جدید ڈیموکریسی اور اسلام – ڈاکٹر سلیم خان کی جوابی تحریر پراستدراک

ایڈمن

سعود فیروز اعظمی جدید ڈیموکریسی اور اسلام : ایک مطالعہ – قسط اول جدید ڈیمو کریسی اور اسلام – قسط دوم  (جدید ڈیموکریسی اور موڈریٹ اسلام  (ڈاکٹر سلیم خان ماہنامہ رفیق منزل کے دسمبر 2017 اور فروری 2018کے شماروں میں…

سعود فیروز اعظمی

جدید ڈیموکریسی اور اسلام : ایک مطالعہ – قسط اول

جدید ڈیمو کریسی اور اسلام – قسط دوم

 (جدید ڈیموکریسی اور موڈریٹ اسلام  (ڈاکٹر سلیم خان

ماہنامہ رفیق منزل کے دسمبر 2017 اور فروری 2018کے شماروں میں میراایک مقالہ ” جدید ڈیموکریسی اور اسلام” کے عنوان سے دو قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ یہ ایک طویل مقالہ ہے ۔جسے کئی قسطوں میں شائع کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس مقالے میں جدید ڈیموکریسی اور اسلام کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی طالب علمانہ کوشش کی گئی ہے۔ رفیق منزل مارچ 2018 کے شمارے میں معروف صحافی اور ادیب ڈاکٹر سلیم خان صاحب نے مذکورہ بالا دو قسطوں کے رد عمل میں ایک ‘جوابی تحریر شائع کی ہے۔ اس تحریر میں موصوف نے جدید ڈیموکریسی اور اسلام کے حوالے سے میرے پیش کردہ تصورات کی تردید کی ہے۔ مختلف حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ‘جمہوریت اور اسلام میں کوئی نقطہ اشتراک نہیں ہے۔ڈاکٹر صاحب کی تحریر، تحریر کے اسلوب اور انتخاب الفاظ وغیرہ کا بغور مطالعہ کرنے کےپر معلوم ہوا کہ مقالے میں میری منشاء اور پیش کردہ خیالات کو سمجھنے میں موصوف سے چوک ہوئی ہے۔ قارئین کسی قسم کے خلط مبحث کے شکار نہ ہوں،اور وہ میرے موقف کو بلا کسی ریب و ابہام زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے بعد دونوں میں سے جو موقف قوی تر ہو اسےاختیار کرسکیں اس کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں مختصر طور پر ڈاکٹر صاحب کی تنقیدات کا ایک جایزہ پیش کردوں۔ذیل کی تحریر اسی تناظر میں ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی پوری تحریر اس بات کی غماز ہے کہ اس میں جذباتی رنگ غالب اور علمی رنگ مفقود ہے۔ تنقید صحتمند طریقے سے، زیادہ مناسب الفاظ و اسلوب میں بھی ہوسکتی تھی۔افسوس کہ علمی و اجتہادی مسائل پر خالص جذباتی انداز میں گفتگو کرنا ہمارا قومی شعار بنتا جارہا ہے۔ ہم ایک رائے کو اس قدر authoritative انداز میں پیش کرتے ہیں کہ اس حقیقت کو فراموش کربیٹھتے ہیں کہ ڈسکشن میں فریق اول یا فریق ثانی کسی کا بھی فہم منزل من اللہ نہیں ہے۔ دونوں فہم یا دونوں رائیں حقائق کو سمجھنے کی انسانی کوششیں ہیں۔ اس سلسلے میں جناب محمد بن ادریس الشافعیؒ نے ایک شاندار نمونہ پیش کیا ہے جسے تمام مجتہدین اور اختلافی امور پر گفتگو کرنے والے تمام افراد کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ شافعیؒ کہا کرتے تھے ’’رأيي صواب یحتمل الخطأ، و رأي غیري خطأ یحتمل الصواب‘‘ (میری رائے صحیح ہے ، لیکن اس کے غلط ہونے کا امکان بھی ہے، میرے علاوہ لوگوں کی رائے غلط ہے، لیکن اس کے صحیح ہونے کا امکان بھی ہے)۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے جوابی مضمون کا عنوان رکھا ہے ’’جدید ڈیموکریسی اور موڈریٹ اسلام‘‘ جب کہ میرے مقالے کا عنوان تھا ’’جدید ڈیموکریسی اوراسلام‘‘۔ اسی سے واضح ہوجاتا ہے کہ موصوف نے میرے مضمون کو کتنی ادنی سطح پر سمجھا ہے۔’’ موڈریٹ اسلام‘‘ کا اضافہ کرکے ڈاکٹر صاحب مقالہ نگار کی منشا کے برخلاف قاری کو یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ حقیقی ‘جمہوریت اور ‘حقیقی اسلام میں تو کوئی رشتہ نہیں ہے، البتہ جمہوریت کے ساتھ ‘جدید کا اضافہ کرکےکھینچ تان کی بنیاد پر اسلام سے اس کا رشتہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تو کیا مضائقہ ہے اگر اسلام کے ساتھ بھی ‘موڈریٹ کا اضافہ کردیا جائے۔ اس حوالے سےانہوں نے طنزیہ انداز میں لکھا ہے ’’میں نے سوچا اگر ڈیموکریسی کے ساتھ جدید کا اضافہ کردیا گیا ہے تو بے چارے اسلام کو تنہا کیوں چھوڑا جائے‘‘ اس کے بعد اپنے اس عمل کی توجیہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں ’’یہ چونکہ ڈیموکریسی کے بنیادی تقاضے انصاف کے خلاف ہے اس لئے موڈریٹ کی اضافت تو لگا دی البتہ ترجمہ کرنے کی جرات نہیں کرسکا، کہیں مولانا امین اصلاحی صاحب کی طرح مجھے بھی بودہ نہ گھوشت کردیا جائے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ بات اس قدر سطحی نہ تھی جتنا انہوں نے سمجھا ہے۔ اس سادہ لوحی پر سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ؛
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض ہے کہ یہ بات سماجیات اور سیاسیات کے ایک معمولی طالب علم کے بھی علم میں ہوتی ہے کہ ڈیموکریسی اپنی تاریخ میں دو مرحلوں سے گزری ہے۔ ایک قدیم ڈیموکریسی ہے جس کی ابتداءتقریبا ڈھائی ہزار سال قبل مسیح میں یونان اور ایتھینز میں ہوئی تھی۔ دوسری جدید ڈیموکریسی ہے جس کی تاریخ 1799 کےانقلاب فرانس سے وابستہ ہے۔ میرے مقالے کا اصل موضوع یہی جدید ڈیموکریسی ہے۔ میں نے اگر اپنے مقالے میں ’’جدید ڈیموکریسی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے تو اس لئے نہیں کہ میں ڈیموکریسی کا کوئی تحریف شدہ معنی پیش کرنے جارہا ہوں، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب تاثر دینا چاہتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ ڈیموکریسی کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کی دو اقسام میں فرق کو ملحوظ رکھا جا سکے۔ ڈیموکریسی کا تاریخی تناظر بیان کرتے ہوئے میں نے اپنے مقالے میں اس بات کی وضاحت بھی کردی تھی۔اگر ڈاکٹر صاحب نے مقالہ نگار کی تحریر میں اپنے خیالات Preconceived notions پڑھنے کی کوشش نہیں کی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اس معمولی منشاءکو نہیں سمجھ سکے؟

تیسری بات یہ کہ لازمی نہیں کہ ‘ ماڈریٹ اسلام ‘ کی اصطلاح محض تضحیک اور استہزاء کے لئے ہمیشہ منفی معنوں میں ہی استعمال کی جائے۔ اسلامی فکر دو چیزوں کا مرکب ہے ایک اسلامی نصوص یعنی قرآن اور صحیح حدیث رسول، دوسرے ان نصوص کا مطالعہ کرنے والے اہل علم کا فہم و تعبیر۔ نصوص کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک جامد شئے ہیں۔ لہٰذا عملی اسلام کا انحصارتو انسانی تعبیرات پر ہی ہے۔ انسانی تعبیرات صحیح اور غلط، مناسب اور غیر مناسب دونوں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے مختلف تصورات دین اور دین کی تعبیر ہائے مختلف پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک تعبیر کو تنگ نظر اور دوسری تعبیر کو ماڈریٹ کہا جا سکتا ہے۔اگر آپ اپنے تصور دین کی روشنی میں کسی دوسرے تصور دین کو ماڈریٹ کہنے کا حق رکھتے ہیں، جس کا اظہار آپ نے کیا ہے، تو آپ خود ہی دوسروں کو بھی یہ حق فراہم کرتے ہیں کہ وہ آپ کی تعبیر کو تنگ نظر، محدود یا کسی اور مناسب حال نام سے موسوم کریں۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ جملہ بھی میرے منشا کی غلط ترجمانی پر مبنی ہے کہ ’’۔۔۔۔لیکن ترجمہ کرنے کی جرات نہیں کرسکا، کہیں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی طرح مجھے بھی بودہ نہ گھوشت کردیا جائے‘‘۔ اس جملے کو پڑھنے کے بعد قاری یہ گمان کرے گا کہ میں نے اپنے مقالے میں مولانا امین احسن اصلاحی کویا ان کی شخصیت کو بودہ قرار دیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے۔یہاں میں اپنی تحریر نقل کئے دیتا ہوں۔

مقالے کی قسط دوم میں’ ‘ڈیموکریسی کا اردو ترجمہ‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اخیر میں، میں نے لکھا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ ڈیموکریسی کا ترجمہ جمہوریت کر دینے سے خاص طور پر اسلام پسند حلقوں میں بڑے فکری مخمصے پیدا ہوگئے ہیں۔ اسی اصطلاح کی بنیاد پر لوگوں نے یہ قیاس کرلیا کہ جمہوریت ایک غیر اسلامی نظریہ اور ‘طاغوتی نظام ہے۔ کیوں کہ جمہوریت کا معنی ‘جمہور کی حکومت یعنی حاکمیت جمہور ‘ہوتا ہے۔ اور اسلام میں حاکمیت صرف اللہ کے لئے خاص ہے۔ اس فکری کنفیوژن کا شکار ہونے سے جلیل القدر اصحاب فکر بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔گزشتہ صدی کےایک جید عالم دین کے درج ذیل خیالات اسی کنفیوژن کےغماز ہیں؛ ’’تاریکی اور روشنی میں،رات اور دن میں،بدی اور نیکی میں جو فرق ہےوہی جمہوریت اور اسلام میں ہے۔آپ فلسفہ کی رو سے بھی غور کرلیں۔آپ جمہوریت کی تعریف کریں۔ عوام کی حکومت،عوام کے لئے،عوام کے ذریعہ سے،عوام کی بہبود کے لئے، یہی تعریف ہے آپ کسی جگہ پڑھ لیجئے۔ اسلام میں اللہ کی حاکمیت،اللہ کی حکومت،اللہ کے قانون کے ذریعہ سے ،اللہ کے ماننے والوں کے لئے،موٹی سی یہ تعریف ہے،کہیں پڑھ لیں۔اب ان دونوں میں ذرا جوڑ ملائیے۔ہے کوئی جوڑ ملتا ہوا،کوئی تک ہے؟‘‘
اس قسم کے بودے خیالات ڈیموکریسی ااور مغربی ڈیموکریسی کے درمیان فرق نہ کرنے کا لازمی نتیجہ ہیں۔فرق کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگوں نے ڈیموکریسی کو ‘جمہوریت کہہ کر اس اصطلاح کو ‘عوام کی مطلق حاکمیت کا مترادف بنالیا۔

درج بالا اقتباس میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ میں نے ‘اس قسم کے بودے خیالات ‘ کے الفاظ استعمال کرکے مولانا اصلاحی کی شخصیت کو نہیں بلکہ موضوع زیر بحث میں مولانا کے ‘خیالات کو بودہ کہا ہے۔ ایک ہی شخص کے بعض خیالات لائق صد تحسین اور بعض خیالات بودے ہوسکتے ہیں،مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ کسی شخص کے بعض متعین خیالات کو بودا قرار دینے سے اس کی پوری شخصیت ہی کو بودا قرار دینا لازم آتا ہے۔ بھلا میرے لئے یہ کیوں کر ممکن ہے کہ میں ایک شخص کو ‘جلیل القدر اصحاب فکر اور صدی کے ‘جید عالم دین میں شمار کروں پھر اسی کی شخصیت کو بودہ قرار دوں۔ ڈاکٹر صاحب نے بجائے اس کے کہ تعبیر کو بغور پڑھ کر راقم کا منشاء جانتے، معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی بھاگم بھاگ ایک سرسری نگاہ ڈالی اور راقم کے الفاظ میں اپنا معنی اڑا لے گئے۔

‘ڈیموکریسی کا اردو ترجمہ اس بحث میں میں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ڈیموکریسی کی انگریزی اصطلاح میں اب معنی کی جو وسعت پیدا ہوگئی ہے ‘جمہوریت کی اصطلاح اس کے جملہ ابعاد کا احاطہ نہیں کرتی۔ چنانچہ میں نے ‘جمہوریت کو ڈیموکریسی کا ناقص ترجمہ مانتےہوئے جمہوریت کی بجائے ڈیموکریسی ہی کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اور قارئین سے صرف گزارش کی ہے کہ وہ اس پہلو پر بھی تنقیدی زاویے سے غور و فکر کریں۔ اس کے رد عمل میں ڈاکٹر صاحب پریشان ہوکر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ ’’نہ جانے کیوں جوبات گھوشنا میں ہے وہ اعلان میں نہیں ہے۔‘‘ در اصل یہ لسانیات سے متعلق ایک مستقل بحث ہے ۔ اس حوالے سے میں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ الفاظ کے انتخاب و استعمال کا تعلق مذاق لسان سے ہے، جو مختلف ہوتا ہے ۔الگ الگ زبانوں کی خصوصیات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ مجھےذاتی طور پر اردو اور بنگالی زبانوں کی شیرینی، عربی زبان کا زور خطابت، ملیالم زبان کے لرزہ خیز نعرے اور انگریزی متن میں لفظوں کا حسن ترتیب کسی اور زبان میں نظر نہیں آتا۔ میرے نزدیک لفظ محبت میں جو سرشاری ہے وہ love اور پریم میں نہیں ہے، لفظ زندگی میں زندگی کا جو احساس ہے وہ جیون یا لائف میں نہیں ہے، جو اعتماد لفظ سنگھرش میں ہے وہ جد و جہد میں نہیں ہے۔

گرمجوش عزم و حوصلہ کا جو اظہار لفظ movement اور آندولن میں ہے وہ تحریک میں نہیں ہے۔ معنی کی جو ادائیگی لفظ E-learning میں ہے وہ برقی آموزش ‘ میں ہرگزنہیں ہے۔لہٰذا ممکن ہے کہ جو حقیقت بیانی ڈیموکریسی میں ہے وہ جمہوریت میں نہ ہو۔ اس پر کم از کم غور تو کیا ہی جاسکتا ہے۔لہٰذالسانی تکثیر سے متعلق اس ڈسکورس پر پریشان ہونے کی بجائے اگر ڈاکٹر صاحب اسے در خور اعتناء سمجھتے، اس پر غور کرنے کی زحمت گوارا فرماتے تو موضوع کو سمجھنا آسان ہوتا۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔

ڈاکٹر صاحب نے ابراہم لنکن کی ڈیموکریسی کی تعریف پیش کرکے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ابراہم لنکن نے جمہوریت کی تعریف میں پیوپل یا جمہور پر کیوں زور دیا ہے؟ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں ’’چلئے مان لیا جمہوریت کی اصطلاح کے توسط سے ڈیموکریسی کا مطلب سمجھنے کی کوشش میں مولانا دھوکہ کھا گئے، مگر ابراہم لنکن کا کیا کیا جائےکہ اس نے جمہوریت کی تعریف میں آزادی، انصاف،قانون اور رواداری وغیرہ کا تذکرہ کرنے کی بجائے لفظ ’’پیوپل‘‘ کی تین بار گردان کی۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح جمہوریت کی بابت غلط فہمی پھیلانے کا اولین فریضہ کسی اردو مترجم نے نہیں بلکہ خود ابراہم لنکن نے ادا کیا‘‘۔ ڈاکٹر موصوف کے یہ الفاظ بھی واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ انہوں نے ابراہم لنکن کی تعریف کا مطالعہ بھی سرسری اور جذباتی طور پر کیا ہے۔ میں نے اپنے مقالے کی پہلی قسط میں متعدد دائرۃ المعارف اور انسائیکلوپیڈیا کی روشنی میں یہ بتا یا تھا کہ ڈیموکریسی کی تعریف میں جب ‘عوام کی حکومت یا ‘عوام کا اقتدار کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو محض حاکمیت کا مسئلہ زیر بحث نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک بادشاہ، ایک آمر، ایک ڈکٹیٹر یا چند افراد کی تمام عوام پر حکومت کے مقابلے میں عوام کی حکومت مراد ہوتی ہے۔ یعنی اجتماعی زندگی سے متعلق وہ فیصلے جو تمام انسانوں پر اثر انداز ہوں گے، ان تمام میں عوام کی شرکت ہوگی۔ نہ کہ ایک ڈکٹیٹر یا چند افراد تمام انسانوں کے سپید و سیاہ کے مالک ہوں گے۔

حاکمیت کا مسئلہ خاص طور پروہاں زیر بحث آتا ہے جب گفتگو سیکولر جمہوریت پر ہورہی ہو۔ اسے جمہوریت نہیں بلکہ مغربی سیکولر جمہوریت کہتے ہیں۔جس میں مذہب اور خدا کے وجود کا انکار کرکے انسانوں ہی کو خدا بنا لیا گیا ہے۔۔ ابوالاعلی مودودیؒ نے بھی اپنی تحریروں میں خالص جمہوریت اور مغربی جمہوریت میں واضح طورپرفرق کیا ہے۔ مقالے کی اگلی قسطوں میں اس پر کسی قدر تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔ ابراہم لنکن کی تعریف کے رد عمل میں امین احسن اصلاحیؒ نے جو متبادل تصور پیش کیا ہے وہ خود بھی محض نصف سچائی پر مشتمل ہے۔ اصلاحیؒ کہتے ہیں ’’اسلام میں اللہ کی حاکمیت، اللہ کی حکومت، اللہ کے قانون کے ذریعہ سے ،اللہ کے ماننے والوں کے لئے‘‘ یہ بات بالکل برحق ہے۔ کسی تعلیم یافتہ مومن کو اس سےانکار نہیں ہوسکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ کی حاکمیت اور اللہ کا قانون عملا جاری و ساری کیسے رہے گا؟ کیا اس کام کی تکمیل کے لئے خدا تعالی خود زمین پر تشریف لائیں گے؟ کیا انسانوں میں سے چند انسانوں کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ انسانوں کی مرضی کا لحاظ کئے بغیر اللہ کی حاکمیت، اللہ کی حکومت، اللہ کے قانون کے ذریعہ سے، اللہ کے ماننے والوں کے لئے قائم کر دیں گے؟ہرگز نہیں۔ جب آپ ‘جمہوریت کے مقابلے میں اس قسم کی بات کرتے ہیں جس قسم کی بات مولانا اصلاحیؒ نے کی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ‘اسلامی نظام میں اختلافی مسائل میں عوام کی رائے کا احترام نہیں ہوگا؟ عوام کے حقوق و اختیارات تسلیم نہیں کئے جائیں گے؟ حکومتوں کے انتخاب میں عوام کا رول نہیں ہوگا؟ اخروی فلاح کے ساتھ ساتھ عوام کی دنیوی بہبود حکومتوں کا ہدف نہیں ہوگا؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ بالکل ہوگا۔ لہذا میرا ماننا یہ ہے کہ ’’اسلامی نظام بھی الہی ہدایات کی روشنی میں فار دی پیوپل،آف دی پیوپل اور بائی دی پیوپل نظام ہی ہوگا۔‘‘ فاردی پیوپل کا مطلب یہ کہ اس نظام میں فلاح کے اسلامی تصور کے مطابق حکومتیں عوام کی فلاح کے لئے کام کریں گی۔

آف دی پیوپل کا مطلب یہ کہ اسلامی نظام چلانے کے لئے خدا تعالی یا کوئی فرشتہ زمین پر نہیں اترے گابلکہ خود انسان ہی اس اسلامی نظام کے کارندے اور دست و بازو ہوں گے۔ بائی دی پیوپل کا مطلب یہ کہ وزیر اعظم یا صدر مملکت اللہ تعالی کی جانب سے مبعوث نہیں ہوں گے۔ کوئی شخص یا کوئی جماعت مسلح انقلاب کے ذریعے مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی ذمہ دار نہیں بن جائے گی بلکہ مسلمان خود اپنی اجتماعی مرضی (Consent) سے الہی ہدایات کے عین مطابق کسی فرد یا کسی جماعت کو نظم اجتماعی کی زمام کار سونپیں گے۔

ڈاکٹر موصوف کا کہنا ہے کہ ’’ایتھینز کے مدبر پیرک لز کی تقریر کے اقتباس کی بنیاد پر جمہوریت کو خوشنما بنا کر پیش کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ برطانوی پروفیسر مائیکل مین کی کتاب ’’دا ڈارک سائیڈ آف ڈیموکریسی‘‘ پر بھی نظر ڈالیں تاکہ فریب کا پردہ اٹھے۔‘‘ اس جملے میں ڈاکٹر صاحب نے ڈیموکریسی کو ‘خوشنما بنا کر پیش کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ حالانکہ وہ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتے۔ میں جو کچھ پیش کیا ہے وہ دراصل ڈیموکریسی ہی ہے۔ دوسری طرف مقالے کی پہلی قسط میں میں نے یہ صراحت بھی کردی تھی کہ؛ ’’ڈیموکریسی ہی سب سے بہترین اور نقایص سے پاک طریقہ حکومت ہے،اس سے بہتر کسی طرزحکومت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ،یہ دعوی نہ کل ارسطونے کیا تھا اور نہ آج ابراہم لنکن نے کیا ہے ۔نہ کوئی اورکر سکتا ہے۔ڈیموکریسی کا تعلق انسان کی تاریخ، شعور اجتماع اور اس کے تمدن سے ہے۔شعور و تمدن کا ارتقا بتدریج ہوا ہے اور بتدریج ہی ہوگا۔ اہل اسلام اور اسلامی فکربھی اقدار انسانی کے تدریجی ارتقا کے فطری پروسیس سے باہر نہیں ہیں۔ اس لئے اہل اسلام بھی ڈیموکریسی سے لاتعلق نہ ہیں نہ ہوسکتے ہیں۔ ڈیمو کریسی کی بنیادی اقدارخود اسلام سے مستعار ہیں۔ اسلام ،دین الہی ہونے کی وجہ سے، موجودہ ڈیموکریسی کی اصولی خا میوں پر نگاہ بھی رکھتا ہےاور ان کی اصلاحات کا لائحہ عمل بھی پیش کرتا ہے۔ جب اسلامی فکر اور انسانی شعور تدریجی ارتقا کے مزید مراحل سے گذریں گے تو ڈیموکریسی سے بھی موزوں تر کوئی طرز حکومت لازما ًسامنے آ جائے گا۔‘‘

اگر ڈیموکریسی کو ‘خوشنما بنا کر پیش کرنا ہی میرا مقصد ہوتا تو پھر یہ بات کہنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں تھی۔کاش کہ ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ بالا پیراگراف کا اطمینان کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا کہ اگر وہ ایسا کرتے تو نیت پر شک کرنے سے باز رہتے۔

ڈاکٹر صاحب نے ڈیموکریسی کی اپنی مخالفت کو مضبوط ثابت کرنے کے لئے مائیکل مین کی کتاب کا سہارا لیا ہے ۔ در آں حالیکہ اس کتاب کا حوالہ دینے سے ان کے موقف کی بالکل تائید نہیں ہوتی۔ کیوں کہ اول تو یہ کہ مائیکل مین کی اس کتاب میں ڈیموکریسی موضوع بحث نہیں ہے۔ بلکہ ان ممالک کی استعماری سیاست موضوع بحث ہے جنہوں نے بیسویں صدی میں قوم پرستی کی بنیاد پر ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیا اور کمزور ممالک کو اپنا غلام بناکر ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی،اور اتفاق سے وہ ڈیموکریٹک بھی تھے۔ اسی لئے کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ دیکھیں گے کہ اس میں ڈیموکریسی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر نظریاتی گفتگو انتہائی کم، نہ کے برابر کی گئی ہے اور گفتگو کا اصل مرکز و محور مختلف ممالک کی عملی سیاست ہے۔ دوسرے یہ کہ ڈیموکریسی کے ڈارک سائیڈ کے باوجود مائکل مین نے اپنی اسی کتاب میں ڈیموکریسی کو آئیڈیل طرز حکومت بھی تسلیم کیا ہے۔ میرے ان دونوں دعووں کو ذیل کے اقتباس میں خود کتاب کے مصنف مائیکل مین کے الفاظ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے؛

Let me make clear at the outset that I do not claim that democracies routinely commit murderous cleansing. Very few have done so. Nor do I reject democracy as an ideal- I endorse that Ideal (The Dark Side of Democracy, Michael Mann, P. No. 003, Cambridge University Press, 2005)

’’میں ابتدا میں ہی یہ واضح کردوں کہ میں یہ دعوی نہیں کررہا ہوں کہ ڈیموکریسیز ہمیشہ خونخوار قتل عام کا ارتکاب کرتی ہیں۔ بلکہ اب تک محض چند ڈیموکریسیز ہی نے ایسا کیا ہے۔ اور نا میں ڈیموکریسی کو ایک آئیڈیل کے طور پر مسترد ہی کرتا ہوں۔ میں اس آئیڈیل کی تصدیق کرتا ہوں‘‘۔
مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جس کتاب کے مطالعہ کا مشورہ ‘ڈیموکریسی کو خوشنما بنا کر پیش کرنے والوں کو دیا ہے اس کتاب کے بالکل ابتدائی حصے کی یہ سطریں ان کی نظروں سے بھی ضرور گزری ہوں گی۔

واضح رہے کہ مائیکل مین نے اپنی کتاب میں ڈیموکریسی کے جتنے سیاہ پہلو بیان کئے ہیں وہ در حقیقت ڈیموکریسی کے کم اور الٹرا نیشنلزم کے سیاہ پہلو زیادہ ہیں۔

مائیکل مین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے امریکہ کی ‘عظیم ترین اور اسرائیل کی ‘عظیم ڈیموکریسی پر تنقید کی ہے۔ پھر آگے چل کر آپ نے فرانس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ان ڈیموکریسیز پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر موصوف نے عیاشی، ہم جنس پرستی،تعدد ازواج اور حجاب وغیرہ کےمسائل پر گفتگو کی ہے۔ان سارے مسائل کی تان موصوف نے ڈیموکریسی پر توڑی ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ڈیموکریسی کےیا کسی فکر و فلسفہ کے حوالے سے حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھ کر آپ کوئی رائے قایم نہیں کرسکتے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ‘ملوکیت بھی ‘خلافت کا ‘ڈارک سائیڈ ہے! یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ‘اسلامی تاریخ کے اموی، عباسی ،فاطمی اور عثمانی دور حکومت میں مسلمانوں نے مسلمانوں کا جو قتل و خون کیا ہے، ظلم و جبر کا جو بھی فساد مچایا ہے سب ‘دا ڈارک سائیڈ آف اسلام ہے! یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس وقت ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان، ‘اسلامی جمہوریہ ایران، اور سعودی عرب، امارات، مصر اور شام وغیرہ کی حکومتیں جو کچھ کررہی ہیں وہ سب ‘دا ڈارک سائیڈ آف اسلام ہے! یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس وقت عالمی سطح پر مسلمانوں کی جو اخلاقی،علمی،سیاسی و معاشی صورت حال ہے سب ‘ دا ڈارک سائیڈ آف اسلام ‘ ہے!

اپنے مضمون میں مذکورہ بالا الجھنوں کے علاوہ بھی ڈاکٹر صاحب نے ڈیموکریسی کے حوالے سے اپنی متعدد الجھنوں کا اظہار کیا ہے۔ ان الجھنوں پر بظاہر اشکالات کا گمان ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔رفیق منزل کے ایک مضمون میں ممکن نہیں ہے کہ ان تمام الجھنوں کا جایزہ لیا جائے۔ لہذا طول کلام سے بچنے کی خاطر میں اس وقت ان سے تعرض نہیں کررہا ہوں۔ اگر توفیق ملی تو اصل مقالے کی اگلی قسطوں میں ان پر گفتگو کی جائے گی۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں