منظوماتِ اسیری (قسط-1)

0

میرے خیال میں تاریخ کا معتبر ترین ریکارڈ ادب ہے۔  اور جہاں تک ظلم و بربریت اور درد کا بیان ہے تو شاعری سے بہتر اور کہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔یہ درد عاشقی ہو، معشوق کا ظلم ہو یا جرمنی، امریکہ اور برطانیہ جیسی سامراجی قوتوں کی ظلم و بربریت کی داستان ہو، ان کا بیان وقت کے ادب میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔

 9/11 کے بعد امریکہ کی وار آن ٹیرر کی مہم میں جو ظلم مسلم دنیا پہ کیا گیا، تاریخ میں شاید ہی اس کی مثال ملے۔ اسی بربریت کے سلسلے میں گوانتانامو کی وہ بد نام زمانہ جیل بھی شامل ہے جس سے تمام دنیا واقف ہے۔ اس جیل میں بند معصوم و بے گناہ مسلمانوں کو جب اپنی بات کہنے کے لئے کوئی موقع اور دوست نہ ملا تو ان میں سے کچھ نے شاعری کا راستہ چنا۔ اس شاعری کا کچھ حصہ مشقتوں کے بعد کچھ قابل وکیلوں نے جمع کیا جنہیں انسانی حقوق کے ایک مشہور وکیل مارک فالکوف نے تمام تر خطرات کے باوجود  2007 میں کتابی شکل میں انگریزی زبان میں ترجمہ کے ساتھ شائع کیا۔ یہ کل ملا کر 22 چھوٹی- چھوٹی نظمیں ہیں جن میں مظلوم قیدیوں نے اپنے اوپر ہو رہے ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی کی دردناک داستان کے ساتھ ایک روشن مستقبل اور اللہ رب العزت سے امید کا بیان کیا ہے۔ نظموں کے ترجمے کے ساتھ اصل کتاب میں پابند سلاسل شاعر کا مختصر تعارف بھی موجود ہے جس سے اس پراجیکٹ کی اہمیت و افادیت دوبالا ہو جاتی ہے، مزید اس نظم کا سیاق و پس منظر بھی واضح ہو جاتا ہے۔

امید ہے یہ تراجم ہمارے حس کو بیدار رکھنے، تاریخ کو یاد رکھنے اور انسانی اقدار کی پامالی کے خلاف جنگ اور ایک روشن مستقبل کا خواب دیکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔  مجھے خوشی ہے کہ ماہنامہ رفیق منزل  نے   ان انگریزی نظموں کا ترجمہ قست وار شائع کرنے کیا فیصلہ کیا ہے۔
مترجم منظومات: اسامہ حمید، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔

۔ شاکر عبد الرحیم عامر
  سعودی عرب کے شہری اور برطانوی باشندہ ہیں۔ آپ  2002 کے اوائل سے گوانتاناموبے جیل میں قید ہیں۔ امریکی فوج کا الزام ہے کہ ان کے القاعدہ سے تعلقات ہیں، بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ افغانستان میں سعودی خیراتی ادارے ‘الحرمین’- جس پہ دہشت گرد تنظیموں کو رقم فراہم کرنے کا شبہ ہے، کے لیے کام کر رہے تھے۔ عامر  گوانتانامو کے قیدیوں میں  ایک رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے  قیدیوں کی ایک بھوک ہڑتال کو  ختم کرنے میں بھی مدد کی ہے۔ آپ نے فوج کی جانب سے ایک رعایت بھی حاصل کی  جس کے مطابق قیدیوں کو ایک شکایتی کمیٹی بنانے اور ان کے ساتھ جنیوا کنونشن کے مطابق سلوک کا مطالبہ کرنے کی اجازت ملی۔ لیکن ستمبر 2005 میں، شکایات کمیٹی کے قیام کے چند ہی دن بعد، فوج نے اسے ختم کر دیا اور عامر کو قید تنہائی میں بھیج دیا، جہاں وہ آج بھی قید ہیں۔

وہ امن کے لئے لڑتے ہیں

امن، ان کی باتیں۔
سکونِ قلب؟
راحتِ ارض؟
کیسا امن؟
میں انہیں بولتے، لڑتے، جھگڑتے دیکھتا ہوں
وہ کون سے امن کی تلاش میں ہیں؟
وہ قتل کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہیں ان کے منصوبے؟


صرف باتیں؟ مباحث کیوں؟
کیا قتل اتنا آسان ہے؟ کیا یہ ہے ان کا منصوبہ؟
ہاں، کیوں نہیں !
باتیں، مباحث اور قتل۔۔۔
یہی ان کی جنگِ امن ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights