جدید ڈیموکریسی اور اسلام : ایک مطالعہ – قسط اول

0

سعود فیروز

ڈیموکریسی کی سمجھ پیدا کرنا خاص و عام کے لئے انتہائی آسان کام تھا۔ مگرمشرقی دنیا کے بعض افراد کی بے جا شدت پسندیوں نے ڈیموکریسی اور سیکولرزم کی بحث کو ایک دوسرے میں اس طرح سے خلط ملط کردیا ہےکے عوام کے لئے اسے سمجھنا بظاہر دشوار ہو کر رہ گیا ہے۔
ڈیموکریسی کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے کہ یہ فرد کی شخصیت کے احترام پر مبنی ایک طرز فکرہے جو مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد عہد موجود کے شعور کا حصہ بن چکاہے۔ ڈیموکریسی شرق و غرب کے تمام انسانوں کی مشترکہ میراث ہے۔ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فرد اور عوام سے متعلق فیصلوں کے اختیار پر فرد واحد یا چند افراد کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ اپنے اجتماعی معاملات طئے کرنے کے مجاز عوام خود ہوتے ہیں۔ ڈیموکریسی بذات خود کوئی فلسفہ حیات یا نظریہ زندگی نہیں ہے بلکہ یہ کسی فلسفے یا نظریہ زندگی کو عملا نافذ کرنے کے محض ایک رویے کا نام ہے۔ انسان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی نظریہ کو سماج میں عملا جاری و ساری کرنے کے دوہی راستےہوسکتے ہیں؛ پر امن یا پرتشدد۔ ڈیموکریسی پرامن راستہ ہے۔مغربی سیکولرنظریات کی تبلیغ و اشاعت بھی فسطائی اور جمہوری ہر دو طریقے سے ہوسکتی ہے، اور اقامت دین کی کوشش بھی جبرو تشدد یا جمہوری ہر دو طریقے سے ممکن ہے۔ ڈیموکریسی فی نفسہ کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے بلکہ یہ کسی فکر و فلسفے کو روبہ عمل لانے کا ‘آج کا طریقہ ہے۔
ڈیموکریسی ہی سب سے بہترین اور نقائص سے پاک طریقہ حکومت ہے،اس سے بہتر کسی طرزحکومت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ،یہ دعوی نہ کل ارسطونے کیا تھا اور نہ آج ابراہم لنکن نے کیا ہے ۔ نہ کوئی اورکر سکتا ہے۔ ڈیموکریسی کا تعلق انسان کی تاریخ ،شعور اجتماع اور اس کے تمدن سے ہے۔ شعور و تمدن کا ارتقا بتدریج ہوا ہے اور بتدریج ہی ہوگا۔ اہل اسلام اور اسلامی فکربھی اقدار انسانی کے تدریجی ارتقا کے فطری پروسیس سے باہر نہیں ہیں۔ اس لئے اہل اسلام بھی ڈیموکریسی سے لاتعلق نہ ہیں نہ ہوسکتے ہیں۔ ڈیموکریسی کی بنیادی اقدارخود اسلام سے مستعار ہیں۔ اسلام، دین الہی ہونے کی وجہ سے موجودہ ڈیموکریسی کی اصولی خا میوں پر نگاہ بھی رکھتا ہےاور ان کی اصلاحات کا لائحہ عمل بھی پیش کرتا ہے۔ جب اسلامی فکر اور انسانی شعور تدریجی ارتقا کے مزید مراحل سے گذریں گے تو ڈیموکریسی سے بھی موزوں تر کوئی طرز حکومت لازما سامنے آ جائے گا۔

ڈیموکریسی کا لغوی معنی و مفہوم

ڈیموکریسی کے لُغوی معنی کی تحقیق اس کے اصل معنی متعین کرنے میں معاون ہوگی۔کسی اصطلاح کے اگر ایک سے زیادہ مفہوم عام ہوں،اور یہ احتمال بھی ہو کہ ان میں سے کوئی ایک ہی مفہوم صحیح مفہوم ہے اور باقی مفہوم سوئے فہم کا نتیجہ ہیں،تو صحیح ترین معنی و مفہوم تک رسائی کے لئے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس اصطلاح کی اصل (Origin) کی طرف رجوع کیا جائے۔اورلغوی معنی جس معنی کی طرف رہنمائی کرے اسی کو صحیح معنی قرار دیا جائے۔ ڈیموکریسی کے ساتھ بھی چونکہ یہی معاملہ ہے کہ اس اصطلاح کے متعدد معنی رائج ہیں ۔ اس کا ایک معنی تو وہ ہے جو ماہرین سیاسیات بیان کرتے رہے ہیں۔ان کے نزدیک ڈیموکریسی ایک طرز حکومت ہے جس میں عوام کی مرضی کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ڈیموکریسی کا دوسرا مفہوم وہ ہے جو اس وقت زبان زدعام ہے۔جس میں بتایا جاتا ہے کہ ڈیموکریسی ایک نظریے یا نظام کا نام ہے۔ مسلم حلقوں میں اسے بالعموم نظریہ یا نظام سے آگے بڑھ کر ‘باطل نظریہ یا ‘باطل نظام بتایا جاتا ہے۔اس لئےان دونوں میں صحیح معنی کون سا ہے یہ جاننے کے لئے ہمیں لفظ کے لُغوی معنی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

انگریزی میں لفظ ڈیموکریسی ، یونانی زبان کے لفظ demokratia سے ماخوذ ہے۔ یونانی لفظ ’’ ‘ڈیموکریشیا،، دو یونانی لفظوں ‘ڈیموس(demos) اور ‘کریٹوس (kratos) کا مرکب ہے۔ ‘ڈیموس کا معنی ‘عوا م کا ہوتا ہے اور ‘کریٹوس کےمعنی ‘حکومت، حکمرانی، یا اقتدار کے ہوتے ہیں۔ اس طرح ‘ڈیموکریشیا یعنی ڈیموکریسی کا معنی ہوگا ‘عوام کی حکومت،عوام کی حکمرانی یا عوام کا اقتدار۔
انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں رابرٹ اے کے حوالے سے ڈیموکریسی کی تعریف اس طرح درج کی گئی ہے؛
Democracy, literally,rule by the people. The term is derived from the Greek demokratia, which was coined from demos (people) and kratos (rule) in the middle of the 5th century BC to denote the political systems existing in some Greek city-states, notably Athens.
(Democracy, Robert A. Dahl, Encyclopaedia Brtinannica(
ڈیموکریسی،لغوی ’’معنی کے اعتبارسے،عوام کے اقتدار کو کہتے ہیں۔ یہ یونانی اصطلاح ڈیموکریشیاسے ماخوذ ہے، جوکہ پانچویں صدی قبل مسیح کے درمیان اس وقت یونان کی بعض شہری-ریاستوں مثلا ایتھینز میں موجود نظم سیاسی کو ظاہر کرنے کے لئے ‘ ڈیموس ‘ (عوام) اور ‘کریشیا( اقتدار) سے مل کربنی ہے۔،،

کیمبرج انسائیکلو پیڈیا ،میں ڈیموکریسی کی تعریف یوں کی گئی ہے؛

“Democracy: From Greek ‘demos’ (people) and ‘kratia’ (authority) hence ‘rule by the people’ contrasted with rule by few (oligarchy) or by one (monarchy or tyranny).” (Page No. 215/ The Cambridge Encyclopedia, Edited by David Crystal, Published by Cambridge University Press, Updated edition 1994)

’’ڈیموکریسی:یونانی الفاظ ‘ ڈیموس ‘ (عوام) اور ‘کریشیا( اقتدار) سے ماخوذ ہے،لہٰذا اس کے معنی ‘عوام کے اقتدار ‘ کے ہیں۔ یہ چند افراد (طبقۂ امرا)ک حکومت یا ایک شخص کی حکومت (بادشاہت یا آمریت) کی ضد ہے۔،،

عربی میں دائرۃ المعارف میں اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے؛
’’ الدیمقراطیۃ :کلمۃ یونانیۃ معناھا حکم الشعب و یراد بھا الحالۃ التی فیھا یکون زمام الاحکام بید عموم الامۃ وھی بخلاف حکومۃ الاعیان،،
( صفحۃ 232 / دائرۃ المعارف، المجلد الثامن، مولفہ : المعلم بطرس البستانی، الناشر: دارالمعرفۃ، بیروت،لبنان)
’’(ڈیموکریسی)یونانی لفظ ہے جس کے معنی عوام کی حکومت کے ہیں۔ اس کا مطلب ایک ایسی حکومت ہے جس میں اقتدار کی زمام عوام الناس کے ہا تھوں میں ہوتی ہے۔اور یہ مطلق العنان حکومت کی ضد ہے۔،،
جامع اردو انسائیکلو پیڈیا اردو میں ڈیموکریسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے؛ ’’ ڈیموکریسی کے معنی محض ایک خاص طرز حکومت کے ہیں جس میں عوام یا بہت سے لوگ سیاسی کنٹرول کا استعمال کریں۔

لغوی معنی کاخلاصہ

ڈیموکریسی کی مختلف زبانوں میں درج بالا تعریفات پر نظر ڈالنے سے بصد صراحت معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریسی ایک طرز حکومت یا نظم سیاسی کا نام ہے۔ اس طرز حکومت یا نظم سیاسی کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اقتدار کی طاقت سے کوئی ایک فرد یا محض چند افراد متمتع نہیں ہوتے بلکہ اس کی مکمل باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ عوام پر عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ ان تعریفات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جمہوری طرز حکومت، بادشاہت اور آمریت(یعنی عوام پر ایک فرد یا چند افراد کی حکومت) جیسے طرزہائے حکومت کی ضد ہے۔ پھر ان ہی تعریفات سے منطقی طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈیموکریسی معروف معنوں میں کوئی فلسفہ زندگی(Philosophy of Life) یا نظریہ حیات(Ideology) نہیں ہے۔
لُغوی معنی کی روشنی میں ڈیموکریسی کا خلاصہ نکات کی شکل میں درج ذیل نکات میں پیش کیا جا سکتا ہے؛
1۔ ڈیموکریسی ایک طرز حکومت کا نام ہے۔
2۔ ڈیموکریسی میں عوام کے اجتماعی معاملات کی زمام کار عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
3۔ ڈیموکریسی ،بادشاہت اور آمریت کی ضد ہے۔
4۔ ڈیموکریسی کوئی فلسفہ زندگی یا نظریہ حیات نہیں ہے۔

ڈیموکریسی کے ارتقاء کا تاریخی تناظر

انسان ابتداء سے ارتقاء کوش واقع ہوا ہے۔قدیم زمانے میں ، جب انسا ن کا شعور عہد طفولت سے گزر رہا تھا، انسان سادگی پسند ہوا کرتا تھا۔اس کی ضرورتیں مختصر ہوتی تھیں۔ اس کی روزمرہ کی زندگی کا انحصار دوسرے افراد پر کم سے کم ہوا کرتا تھا۔ چونکہ اس کا شعور منظم نہیں تھا ،ضروریات زندگی کم تھیں،دوسروں پر انحصار زیادہ نہیں تھااس لئے اس کی زندگی بھی منظم نہیں تھی۔ لیکن جوں جوں اس کا شعور بالیدگی کے زینے عبور کرنے لگا اس کے طور طریقوں اور رہن سہن میں تبدیلی واقع ہونے لگی۔شعور کی کسی حد تک پختگی کے بعد ‘میں کیسا ہوں، اور ‘مجھے کیسا ہونا چاہئے، ان سوالوں پر بھی غور کرنے پر انسان قادر ہوگیا۔ یوں بہتر سے بہتر طرز زندگی کی شاہراہ پر اس کی دوڑ شروع ہوگئی۔ بہتر اور آرام دہ طرز زندگی کی جستجو پیدا ہوتے ہی انسان کی ضروریات میں روزبروز اضافہ ہونے لگا۔ وہ اپنی گوناگوں ضروریات تن تنہا پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ ایک انسان دوسرے انسان سے الگ صلاحیت اور الگ ضرورت رکھتا تھا۔ یعنی ایک شخص اپنی صلاحیت سے دوسرے کی ضرورت اور اس کی صلاحیت سے اپنی ضرورت پوری کرسکتا تھا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس طرح فرد کا افراد پر انحصار بڑھنے لگا۔ وہ حصار ذات سے نکل کر دوسرے افراد کی طرف متوجہ ہوا۔ لوگوں سے تعلقات استوار ہونے لگے۔ انسان اجتماعیت کوپسند کرنے لگا۔ اجتماع میں رہنا اس کی فطرت بھی تھی اور ضرورت بھی۔ مل جل کر رہنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا چارہ کار نہیں تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب تک انسان تنہا ہی زندگی گزارتا تھا،اور کوئی دوسرا انسان اس کے زیر ربط نہیں تھا۔ وہ بلا شبہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتا تھا۔ لوگوں سے تعلقات بھی ہوتے تھے۔ لیکن اس کی نوعیت اجتماعی زندگی کی نہیں تھی۔ یہ ایک وجہ ہے جس کی بنا پر انسان کی اجتماعی زندگی کے امکانات پیدا ہوئے۔

اس کی ایک اور دوسری وجہ بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی تاریخ کے ابتدائی مرحلے میں انسان ایک کمزور مخلوق ہوا کرتا تھا۔ اسے اپنی حقیقت کا علم اور اپنی صلاحیتوں کا ادراک نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ زمانہ علم و ادراک کا زمانہ تھا ہی نہیں۔ کثیر النوع وحشی جنگلی جانوروں اور فطرت کی غیر معمولی طاقتوں کے مدمقابل وہ بہت ہی کمزور واقع ہوا تھا۔ اس احساس کمزوری کے ردعمل میں اس کا ذہن ایک دفاعی پوزیشن پر سوچنے پر مجبور ہوا۔ پتھر اور لکڑی سے بنائے گئے مختلف ہتھیار اسی دفاعی ذہنیت کے آفریدہ تھے۔ ہتھیارایجاد کرلینے کے باوجود بھی وہ خوف کی نفسیات سے باہر نہ نکل سکا۔ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ طاقت اور بہتر سے بہتر تحفظ کا آرزو مند رہا۔ اس کا بہترین حل اسے اس میں نظر آیا کہ انسانوں کو باہم مل جل کر، ایک گروہ اور اجتماع کی شکل میں زندگی گزارناچاہئے۔ انسان نے اپنی تاریخ کا ابتدائی مرحلہ اس طرح طئے کیا۔

اس کے بعدانسان اس مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں سے اس کی اجتماعی زندگی شروع ہوئی۔ انسان نے جب اجتماعی زندگی گزارناشروع کیا تو ابتدا میں ان کے باہمی تعاملات کی وجہ سے زندگی سہل تر ہوگئی۔ ضروریات کی تکمیل کے لئے لوگ ایک دوسرے کا تعاون کرنے لگے۔ لوگ اپنے آپ کو خوش اور محفوظ تصور کرنے لگے۔ اس احساس نے انہیں یہ فرصت عطا کی کہ وہ اپنے رہن سہن اور طور طریقوں پر مزید توجہ دیں اور انہیں مزید بہتر بنانے کی سعی کریں۔ اس مقصد کے لئے انہیں موجود اور حاصل اسباب کے علاوہ مزید اسباب کی ضرور ت پیش آئی۔ مزید اسباب کے حصول کی خواہش اور اس کے لئے دوڑ دھوپ نے ان کے اندر حرص و طمع کو جنم دیا۔ جب لوگ حرص و طمع جیسی آلائشوں کےگرفتار ہوئے تو پھر ان کے مابین مسائل اور تنازعات پیدا ہونے لگے۔ ایک دوسرے کی حقوق کی پامالی کے دروازے کھل گئے۔ ان تنازعات کے رد عمل میں ایک طرف اخوت و اپنائیت کے جذبے نے انگڑائی لی تو دوسری جانب نفرت و عداوت نے سر ابھارا۔ پھریہیں سے یہ ضرورت پیدا ہوئی کہ آپسی مسائل،باہمی تنازعات اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک ایسی اتھاریٹی ہونی چاہئے، جو فریقین کے جھگڑوں کو کنٹرول کر سکے۔ کسی دوسرے گروہ یا باہری فرقے کی نفرت و عداوت کا جواب دے سکے اور حملہ کی صورت میں اپنے ماتحت لوگوں کا دفاع کرسکے، اوردیگر امور زندگی میں ان کی رہنمائی کرسکے۔ یہیں سے خاندانی اور قبائلی سرداری کا تصور پیدا ہوا۔

خاندان ایک اکائی ضرور تھا لیکن بہت چھوٹی اکائی۔ اس لئے کئی خاندانوں نے مل کر اپنا ایک رہ نما یا سردار مقرر کر لیا۔ بعض خطوں میں علاقائی بنیادوں پر بھی سرداری کا سسٹم وجود میں آیا۔ لوگ قبیلے یا علاقے کی کسی بزرگ و برتر شخصیت کو،یا کسی طاقتور شخص کو اپنا سردار مقر رکرلیتے۔ وہ اپنے ماتحتوں کی مشکلات سنتا اور انہیں حل کرنے کے لئے اپنی خدمات فراہم کرتا۔ سردار کی زندگی میں ہی اس کی اولادیں قبیلے یا علاقے میں معروف ہوجاتیں۔ اس لئے عموما یہی ہوتا کہ ایک سردار کے فوت ہونے کے بعد اسی کی اولاد کو لوگ اپنا سردار مان لیتے ۔ ایسا بھی ہوا کہ اگر لوگ اس کی اولاد کو سردار بنانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ بزور طاقت خود اپنے آپ کو سردار تسلیم کروالیتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی رواج ہوگیا کہ وہ شخص جس کا باپ بھی طاقت کے ذریعے سے سردار بناتھا، خود بھی بالجبر تخت سرداری پر براجمان ہوجاتا۔

قبائلی سرداری کی ابتدا پر یہاں انتہائی مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔ صدیوں تک یہی انسانوں کا نظم اجتماعی رہا۔ اس دوران انسان نے مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی بستیاں اور قصبے آباد کر لئے۔ الگ الگ قصبوں کے الگ الگ سردار ہوا کرتے۔ یہ قصبے ایک چھوٹی ریاست کی مانند ہوتے تھے۔ پھر اسی قبائلی سرداری نظام کی کوکھ سے آگے چل کر آمریت اور بادشاہی نظام نے بھی جنم لیا۔ قبائلی سرداری اور آمریت اور بادشاہی نظام میں نوعیت کے لحاظ سے کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ بس بادشاہت و آمریت ،قبائلی نظام سے نسبتاً جدید تر ہیں۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ قبائلی سرداری ہی کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ کسی زمانے یا علاقے میں کوئی طاقتور شخص پیدا ہوگیا تو اس نے اپنی صلاحیتوں کے سہارے لوگوں کی ایک تعداد کو اپنا ہمنوا اور تابع فرمان بنا لیا اورطاقت اور کشت و خون کے ذریعے کسی کے ہاتھ سے زمام سرداری چھین کر اپنے قبضے میں لے لیا۔پھر خود ہی اس بستی اور علاقے کا آمر بن بیٹھا۔ظلم و زیادتی کی بنیاد پر اس نے علاقے کی پوری معیشت کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ عوام پر طرح طرح کے بے جا ٹیکس عائد کرکے ان سے پیسے وصول کرنے لگا۔ عوامی خزانے کو ذاتی ملکیت قرار دے کر اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ نتیجے کے طور پرایک آمر اور اس کا خاندان بے پناہ دولت کا مالک بن گیا۔ اس طرح خاندانی آمریت خاندانی بادشاہت میں تبدیل ہوگئی۔ بادشاہت میں بھی ایک بادشاہ کے انتقال کے بعد اسی کا بیٹا بزور طاقت بادشاہ بن جاتا۔ اس میں عام کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ عوام کے پاس اسے قبول کرلینے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اختلاف یا بغاوت پر آمادہ ہوتا تو پھر اقتدار کے لئے زبر دست خون خرابہ ہوتا۔ لہٰذابادشاہ کے بیٹے کو بلا چوں چراں بادشاہ تسلیم کر لینے میں ہی عوام عافیت محسوس کرتے۔

انسانی تاریخ کے ایک لمبے عرصے تک دنیا بھر میں آمریت اور بادشاہت ہی کا غلغلہ رہا۔ جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ خود اسلامی تاریخ میں بھی خلافت راشدہ کے مختصر عرصے کے بعد خاندانی بادشاہی نظام ہی رائج رہا۔

آمرانہ اور بادشاہی نظام کی بنیاد عوام کی محکومیت ہوتی تھی۔ جس میں اجتماعی معاملات میں عوام اور عوامی رائے کوکوئی دخل نہیں ہوتاتھا ۔ کیوں کہ عوام کی حیثیت غلام کی ہوتی تھی۔ عوام سے انتہائی کم محنتانہ کے عوض بھر پور کام لیا جاتا۔ علاقائی پیداوار کا بادشاہ تنہا مالک ہوتا۔ عوامی خزانہ اسی کے دست تصرف میں ہوتا۔ عوام کی فلاح و بہبود اور سہولت فراہم کرنے کی کوئی اسکیم نہ ہوتی۔ بادشاہ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا۔ کسی دستور اور نظم و ضبط کا تصور نہیں تھا۔ بادشاہ کا قول ہی ریاست کا دستور اور اس کا عمل ہی قانون ہوتا۔ انسانی حقوق کا تصور معدوم تھا،سو ان کا کوئی لحاظ نہ ہوتا۔ عدل و انصاف کا گزر نہ تھا۔ اگر سوچنے سمجھنے والا کوئی باہمت شخص اختلاف رائے کا جرات آزما ہوتا تو اسے ایسا سبق سکھایا جاتا کہ پھر کوئی دوسر اشخص ا ختلاف کی جسارت نہ کرپاتا۔ ظلم وجبر کی انتہا اور خوف و دہشت کا ایسا مہیب سایہ چھایا ہوا تھا کہ اپنے مذہب اور عقیدے پر بھی رعایا کو اختیار نہ ہوتا۔ بادشاہ کا مذہب ہی ان کا مذہب ہوتا۔ اگر کسی دوسرے مذہب کے بادشاہ نے حملہ کرکے فتح حاصل کرلی تو مفتوح عوام کو بھی اپنا مذہب ترک کر کے فاتح بادشاہ کا مذہب اختیار کرنا پڑتا۔

انسانی فطرت اس جابرانہ طرز حکومت سے ذرا میل نہیں کھاتی۔ آزادی اور ا نصاف پسندی انسان کی فطرت ہے۔ اسے بالجبر تو غلام بنا کر رکھا جا سکتا ہے لیکن برضا و رغبت اس کی طبیعت کبھی آمریت اور بادشاہت جیسے ظالمانہ نظام پر راضی نہیں ہوسکتی ۔ چنانچہ یونا ن میں پانچویں صدی قبل مسیح میں جو کہ ارسطو اور افلاطون کا زمانہ حیات تھا، لوگوں کے ذہن میں اس نظام سے بغاوت کے ابتدائی آثار پیدا ہونے لگے تھے۔ اس زمانے میں عوام کا شعوراس حد تک بالغ ہوچکا تھا کہ وہ آمرانہ اور بادشاہی نظام کا جائزہ لے سکیں اور ایک متبادل نظام کی بنیادیں استوار کرسکیں۔یونانی مفکرین کے افادات کی روشنی میں عوام نے محسوس کیا کہ رعایا پر محض ایک فرد یا ایک خاندان کی حکومت نہیں ہونی چاہئے۔حکومتی معاملات میں عوام کی مرضی بھی شامل ہونی چاہئے۔ اس زمانے میں،جیسا کے پہلے بتایا گیا، بستیوں کو شہری – ریاست (City- State) کے نام سے جاناتھا۔اس عوامی بیداری کے نتیجے میں ان شہری ریاستوں میں پہلی مرتبہ ‘شہری (Citizen) کا تصور متعارف ہوا۔ جس کے مطابق ریاست کے چند لوگوں کو ‘شہری کا درجہ عطا کیا جاتا تھا۔یہ ‘شہری ‘حکومت کے معاملات میں عوام کے نمائندہ ہوتے تھے۔ یہ بلاواسطہ ڈیموکریسی (Direct Democracy) کی ابتدائی صورت تھی۔یونانیوں نے اس طرز حکومت کا نام demokratia رکھا ۔اسی کو قدیم ڈیموکریسی کا نقطہ آغاز تسلیم کیا جاتا ہے۔ یونان کے علاوہ اس زمانے میں روم بھی اسی طرز حکومت پر عمل پیرا رہا۔ بد قسمتی سے یہ نظام زیادہ مدت تک قایم نہیں رہ سکا۔ ایک عرصے کے بعد ان علاقوں میں اہل ثروت،اہل مذہب اور بادشاہوں کی آپسی سانٹھ گانٹھ پر مبنی دوبارہ ایک جابرانہ طرز حکومت کے دور کا آغاز ہوگیا۔

جدید ڈیموکریسی در اصل حکومت کے انہی تلخ تجربات یعنی قبائلی سرداری،شخصی وخاندانی آمریت،مذہبی آمریت اور خاندانی بادشاہت، کے خلاف انسانوں کا شعوری رد عمل ہے۔ اسی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریسی مغرب کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ یہ شرق و غرب کے تمام انسانوں کی مشترکہ تاریخی میراث ہے۔چنانچہ اس بنا پر کہ یہ جدید مغربی افکار میں سے ایک ہے، جدیدیت کو ایک مستقل نظریہ یا فلسفہ حیات سمجھنا اور اس سلسلے میں جغرافیائی تعصبات کا اظہار کرنا ایک بڑا مغالطہ ہے۔قبل اس کے کہ مذکورہ انسانی رد عمل کا مزید تجزیہ کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آمریت ،تاناشاہی،مطلق العنانی اور بادشاہی نظام کے اجزائے ترکیبی کو نکات کی صورت میں اس طور پر پیش کردیا جائے کہ ایک نظر میں ان کا خلاصہ سامنے آجائے۔اس نکتہ بندی سے ڈیموکریسی کے امتیازات سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔
آمریت اور بادشاہت کیا ہے ،اسے مندرجہ ذیل نکات میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے؛
1۔عوام اور عوامی وسائل پر عوام کی مرضی کے بغیر قبضہ
2۔اقربا پرستی (Dynasty System)
3-عوامی معاملات میں عوام کی مرضی کا عدم احترام
4۔عوامی خزانہ آمر/بادشاہ کی ذاتی ملکیت
5-ظلم ،لوٹ کھسوٹ کے باوجودعوام کے سامنے عدم جوابدہی
6۔اقتدار یا حکومت پر تاعمر قبضہ
7۔انسانی حقوق کی پامالی
8۔ دستور/نظم ،ڈسپلن کی عدم موجودگی
9۔عوام کی فلاح و بہبود سے پہلو تہی
یہاں یہ جان لینا بھی مفید ہوگا کہ آمرانہ نظام اور شخصی بادشاہت سے کیا نتائج پیدا ہوتے، اور ہوئے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے ‘’’الفاروق،، میں شخصی سلطنت سے پیدا ہونے والے نتائج بیان کئے ہیں۔آپ ؒرقمطراز ہیں؛
’’شخصی سلطنت سے خواہ مخواہ نتائج ذیل پیدا ہوتے ہیں:
1- بجائے اس کے کہ ملک کے تمام قابل اشخاص کی قابلیتیں کام میں آئیں،صرف چند ارکان سلطنت کی عقل و تدبیر پر کام چلتا ہے۔
2- چونکہ بجز چند عہدہ داروں کے اور لوگوں کو ملکی انتطامات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا،اس لئے قوم کے اکثر افراد انتظامی قوت اور قابلیت رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگتی ہے۔
3- مختلف فرقوں اور جماعتوں کے خاص خاص حقوق کی اچھی طرح حفاظت نہیں ہوپاتی،کیوں کہ جن لوگوں کو ان کے حقوق سے غرض ہے،ان کو انتظام سلطنت میں دخل نہیں ہوتا اور جن لوگوں کو دخل ہوتا ہے، انہیں غیروں کے حقوق سے اس قدر دلچسپی نہیں ہوسکتی ،جتنی کہ خود ارباب حقوق کو ہو سکتی ہے۔
4- چونکہ بجز ارکان سلطنت کے کوئی شخص ملکی اور قومی کاموں میں دخل دینے کا مجاز نہیں ہوتا،اس لئے قوم میں ذاتی اغراض کے سواقومی کاموں کا مذاق معدوم ہوجاتا ہے۔،،
(الفاروق،علامہ شبلی نعمانیؒ ،حصہ دوم،نظام حکومت ،صفحہ نمبر09 ،ناشر: دارالمصنفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights