تحریک اسلامی میں نوجوان طلبہ کا مطلوبہ کردار

0

تحریک کامطلب ہے اجتماعی جدوجہد جوایک خاص نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے کی جائے ۔ اسلامی تحریک سے مراد وہ اجتماعی جدوجہد ہے جو اسلام کو اس زمین پر غالب کرنے کے لیے کی جائے ۔ قران کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیاتھا ، اور جسے (محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجاہے اورجس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اورموسیٰؑ اورعیسیٰ ؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو دین کو اور آپس میں متفرق نہ ہوجاؤ‘‘۔ (سورۃ شوریٰ : ۱۳)اس آیت سے درج ذیل تین بنیادی احکام معلوم ہوئے۔
۱) اللہ تعالیٰ کادین ہمیشہ سے ایک ہی رہاہے یعنی دین اسلام ہی اللہ کا پسندیدہ اور مقبول دین ہے ۔
۲) اسلامی تحریک کی اصل اورآئیڈیل شخصیات انبیاء کرام ہیں ۔ یعنی طریقہ کار کی تعیین کے لیے لامحالہ سیرت انبیاء سے رجوع کرناہوگا۔
۳) امت مسلمہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحریک اسلامی کا ساتھ دے اپنی استطاعت کے مطابق، انبیاء کرام کی زندگیوں اور ان کی دعوت کی تفصیلات جوقرآن کریم میں نمونے کی حیثیت سے پیش کی گئی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تحریک اسلامی دوکام ہمیشہ کرتی رہی ہے ۔
الف: نوجوان نسل کی اصلاح وتربیت کے لیے مسلسل جدوجہد
ب: وقت کے اہم چیلنجز کا حل الہی ہدایات کی روشنی میں پیش کرنا، اوراسلام کی حقانیت ثابت کرنا۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے تذکرے میں ہمیں حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ’’موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سواکسی نے نہ مانا‘‘ (یونس:۸۳) اس آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نوجوان نسل کے اندر قبول حق کی طرف پیش قدمی کا جذبہ اپنے بزرگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کی تحریک پر لبیک کہنے والے بیشتر افراد نوجوان ہی تھے ۔ جیسے حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ وغیرہ ۔
طلبہ اورکیمپسس / یونیورسٹیز
فی الوقت نظام تعلیم خدابیزار نظری�ۂحیات پرمبنی ہے ۔ اس پر ستم بالائے ستم تعلیم کا رشتہ معاش سے جوڑدیاہے ۔ گویا حصول تعلیم ہی بجائے خود ایک آزمائش کی شکل اختیار کرچکاہے۔ شاید اسی وجہ سے علامہ اقبال ؒ نے کہاتھا ؂
اللہ سے کرے دور توتعلیم بھی فتنہ
کیونکہ امت مسلمہ کے نوجوانوں کی بھی ایک بڑی تعداد انہیں مکاتب میں تعلیم حاصل کرنے پرمجبور ہے ورنہ وہ بے روزگاری کا شکار ہوجائے گی (جیساکہ گمان کیا جاتاہے )۔ چند سلیم القلب نوجوان طلبہ جنہیں اللہ نے اپنے فضل سے نوازدیاہے اور وہ قافلۂ سخت جاں میں شامل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انہیں اس پراللہ کا شکریہ ادا کرتے رہنا چاہیے ۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی، کیوں کہ’’ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطاکردے‘‘ (سورۃالجمعۃ)
اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ تحریکی رفقاء بھی رعونت کا شکارہیں ۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے ۔ کیونکہ طلبہ کا میدان کار فطری طورسے کیمپس اور ہاسٹل ہیں لہٰذا سب سے پہلے تواپنی اخلاقی برتری ثابت کردینا چاہیے جو ایک صبرآزما کام ہے، اور اس میں اچھے اچھوں کو پسینہ آجاتاہے ۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اس کے بغیر صحیح معنوں میں داعی اپنا کام انجام نہیں دے سکتا۔ اللہ نے نبیؐ کے تعلق سے قرآن کریم میں ارشاد فرمایاہے :’’بیشک آپؐ اخلاق کے بلند مرتبے پرفائز ہیں ‘‘(القلم ۔ ۴)
کیمپس کے تناظر میں اس بات کاخیال رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ بدقسمتی سے اس وقت طلبہ کی ایک بڑی تعداد الاماشاء اللہ بے مقصد یت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ مجبور ہے اس لیے کیونکہ خیرامت ہونے کے ناطے زندگی کانصب العین ان کے سامنے واضح ہی نہیں ہے ۔ اس بے مقصدیت کے نتیجے میں طلبہ برادری بے چاری اپنے پیٹ اور خواہشات کی غلام بن کر رہ گئی ہے بلکہ قرآنی اصطلاح میں اپنی خواہشات نفس کی اسیر بن گئی ہے ۔ یعنی اس کی حالت کچھ یوں ہوگئی ہے : ’’اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کروتب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ ‘‘(سورۃ الاعراف۔۱۷۶) ۔ مولانا مودودی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’دنیاپرست آدمی جب علم اورایمان کی رسی توڑ کر بھاگتاہے اورنفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتاہے تو پھر کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا، ہمہ تن پیٹ ہمہ تن شرمگاہ‘‘۔ (تفہیم القران:جلد دوم، صفحہ۔ ۱۰۲)
مادہ پرستانہ ذہنیت تو تعلیم نے پیداکرہی دی ہے رہی سہی کسر ٹی وی، انٹرنیٹ اور ملٹی میڈیا موبائل نے پوری کردی ہے ۔ مخلوط تعلیم نے بھی اپنا کردار اس فساد فی الارض میں بخوبی اداکیا ہے ۔ قرآن کہتاہے کہ:’’زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خداہی کو پکارو خوف اور طمع کے ساتھ، یقیناًاللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں پرہے‘‘۔ (سورۃ الاعراف ۔۵۶)اس آیت کی روسے طلبہ برادری کا فرض ہے کہ ان برائیوں کے خلاف نہ صرف یہ کہ آواز اٹھائے بلکہ یہ بھی واضح کرے کہ اس فساد کی اصل جڑ انکار خدا اور خدا کو چھوڑ کر دوسروں کواپنا ولی اور سرپرست بناناہے ۔ اس بات کی وضاحت بھی ضرور ہونی چاہیے کہ ان تمام مسائل کاحل صرف اور صرف اسلام ہی کے پاس ہے ۔ اس ضمن میں رفقائے تحریک کو سید مودودی ؒ کی کتاب پردہ کاخودبھی مطالعہ کرنا چاہیے اور دیگر ساتھیوں کو بھی اس کا مطالعہ کرانا چاہیے۔
علمی وسائل کا استعمال
قرآن کریم امت مسلمہ کو خیرامت کے نام سے یاد کرتاہے ۔ اس بات کی صراحت بھی قرآن کرتاہے کہ یہ امت وسط ہے ۔ طلبہ برادری کو اپنی یونیورسٹی کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اسلام کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت ترجیحی بنیادوں پر بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ کرنی چاہیے ۔ ایک بہت ہی کارآمد وسیلہ ڈپارٹمنٹ کی میگزین ہے جس کے ذریعہ اپنے خیالات اور موقف کو واضح اندازمیں عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ پیش کیاجاسکتاہے ۔ یہ طریقہ جدال (Debate) سے زیادہ کارآمد اور دوررس نتائج کا حامل ہے ۔ وال میگزین کا چلن بھی ہمارے یہاں عام ہے ۔ اس کا استعمال بھی تحریکی رفقاء کو کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس تعلق سے ایک اہم نکتہ جواکثر ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہوجاتاہے وہ یہ کہ ہرالٹی سیدھی بات کا جواب دینا داعیانہ کردار کے منافی ہے۔ جب مخاطب جہالت اور غیرسنجیدگی پراتر آئے تو قرآن کے اس اصول پر عمل کرنا افضل ہے ۔ سورہ فرقان میں رحمان کے بندوں کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ ترجمہ: ’’رحمان کے بندے وہ ہیں جوزمین میں نرم چال چلتے ہیں اورجاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کوسلام ‘‘(الفرقان۔۶۳) یہاں جاہل سے مطلب ان پڑھ نہیں ہے بلکہ وہ آدمی ہے جو کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کرنے لگے ۔ اس قرآنی اصول پر عمل ضروری بھی ہے اورنتائج کے اعتبارسے زیادہ دیرپابھی ہے ۔
قرآن کریم میں حصول علم پر جہاں بہت زور دیاگیاہے وہیں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ یہ علم معرفت الٰہی کے لیے ہوناچاہیے ۔ جیساکہ سورۃ فاطر میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادہے : ’’اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں ‘‘(فاطر۔۲۸) یعنی اگرتعلیم کے بعد بھی نادانی کا ہی حامل ہے تو پھر ایسی تعلیم اسلام کی نظرمیں بے فائدہ ہی نہیں بلکہ مضر اور ہلاکت کی باعث ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جہاں رفقاء تعلیم کے میدان میں کمال پیدا کریں وہیں اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ تعلیم (عصری تعلیم ) کو تنقیدی نگاہ سے پڑھاجائے ۔ اس ضمن میں بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے ۔ کیمپس میں کام کرنے والے طلبہ اگر اپنے ہم عصر طلبہ سے تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں تو یاد رکھیے سنجیدہ طلبہ آپ کی بات کو کبھی وزن ہی نہیں دیں گے ۔ لہٰذا ہمارے تحریکی رفقاء کو تعلیم کے میدان میں اپنے اپنے شعبے میں مہارت پیداکرنے کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ خیروشر کی تمیز بھی کرتے رہیں کیونکہ اگرعلم کے حصول سے آپ کے اخلاق وکردار میں کوئی مثبت تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ سماجی وسیاسی مسائل جن کا تعلق براہ راست طلبہ برادری سے نہیں ہے اس میں کم ہی الجھنا بہترہے ۔
خلاصہ بحث
اوپر کی گفتگو کو درج ذیل تین نکات میں سمیٹا جاسکتاہے :
(۱) بے حیائی ، بے مقصدیت ، فحاشی کے خلاف منظم تحریک چلانا نیزاسلام کی حقانیت کو واحد حل کے طورپر پیش کرنا۔
(۲) یونیورسٹی کے علمی وسائل کا استعمال کرکے حکمت ودانشمندی کے ساتھ طلبہ برادری میں اسلام کے نظام حیات کو پیش کرنا۔
(۳) تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی ، علمی تنقید کے ساتھ انجام دینا۔

محمد معاذ، جا معہ ملیہ اسلامیہ۔ ای میل: [email protected]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights