ادھورا شعر (طنز و مزاح)

0

زبیر اختر

تذکرہ ہے شعر مکمل کرنے کا… یعنی ایک مصرع موجود ہو اور شعر مکمل کرنا ہو۔’ طرحی‘مصرع کی ایک عام روایت رہی ہے کہ ایک مصرع دے دیا گیا، اب مصرع جوڑ کر شعر مکمل کیا جائے یا پوری غزل ہی بنا دی جائے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی صاحب کا مصرع اٹک گیا (یا پھنس گیا)۔ یعنی ایک مصرع بن گیا دوسرا نہیں بن پارہا۔ اس طرح شعر مکمل کرنے کے بہت سے قصے ہیں۔ غالب اور اقبال کے قصوں سے تو آپ بھی واقف ہوں گے۔ ایک صاحب کا مصرع اٹک گیا:
’’اشک سے دشت بھرے آہ سے سوکھے دریا‘‘
بتایا جاتا ہے کہ ان کے پیٹ میں درد شروع ہو گیا، راتوں کی نیند حرام ہوگئی ،پھر کسی صاحب نے اُسے اس طرح پورا کیا :
’’مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں ، ہرن پانی میں‘‘
کسی شاعر نے مصرع پڑھا ؎
’’ادھر چلمن سے تم جھانکو،ادھر چلمن سے ہم جھانکیں‘‘
پھر اس کی تکرار کرتے چلے گئے، کسی دوسرے صاحب نے طیش میں آ کر شعر مکمل کر دیا ؎
’’لگا دو آگ چلمن کو نہ تم جھانکو نہ ہم جھانکیں‘‘
اسی طرح ایک شاعر روزانہ دریا کے کنارے جاکر’’طرح‘‘ کا مصرعہ الاپتے ؎
’’چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘
جگرؔ صاحب نے جب کہ وہ کمسن ہی تھے یوں مکمل کیا کہ ؎
’’کسی بلبل کا دل جلا ہوگا‘‘۔
اصل قصہ ہمارے عزیز ساتھی احسن صاحب کا ہے۔ موصوف پر بھی جنونِ شاعری کا مرض حملہ آور ہوا،لیکن شروع میں غزل اور شعر کی تعریفات سمجھنے میں کچھ غلطی ہو گئی۔حضرت نے کہیں پڑھا (اور شاید خلافِ معمول صحیح پڑھا) کہ غزل کا ہر شعر معنی مطلب میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، لیکن ذہن میں غزل کی جگہ شعر رہ گیا… اب جو بعد میں اس غلط فہمی کا احساس ہوا تو پتہ چلا کے آس پاس کئی بکھرے ہوئے’’مصرعے‘‘ موجود تھے،کوشش تو بہت کی کہ کوئی مصرع مکمل شعر میں تبدیل ہو جائے، لیکن نہ ہوسکا۔قوت تخیل کی انتہا پر ذہن نے حتمی فیصلہ دے دیا اور وہ خوش ہوکر اس پر مطمئن بھی ہو گئے کہ ایک اکیلے شخص سے ایک ہی مصرع بن سکتا ہے۔مکمل شعر کے لیے کسی دوسرے کی تلاش ضروری ہے۔ فوراً بڑے صاحب (جو کہ’’یقینا‘‘ شاعر ہیں) کے پاس گئے اور مصرع بتایا…
’’ستم ہے اس پری رو کی نگاہیں‘‘
بڑے صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ؎
’’کہ ناگن ہو کوئی غیض و غضب میں‘‘
’’ یہ کیا……؟ کہاں پری رو اور آپ ناگن…؟‘‘
بڑے صاحب مزاح کے موڈ میں تھے (اور وہ اس لیے کہ ہمارا یہ مضمون بھی کچھ مزاحیہ ہی واقع ہوا) کہنے لگے…
’’کہ بکرے خیر اب اپنی منائیں‘‘
’’اتنے اچھے شعر میں بکرا وغیرہ…؟‘‘ احسن صاحب نے شکایت کی۔
’’عاشقوں کے لیے قربانی کا بکرا نہایت موزوں لفظ ہے‘‘
’’نہیں کچھ اور…‘‘
’’کہ چوہے بھاگ کر اب بل میں جائیں‘‘
’’جناب عالی! ہم نے اتنا اچھا مصرع کہا اور آپ ہیں کہ چوہا بلی کر رہے ہیں۔‘‘
’’بلی ہم نے کب کہا؟‘‘
’’ارے ناگن…بکرا وغیرہ…‘‘
’’دیکھو! عشق و عاشقی کا مقام خط استوا سے نہایت بلند ہے اور آج انسانی صفات سطح زمین سے نیچے بلکہ تحت الثریٰ تک…‘‘
’’تحت الثریٰ جانتے ہو؟‘‘
’’جی…؟‘‘
’’جانے دو۔ہاں تو عاشق و معشوق کے لیے انسانوں سے یا صفات انسانی سے تشبیہ مناسب نہیں، اس لیے حیوانوں کا سہارا لیا گیا۔یوں بھی شاعری میں بے انتہا محبت کے لیے بلبل اور جاں نثاری کے لیے پروانے رائج ہیں۔کہیں انسانوں کا بھی ذکر ہے؟البتہ حیوانیت کا تذکرہ ہو تو تشبیہ و استعارہ کے لیے انسانوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔(خیر سے ہم وہاں موجود نہیں تھے ورنہ بتاتے انہیں مجنوں و فرہاد کے بارے میں،انسان ہوکر انسانوں پر طنز،دل جلے کہیں کے۔)
بہرکیف! احسن کا ہاضمہ اتنا قوی نہیں تھا کہ اس طرح کی باتیں برداشت کر سکے،لہٰذا آپ کی تشریف دوسرے رخ پر مبدل ہوئی، یعنی مجھ غریب کے دولت کدے پر وارد ہوئے۔
ہم نے بھی کسی زمانے میں( شاید زمانۂ حال میں ہی) خود کو مصلحتاً شاعر کہا تھا۔حضرت نے بطورِ تمہید اردو ادب کا تذکرہ چھیڑا،پھر شعر و شاعری کا اور آخر کار کہہ ہی بیٹھے کہ…
’’اس باب میں، میں نے بھی کچھ کہا ہے‘‘
’’جی…؟ سنائیے‘‘میں نے استعجابیہ لہجے میں کہا کہ نہ جانے کون سا باب تھا!
’’وہ…دراصل… میں نے بھی تھوڑی شاعری شروع کردی ہے، ایک مصرعہ ہے مکمل کریں…‘‘
یاد نہیں اس وقت ہماری کیا حالت ہوئی ہوگی( دراصل یاد تو اچھے سے ہے، لیکن اس کے لیے جو خاص لفظ ہے وہ یاد نہیں آ رہا۔)
’’ستم ہے اس پری رو کی نگاہیں‘‘۔
واہ! اچھا مصرع کہا آپ نے، ابتدا ہی اتنی اچھی ہے تو یقینا آپ آگے چل کر ایک اچھے شاعر ہو سکتے ہیں…اس طرح کی اور باتیں میں کرتا رہا کہ ذہن میں کچھ آ ہی جائے اور دوستوں کی محفل میں ’’برجستہ شاعر‘‘ کا خطاب بھی مل جائے… اور اس خیال میں کامیاب بھی ہوئے۔ (یا حقیقتاً ہم ’’برجستہ شاعر‘‘ واقع ہوئے ہیں)
’’جو ذہن وہ عقل کو مدہوش کردے‘‘
’’واہ ! کیا کہنے‘‘ احسن صاحب بالکل اچھل پڑے۔ آپ تو یقیناً کمال کے شاعر ہیں… اچھا آگے بھی سوچیے میرے معدے میں طوفان اٹھ رہا ہے۔
’’آگے…؟ کیوں…؟ ‘‘ہم نے اچنبھے میں سوال کیا۔
’’اجی… دوسرے مصرعے کو سن کر ایسا لگ رہا ہے کہ شاعر آگے بھی کچھ کہنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ …اے…اے… بوکھلاہٹ میں ہم نے دوبارہ ذہنی گردش شروع کی لیکن کچھ نہ بن پڑا۔ اس لیے کچھ اور ہی بنا بیٹھے!
’’بات یہ ہے کہ…… آپ نے مصرعے پر غور نہیں کیا، ذہن و عقل مدہوش ہیں، بھلا مدھوشی میں بھی آدمی ڈھنگ سے سوچ سکتا ہے یا کہہ سکتا ہے۔ اس لیے آگے کچھ کہنا دوسرے مصرعے میں جو بات کہی گئی اس کے خلاف ہو گا۔‘‘
ہم نے ایک ہی لے میں یہ بات کہی پھر گہری ٹھنڈی سانس لی…
’’نہیں… کچھ اور…‘‘
احسن صاحب نے بے اطمینانی ظاہر کی۔
اب ہم چونکہ بر جستہ شاعر ہیں، بس یہی سوچتے ہوئے ایک اور مصرع کہہ بیٹھے…
’’ستم ہے اس پری رو کی نگاہیں ۔‘‘
کی نظریں چار ہوں تو موت لازم‘‘
’’واہ واہ ! بہت خوب۔۔۔ کیا کہنے!‘‘ احسن صاحب پھر اچھل پڑے۔(اچھلنا محاورتاً کیونکہ آنجناب کا ڈیل ڈول اچھلنے کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔)
’’جی… آگے کہیں۔۔۔‘‘غالباً شدت جذبات سے کہا گیا۔
’’کیا…؟؟ پھر آگے؟‘‘ اس بار ہم نے سخت لہجہ اختیار کیا…
’’ارے جناب… دوسرا…مصرع…‘‘ احسن صاحب نے اٹکتے ہوئے کہا…
’’خاک مصرع… اس میں سیدھے مرنے کا ہی تذکرہ ہے، پھر کیا آگے؟‘‘
ہم نے مصنوعی غصے میں کہا اور اٹھ کے جانے لگے، البتہ جاتے جاتے زعم قابلیت ایک نصیحت کر بیٹھے:
’’دیکھیے…! ابھی شروعاتی معاملہ ہے تو عشقیہ شاعری نہ کیجئے، لوگ خواہ مخواہ شک کریں گے،اس کے علاوہ جو بھی ہو…‘‘
’’ارے صاحب…! ایک مزاحیہ شعر بھی بنایا تھا میں نے، البتہ معنیٰ مکمل ہونے کے لیے شاید ایک شعر اور لگے… یعنی کہ… وہ… قطعہ غالباً…‘‘
احسن صاحب نے جلدی سے کہا اور ہمارے معدے میں ہلچل سے مچ گئی۔
’’دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے‘‘
’’یہ تو میرؔ کا شعر ہے۔‘‘
’’جی ہاں… اسی کی ’تکفین‘ کی ہے میں نے‘‘
’’کیا…؟ تکفین…؟‘‘
’’ہاں… وہی جو… کوئی مصرع لے کر کرتا ہے‘‘
تب خیال آیا کہ جناب’’ تظمین‘‘ کی بات کر رہے ہیں۔
’’سنائیے‘‘:
’’دیدنی ہے شکستگی دل کی
عمارت یوں تو’بلڈوزر‘ نے ڈھائی‘‘
’’تو یہ مزاحیہ شعر کہا آپ نے؟‘‘
’’جی ہاں… ‘‘جلدی سے کہا گیا…
’’دیکھئے جناب! جہاں مزاح ہو وہاں طنز کا ہونا نہایت ضروری ہے، ورنہ آپ ایک اچھے ادیب یا شاعر نہیں ہو سکتے…‘‘
’’پھر یہ’طنز‘ کہاں تلاش کرتا پھروں؟‘‘
طنز…ہم نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا:
’’طنزیات بہت جگہ مل سکتے ہیں، غربت میں، سبزی فروش یا پھل فروش وغیرہ کے پاس، امیروں اور حکومتوں کی عیش و عشرت اور وحشیانہ پن میں،نوجوانوں کی بے راہ روی میں سماج کی مظلوم اور کچلی ہوئی جنس نازک میں بلکہ آپ کسی ایسے ’ناکام روزگار‘کو پکڑیے جو ’گریجویٹ‘ ہو وہاں طنزیات کا پورا بوریا آپ کے ہاتھ آ جائے گا،اب طنز تلاش کیجیے پھر یہ قطعہ مکمل ہوگا۔‘‘
جناب…ایک… اور…
’’قمر کا کھیل ستاروں سے آنکھ منچولی
’’کیا…؟؟ آنکھ منچولی…؟‘‘
’’وہ دراصل وزن بیٹھانے کے لیے آنکھ منچولی کہا ہے، میں نے اکثر اشعار میں اس قسم کی تبدیلی دیکھی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے…آگے…؟‘‘ہم نے قائل ہو جانے والا لہجہ اختیار کیا۔
’’آگے تو نہیں، ایک ہی مصرع بنایا ہے، آپ مکمل کردیں۔‘‘
’’جی دیکھیے جناب عالی… شروعاتی دور میں آپ مکمل شعر بنائیے، پھر کسی اچھے شاعر یا مجھ سے ہی اصلاح کروالیجیے…
یہ کیا معمہ بنا رکھا ہے بھلے لوگوں کو تنگ کرنے کا…‘‘ میں نے شکایتی لہجے میں کہا اور نکل بھاگا۔
ویسے آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ اتنے اچھے ادبی مضمون میں معدہ اور ہاضمہ وغیرہ کا کیا تذکرہ؟…توجناب عالی! ہم شاعری کو نظامِ انہضام کا رد عمل ہی سمجھتے ہیں ۔ دراصل شاعری لفظ ماخوذ ہے’’لاشعور‘‘ سے اور لاشعور کہتے ہیں خالی معدے کی پکار یا وزنی معدے کی تکلیف کو…‘‘
بس بھی کریے،میں تو لکھتے ہوئے ہی بور ہو گیا اور آپ ہیں کہ پڑھے جا رہے ہیں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights