۔ لیکن اس وعدہ کا مصداق بننے کے لیے سنجیدہ ہوجانے اور اس کے لیے اپنی بساط بھر محنت کرنا ہمارا کام ہے۔ اللہ اس کی توفیق دے۔

 

از: ڈاکٹر وقار انور

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights