کبھی سوزوساز رومی، کبھی پیچ وتاب رازی بہ یاد ڈاکٹر عبدالحق انصاری

0

مرکز جماعت میں نمازکے بعد جب رفیق صاحب بنگلوری اعلان کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو جی دھک سے ہو جاتاہے کہ موصوف کسی حادثے کی خبر دیں گے۔ اس سلسلے میں ان کے اندر کچھ خصوصی صفات بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً انتقال کی خبروہ ایسے سوگوارانہ انداز میں دیتے ہیں کہ حادثے کی سنگینی کا پورا احساس ہو جاتا ہے اور دو چار جملوں میں نوحہ گری ،دعائے مغفرت اور تعزیت کا حق بھی ادا کر دیتے ہیں۔ اللہ ان کی عمر دراز کرے۔
یاد آتاہے کہ ۳؍ اکتوبر ۲۰۱۲ء کو ان ہی کے اعلان سے یہ افسوس ناک خبرملی تھی کہ معروف اسلامی اسکالر اور سابق امیر جماعت ڈاکٹر عبدالحق انصاری صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ سنتے ہی دل و دماغ پر سنّاٹا چھا گیا۔ ذہن و جذبات کے سارے در وبام جیسے بجھ گئے۔ خیالوں کی اندھیری وادیوں میں کئی اُلٹے سیدھے سوالات ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے۔ مثلاً ابھی تو امریکہ سے آئے تھے! کوئی ایسی شکایت بھی نہیں تھی، پھر اچانک کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟تفصیلات معلوم ہوئیں، تب پتہ چلاکہ کمبخت ہارٹ اٹیک نے کام تمام کیا،جس کے ذریعے ملک الموت چٹ پٹ اپنا کام کرجاتے ہیں اور اس میں رند و پارسا، امیرو غریب ، کالے اور گورے میں کوئی بھید بھاؤ نہیں کرتے۔
دوسرے دن سویرے ہم لوگ مرکز جماعت سے علی گڑھ کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں موجودہ امیر جماعت ، نائب امیر ، قیم اور دوسرے چند لوگ اپنے اپنے اسلوب میں مرحوم کی خوبیو ں اور کارگزاریوں کا ذکر کر رہے تھے۔ میں بھی اس میں شریک ہو جاتاتھا۔ لیکن اس خیال میں غلطاں و پیچاں بھی رہا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم آسانی سے کسی کی بات ماننے والے نہیں تھے۔ فلسفہ ،علم کلام، رموز و تصوف، حکمتِ دین نہیں تو مصالح جماعت؛ کہیں سے تو راستہ نکال لیتے اور —
’’ کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور‘‘
لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ مرحوم علم و حکمت کے آدمی تھے۔ مول تول، لیت و لعل اورٹال مٹول کے آدمی نہ تھے۔ پھر اچانک ذہن مرحوم غلام اکبر صاحب کی طرف چلا گیا۔ جن کا انتقال چند ماہ قبل ہوا تھا۔ ماتھا ٹھنکا کہ اس مرگ ناگہانی میں اُن کی’’ سازشِ حسنہ‘‘ کا بھی دخل ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی اس ہنر مندی سے مرکز میں بہت سارے لوگوں کا کام چلا دیتے تھے۔ کسی سے راہ و رسم پیدا کر لینا اُن کے لیے آسان تھا۔ ٹھنڈا اور میٹھا اُن کی خاص کمزوری تھی اور یہی دونوں اُن کے ہتھیار بھی تھے۔ ان ہی کے ذریعے انھوں نے ملأ اعلیٰ تک رسائی حاصل کی ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم سے ان کے رشتے، دوستانہ اور عقیدت مندانہ تھے۔ عبد الحق صاحب مرحوم بھی اُن سے محبانہ اور مرشدانہ تعلق رکھتے تھے۔سید غلام اکبر صاحب محفلی اور دوست دار آدمی تھے۔اکیلے جی نہیں لگ رہا ہوگا، ڈاکٹر صاحب مرحوم کو بھی تنہائی کا احساس ادھر بڑھ گیا تھا۔ ان ہی خیالوں میں الجھتا ہوا میں علی گڑھ پہنچ گیا۔ وہا ں اندر جاکر مرحوم کے جنازے کو قریب سے دیکھا تو میر کا شعر یاد آگیا ؂
حسرت اُس کی جگہ تھی خوابیدہ
کھول کر میر کا کفن دیکھا
ڈاکٹر وقار انور صاحب ساتھ میں کھڑے تھے، اُن کو یہ شعر سُنایا اور کہا کہ یہاں پرحسرت کی جگہ سوزو ساز رومی اور پیچ و تاب رازی خوابید ہ نظر آرہا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ عبد الحق انصاری مرحوم کے اُٹھ جانے سے تحریک اسلامی کی پہلی صف میں ا ور ملت اسلامیہ کے اندر ایک بڑے عالم،سادہ دل صوفی اور سچے دانشور کی جگہ خالی ہوگئی۔وہ جس میدانِ علم کے شہسوار تھے، اس کے آخری سوال پر غور و فکر کرتے تھے اور تحریک اسلامی کے تازہ ترین سوالوں کو چھیڑتے رہتے تھے۔ جس سے علم کی نشوو نما اور تحریکوں میں تازگی اور توانائی قائم رہتی ہے۔ تحریکی حلقوں کے نوجوانوں میں جو اُن سے ذرا گہرائی سے ملتاتھا،وہ ان کے اس تب و تاب اور سوز و ساز کا اندازہ کرلیتا تھا۔
ہماری صفوں میں مجتہدانہ بصیرت کی حامل دو تین ہی شخصیتیں رہی ہیں۔ مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب کے بعد 1965 اور 1970 کے بیچ کی نسل جن شخصیتوں کو فکری عقیدت سے دیکھتی تھیں، اُن میں ایک نام ڈاکٹر عبدالحق انصاری صاحب مرحوم کا بھی تھا۔ مرحوم کا لہجہ عام طور سے دھیما تھا۔ لیکن وہ روایت کی پاسداری کے ساتھ گہرے غورو فکر کی دعوت ہمیشہ دیتے رہے۔ اُن کے یہاں تازہ سوچ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ احتیاط کا پہلو بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ اُن کی تقریروں اور تحریروں میں علمی دیانت داری ،فکر کی شادابی اور دانش کی لالہ کاری کا وافر سامان ہوتاتھا۔
مجھے یاد آتاہے کہ سب سے پہلے مرحوم عبد الفتاح صاحب امیر حلقہ بنگال نے بڑے فخر کے ساتھ اُن کے قرآنی شغف، گہرے مطالعے اور حفظ قرآن کی تعریف کی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب مرحوم ’’شانتی نکیتن ‘‘ میں بحیثیت استاد کام کر رہے تھے۔ اُن کی پہلی تقرری ’’شانتی نکیتن‘‘ کے شعبۂ فلسفہ میں بحیثیت لکچرر شاید 1965ء میں ہوئی تھی، اور وہیں سے وہ ہارورڈ یونیورسٹی (امریکہ) تقابلی مطالعۂ ادیان میں MTS کی ڈگری کے لیے گئے تھے۔دوسری دفعہ انہوں نے اسو سی ایٹ پروفیسر و صدر شعبۂ عربی ،فارسی اور اسلامی اسٹڈیز کی حیثیت سے وشو بھارتی یونیورسٹی ( شانتی نکیتن) جوائن کیا تھا۔ یہ 1972ء کا زمانہ تھا۔ یہی دور تھا جب حلقہ طلبہ بہار سے وابستہ نوجوانوں سے ان کا قریبی تعارف ہوا۔حلقہ طلبہ کے مجلہ ’’ المیزان‘‘ میں ایس ایم اقبال صاحب مرحوم نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا تھا۔ اس کے بعد وہ گیا کے ایک سیمینا ر کی صدارت کے لیے تشریف لائے تھے ۔ اس وقت وہاں کے سرگرم نوجوان ان سے کافی متأثر ہوئے تھے ۔ میر ا بھی ان سے ذہنی اور علمی تعلق اسی کے بعد ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ اُن کے اندر نوجوانوں میں اعلیٰ علمی ذوق،گہرے مطالعے کاشوق اور تحقیقی کام سے خصوصی لگاؤ پیدا کرنے کی ایک فکر مندی ہے۔ اسی جذبے نے میرے اندر اُن سے قربت کا شوق پیدا کیاپھردونوں کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ جاری ہوا، جو وقفے وقفے سے آخر دم تک قائم رہا۔ مجھے جب کوئی علمی مسئلہ درپیش ہوتا تو میں اُن کو بلا تکلف لکھ دیتا۔ وہ بہت شفقت اور وضاحت سے جواب دے دیتے۔ وہ سوالوں کا صرف خشک جواب نہیں دیتے تھے بلکہ اس کے اندر جذبہ اورخلوص کی حلاوت بھی شامل ہوتی تھی اور اسی وجہ سے خط و کتابت کا یہ رشتہ ایک ذاتی رشتے میں بدلتا چلا گیا۔
میری اُن سے پہلی باضابطہ ملاقات 1974ء کے آل انڈیا اجتماع جماعت اسلامی ہند، دہلی میں ہوئی تھی۔ اس وقت مولانا یوسف صاحب امیر جماعت تھے۔ ہماری رکنیت 1972ء میں منظور ہوئی تھی اور میں پٹنہ سے رانچی 1971ء میں منتقل ہو چکا تھا۔ وہ دور ہمارے لیے آزاد معاش اور پاکیزہ رزق کے لیے جدو جہد کا تھا۔اس زمانے میں ہم لوگ اعلی سے اعلی سرکاری ملازمت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔اسی سبب سے میں نے رانچی میں شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ انسٹی ٹیوٹ شروع کیاتھا۔ سخت مالی دشواریوں کا سامنا تھا اور میرے لیے ممکن نہ تھا کہ آل انڈیا اجتماع میں شرکت کر سکوں۔ لیکن وہ دور جنوں کے شباب کا تھا۔ آل انڈیا اجتماع میں شرکت نہ ہو ، یہ سوچنا بھی محال تھا۔ چنانچہ میں نے ایک خاص قسم کا قلم کلکتہ سے بنوایا، جس میں ایک بٹن دبانے سے جماعتِ اسلامی کا عقیدہ ،نصب العین، اجتماع کی تاریخ باری باری سے ڈسپلے ہوتے تھے۔ میں اسی قلم کو لے کر اجتماع میں شریک ہوا اور تھوک قیمت پر اسے بیچ دیا۔یہ قلم خوب فروخت ہوا۔ فیملی کے ساتھ آنے جانے ،دہلی لال قلعہ ،آگرہ ،تاج محل گھومنے ، سب کا خرچ نکل گیااور دوسرے لوگوں کو بھی منافع ہوا۔ بیرونِ ملک سے جتنے معزز مہمان اجتماع کے لیے تشریف لائے تھے مرکز جماعت نے اسی قلم کو خرید کر سارے مہمانوں کو ہدیتاََ پیش کیا۔ بہر حال عام اجتماع کے بعد آخری دن اجتماعِ ارکا ن شروع ہوا۔مولانا یوسف صاحب مرحوم نے اپنی افتتاحی گفتگو میں اجتماعِ ارکان کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔اس کے بعد اظہارِ خیال کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک چالیس سالہ جوان فل پینٹ اور ہاف شرٹ میں ملبوس سر پر ہلکے بال،جس سے سر اور پیشانی کی سرحد دھندلی ہو گئی تھی، درمیانہ قد، گندمی رنگ، پَتلا ناک نقشہ، اوسط جثہ،مستعد جسم،شانِ دلبری کی کوئی ادا نہیں۔ نہ تجاہل ،نہ تغافل ،نہ تبسم، بس تکلم تھا۔جس میں ایک ہلکا سا بانک پن، ٹھہراؤ، الفاظ کو تول تول کر استعمال کرنے کا ہنر، بات کو سنبھال سنبھال کر رکھنے کاسلیقہ،آواز میں ایک اعتماد اور تمکنت، دورانِ گفتگو ہلکا سا وقفہ،بیچ بیچ میں گردن کے ہلکے جھٹکے سے خیال کو سہارا دینے اور پیراگراف بدلنے کا اشارہ،سب سے اہم بات یہ کہ خیال میں بڑی تازگی اور توانائی تھی۔ امیر جماعت اسلامی ہند کی تقریر پر تبصرہ تھا، جس کو ہم لوگوں نے اس وقت گستاخی سمجھا۔ اسی کے ساتھ جماعت اسلامی کے سمت سفر پرچند سوالیہ نشان بھی تھے۔ ہم لوگ ایک نئی آواز سن کر گوش بر آوازہو گئے۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اجتماعِ ارکان کو ہم لوگ عام اجتماع سے زیادہ اہم کہتے ضرور ہیں لیکن ہمارا عمل، اس کے لیے تیاری،درکار وقت بتا رہا ہے کہ ہم اجتماعِ ارکان کووہ اہمیت نہیں دیتے ہیں،جس کا وہ مستحق ہے۔پھر اس کے بعد سمت سفر کے سلسلے میں انہوں نے گفتگو کی۔جہاں تک مجھے یاد آتا ہے اُسی گفتگو کے نتیجے میں بھوپال کا اجتماعِ ارکان 1975طے ہوا تھا۔ جس کو بعد میں شوریٰ نے انتظامی مسائل کے پیش نظر منتخب اجتماعِ ارکان میں بدل دیا تھا۔اجتماعِ بھوپال تحریک اسلامی ہند کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
بھوپال میں ہماری دوبارہ ملاقات ڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب مرحوم سے ہوئی۔ میری علمی تڑپ دیکھ کر انھوں نے مشورہ دیا تھا کہ میں ٹائپنگ انسٹی ٹیوٹ کو اپنا ذریعۂ معاش بنانے کے بجائے لائبریری سائنس میں ڈگری حاصل کرکے کسی بڑی لائبریری سے وابستہ ہوجاؤں۔اس وقت میں تاریخ میں ایم ۔اے کی تیاری کر رہا تھا۔ جب اُن کو یہ معلوم ہوا تو انھوں نے لائبریری سائنس کے بجائے تاریخ میں ایم ۔اے اور پی ایچ ڈی کرکے کسی یونیورسٹی سے وابستہ ہوجانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ بھوپال سے آنے کے بعد میں نے Ancient Historyمیں ایم ۔اے کی تیاری جاری رکھی۔ 1976ء کے آخرمیں امتحان دینے والا تھالیکن ایمرجنسی کی پکڑ دھکڑشباب پر تھی، چنانچہ امتحان دینے کے بجائے ذمہ دارانِ جماعت کے مشورے سے جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج جانا پڑا۔ بہر حال ان سے وقتاً فوقتاً خط و کتابت ہوتی رہی۔ بھوپال کے اجتماع کے بعدڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب مرحوم کا ایک کتابچہ شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے جماعت اسلامی ہند کا جائزہ بہت ہی تعمیری انداز،تنقیدی بصیرت اور اخلاص سے لیا ہے۔ میرے خیال میں اس کے بعد اس طرح کا جائزہ نہیں لیا جا سکا۔اس زمانے میں جو کتابچے اور مقالے شائع ہوئے تھے ،نئی نسل اُن بحثوں سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔ روداد جماعت اسلامی کی حیثیت سے اُن سارے مقالہ جات اور تبصروں کو شائع کر دینا چاہیے تاکہ نئی نسل پوری طرح باخبر رہے کہ ہم کن فکری مرحلوں سے کیسے گزرتے رہے ہیں۔
شانتی نکیتن سے ڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب مرحوم خرطوم یونیورسٹی ،سوڈان چلے گئے، اس کے بعد وہ سعودی عرب منتقل ہوئے۔ اس دوران بھی ان سے خط وکتابت جاری رہی۔ شانتی نیکیتن سے سوڈان جانے کے فیصلے پر میں نے بعد میں ایک ملاقا ت کے دوران اعتراض بھی کیاتھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ صدر شعبۂ عربی ،فارسی اور اسلامی اسٹڈیز کی حیثیت سے اگرشانتی نکیتن ہی میں رہتے تو تحریک اسلامی ہندکو زیادہ فیض پہنچاتے۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ شانتی وشو بھارتی یونیورسٹی کا داخلی ماحول مجھے سوٗٹ نہیں کر رہا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میری تقرری نہیں ہو سکی ۔ اگر وہاں میری تقرری ہوجاتی تو میں باہر نہیں جاتا۔ بہر حال وہ جہاں بھی رہے علمی اور فکری کاموں میں ذاتی طور پر مشغول اور نوجوانوں کی فکری اور علمی تربیت میں مصروف رہے۔البتہ وہ جب ریاض پہنچے تو تنظیمی سطح پر بھی سرگرمِ عمل ہو گئے۔اور ہندوستان کی تحریک اسلامی کے فکری مسائل میں عملاً دلچسپی لینے لگے ۔چنانچہ جب ہندوستان آتے تو یہاں دعوتی کام کے سلسلے میں دورے بھی کرتے۔ رانچی میں بھی المنار مسجد کے قریب جو زمین لی گئی ہے اس کی رقم انہوں نے ہی ریاض سے فراہم کی تھی۔ میں نے اُن کے سامنے ٹرائبل ریسرچ اینڈ رورل ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کھولنے کا پروجیکٹ رکھا تھا تاکہ آدی باسیوں میں صحیح طور پر کام ہو سکے۔ اس کو انہوں نے پسند کیا۔اُن ہی دنوں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ہندوستان میں دعوتی کام کے لیے ایک بڑا وژن رکھتے ہیں ۔اس وقت مولانا سراج الحسن صاحب امیر جماعت تھے۔اُن سے تحریکی مسائل پر تبادلۂ خیال ہوا۔انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو ہندوستان واپس آنے کی دعوت دی اور امیر جماعت کی خواہش پر وہ تیار ہو گئے۔اُن کی ملازمت ابھی وہاں باقی تھی لیکن وہ از خود سبک دوش ہو کر 1995ء میں ہندوستا ن آگئے۔ یہ ایک اچھی مثال ہے جو انہوں نے قائم کی۔ مستقل طور پر ہندوستان آنے کے بعد انھوں نے ایک طرف علی گڑھ میں سی ۔آر۔ ایس۔ جی ۔ کے نام سے علمی اور دعوتی تربیت کا ادارہ قائم کیا اور دوسری طرف پورے ہندوستان میں مختلف پروگراموں کے بہانے دورہ کرکے دعوتی کام کی منصوبہ بندی میں مصروف رہے۔ اس درمیان ان کی گفتگو میں ہندوستان کے مخصوص تناظر میں تحریک اسلامی کاآئندہ لا ئحۂ عمل کیا ہو؟ اوردعوتی اشوز اور مسائل پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ اس دوران میری اُن سے اور قربت بڑھی اور اندازہ ہوا کہ وہ ہر معاملے میں ایک متوسط انداز اختیار کرتے ہیں، چال ڈھال،بات چیت، وضع قطع،سب میں ایک میانہ روی، سنجیدگی اورمتانت کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ادب اور شاعری سے کوئی زیادہ لگاؤ نہیں تھا۔ شعر وادب کی بات ہوتی اور کسی شعر کو پڑھتے وقت کسی لفظ کو ہم لوگ نمایاں کرکے قرأ ت کرتے تاکہ اس کا حسن واضح ہو جائے تو اس کی داد دیتے تھے،جس سے اندازہ ہوتاتھا کہ بظاہر ادب سے خاص شغف نہیں ہے لیکن شعر کی جمالیات اور حسن معنی کا ادراک بھر پور ہے۔ نہ وہ بہت باغ وبہار آدمی تھے اور نہ بہت گمبھیر۔ اُن کی محفل میں نہ قہقہوں کی گونج رہتی تھی اور نہ درد ناک خاموشی۔ ہاں کسی مسئلے پر گفتگو کرتے تھے تو فلسفیانہ اسلوب اختیار کرتے تھے۔ تعلقات میں بھی ایک مخلصانہ قربت اورشریفانہ فاصلہ رکھتے تھے۔ انسانی رشتوں میں فاصلوں اور قربتوں کا معاملہ بہت نازک ہے۔ مجھ سے ان کا رشتہ ہمیشہ اُن کی طرف سے مشفقانہ اور میری طرف سے نیاز مندانہ رہا۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ جانتاتھا کہ اقبال نے مومن کی جو چار صفات بتائی ہیں وہ چاروں صفات اُن میں پائی جاتی ہیں، یعنی ؂
غفاری وقہاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اس طرح میں اُن کی نرمی کے ساتھ تنبیہی سختی اور شفقت و محبت کے ساتھ مزاج کی تندی اور تیزی، سب چیزیں دیکھ چکا تھا۔اُن کے بارے میں اُن کے شاگرد رشید عبد اللہ جاوید صاحب نے صحیح لکھا ہے:
’’ وہ اپنے مخصوص انداز سے ناراضگی فرماتے اور ایسے وقت میں آپ کی باڈی لینگویج سے شخصیت کی نرم مزاجی اوجھل ہو جاتی تھی۔ ‘‘
اُن کے بارے میں اس تجربے کے بعد میں نے ان سے استفادے کاایک خاص وطیرہ اختیار کر لیاتھا کیونکہ جب کوئی شخص بڑا عالم ہو،مخلص بھی ہو،غصے کے اظہار میں بے تکلف بھی ہو۔ جذبے میں اُتار چڑھاو بھی ہوتا ہو۔ بڑی معصومیت کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرتاہو، تو اس کے بڑے ہونے میں تو کوئی شبہہ نہیں لیکن انسانی رشتوں میں کبھی کبھی ایسی شخصیت کے ساتھ رہتے ہوئے غصے کے جھٹکے میں بے خیالی سے رشتے کی شہہ رگ کٹ جاتی ہے۔ پھر خوں بہا دینے سے بھی اُس کا حق ادا نہیں ہوتا۔ یہ سوچ کر میں نے ڈاکٹر عبد الحق صاحب مرحوم سے جہاں اخذ واستفادے کی سطح پر گہر ا تعلق رکھا،وہیں ایک چھلنی بھی لگاکر رکھی۔ چنانچہ انھوں نے سی۔آر۔ ایس۔ جی اور پھر اسلامی اکیڈمی ،دونوں میں مجھے ذمہ داری دینی چاہی اور بار بار آنے کی دعوت دی، لیکن مجھے شرحِ صدر نہیں ہوا۔ مرکزمیں جب وہ امیر جماعت منتخب ہوئے ،تب بھی انہوں نے صدیق حسن صاحب کو خدمتِ خلق کے لیے کیرالا سے مرکز بلایا، مجھے بھی وہ ملت کے تعلیمی مسائل کے سلسلے میں مرکز بلانا چاہتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ شعبۂ تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ ایک ابتدائی تعلیم اور دوسرا اعلی تعلیم کا شعبہ۔ ابتدائی تعلیم کو جناب اشفاق صاحب دیکھیں، اور اعلی تعلیم کی ذمہ داری وہ مجھ پر ڈالنا چاہتے تھے۔ میری طرف سے اقرار و انکار کے بیچ کا مرحلہ طویل ہو گیا، یہاں تک کہ جھارکھنڈ میں امارت حلقہ کی ذمہ داری مجھے اُٹھانی پڑی پھر وہ خاموش ہوگئے۔ اُن کے دورِ امارت میں امیر حلقہ کی حیثیت سے اُن کا بھر پور تعاون اور رہنمائی مجھے حاصل رہی۔ یہاں تک کہ جب میں نے یونائٹیڈ ملی فورم کے قیام کی تجویز پیش کی تو ان کی خواہش تھی کہ UMFکی بجائے میںMPJْٓقائم کروں۔ لیکن MPJکے اسٹرکچر اور فیصلے کے نظام پر مجھے اطمینان نہیں تھا۔ جماعتوں اور انجمنوں کو جب possessivenessکا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے تو اس کے تحت ذیلی ادارے اور فورم بہت پھلتے پھولتے نہیں ہیں۔ یہ میرا تجربہ ہے۔ بہر حال یہ بڑی بات ہے اور ان کی وسعت ظرف کی دلیل ہے کہ انہوں نے UMFکے قیام کی نہ صرف اجازت دی بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔اور اس کے ایک اہم پروگرام میں جو چتر پور میں منعقد ہوا تھا، شریک بھی ہوئے۔الحمد للہ ہمارے ساتھ کبھی بھی کسی موضوع پر کسی مجلس میں بھی اُن کے ساتھ ہلکی سی بھی نوک جھونک نہیں ہوئی ۔ انہوں نے بھی شفقت، ہمت افزائی اور دل جوئی میں کوئی کمی نہیں کی۔ میں نے بھی ادب و احترام، حفظِ مراتب اور لحاظ وخیال میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔ اختلاف بھی مسکراہٹ کے ساتھ اور اعتراض بھی ہنستے ہنستے کرتے تھے۔ اکثر لوگ اجتماعی زندگی میں اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ ؂
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
جب نمائندگان کے اجلاس میں امیر جماعت کے انتخاب پر گفتگو ہو رہی تھی اس وقت ہم دونوں ایک ہی کمرے میں قیام پذیر تھے اور اس وقت ڈاکٹر صاحب کی کیفیت کو ہم دیکھ رہے تھے۔ سعودی عرب سے وہ پورے جذبے، حوصلے اور وژن کے ساتھ آئے تھے۔ یہاں کے حالات کو دیکھنے کے بعداُن کو اندازہ ہوچکا تھاکہ جماعت اسلامی ہند کے امیر کی حیثیت سے اگر ذمہ داری دی جائے تو ان کو قبول کر لینا چاہیے۔ وہ اس منصب کے لیے خود کو اہل بھی سمجھتے تھے۔ بہت شفاف آدمی تھے۔اس لیے اُن کے احساسات و جذبات پر تکلف کا کوئی پردہ بھی نہیں تھا۔ دوسری دفعہ جب امارت کا انتخاب عمل میں آیا، اوروہ اس منصب کی ذمہ داری سے فارغ کر دئیے گئے اس وقت بھی اُن پرتحریکِ اسلامی کے مستقبل کے سلسلے میں فکر مندی تھی۔ وہ جس جوش ،جذبے اور حوصلے سے کام کر رہے تھے، اس میں اچانک ایک نیا موڑ آگیا۔ ان کا ایک خواب تھا جو ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔ عدم تکمیل اور تشنگی کا احساس اُن کے پورے وجود سے جھلک رہا تھا۔ بعض لوگوں نے اُن کی اس کیفیت کو آئیڈیالزم کی عینک سے دیکھا۔
بات دوسری طرف چلی گئی لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے دورِامارت میں تحریک اسلامی میں ایک نئی حرکت، تازگی اور توانائی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ شوریٰ میں پوری تیاری کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرتے تھے اور فیصلے کے بعد پورے حوصلے اور جذبے کے ساتھ ان پر عمل درآمد کی کوشش بھی کرتے تھے۔اب وہ شروانی کے ساتھ حیدرآباد ی ٹوپی بھی استعمال کرنے لگے تھے۔ ویسے اُن کی شخصیت کا بھرم اور علم کاوزن، اِن چیزوں کا رہین منت نہیں تھا۔ امارت کے منصب پر بیٹھتے ہی ان کی پیری میں ایک نئی جوانی آگئی تھی۔ علمی،تحریکی ،تنظیمی،ادارہ جاتی؛ سب کاموں کے اندر ایک مستعدی اور لگن کے ساتھ کام کرتے تھے۔ لیکن جس طرح سے ندیوں کے دو کنارے ہر جگہ چوڑائی میںیکساں نہیں ہوتے اوراس میں پانی کی گہرائی بھی ہر جگہ برابر نہیں ہوتی۔اسی طرح بڑی شخصیتوں کے علم و فکر کا بھی کنارہ ہوتا ہے اورحکمت عملی اور تجربے کی وسعت وگہرائی بھی ہر مسئلے میں برابر نہیں ہوتی۔ اسی طرح ڈاکٹر عبدالحق انصاری صاحب کے دو محاذ اُن کے دوسرے محاذ کے مقابلے میں کم گہرے تھے۔ ایک تنظیمی تجربہ اور دوسرا ہندوستا ن کاعملی سیاسی تجربہ، بالخصوص پاور پالیٹکس، اوران ہی دونوں میدانوں میں وہ زیادہ متحرک ہو گئے۔انہوں نے محسوس کیا کہ جماعت’’ فیل پا‘‘ کے مرض میں مبتلا ہے ۔ اس کی جلداصلاح کر دی جائے اور دوسری طرف مسلم ملت کی سیاسی بے وقعتی دیکھ کر اُن کے اندر ایک ملی حمیت پید ا ہوگئی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کچھ نہ کچھ فوراً کیا جائے۔ بہر حال اس کا جو کچھ نتیجہ آیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ تحریکِ اسلامی میں ہم جیسے عام ارکانِ جماعت کی گہرائی اور چوڑائی سرکاری نہروں کی مانند ہے جس کا پاٹ بھی ہر جگہ برابر اور گہرائی بھی ہر جگہ دوتین فٹ ہوتی ہے۔اس لیے شخصیتوں کا اندازہ کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں اور بڑی شخصیتوں کی گہرائی کو بھی اُن کے کنارے سے ناپتے ہیں۔ حالانکہ اُن کی اصل گہرائی اور عظمت کا راز اُن کے وسط میں ہوتا ہے۔افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنے دورِ امارت میں اپنی اصل جولان گاہ اُس محاذکو نہیں بنایا جہاں پر اُن کا پارٹ چوڑا تھا اور جہاں اُن کی گہرائی قابلِ رشک تھی۔ اگر وہ جماعت کے ادارۂ تحقیق وتصنیف، علی گڑھ ،ریسرچ سنٹر ،ٹرائیبل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، مرکزی اسٹڈی گروپ ،تصنیفی اکیڈمی،شعبۂ دعوت و تربیت کو اسی طرح ایک طویل المیعاد وژن کے تحت آگے بڑھاتے ،جیسے خدمت خلق کے لیے انہوں نے ایک بڑا وژن تیار کیا تھاتو وہ تحریک کی اوربڑی خدمت انجام دیتے۔ تربیت کے سلسلے میں تو وہ فکر مندتھے لیکن آپسی رشتوں کی دلدل میں یہ کام آگے نہیں بڑھ سکا۔
ڈاکٹر صاحب انسانی رشتوں کے سلسلے میں جہاں بہت حساس اور مخلص تھے وہیں سیاسی،تنظیمی اورجمہوری رشتوں کو برتنے میں چوک جاتے تھے۔ صحافیوں کو انٹرویو دینے میں اکثر جوش میں آجاتے تھے اس لیے کامیاب پریس کانفرنس کے لیے اُن کوڈاکٹر قاسم رسول صاحب کی ضرورت ہوتی تھی۔میں اکثرکہتا ہوں کہ چار رشتوں کو برتنے میں اُن کی نفاست اور شرافت قابل تحسین تھی۔ایک استاد اور شاگرد کا رشتہ اور دوسرا اہلِ علم کے ساتھ رفیقانہ رشتہ ، کام کرنے والوں کے ساتھ مشفقانہ رشتہ ،مثلاً ڈرائیور ،چپراسی ،پیون۔اور انتظامی سطح کے اعلی ذمہ داروں کے ساتھ رسمی وانتظامی رشتہ ۔ یونیورسٹی میں کام کرنے والوں کو عام طور سے ان ہی چار رشتوں کو برتنے کا موقع ملتاہے۔ مختلف النوع انسانی رشتوں کو پرکھنے ،برتنے اور نبھانے کاجو سلیقہ مولانا سراج الحسن صاحب کے یہاں ملتا ہے، ویسی پختگی کسی اور کے یہاں نہیں دیکھی۔
وہ کبھی کبھیImpulsive بھی ہو جاتے تھے۔جو جذبات سے تھوڑی مختلف چیز ہے۔ اکثرمخلص آدمی ،جذباتی ہوتا ہے اورجو جذباتی ہوتا ہے اس کے مزاج میں تھوڑی تیزی بھی آجاتی ہے۔بہت بڑی بڑی شخصیتیں بالخصوص جو فکری کام بڑے انہماک سے کرتی ہیں جذباتی اوروجدانی سطح پر اُن کے Impulsive ہونے کا اندیشہ لگا رہتاہے۔ اس موقع پر مجھے علامہ اقبال کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے،جس کا ذکر شورش کاشمیری نے عبدالمجید سالک صاحب کے خاکے میں کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ جس زمانے میں اقبال انارکلی میں رہتے تھے، ان دنوں لاہوری دروازہ اور پرانی انارکلی میں بھی کسبیوں کے مکان تھے۔ ایک دن میں علامہ کے ہم راہ انارکلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک وہ ایک ٹکیائی کے دروازہ پر رک گئے۔ ادھیڑ عمر کی کالی کلوٹی عورت ، مونڈھے پر بیٹھی حقہ سلگا رہی تھی۔اندر گئے،حقہ کا کش لگایا، اَٹھنّی یا روپیہ اس کے ہاتھ میں دے کر آگئے۔ میں بھونچکا رہ گیا، ڈاکٹر صاحب یہ کیا حرکت ؟ فرمایا، سالک صاحب، اس عورت پر نگاہ پڑی تو اس کی شکل دیکھ کر لہر سی اُٹھی کہ اس کے پاس کون آتا ہوگا؟ پھر مجھے اپنے الفاظ میں تکبر محسوس ہوا۔ میں نے خیال کیا کہ آخر اس کے پہلو میں بھی کوئی دل ہوگا۔ یہی احساس مجھے اس کے پاس لے گیاکہ اپنے نفس کو سزا دے سکوں اور اس کی دل جوئی کروں۔ یہ عورت صرف پیٹ کی مار کے باعث یہاں بیٹھی ہے۔ ورنہ اس میں جسم کے عیش کی ادنیٰ سی علامت بھی نہیں ہے۔‘‘(اردو کے منتخب خاکے،مرتبہ یوسف ناظم،صفحہ ۷۰)
سالک صاحب نے علامہ اقبال کے بارے میں مندرجہ بالا واقعے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’ عمر کی آخری تہائی میں وہ ہر چیز سے دست بردار ہو گئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہو کر رونے لگتے،حضور کا نام آتے ہی ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی، پہروں اشک بار رہتے ۔ ایک دفعہ میں نے ایک حدیث بیان کی کہ مسجد نبوی میں ایک بلی نے بچے دے رکھے تھے۔ صحابہ نے بلی کو مارنا چاہا تو حضور نے منع فرمایا ۔صحابہ نے عرض کیا کہ مسجد خراب کرتی ہے۔ حضور نے فرمایا کہ اسے مارو نہیں ،یہ ماں ہو گئی ہے۔ حدیث کا سننا تھا کہ علامہ اقبال بے اختیار ہو گئے ،دہاڑیں مار کر رونے لگے۔سالک صاحب کیا کہا۔ مارو نہیں ماں ہو گئی ہے۔ اللہ اللہ امومت کا یہ شرف ؟ سالک صاحب کا بیان تھا کہ حضرت علامہ کوئی پون گھنٹہ اسی طرح بے اختیار روتے رہے۔ میں پریشان ہو گیا۔ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو مجھے بھی چین آیا ۔ ورنہ جب تک وہ اشک بار رہے میں ہلا رہا کہ گویا مجھ سے کوئی شدید غلطی ہو گئی۔(اردو کے منتخب خاکے،مرتبہ یوسف ناظم،صفحہ ۷۱)
علامہ اقبال کے اس رویے میں ڈاکٹر عبدالحق صاحب کی ایک ہلکی سی جھلک مجھے ملتی ہے۔ ڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب حقہ تو نہ پیتے لیکن خاموشی سے کچھ رقم ضرور بھجوا دیتے۔اور رقیق القلب بھی تھے۔آخری دنوں میں تقریروں کے درمیان آواز روندھ جاتی تھی اور آنکھیں اشک بار ہو جاتی تھیں۔
ڈاکٹرصاحب کا اصل میدان اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید تھا ۔ اس سلسلے میں اُن کی کتاب ’’ مقصدِ زندگی کا اسلامی تصور‘‘دینی شعور کی تشکیلِ میں اعتدال اور توازن کے پہلو سے بڑی اہم کتاب ہے۔جس میں وحید الدین خاں صاحب کی کتاب ’’ تعبیر کی غلطی‘‘ کا جواب بھی ہے۔ خود ڈاکٹر صاحب نے بھی میرے خط کے جواب میں لکھا تھاکہ میں نے بغیر نام لیے ہوئے وحید الدین خاں صاحب اور اس طرح کے دوسرے ناقدین جماعت کے اعتراضات کا جواب اس کتاب میں دیا ہے۔اس کے اسلوب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں تحقیقی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔بلاغت تو ہے لیکن فصاحت کی کمی ہے۔ بلاغت معنی کو دوسروں تک پہنچا دینے کا نام ہے۔ فصاحت میں پہنچانے کے ساتھ حسنِ اظہار کی اصل اہمیت ہے اور ان دونوں کے ملنے سے حرکی اسلوب پیدا ہوتاہے۔ حرکی اسلوب کا مطلب یہ ہے کہ ادراک (perception) اور اظہار(Expression) دونوں کی سطح پر ایک ہمواری ہو، تاکہ شعور اور جذبہ دونوںیکساں طور پر مہمیز ہوسکیں۔ مولانا مودودی کے اسلوب کا یہی کمال ہے۔میں نے اس کا ذکر ڈاکٹر صاحب مرحوم سے بھی کیا تھا۔انہوں نے اعتراف کیا اور کہنے لگے کہ نئے ایڈیشن کے وقت اس پر توجہ دوں گا۔اور دل جوئی کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری مدد بھی لوں گا۔اس کا دوسرا ایڈیشن اگر وہ شائع کرتے تو صرف اسلوب بیان ہی نہیں،خلافت کے عنوان کے تحت انہوں نے جو بحث کی ہے ،اس پر کچھ اور وضاحت کے لیے میں اُن سے درخواست کرتا۔ ان کی دوسری کتاب ’’تصوف اور شریعت‘‘ ہے۔ جو صوفیانہ ڈسکورس کو سمجھنے میں بڑی معاون و مدد گار ہے۔ ہم لوگوں نے اسے رانچی یونیورسٹی کے ایم ۔اے اردو کے تصوف کے پرچے میں داخلِ نصاب بھی کرایا تھا۔ تعلیم، تدریس اور تحقیق کے پہلو سے یہ کتاب بہت موزوں ہے۔ البتہ تصوف میں حبِّ عقلی اور حبِّ عشقی کی جو بحث ہے، اس پر اپنی طرف سے اور روشنی ڈال دیتے تو اچھا تھا۔ وہ صوفی مزاج تھے اور مسائلِ تصوف اور سلوک کی منزلوں کے سلسلے میں دقیق بحثیں بھی کیں۔ بہر حال تصوف کے سلسلے میں ہمارے ذہن میں ایک بات بہت واضح رہنی چاہیے کہ جس طرح عقل و شعور کے ذریعے حقیقت کو سمجھنے کی انسانی کوشش کا نام فلسفہ ہے۔اسی طرح مشاہدۂ حق کے عارفانہ اور باطنی ریاض کا نام تصوف ہے۔ دین اسلام میں بھی دو چیزیں پائی جاتی ہیں ۔ایک نظامِ عمل اور دوسرا نظامِ احوال و کیفیات۔ مسلم علماء اور صلحاء نے اسلامی کیفیات و احوال کو حاصل کرنے کے لیے انسانی علم و فن کو استعمال کیاہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایمان بالغیب میں ہی بندوں کا اصل امتحان ہے۔ لیکن ایمان کے محتویات(Content) اپنے غیاب کی وجہ سے عقلِ انسانی میں سوالات کھڑے کرتے رہتے ہیں اور اس کو منجمد نہیں رہنے دیتے۔قرآن کی آیت ہے۔’’والذین آمنو أشدُّ حُباً للہ‘‘ آپ اس آیت کی حقیقت کو عقل سے سمجھنے کی کوشش کیجیے، دوسری طرف اس سے پیدا ہونے والی کیفیات کو اپنا حال بنا کر بھی تجربہ کیجیے۔ عقل اس معاملے میں جس تجربے سے گزرے گی وہ حبِّ عقلی ہے اور دل جن کیفیات سے دوچار ہوگا وہ حبِّ عشقی ہے۔ گمراہی وہاں سے پیدا ہوتی ہے جب عقلی تجربے اور قلبی کیفیات کا آزادانہ اظہار ہونے لگتاہے اور وہ مستند بھی بن جاتاہے۔ حالاں کہ یہ دونوں چیزیں اسی وقت معتبر ہو سکتی ہیں جب اس کی تائید اور تصدیق قرآن و سنت سے ہو۔ کیونکہ یہ آیت جس شخصیت پر نازل ہوئی تھی،اس کے شعور اور وفورِ شوق دونوں کا یہ حصہ ہیں، اس لیے اس کی سند بھی وہیں سے ملنی چاہیے:
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
ڈاکٹر صاحب کی اور بھی کئی تصنیفات ہیں۔ ان کے علاوہ کئی قیمتی مضامین مختلف پرچوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جب وہ کسی اختلافی مسئلے کا محاکمہ کرتے تھے تو مسئلے کے تمام پہلوؤں پر نگاہ ڈالتے تھے۔ ایوب خاں کے زمانے میں پاکستان کے صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناح کے مسئلے پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ اس میں دینی اور شرعی بحثیں بھی کی گئیں اور اس کی بنیاد پر مولانا مودودی سے مخالفت کا طوفان لوگوں نے کھڑاکر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ان تمام بحثوں کا محاکمہ کیا ہے۔ اس میں بڑی گہرائی ہے۔ اس سے ان کے تفقہ فی الدین کا اندازہ کیا جا سکتاہے۔ میں چاہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب عقل کو برتنے کا جو مغربی اسلوب ہے اورجو قرآنی اسلوب ہے،اس کے جوہری فرق پر بحث کر دیتے توایک اہم کام ہو جاتا۔ مغربی مفکرین اور فلسفی عقل کو حَکَم بنا کر مخاطب کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ عقل کا خالق ہے اس لیے وہ قرآ ن میں عقل کے لیے حجت تو فراہم کرتاہے اور دلیل بھی دیتا ہے لیکن عقل کو بھی بندگی کے آداب سکھاتاہے۔بہر حال یہ ان ہی کا موضوع تھا۔میں کئی تیز اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو دیکھتاہوں کہ اُن کے شعور کی منطقی ساخت مغربی طرز سے مستعار ہے۔ قرآن سے پوری طرح روشن نہیں ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں دو شخصیتوں کو بڑا بھولا بھالا اور سادہ پایا ہے۔ ایک کی زندگی میں عالم کا بھولا پن، اور دوسرے کی شخصیت میں عارف کا بھولا پن۔عالم کا بھولا پن ڈاکٹر عبد الحق مرحوم کے اندر اور عارف کا بھولا پن ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ صاحب مرحوم میں۔ علم جب اپنے جوہر خشیت کے ساتھ شعور کاحصہ بن جائے اور فطرت انسانی اپنی معصومیت کے ساتھ طبیعت کا جزو بن جائے، تو عالم کا بھولا پن وجود میں آتا ہے اور دین جب اپنے جوہر معرفت کے ساتھ شعور میں حاضر ہو جائے اور اخلاق اپنے احساسِ بندگی اور عاجزی کے ساتھ طبیعت کی رگ و پے میں سما جائے تو عارف کا بھولا پن وجود میں آتاہے۔ حدیث میں اس کو سچے مومن کی پہچان بتایا گیا ہے۔ یہ کم عقلی سے اظہار پانے والارویہ نہیں ہے اور نہ اس کو سیدھے شریف آدمی کی نادانی کہہ سکتے ہیں بلکہ شعور میں ایمانی فراست اور طبیعت میں وفور محبت کے چشمے سے ابلتا ہوا انسانیت کا فطری حسن ہے اور یہ صفت پیدا ہونا آسان نہیں ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights