گدھوں کے دام بڑھ گئے

0

شیخ احمدضیاء بودھن،تلنگانہ

صبح صبح مرزا کی آمد ہمارے لئے کسی سوغات سے کم نہیں ہوتی۔ مرزا کی آمد کے ساتھ ہی ہماری نصف بہتر کے احکامات کی اجرائی پر بریک لگ جاتا ہے ، اس لئے ہم مرزا کی آمد کو اپنے لئے فال نیک سمجھتے ہیں۔ مرزا نے گفتگو کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے کہاکہ میاں ایک خوش خبر ی سنو۔ کل اخبار میں ایک خبر چھی تھی جس میں کہاگیاکہ ہندوستان میں گدھوں کی قیمت میں دن بہ دن اضافہ ہوتاجارہاہے اور ساتھ ہی ساتھ گدھی کا دودھ جوکئی ادویات میں استعمال ہوتا ہے کافی مہنگا ہوگیاہے۔ ہم نے کہا مرزا ہمارا ملک اور مہنگائی ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہوچکے ہیں۔اگر اتفاقاً گدھوں کی قیمت اور گدھی کے دودھ کی قیمت میں اضافہ ہوتو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ مرزا نے کہا میاں ہم عام مہنگائی کی بات نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی ان دنوںیہ موضوع قابل بحث ہے، ہمیں حیرت اس بات کی ہے کہ جس گدھے کو کل تک گدھا ہے کہ کہہ کر نظر انداز کردیاجاتاتھا اس کی بھی اب چاندی ہورہی ہے، ہم نے سنا اس کی قیمت اب لاکھوں میں ہوگئی ہے۔ گدھی کا دودھ بھی فی ملی گرام ہزاروںروپیوں میں بک رہاہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اب کوئی بھی چیز ناکارہ نہیں رہے گی۔ ہم نے کہا مرزا سوائے انسان کے آج کے دور میں ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے۔ اگر کسی چیز کی ارزانی ہے تو وہ ہے زندہ انسانوں کی۔ یہی انسان جب مرجاتا ہے تب خود بخود اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے کیوں کہ آج کل مُردوں کی تجارت ہورہی ہے اور مردہ انسانوں کو ہاتھوں ہاتھ خریدا جارہا ہے اور اس کی منہ بولی قیمت بھی لگائی جارہی ہے۔ مرزا نے کہا میاں تمہاری اس تلخ حقیقت کو سن کر ہمیں مشہور افسانہ نویس جوگیندر پال کے ایک افسانہ کا مرکزی خیال ذہن میں آرہا ہے۔

اس افسانہ میں یوں ہوتا ہے کہ ایک امریکی، ہندوستان میں مردہ انسانوں کو خریدنے کیلئے آتا ہے اور ایک ہندوستانی کے توسط سے یہ کام کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہندوستانی شخص اسے اس بات کایقین دلاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں جتنے چاہے مردے اسے فراہم کرے گا۔ وہ اس تیقن کے ساتھ امریکن کو غریبوں کی ایک بستی میں لے جاتا ہے جہاں پر کئی بھوکے ننگے بھکمری کا شکار انسانی ڈھانچے جو صرف سانس لیے کیلئے زندہ رہ گئے ، موجود رہتے ہیں۔ وہ ان مظلوم ومجبور زندہ انسانوں کو بتاکر امریکی سے کہتا ہے کہ تمہیں جتنے چاہے اتنے ان میں سے خریدلو۔ امریکن کہتا ہے کہ ارے یہ تو زندہ انسان ہیں مجھے انہیں لے کر کیا کرنا ہے۔ ہندوستانی جواب دیتا ہے کہ یہ لوگ برائے نام زندہ ہیں۔ انہیں تم امریکہ لے جانے کی کوشش کرو، ان میں سے آدھے سے زیادہ راستے میں دم توڑ دیں گے اور بقیہ امریکہ پہنچ کر۔ امریکن، ہندوستانی کی بات سے ناراض ہوکر وہاں سے خالی ہاتھ لوٹ جاتا ہے، تب ہندوستانی شخص نے ان غریبوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کاش! تم لوگ مرجاتے ۔ اس بہانے تم امریکہ جاتے اور تمہاری بھی معقول قیمت لگتی۔ جوگیندر پال نے اس افسانے میں غریب انسانوں کی زندگیوں کی کافی اچھی تصویر کھینچی تھی اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ زندہ انسان اگر مفلسی کاشکار ہوتب وہ کوڑی کے مول کا بھی نہیں ۔ ہم نے مرزا سے کہاکہ اس تناظر میں تم نے جو خوش خبری سنائی واقعی وہ ایک سنسنی خیز خبر ہی ہے، کیوں کہ جس معاشرہ میں انسانوں کی قیمت گھٹ چکی ہے، وہاں گدھوں کی قیمت میں دن بہ دن اضافہ ایک اہم خبر ہی ہے۔ چلوچلتے ہیں کسی گدھے سے اس بارے میں گفتگو کریں۔ جیسے ہی ہم مرزا کو لے کر گھر سے نکلے دور سڑک پر ہمیں ایک گدھا نظر آیا۔ ہم نے اسے آواز دی، لیکن ایسا لگا کہ اس نے ہماری آواز سنی ہی نہیں۔ ہم نے مرزا سے کہا شاید یہ گدھا بہرہ ہوگا۔ مرزا نے کہا میاں ایسی کوئی بات نہیں ۔ بقول شاعر :
ہے یقین مجھ کونہ اندھا نہ وہ بہرا ہوگا وہ گدھا روڈ پہ کچھ سوچتاٹھہرا ہوگا

ہم نے کہا مرزا تمہیں ہر بات پر شاعروں کی یاد آجاتی ہے ۔ خیر ہم دونوں خود ہی اس گدھے کے قریب پہنچے اور اس کی خیریت دریافت کی۔ گدھے نے مسکراکر ہمیں دیکھا اورہماری خیریت بھی اپنے پچھلے دو پیروں کو اچھال کر دریافت کی۔ ہم نے اصل موضوع پر آتے ہوئے گدھے سے پوچھا کہ آج کل اخبارات میں آپ لوگوں کی قیمت کے بارے میں کافی چرچے ہیں، اس بار ے میں آپ کا اپنا کیا خیال ہے۔ گدھے نے جواب دیا اجی جناب صدیوں سے ہماری کافی ناقدری ہوئی ہے۔ ہم نے ہر دور میں اس پر احتجاج کیا، لیکن ہماری آواز سنی ہی نہیں گئی۔

اگر سنی بھی گئی تب سمجھی نہیں گئی ۔بھلا ہو ان سائنسدانوں کا جنہوں نے ہماری افادیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور ہمیں بھی قیمتی جانوروں کی فہرست میں شامل کروادیا۔ ہم نے پوچھا، اب آپ کیسا محسوس کررہے ہیں۔؟ گدھے نے کہا ہم آج کل کافی خوش ہیں۔ اس بات پر کہ اب زمانہ ہماری قدر کرے گا۔ ہمیں گھر کا نہ گھاٹ کا کے دائرہ سے باہر نکالاجائے گا۔ ہماری بات سنی جائے گی، سمجھی جائے گی ہمارے مطالبات قبول کئے جائیں گے ۔ ہم نے کہا کیا آپ سیاست کے میدان میں آناپسند کریں گے؟ گدھے نے یہ سن کر دولتی جھاڑ دی اور غصہ سے ہماری جانب دیکھ کر کہا کہ میاں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری قدر و قیمت میں اضافہ ہوچکاہے ہم سے یہ سوال کررہے ہو؟ میاں اب ہم اس سطح سے کافی اونچے اٹھ گئے ہیں۔ یہ کام ہمارے لائق نہیں رہا۔ ہم نے گدھے کو مزید کریدتے ہوئے کہاکہ آیا وہ اپنی اس قدر وقیمت میں اضافہ کی خوشی میں تہنیتی تقریب منعقد کرنے کا خواہش مند ہے؟ گدھے نے کہا میاں جو اعزاز ہم سے صدیوں سے چھین لیاگیاتھا اس کی بازیابی پر یقینا ہم سب خوش ہیں لیکن ہمیں یہ چونچلے پسند نہیں۔ یہ تہنیتی تقریب وغیرہ تم انسانوں کو ہی مبارک کیوں کہ تم لوگ آج کل خوشیوں کو ترس رہے ہو اور جب بھی کوئی چھوٹی موٹی خوشی تمہیں مل رہی ہے وہ تمہیں برداشت نہیں ہورہی ہے اور تم لوگ تہنیتی تقریب منعقد کررہے ہو۔ ہم اب پہلے جیسے گدھے نہیں رہے جو انسانوں جیسی حرکتیں کریں۔ ہم نے گدھے کا موڈ بگڑتا دیکھ کر مرزا کو چلنے کا اشارہ کیا اور خدا حافظ کہہ کر وہاں سے چلتے بنے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights