حضرت ابراہیم علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر اور انبیاء کرام میں سے برگزیدہ شخصیت تھے ۔ جنہیں تاریخ میں ایک عظیم مقام حاصل ہے ۔وہ داعی حق اور توحید کے ایک عظیم علمبردار تھے ۔انہوں نے نوع ِانسانیت اور تحریک اسلامی کو اپنے نقوش اور کردار سے منور کیا ۔ حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی قربانیوں اور داعیانہ کردار سے پُر تھی ۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر دعوتی سرگرمیوں (Dawah-Activism)میں متحرک تھے ۔وہ ایک عظیم قائد تھے ، ان کی قیادت میں نوعِ نسانیت کو ہر لحاظ سے فیض پہنچا ۔وہ حقیقی معنوں میں ایک عالمگیر رہنما تھے ، ان کی رہنمائی میں عالم انسانیت نے پھرسے اللہ کے ساتھ رشتہ استوار کیا۔وہ نوع انسانیت کے حقیقی بہی خواہ تھے۔قرآن مجید نے جس مطلوبہ قائد کا تصور پیش کیا ، اس کی ایک اعلیٰ مثال حضرت ابراہیم کی شخصیت ہے ۔وہ ایک بے لوث اور بے باک قائد تھے، ان کی قیادت کسی طبقہ،مسلک ، قوم یا علاقہ کے لئے نہ تھی ۔ عدل پروری ان کی قیادت کا بنیادی وصف تھا۔ وہ قوم و ملت کے لئے نہایت مخلص تھے ۔حضرت ابراہیم انتہائی باصلاحیت ، دور اندیش اور صاحبِ بصیرت تھے ۔ ایک حقیقی قائد میں ان تینوں صفات کا ہونا انتہائی ضروری ہے کہ :
1۔ اس کی قیادت عالمگیر نوعیت کی ہو
2۔ قوم و ملت کے لئے نہایت مخلص ہو
3۔ صاحبِ بصیرت بھی ہو
حضرت ابراہیمؑ ان تینوں صفات سے لیس تھے ۔حضرت ابراہیم ؑ کا ہر لمحہ، اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی کی طرف بلانے میں صرف ہوا ۔قرآن مجید میں ان کا تذکرہ ۲۵ سورتوں میں ۶۳آیات میں آیا ہے اور ان کی چند قربانیوں کا تذکرہ سنہرے الفاظ میں کیا ہے :
1۔ بُت کدے میں بتوں کو توڑنا
2۔ اپنے باپ اور قوم سے مناظرہ آرائی
3۔ آتش نمرود کا واقعہ
4۔ وادی غیر ذی زرع میں اپنے اہل خانہ کو چھوڑ دینا
5۔ اپنی پیرانہ سالی میں راتوں اور دنوں کے دعاؤں کا ثمرہ یعنی اسماعیل ؑ کوذبح کرنا
یہ ان کی دعوت کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔ ان میں سے اگر حضرت ابراہیم ؑ ، ایک کام بھی انجام دیتے تب بھی یہ جلیل القدر پیغمبر ہونے کے لئے کافی تھا،لیکن قرآن کے مطابق وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ یہ سبھی قربانیاں انہیں کی ذات سے وابستہ ہیں ۔وہ تسلیم و رضا کے عظیم پیکر اور یقین و عزم کی ارفع مثال تھے۔ان کا ایمان و یقین بھی غیر متزلزل تھا بلکہ انہوں نے بے یقینی اور ضعف ِایمانی کو اپنے قریب آنے نہیں دیا ۔ حضرت ابراہیم ؑنے جو خواب دیکھا تھا اس خواب کو انہوں نے یقین اور تعمیر کی دنیا میں تبدیل کیا ۔حضرت ابراہیم ؑ صاحبِ یقین پیغمبر تھے ۔
حضرت ابراہیم ؑکے دعوت و تربیت کے چند نمایاں پہلو:
حنیفیت (یکسوئی ):
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ،
” پیروی کروابراہیم ؑکے طریقے کی جو یکسو تھے” ۔(سورةالنحل:3 12 )
حنیفیت یکسوئی ایک صفت ہے۔ جس کو بھی یہ صفت حاصل ہوجائے اس کے لئے یہ خیر کثیر کے مساوی ہے ۔اللہ تعالی ٰ کو یہ صفت بہت پسند ہے۔ اس صفت کو اس نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے حوالے سے بیان کیا ہے ۔ایک اور مقام پر بیان کیا گیا:
فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ(آل عمران :95)
(“آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے لہٰذا تمہیں ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کرنا چاہیے جو ہر باطل سے منہ موڑ کر اللہ ہی کے ہوگئے تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے”۔ )
حضرت ابراہیم نے دنیا کے تمام بت کدوں اور پیشواؤں سے منہ موڑ کر صرف اور صرف اپنے رب کی طرف رخ اور رجوع کیا ۔ یہ وہ برگزیدہ شخصیت ہیں جس نے دنیا کے تمام معبودانِ باطل سے اعلان جنگ کیا اور باطل کے ایوانوں میں جاکر دعوت توحید اور رب کا قانون عملا ً نافذ کرنے کی بھر پور جدوجہد کی۔اس کے لئے انہوں نے کسی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا ۔اس حنیفیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک بندۂ خدا اپنی خواہشات کو قربان کر کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہوجائے اور اسی کا قانون اپنی زندگی میں نافذ کرے ۔
لااحب العافلین :
حضرت ابراہیم ؑوہ شخصیت ہیں، جنہوں نے ہر زوال پذیر اور ڈوبنے والی چیز کو خیر باد کہہ کر یہ عالمگیر اور ہمہ گیراعلان کیا کہ،
“لاأُحِبُّ الْآفِلِينَ “۔ “میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں” ۔(انعام: 86)
جن افکار اور نظریات میں یا جن مذاہب اور پیشواؤ ں میں بھی زوال اور ڈوبنے کی ذرہ بھر بھی آمیزش موجود ہو ، وہ ایک انسان کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ثابت نہیں ہوسکتی ۔ حضرت ابراہیم ؑنے کسی بھی ڈوبنے والی فکر و نظر اور معبود کو پسند نہیں کیا اور نہ کسی ڈوبنے والی چیز سے اپنے آپ کو وابستہ رکھا ۔حضرت ابراہیم ؑ کی قوم باطل عقائد ،شرک و بدعات، خرافات ، مشرکانہ سوچ و نظریات میں لت پت تھی ۔ان کی قوم میں بت کدی ،بت گری اور بت پرستی عروج پر تھی اور حضرت ابراہیم نے ان کو راہ حق سے روشناس کرانے کی بھر پورکوششیں کیں ۔ لیکن ان کی قوم نے اپنی تقدیر اور زندگی کے جملہ معاملات بت خانوں سے وابستہ کر رکھے تھے ۔ وہ صبح و شام بت خانوں میں پوجا کرنے کے لئے جاتے تھے اور ساتھ ہی مختلف قسم کی عبادات اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ اس قوم میں شمس پرستی بھی عروج پر تھی ، وہ سورج کو بڑا دیوتا تصور کرتے تھےاور سورج دیوتا کو باقی تمام دیوتاؤوں کا سردار مانتے تھے ۔نمرود اپنے آپ کو اسی سورج دیوتاکا اوتار سمجھتا تھا ۔وہ حق پرست اور توحید کی آواز بلند کرنے والوں کو باغی ،غدار اور منکر قرار دیتا تھا۔ نمرود اور اس کے پیرو کار توحید یا حقیقی خالق و مالک کے متعلق ایک بات بھی سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔حضرت ابراہیم کی قوم نے ایک مزدور سے لے کے باد شاہ تک کوموت و حیات کے پجاریوں ، پروہتوں اور بتوں کے حوالہ کر رکھا تھا۔ غرض کہ یہ پوری قوم بت کدہ تھی ۔ جن میں حضرت ابراہیم نے دعوت توحید کا مؤثر اور عالمگیر اعلان فر ما کر اپنے آپ کو سب سے بڑا بت شکن ثابت کیا اور اللہ تعالیٰ کی شان اور اور اس کی کبریائی ہر موقع پر بیان کی ۔
دعوت کی ابتدا ء اپنے والد سے :
حضرت ابراہیم ؑنے دعوت کی ابتدا ء اپنے والد سے کی، کیوں کہ دنیا میں کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے باپ کا انجام بُرا ہو۔ حضرت ابراہیم ؑنے بھی اپنے والد کو انجامِ بدسے ڈرایا ، راہ حق سے روشناس کرانے کی کوششیں کیں۔ ان کے والد پجاری ہونے کے ساتھ ساتھ بت گر بھی تھے ۔انھوں نے اپنے باپ کے سامنے بت پرستی کے خلاف زبردست دلائل پیش کئے اور ان کو معبود برحق اور مالک حقیقی کی طرف مائل کرنے کے لئے انتہائی کوشش کی ۔اس کا تذکرہ قرآن مجید میں اس طرح سے آیا ،
“ابا جان !آپ ان چیزوں کی عبادت کیو ں کرتے ہو جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بناسکتی ہیں ، ابا جان، میرے پاس ایک ایسا علم جو آپ کے پاس نہیں آیا ، آپ میرے پیچھے چلئے میں آ پ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا ۔” (سورہ مریم ۴۳۔۴۲)
آذر کے علاوہ حضرت ابراہیم ؑکا اہل خانہ پانچ افراد پر مشتمل تھا جن میں دوبیویاں ، دوبیٹے اور ایک بھتیجا، یہ سب کے سب حضرت ابراہیم ؑکے ساتھ دعوتی مشن میں پورے انہماک کے ساتھ جڑ گئے تھے ۔
قوم کو دعوت :
حضرت ابراہیم ؑنے پہلے اپنے والد ، گھر اور پھر اپنی قوم کے سامنے دعوت الی اللہ پیش کی ۔ پھر اپنے مشن اور ہدف کو آگے بڑھاتے ہوئے قوم سے مخاطب ہوکر فرمایا :
“جب اس نے اپنے باپ اور قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو، کیا ہیں ؟ ان کی قوم نے ضد ، ہٹ دھرمی اور جہالت کی دنیا میں مگن ہوکر اس طرح سے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو انہیں کی عبادت کرتے ہوئے پایا ” ، لقد کنتم و انتم وآبائکم فی ضلال مبین ۔(سورۃ الانبیاء:-52-53) ۔
آج بھی شرک ،بدعت اور رسومات بد میں مبتلا مسلمانوں کو ان کاموں سے روکا اور منع کیا جاتا ہے تو وہ بھی من و عن یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کسی بھی طرح نہیں چھوڑ سکتے ۔ جب کہ ہمارے آباء و اجداد یہی کرتے رہے ہیں اور ہم بھی یہی کررہے ہیں ۔
حکمرانوں اور بادشاہوں کو دعوت :
اس کے بعد حضرت ابراہیم نے بادشاہوں اور حکمرانوں کی طرف مخاطب ہوکر اپنے رب کا تعارف عمدہ طریقے سے کرایا ،جس کی تفصیل قرآن مجید میں یوں ہے۔
’’ اے پیغمبر کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے سلطنت پاکر حضرت ابراہیم ؑسے اس کے رب کے بارے میں اس وجہ سے جھگڑ رہا تھا کہ میرا خدا تو وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے وہ کہنے لگا کہ میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں‘‘ ۔
یہ حکمراں نمرود بھی ہوسکتا ہے یا بابل (Babylonia)کے چند حکمران بھی ہوسکتے ہیں ۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اس حکمران نے دو آدمیوں کو بلایا ۔اس نے ایک کو قتل کیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا: میں بھی جلاتا ہوں اور مارتا ہوں ۔ نمرود یا ان حکمرانوں نے حضرت ابراہیمؐ کو دھوکہ اور فریب دینا چاہا کہ میں بھی موت و حیات کا مالک ہوں لیکن حضرت ابراہیم ؑ اس کے فریب اور مغالطے میں کہاں پھنس جاتے پھر حضرت ابراہیم نے ایسا وار کیا کہ وہ کافر لاجواب اور مبہوت(Confounded) رہ گیا ۔
حضرت ابراہیم ؑ کا یہ جواب دلائل ، مشاہدہ اورعقلی نوعیت کا تھا ۔ بقول حفظ الرحمٰن سیوہاروی،
“جب دو فریق کسی مسئلہ میں اختلاف کر بیٹھتے ہیں تو اِحقاقِ حق کے لئے مناظرانہ دلائل میں سے دلیل کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنے دعوے کے ثبوت میں صرف نظریوں ،تھیوری(Theories)سےکام نہ لیا جائے بلکہ مشاہدہ اور معائنہ کی ایسی راہ اختیار کی جائے کہ مخالف اس کے دعوے کے مقابلے میں لاجواب ہوجائے اور اس کے دلیل کی رد کرنے کی تمام راہیں اس کے سامنے بند ہو جائیں۔اب اگر اس کے دل میں قبول حق کی گنجائش ہے تو وہ اس کو قبول کر لیتا ہے ورنہ بے دلیل لڑنے اور جھگڑنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، تب حقیقی بات نکھر کر صاف ہوجاتی ہے “۔
قرآن نے حضرت ابراہیم کے اس عظیم جواب کو اس طرح سےنوٹ کیا کہ،
“قال ابراھیم فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق فات بھا المغرب فبھت الذی کفر”۔(حضرت ابراہیم نے کہا کہ اللہ تعالی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب لے آ۔اب وہ کافر مبہوت رہ گیا )۔
پھر جب حضرت ابراہیم کے لئے ان بادشاہوں اور حکمرانوں نے دعوت دین کے لیے زمین تنگ کردی تو انہوں نے اتمام حجت کے بعدوہاں سے ہجرت کرڈالی ۔
دعوت اور تنظیم:
حضرت ابراہیم ؑکی دعوت تنظیمیت کے اعتبار سے بھی پوری لیس تھی ۔ انہوں نے عراق سے ہجرت کرکے ملکوں ملکوں کی خاک چھانی۔ اس میں عراق کے علاوہ شام ، اردن ، فلسطین ، مصر و حجاز قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے دعوت دین پر سب کچھ نچھاور کرکے جوانی سے لے کر بوڑھاپے تک دعوت دین کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی کوشش کی اور قائدانہ و داعیانہ رول ادا کرتے ہوئے دعوت اسلامی کو وسعت دے کر تین اہم مراکز قائم کئے ۔ خانہ کعبہ ، بیت المقدس اور اُردن ۔
خانہ کعبہ کا امیر حضرت اسماعیل کو بنایا،بیت المقدس کا امیر حضرت اسحاق کو مقرر کیا اور اُردن اس وقت دعوت اسلامی کے لحاظ سے اہم مرکز تھا ،وہاں انہوں نے اپنے بھتیجے حضرت لوط کو ناظم منتخب کیا۔ حضرت ابراہیم ان دعوتی مراکز کا خود جائزہ لیتے اور اپنے ان معاونین کو ہدایت بھی دیا کرتے تھے ۔ حضرت ابراہیم کی منصوبہ بندی اور دعوت دین کی لگن بڑے ارفع درجے کی تھی ، انہوں نے دعوتی کام اہداف ، طے شدہ منصوبے اور مراحل میں کیا۔
حضرت ابراہیم نے دعوت اسلامی کو وسعت دے کر تین اہم مراکز قائم کئے ۔ خانہ کعبہ ، بیت المقدس اور اُردن ۔خانہ کعبہ کا امیر حضرت اسماعیل کو بنایا،بیت المقدس کا امیر حضرت اسحاق کو مقرر کیا اور اُردن اس وقت دعوت اسلامی کے لحاظ سے اہم مرکز تھا ،وہاں انہوں نے اپنے بھتیجے حضرت لوط کو ناظم منتخب کیا۔ حضرت ابراہیم ان دعوتی مراکز کا خود جائزہ لیتے اور اپنے ان معاونین کو ہدایت بھی دیا کرتے تھے ۔ حضرت ابراہیم کی منصوبہ بندی اور دعوت دین کی لگن بڑے ارفع درجے کی تھی ، انہوں نے دعوتی کام اہداف ، طے شدہ منصوبے اور مراحل میں کیا۔ |
مایوسی اور ناامیدی سے باہر نکلنا:
عصر حاضر میں نوجوان اور طلباء مایوسی اور نامیدی میں بری طرح پھنس چکے ہیں ۔اس تعلق سے حضرت ابراہیمؑ کی طرح امید پیدا کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔مایوسی اور ناامیدی کے ساتھ زندگی گزارنا کفر کی ایک نمایاں کیفیت ہے اور اس کیفیت سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سا ایمان،ان جیسا توکل، ان جیسا تسلیم و رضا کے ساتھ زندگی گزارنا ہی اسوہ ابراہیمی کہلاتا ہے ۔اﷲ کی طرف خالص رجوع کرنا،اﷲ کی محبت اور اس کی معرفت میں ڈوبے رہنا اواس کے سوا کسی طرف متوجہ نہ ہونا ہے ۔اس کی بہترین ترجمانی علامہ اقبال نے اس طرح کی ہے:
یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقیں اللہ مستی خود گزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
مستقبل کی تعمیر:
ایک نئی اور خدا رخی (God Oriented)تہذیب کو کن بنیادوں پر قائم کیا جائے ؟۔نوع انسانیت کو کس طرح اللہ کی وحدانیت کی طرف انتہائی خیر خواہی کے ساتھ دعوت دی جائے ؟۔سماج کی تعمیر و تطہیر کیسے کی جائے ؟۔قیادت و سیادت کے بنیادی اوصاف کیا ہو نا چاہئے ؟۔نئی نسل کی تعلیم و تربیت کیسے کی جائے ؟۔ایک بہتر مستقبل کا خواب کیسے دیکھا جائے اور خواب کو کیسے عملی جامہ پہنایا جائے؟۔تہذیبوں کے تصادم کے اس پر فتن دورمیں نئی راہیں کیسے تلاش کی جائیں ؟۔ ان سبھی سولات کا جواب اسوۂ ابراہیمی میں مل جاتا ہے ۔حضرت ابراہیم نے ایک موقع پر مستقبل کا خاکہ کچھ اس طرح سے کھینچا،
“اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمابردار بنالے ، ہمارے اولاد میں سے بھی ایک جماعت کواپنی اطاعت گذار رکھ ، ہمیں اپنی عبادتیں سِکھا اور ہماری توبہ قبول فرما تُو، توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔ اے ہمارے رب انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھ کر سنائے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے ۔یقیناً توزبردست اور حکمت والا ہے ۔‘‘
حضرت ابراہیم نے ملت میں ایک نئی امید اور ایک تہذیب و تمدن اور ایک نئی الہٰی فکر کو جنم دیا اور اس کو پروان چڑھایا۔حضرت ابراہیم ؑکے ان چند درخشاں اور نمایاں پہلوؤوں میں ہمارے لئے رہنما نقوش ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان رہنما نقوش سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا کرے ۔آمین
– مجتبیٰ فاروق
مصنف کے قلم سے۔۔