موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

0

(اے پی جے عبدالکلام کی وفات پر خصوصی تحریر)
21؍ جولائی بروز پیر تقریباً ساڑھے آٹھ بجے شب یہ اندوہناک اور روح فرسا خبر موصول ہوئی کہ بھارت کے سب سے زیادہ مقبول اور ہرد لعزیز صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کی انتہائی مصروف زندگی کا رواں دواں قافلہ اچانک رک گیا۔ ان کے اچانک انتقال کی اطلاع پاتے ہی سارے ملک میں اظہار تعزیت کی ایک برقی لہر دوڑ گئی۔ عظیم ہندوستانی سائنسداں اے پی جے عبد الکلام کی موت پر دینی، سیاسی وسماجی حلقوں کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ طبقات اور دانشوروں نے گہرے رنج و غم اور انتہائی صدمے کا اظہار کیا۔ فرط غم کا یہ عالم تھا کہ
ویراں ہے میکدہ خم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
فخر ہندوستان ڈاکٹر عبد الکلام کا پورا نام ابو الفاخر زین العابدین عبد الکلام تھا۔ گھر کے کچھ لوگ آزاد اور کچھ ابُل کہہ کر انہیں پکارتے تھے۔ انہوں نے ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں جنوبی ہند کی مشہور ریاست تمل ناڈو کے رامیشورم کے ایک چھپر اور پھوس کے گھر میں آنکھیں کھولیں۔ ان کا گھرانا متوسط گھرانا تصور کیا جاتا تھا۔ والد زین العابدین ملاحوں کو کرایے پر ناؤ دینے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہیں ڈاکٹر کلام کا بچپن بسر ہوا۔
پانچ سال کی عمر میں رامیشورم کے ایک پنچایت پرائمری اسکول میں ان کی تعلیم کی ابتدا ہوئی۔ معاشی آسودہ حالی نہ ہونے کی وجہ سے انھیں اخبارات بھی تقسیم کرنے پڑتے تھے۔ ہائی اسکول تک کی پڑھائی انہوں نے رامیشورم کے رام ناتھ پورم کے ایک اسکول میں کی۔ تعلیم کی طرف ابتد اء ہی سے اس قدر انہماک تھا کہ ان کی زندگی لہو و لعب کے چھینٹوں سے ہمیشہ پاک رہی۔ انہوں نے اس دنیا میں ایک بڑے مقصد کے لیے آنکھیں کھولی تھیں، جس کو حاصل کرنے کے لیے پوری زندگی مصروف کار اور علم و عمل اور سیاست کی وادیوں میں گامزن رہے۔
انٹر میڈیٹ کے لیے ۱۹۵۰ء میں تروچرا پلی کے سینٹ جوسیف کالج میں داخلہ لیا۔ اور وہیں سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی۔ اس دوران جب کبھی وہ تروچرا پلی سے اپنے گھر لوٹتے تو ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع بھائی مصطفی کلام کی پرچون کی دکان پر ان کی مدد کیا کرتے، اور کبھی گھنٹوں دکان چلایا کرتے تھے۔
۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۷ء میں ایم آئی ٹی (مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی) میں داخلہ لیا، جو تکنیکی تعلیم کے لیے اس وقت سرفہرست ادارہ تصور کیا جاتا تھا۔ وہاں سے انہو ں نے بی اے کی تعلیم مکمل کی۔ اگنی کی اڑان میں ڈاکٹر کلام نے لکھا ہے کہ اس کالج کی فیس ایک ہزار روپیہ تھی، جو ان کے والد نے کبھی دیکھے ہی نہیں تھے۔ لہٰذا بہن زہرہ نے اپنے زیورات بیچ کر ان کی تعلیم کو جاری رکھا۔
کتابیں پڑھنے کا بچپن سے بہت شوق تھا، بھائی مصطفی کلام کے ایک دوست کے گھر پر بھی ذاتی لائبریری تھی، جہاں سے عبد الکلام مطالعہ کے لیے ہمیشہ کتابیں حاصل کرتے۔
۱۹۵۸ء میں وہ ایم آئی ٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ(ایچ۔ اے۔ ایل) بنگلور ملازمت کی غرض سے چلے گئے۔ جہاں انہوں نے ہوائی جہاز کے دونوں انجنوں پٹن اور ٹرمائن پر کام کیا۔ وہاں سے وہ خلائی انجینئر بن کر نکلے اور انھیں سیدھے ایئر کرافٹ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ بھیج دیا گیا۔ ۱۹۶۰ء میں وکرم بھائی خلائی ریسرچ سینٹر سے جڑے، اور ۱۹۶۲ء میں وہ انڈین خلائی ریسرچ اتھارٹی (اسرو) سے متعلق ہوگئے جہاں ان کی زندگی کی کایہ پلٹ ہوئی اور وہ ملک کو دفاعی محاذ پر مضبوط و مستحکم بنانے کا خواب دیکھنے لگے۔
اسرو میں رہتے ہوئے پہلے ان کے کاندھوں پر دیسی سیٹلائٹ لانچ وہیکل (ایس ایل وی۔۳) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ اس پروجیکٹ کے تحت ڈاکٹر کلام کی سربراہی میں ہندوستان نے زمین کے مدار کے نزدیک ۱۹۸۰ء میں روہنی سیٹلائٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔
۱۹۹۷ء میں ملک کے سب سے بڑے شہری اعزاز بھارت رتن کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ اور ٹھیک ایک سال بعد ۱۹۹۸ ء میں ان کی قیادت میں پوکھرن میں کامیاب جوہری تجربہ ہوا۔ پرتھوی، اگنی اور آکاش جیسے میزائل بنانے میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ این ڈی اے حکومت میں آپ سائنسی مشیر کے عہدے پر فائز رہے۔ ڈاکٹر کلام کے تعلیمی سفر اور ان کی سائنسی خدمات کا اگر احاطہ کیا جائے تو مختصراً حفیظ میرٹھی کا یہ شعر ان پر صادق آئے گا۔ ع
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
۲۰۰۲ء میں وہ ملک کے گیارہویں صدر جمہوریہ کے طورپر منتخب کیے گئے اور ۲۰۰۷ء تک اپنی خدمات پیش کی۔
تصانیف:
ڈاکٹر کلام نے ہندوستان کی کامیابی اور ترقی کا جو خواب دیکھا تھا اور اپنی زندگی جن اصول و ضوابط کے تحت بسر کی تھی ۔ انہیں کتابوں کی شکل میں بھی پیش کیا ہے۔ ان کی تصانیف کی تعداد ایک درجن سے متجاوزہیں، چند مشہور تصانیف کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے؛ ونگس آف فائر، انڈیا:۲۰۲۰، گائڈنگ سولس، دی سائنٹفک انڈین، دی فیملی اینڈ دی نیشن، ٹارگیٹ تھری بلین،اگنائٹیڈمائنڈس وغیرہ ۔
عالی دماغ:
عظیم سائنسداں ڈاکٹر عبدالکلام نہ صرف ایک فقید المثال شخصیت کے مالک تھے، بلکہ وہ ایک نہایت ہی اعلیٰ اور باخبر ذہن بھی رکھتے تھے، مزید برآں وہ تجزیہ وتحقیق کی ذہنی قوت سے بھی مالا مال تھے۔ ان میں ابتداء سے ہی تخلیقی جوہر تھا۔ جس کی پہچان ان کے بعض اساتذہ نے بہت پہلے ہی کرلی تھی۔ حساب کے ان کے استاذ رام کرشن نے ایک مرتبہ ان کو تمام طلبہ کے سامنے کھڑا کرکے کہا’’میرے الفاظ یاد رکھئے، یہ طالب علم اپنے اسکول اور اپنے اساتذہ کے لیے سرمایۂ افتخار بننے جارہا ہے‘‘۔ یہ بات انہوں نے تب کہی تھی جب عبد الکلام چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔ ڈاکٹر کلام نے اپنی زندگی میں علم وعمل کے نئے افق سے ملک کو متعارف وروشناس کرایا۔ وہ اپنے اندر عمل کا خزینہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر کلام کی زندگی قومیت ووطینت کی عصبیت سے آزاد حرکت وعمل سے عبارت ہے۔ ذیل میں ان کی شخصیت کے چند نہایت ہی نمایاں پہلوؤں کی طرف اشارے کئے جارہے ہیں۔
سادگی پسند زندگی:
بھارت رتن عبدالکلام کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ زندگی میں اس قدر کامیابی اور ترقی کے اعلیٰ منازل طے کرنے کے بعد بھی وہ اپنی ذات کے لیے کبھی کسی طرح کے امتیاز کے قائل نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی کبھی بھی خود کو اس طرح پیش نہیں کیا کہ وہ بھارت رتن، اور میزائل مین جیسے القاب رکھتے ہیں۔ اور نہ ہی کبھی اپنے دل میں اس طرح کے جذبات کو گھر کرنے دیا کہ وہ اوروں سے ممتاز اور فائق ہیں۔ انسانی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عالم رنگ وبو میں جتنی بھی عظیم شخصیات نے آنکھیں کھولی ہیں اور اپنے علم وعمل اور خیالات وافکار سے انسانی تاریخ پر اپنے انمنٹ نقوش چھوڑے ہیں، ان میں یہ صفت مشترک طورپر پائی جاتی ہے۔ وہ کامیابی کے جتنے بلند رمدارج طے کرتے ہیں اتنا ہی ان کے اندر کریم النفسی، انکساری، تواضع اور انسان دوستی جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ وہ اس پھلدار درخت کے مانند ہوجاتے ہیں جس کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے جھکی چلی جاتی ہیں، اور ہر خاص وعام کو مستفید کرنے کے لیے ہمہ تن تیار رہتی ہیں۔ ڈاکٹر کلام کی ذات بھی ہرآن لوگوں کے لیے تیار رہتی تھی۔ عوام اور صدر جمہوریہ کے درمیان کوئی حجاب نہ تھا۔ کلام سب کے لیے تھے اور سب کلام کے لئے۔ عدیم الفرصتی کے باوجود طلبہ اور نوجوانوں سے تبادلہ خیال کے لیے ان کا وقت نکال لینا طلبہ ونوجوانوں سے جہاں ایک طرف ان کی بے پناہ محبت اور شیفتگی کا غماز ہے۔ وہیں ان کی سادگی کا پر تو بھی۔ بلاشبہہ وہ اس باب میں اپنے پیش روؤں پر فائق نظر آتے ہیں۔
ملک کے طول وعرض میں ان کی بے پناہ مقبولیت کا راز ہی تھا جس نے ان کو عوامی صدر جمہوریہ بنادیا۔ سادگی پسند ڈاکٹر کلام کی سادگی کی بے شمار مثالیں مشہور ومعروف ہیں۔ سادگی کے یہ تمام واقعات صرف ایک ہی حقیقت کی جانب رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں، وہ یہ کہ ذاتی زندگی میں بڑی بڑی کامیابی حاصل کرلینے اور بلندی کی چوٹیوں تک کا سفر طے کرلینے کے باوجود بھی وہ دنیا کو ہمیشہ ایک ہی نظر سے دیکھتے رہے۔ ان کی نگاہ تفریق اور بھید بھاؤ جیسے تصورات سے پاک تھی۔ وہ امراء و غرباء، ہندو مسلم، حکمراں طبقہ اور معمولی انسان سب کو ایک ہی صف میں کھڑا تصور کرتے تھے اور عزت و احترام کی ایک ہی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کی ایک تقریب میں انہیں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ اسٹیج پر ان کے لیے مخصوص کرسی کا انتظام تھا۔ کلام صاحب اس کرسی پر صرف اس لیے نہیں بیٹھے کہ وہ اور کرسیوں سے ممتاز نظر آرہی تھی۔ ایک مفکر، ایک سائنسداں، ایک دانشور، ایک معلم اور صدر جمہوریہ ہونے کے ساتھ ساتھ کلام صاحب انسانیت کے علمبردار تھے۔ ملک کے اولین شہری ہونے کے باوجود انہوں نے فقیرانہ زندگی پسند کی۔
طلبہ سے خاص شغف:
ڈاکٹر کلام کو طلبہ و نوجوانوں سے بے انتہا محبت اور ان سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ انھیں ملک کا مستقبل اور معمار تصور کرتے تھے۔ ان کے ساتھ وقت گزارتے اور انھیں ملک عزیز کی خدمت اور اسے بدعنوانی سے آزاد ملک بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کرتے۔ وہ انھیں ایسے خواب دیکھنے کی ترغیب دیتے جو راتوں کو سپنے میں نہیں دیکھے جاتے بلکہ جو انسان کو سونے نہیں دیتے۔ اگنی کی اڑان میں انہوں نے اپنے ایک خواب کا تذکرہ کیا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’مجھ میں خلا اور پرندوں کے اڑان بھرنے کے طریقے سے متعلق بچپن سے ہی جستجو تھی، میں سمندروں کے اوپر سارس کو منڈلاتے اور دوسرے پرندوں کو اونچی اڑان بھرتے دیکھا کرتا تھا، اور تب ہی یہ خواب دیکھا تھا کہ میں بھی آسمان میں ایسے ہی اڑانیں بھروں گا۔ کلام اپنی انتھک محنت اور مسلسل جدو جہد سے آسمان میں اڑنے والے رامیشورم کے پہلے طالب علم بنے‘‘۔
ڈاکٹر کلام کے طلبہ ونوجوانوں سے اس شغف کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ ہندوستان کے تابناک اور بہتر مستقبل کے لیے ان کی تربیت کو بہت ضروری تصور کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ پیش رویا موجودہ نسل سے زیادہ ضروری ہے کہ نئی نسل پر محنت کی جائے۔ کیونکہ یہی وہ نسل ہے جس کی انتھک محنت، لگن، حوصلہ اور محکم یقین و ارادہ سے کل کے خواب کی تعبیر ممکن ہوپائے گی۔ وہ کہتے تھے کہ ملک میں ۴۰؍ کروڑ نوجوان پچیس سال سے کم عمر کے رہتے ہیں اس ملک کو ترقی کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ وہ جب ان سے مخاطب ہوتے تو انھیں اپنی زندگی کا ایک واضح ہدف متعین کرنے کی ترغیب دیتے۔ وہ ہمیشہ انھیں اس جانب متوجہ کرتے کہ زندگی کا نصب العین اور ہدف انتہائی بلند ہونا چاہیے۔ زندگی کا چھوٹا اور کمتر ہدف متعین کرنا ان کے نزدیک جرم تھا۔
معلم عبد الکلام نے اپنی زندگی کا آخری لمحہ بھی ملک کے مستقبل نوجوانوں اور طلبہ کے درمیان پیغام عمل دیتے ہوئے گزارا۔ وہ ایم ایم آئی کالج، شیلانگ میں ’’زمین کو جینے کے قابل کیسے بنایا جائے؟‘‘ کے موضوع پر خطاب کررہے تھے۔ ڈاکٹر کلام تو اس دار فانی سے کوچ کرگئے مگر ان کا چھیڑا ہوا یہ سوال ہنوز جواب کا متلاشی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنا ہندوستان کے طلبہ ونوجوانوں کی اولین ذمہ داری بھی ہے اور ان کے سامنے بہت بڑا چیلنج بھی۔
کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ وطالبات کے علاوہ وہ اسکول کے بچوں سے بھی ولکش اسلوب بیان میں ہم کلام ہوتے، الفاظ خوبصورت، لہجہ صاف اور باتیں کھلی کرتے تھے۔ بڑے بڑے فلسفیانہ نکتے کو بھی نہایت آسان فہم بناکر بچوں کو سمجھا دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بچوں میں بھی یکساں طورپر مقبول تھے۔ بچوں سے ملنا انہیں کتنا محبوب تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو دہائیوں سے میں دو کروڑ بچوں سے مل چکا ہوں۔ وہ جس اسکول یا کالج میں جاتے وہاں کے کتب خانے کے لیے اپنی تصنیفات وتالیفات کا ایک سیٹ ضرور دیتے۔
عظیم کارنامہ:
میزائل مین ڈاکٹر کلام کی ساری زندگی ملک کی تعمیر اور اس کے روشن وتابناک مستقبل کے لیے وقف تھی۔ وہ ہندوستان کو ایک عالمی طاقت کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ملک کو دفاعی شعبے میں خود کفیل بناکر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔ ڈاکٹر عبدالکلام نے ’’اسرو‘‘ میں رہتے ہوئے زمین کے مدار کے نزدیک سیٹلایٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس کے بعد پوکھرن کا کامیاب جوہری تجربہ اور پھر اگنی، پرتھوئی اور آکاش جیسی میزائل بنانے میں کلیدی کردار ادا کرکے انہوں نے ملک کو نیوکلیا ئی قوت سے بہرہ مند کرکے دنیا بھر میں اس کے وقار کو بلند کیا۔ ان کا یہ جوہری پلان پرامن مقاصد کے لیے تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’قوت ہی قوت کی عزت کرتی ہے‘‘۔ ان عظیم کارناموں کے علاوہ وہ تاحیات ریسرچ اسکالروں کے میر کارواں بنے رہے۔ اپنی نگرانی میں انہو ں نے باصلاحیت افراد کی ایسی ٹیم تیار کی جو ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کے کاموں کو آگے بڑھاتی رہے گی۔ خدا داد صلاحیتوں کے حامل ڈاکٹر کلام نے جوہری قوت میں جو مضبوطی ملک کو عطا کی ہے اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
کلام کی زندگی کا پیغام:
ڈاکٹر کلام کی ۸۴؍ سالہ زندگی سیل رواں معلوم ہوتی ہے۔ ایک ایسی بے مثال اور قابل تقلید زندگی جو اپنے آپ میں حرکت و عمل اور جہد مسلسل کا جاں آفریں پیغام رکھتی ہے۔ ان کی انتہائی کامیاب زندگی کا راز یہ تھا کہ انہو ں نے نامساعد حالات، پریشانیوں ، مصائب و آلام اور تعلیم کے محدود ذرائع کے باوجود اپنی تعلیم مکمل کی۔ دکانوں اور شاہراہوں کی روشنی میں پڑھ کر اگر کوئی انسان اتنا عظیم بن جائے تو اس کے جذبے اور لگن کو سلام کرنا چاہیے۔ وہ باد مخالف کے تھپیڑے کھاتے رہے مگر کبھی پائے استقامت میں نہ تو تزلزل پیدا ہونے دیا اور نہ ہی اپنے مقصد سے سرِمو انحراف کیا۔ انہوں نے ہر پریشانی کا مضبوطی کے ساتھ سامنا کیا۔ ڈاکٹر کلام کہا کرتے تھے ’’انسان کو مشکلات کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کامیابی کا لطف اُٹھانے کے لیے یہ ضروری ہیں۔‘‘ کلام کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک منزل کے کامیاب سفر کے بعد بھی کبھی چین سے نہ بیٹھے بلکہ ایک منزل کے بعد دوسری منزل مسلسل انھیں پکارتی رہی، زندگی کی آخری سانس تک اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے دیوانہ وار اس کے پیچھے دوڑتے رہے۔ ۸۴؍ سال کی عمر میں بھی وہ ایٹمی توانائی سے کہیں زیادہ پرعزم اور طاقتور تھے۔ اس عمر میں بھی وہ جس قدر اسفار کرتے اور خود کو مصروف رکھتے، اسے دیکھ کر دل و دماغ حیران رہ جاتا ہے۔
طلبہ کے لیے ایک نمونہ:
عبقری شخصیت کے مالک ڈاکٹر کلام نئی نسل کے لیے ایک معمار اور رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ طلبہ و نوجوانوں کے لیے منارۂ نور تھے۔ جدو جہد، قربانی ، لگن، سچائی، انتھک محنت جیسے الفاظ سے عبارت کلام کی زندگی میں نئی نسل کے لیے قیمتی اور گراں مایہ اسباق ہیں۔ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے مگر ان کی مطبوعات، مقالات اور تصنیفات موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے انمول تحفہ ہیں، جن سے وہ صدیوں تک جلا حاصل کرتی رہیں گی۔ان کے دل سے نکلنے والے ایک ایک الفاظ نوجوانوں کو عزم وحوصلہ دیتے رہیں گے، ان کی رگوں کو خون، ان کے حوصلوں کو پر اور ان کے وجود کو جوش و حرارت سے لبریز کرتے رہیں گے۔ ان کے انقلاب آفریں جملوں سے وہ عزم، ارادہ، حوصلہ اور کوہستانی شاہین کے مانند جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے جیسی صفات سے متصف ہوکر اپنی زندگی کے کارواں کو کامیابی سے ہمکنار کرتے رہیں گے۔ بڑے سے بڑا مدبر اور چھوٹے سے چھوٹا طالب بھی ان کے خزانۂ علم و عمل سے یکساں طور پر ڈھیر سارے موتی حاصل کرسکتا ہے۔

جوہر جاوید۔ گیا، بہار

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights