حکمت: متاعِ گمشدہ

مجتبی فاروق

حکمت عربی زبان سے ماخوذہے اور اس کا مادہ ح، ک، م ہے۔ حکم کا معنی سوجھ بوجھ اور عدل کے مطابق فیصلہ کرنے کے ہیں۔ حکمت  کے معنی دانش مندی کے ہیں  اور یہ علم مع العمل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمت یا دانشمندی کا تعلق انسان کے فکر  و عمل دونوں سے ہے۔ معرفت کی پہچان حکمت کی اصل ہے۔ امام را غب  اصفہانی کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے: اصابۃ الحق بالعلم و العقل، فالحکمۃ جن اللہ تعالیٰ معرفۃ الاشیاء و ایجادھا علیٰ:غایۃ الاحکام   ۱؎  ۔حکمت علم و عقل کے ذریعہ حق تک پہنچنے کا نام ہے۔چنانچہ حکمت اللہ کی طرف سے اشیاء کی معرفت اور اس کے احکام کی بنیاد پر اشیا ء کو استعمال کرنے کا نام ہے۔ تاج العروس میں حکمت کا یہ معنی مذکور ہے: العلم بحقائق الاشیاء علیٰ مافی علیہ والومل بمقتضاھا۔۲؎ ۔  یعنی اشیاء کی حکمت کو ان کی اصلیت کے مطابق جاننا اور اس علم کے مطابق عمل کرنا۔

حکمت عقل انسانی کا  ایک بنیادی وصف ہے جس کی کئی شاخیں اور کئی پہلو ہیں۔ حکمت کے دوسرے نام بھی ہیں۔ حکمت کے چند دوسرے نام یہ ہیں: ایمان، علم، حق، سکینت، روح، ہدیٰ، بصیرت، نور، امانت، لب، خیر کثیر۔ ۳؎   ۔ حکمت قرآن مجید کی ایک اہم اصطلاح ہے اور یہ قرآن مجید کے اہم مضامین (Major Theme) میں سے ایک ہے۔قرآن  مجید میں حکمت متعدد جگہوں پر وارد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ وَالْحِکْمَۃِ إِنَّ اللَّہَ کَانَ لَطِیْفاً خَبِیْرا (الاحزاب:43)

اور تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت کی جو تعلیم ہوتی ہے اس کا چرچہ کیاکرو۔

ایک دوسری جگہ پر  قوت فیصلہ  کے معنی میں استعمال ہوا ہے:

وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیّا۔ (مریم:۲۱)

    ہم نے انہیں بچن میں قوت فیصلہ بخش دی۔

    اور یہ بھی:

      وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ (البقرہ: ۹۲۱)

ا    ور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔

     امام مالک کے نزدیک ان سبھی آیات میں حکمت سے مراد:  الحکمۃ فی ھذا کلہ طاعہ اللہ والاتباع لھا و الفقہ فی دین اللہ والعمل بہ۔ ۴؎   ،   حکمت  اطاعت الٰہی، دین میں تفقہ اور اس پر عمل کرنا ہے۔

قرآن مجید میں حضرت لقمان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ  ہم نے لقمان کو حکمت عطا  فرمائی کہ اللہ کا شکر گزار رہو اور جو شکر گزار رہے گا تو اپنے ہی لیے رہے گا  اور جو ناشکری کرے گا تو اللہ بے نیاز ہے۔(لقمان:۱۱)

 حکمت قرآن کے تصور تعلیم کا ایک اہم پہلو ہے جو علوم کے دوسرے اقسام پر فوقیت رکھتی ہے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ کا شکر گزار بندہ بن کررہے۔ شرک و کفر کی تمام آلودگیوں سے بچے اور اپنے قلب وذہن میں توحید کو غالب رکھے، دین کے تمام اجزاء کا گہرا فہم حاصل کرے، اطاعت الہی اور اطاعت رسول کو اپنی زندگی کا شعار بنائے،یہ قرآن کے تصور علم و حکمت کی اصل غایت ہے۔  مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ “حکمت کا اولین ثمر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔اللہ جس بندے کو اس دولت سے بہرہ مند کرتا ہے اس کا اولین اثر  جو اس پر مرتب ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے رب کا شکرگزار بندہ بن  جاتا ہے اور یہی شکر تمام حقوق اللہ اور تمام حقوق العباد کی معرفت کی بنیاد ہے۔کسی شخص کے صاحب حکمت اور حکیم ہونے کی اولین شناخت یہ ہے کہ اس کے اندر اپنے رب کی شکر گزاری ہو۔اگر یہ چیز نہ ہو تو وہ بالکل کھوکھلا ہے،اگر چہ وہ علم و فلسفہ کا کتنا ہی بڑا ماہر اور امام کیوں نہ سمجھا جاتا ہو۔” ۵؎  حکمت علم سے بڑھ کر ایک نعمت ہے اور اس کو تمام نعمتوں پر فوقیت حاصل ہے جو شخص شکر گزاری کی صفت کو اپنا شعار بنائے گا،اس کا فائدہ اس کو مل کر رہےگا  اور اس کی وجہ سے اس کی صلاحیتوں اور نعمتوں میں  ترقی  ہوتی رہے گی۔   یہ انسان کو جہالت و خجالت اور ذلیل ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ صاحبِ حکمت کبھی بھی جہالت و سفاہت اور بہیمیت پر نہیں اتر آتا ہے۔ وہ ان منفی خصائل سے ہر وقت اپنے آپ کو روک کر رکھتا ہے جو اس کے شعور و فہم اور اس کے خلیفہ ہونے میں سم قاتل کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔۔ حکمت ایک خیر کثیر ہے اللہ تعالیٰ جس شخص کے لیے خیر و بھلائی چاہتا ہے، اسے فہم و فراست اور ذہانت و ذکاوت عطا کرتا ہے کہ اس کے لیے دین کا فہم حاصل کرنا اور دین پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یُؤتِیْ الْحِکْمَۃَ مَن یَشَاء ُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْراً کَثِیْراً۔(البقرۃ: ۰۶۲)

وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطاکردیتا ہے اور جسے حکمت عطا ہوتی ہے اسے یقینا خیر کثیر عطاہوتی ہے۔

جو شخص حکمت کے مفہوم کو سمجھتا ہو اسے فورا معلوم ہوجاتا ہے کہ کس پس منظر میں استعمال ہوا ہے۔حکمہ یا حکمت علم کا اعلیٰ روحانی تصور ہے،اس میں انسان کی دسترس میں آنے والا پورا پورا علم (Knowledge)،حتیٰ کہ وحی کے ذریعے اللہ پر ایمان لانا تک بھی شامل ہے۔یہ علم سے ماوراء ہے۔علم بمعنی سائنس ان اشیاء کا ادراک ہے جو انسانی عقل سے متعلق ہیں،اور اسے ایسے طریقے  سےگرفت میں لایا جاتا ہے کہ اس میں کوئی غلطی داخل نہ ہو۔ اسے حکمہ کہتے ہیں ۶؎ ۔علم وحکمت کے تعلق سے قرآن مجید کی بے شمار آیتیں ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں، ان میں سے یہ چار آیتیں انتہائی قابل غور ہیں۔ ان میں اللہ کے رسول ﷺ کے مبعوث ہونے کے مقاصد بیان کئے گئے ہیں۔ آپ ﷺ کے ان چاروں مقاصد میں حکمت کی تعلیم بھی ہے۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ إِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْم

اے ہمارے رب تو ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے۔(البقرہ: 286)

کَمَا أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولاً مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُون(البقرہ: 151)

جیسے ہم نے تمہارے درمیان تم  ہی میں سے ایک رسول بھیجاجو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

  لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْن  (آل عمران: ۱۶۴)

 حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان  انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک و صاف بنائیے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے،جب کہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْن (الجمعہ:۲)

 وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے آیتیں تلاوت کرے اور ان کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، جب کہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

      امام حمید الدین فراہی لکھتے ہیں “جہاں تک تلاوت آیات کا تعلق ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ پر جو آیات نازل فرمائیں آپ ان کو آگے پہنچاتے رہے۔رہا تزکیہ نفس تو یہ دین کا مقصود ہے اس کی بنیاد توحید ہے۔نفوس کے تزکیہ میں اللہ کے رسول پہنچے آپ ﷺ سے پہلے کوئی دوسرا نبی نہیں پہنچا۔ آپ کی تیسری صفت تعلیم کتاب ہے۔ رہی حکمت تو آپ ﷺ نے عقلوں کی تہذیب اور نفوس کے تزکیہ  کےذریعہ اس کی راہ بتلائی۔لیکن کسی کو حکمت منتقل کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کی بکثرت مشق کرائی جائے،فہم کے لیے روشنی مہیا کرائی جائے اور کتاب ِ الٰہی میں غور و فکر پر برابر ابھارا جائے کیونکہ وہی حکمت کا اصل سرچسمہ ہے۔” ۷؎

حوالہ جات:

   ۱؎   امام راغب الاصفہانی: مفرادات  فی غریب القرآن،277۔

   ۲؎   امام حمید الدین فراہی، (حکمت قرآن) دائرہ حمیدیہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ۔

  ۳؎    ایضا،ص:61۔

   ۴؎    حافظ ابن عبد البر، جامع بیان العلم و فضلہ، مکتبہ ابن تیمیہ القاہرہ بدون تاریخ، 22

   ۵؎   مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن(نئی دہلی: تاج کمپنی،۲۰۱۴)،جلد:ششم،13

   ۶؎    اردو دائرہ معارف اسلامیہ(، زیر اہتمام: دانش گاہِ پنجاب، لاہور، 2791)جلد:8، 471

   ۷؎  ا مام حمید الدین فراہی، حکمت قرآن،   54۔

تحریر نگار: مجتبیٰ فاروق

اپریل 2023

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں