تبصرہ کتاب: جدید ہندوستان چند تصویریں

مطیب احمد خان

آج مسلمان بین الاقوامی سطح پر ایک نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت بھی بد سے بدتر ہوئی جا رہی ہے۔ یہ وہی مسلمان ہیں جنھوں نے بحیثیت تاجر ہندوستان میں قدم رکھا اور ترقی کرتے ہوئے تخت وتاج کے وارث بن گئے۔ پھر انگریزی حکومت نے تختہ پلٹا۔ پھر تبادلہ اقتدار ہوا جس کے نتیجے میں دو ریاستوں کی تشکیل ہوئی۔ مسلمانوں کے اس بٹوارے نے اس ملک  کی سب سے بڑی آبادی کو یتیم کر دیا۔

نتیجتاً، ہزارہا تدبیروں اور بحثوں کے باوجود بھی آج ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی و سماجی حالات سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صدیوں سے پچھڑے کہے جانے والے دلتوں سے بھی بدتر ہیں۔ یہاں تک کہ سیاسی طور پر کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو مسلمانوں کی بدحالی کو سامنے لائے اورانہیں ان  کا حق دلائے۔

فی الحال، ہندوتوا کے پیروکاروں نے مکمل طور پر سیاسی اور معاشی اقتدار اپنے تصرف میں کرلیا ہے۔ اسی کے ساتھ اس کے مستقل بیانیہ، پالیسی، تشدد اور نفرت نے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جہاں کچھ لوگ ان حالات سے سہمے جاتے ہیں وہیں کچھ ایسے اہل نظر بھی ہیں جو اس سے ایک نئے خواب کی تعبیر اخذ کرتے ہیں اور اس ابھرتی ہوئی نسل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ایک جہت کے ساتھ اپنے حقوق اور سوالوں کے جواب طلب کرتی ہیں۔

شبیع الزمان صاحب کی کتاب” جدید ہندوستان: چند تصویریں” اس سمت میں ایک اہم کوشش ہے۔ یہ کتاب مصنف کے تقریباً چالیس مضامین پر مبنی ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔ ہندوتوا- منظر اور پس منظر

۲۔ ہندوستانی مسلمان- نئی زمین نیا آسمان

۳۔ سی اے اے اور این آر سی قوانین اور ان کے خلاف احتجاج کے تناظر میں

۴۔ ہندوستانی سماج – جدید منظر نامہ

۵۔ ہندوستانی سیاست – نیا افق

مصنف کے مطابق، ہندوستان کے موجودہ منظر نامے میں تاریخ سے اخذ شدہ وہ انکشافات  ہیں جنہیں یہ کتاب افشاں کرتی ہے۔ یہ کتاب مصنف کی تاریخ پر گہری نظر  اور ماضی قریب کے واقعات کو سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت کی  نشاندہی کرتی ہے۔ کتاب کا انداز معتدل ہے کیونکہ مصنف نے اپنے جذبات کے بے ساختہ اظہار سے بڑی حد تک گریز کیا ہے۔ یہ کتاب کئی لحاظ سے منفرد ہے جن میں سے ایک بات  یہ ہے کہ مصنف نے مختلف حوالہ جات سےچیزیں اخذ کی ہیں۔ علاوہ ازیں روایتی اور اسلامی مفکرین اور مصنفین دونوں پر غور کیا ہے- مصنف نے ایک طرف مولانا مودودی اور سید سلیمان ندوی جیسے اسکالرز کا حوالہ دیا ہے تو دوسری طرف آر۔ سی۔ ماجومدار اور آر۔ پی۔ ترپاٹھی کا۔ مصنف نے ایک طرف مسلم اردو مورخ محمد اکرام کا بہت زیادہ حوالہ دیا تو دوسری طرف رومیلا تھاپر اور اروندھتی رائے کا ۔

ابتدائیہ میں مسلمانوں کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف نے کچھ دلچسپ اصطلاحات بیان کی ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ناامیدی کے دلدل سے نکال کر نئی سوچ کے ساتھ ابھارنا چاہتے ہیں۔ مصنف، سید سلیمان ندوی کی بات کو نقل  کرتے ہوئے مسلمانوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “ہندوستان سے ان کا تعلق آریاؤں کی طرح صرف چند ہزار برس کا نہیں ہے بلکہ پیدائش کے آغاز ہی سے یہ ان کا “پدری وطن” رہا ہے۔ ان کے جد امجد حضرت آدم اسی جنت نشاں ملک میں اتارے گئے”۔  وہ مسلمان جو اس الزام سے ڈر جاتے ہیں کہ ان کے اجداد بیرونی لٹیرے  تھے یہ اصطلاح سوچ کا ایک نیا زاویہ دیتی ہے۔ اسی طرح مصنف خبردار کرتے ہیں کہ جس جماعت میں بےبسی اور مایوسی  آ جائے وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتی ہیں۔

پہلے باب میں مصنف نے اپنی بات مسلمانوں کے بھارتی کرن سے شروع کی ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے کلچر اور اپنی تہذیب کو چھوڑ کر بھارت کی تہذیب کو اختیار کریں ۔ اس میں مصنف اُن ایجنٹس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جو خود مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں۔۔

در اصل جہاں انگریزی حکومت کے آنے سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان تہذیبی تصادم رہا وہیں ہندوؤں کے لیے ان سے تعلق استوار کرنا بہت مشکل نہیں تھا کیونکہ خود کو بدلتے ہوئے حالات میں ڈھال لینا ہندو ازم کی بنیادی صفات میں سے ایک ہے۔ اس لیے جب ہندوؤں نے مغربی تعلیم و تہذیب کو تسلیم کیا تو ان کے اندر دو طرح کے رجحانات پیدا ہوئے۔ ایک الحاد کا اور دوسرا مذہب میں اصلاح کا۔

ہندو سماج کے اس دوسرے طبقہ کی ضرورت کو ہندووادیوں نے پورا کیا اور اپنے اندر کے احساس کمتری کو ختم کرکے اقتدار کا خواب دکھانا شروع کر دیا ۔ ان کے پیشِ نظر یہ ایک بڑا مسئلہ تھا کہ وہ کس طرح مختلف بتوں میں یقین رکھنے والے ہندوؤں کو یکجا کریں۔ اس کمی کو بالآخر ساورکر نے پورا کیا جو خود ایک ملحد تھا ۔ اس نے یوروپین وطنیت کی بنیاد پر ہندوتوا کی تشکیل کی۔

بہرحال، ہندوتوا وادیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہندوستان میں ان کی ہر تدبیر ناکافی ثابت ہو رہی تھی اور ان کے خواب پورے کرنے سے قاصر تھی۔ لیکن صد افسوس یہ زیادہ دنوں تک نہ چل سکا۔ آخرکار راجیو گاندھی نے رام مندربابری مسجد کے تالے کھلوا کر رام مندر کی تحریک کو جان بخشی۔ اس طرح سے سنگھ کو کانگریس کی شہ ملی اور ان کا راستہ مزید ہموار ہوا۔ نتیجتاً سنگھ کی پالیٹکل پارٹی بی جے پی ایک نئی آن بان کے ساتھ منظر عام پر آئی اور آگے چل کر اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئی۔ مصنف کے یہ مضامین سنگھ کے پچھلے سو سال کی تاریخ کا تجزیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مودی کے ظہور کے بعد سنگھ کس طرح سے صفحہ ہستی پر کھل کر سامنے آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سنگھ کس طرح اپنا کام انجام دیتا ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں۔ مصنف نے ہندو احیاءپرست اور سنگھ کی الگ الگ شخصیات جیسے وویکانند، دیانند سرسوتی، تلک، ہیڈگیوار، ساورکر، گولوالکر، دین دیال اپادھیائے، بھاگوت اور ان کے نظریات کا جو  نقشہ کھینچا ہے وہ قابلِ دید اور انتہائی گہرا ہے۔ اسی کے ساتھ مصنف نے آر ایس ایس کی ساری حکمت عملی چاہے وہ اڈوانی کا کمنڈل ہو یا بھاگوت کی مسلمانوں کی خوشنودی ،سب کو ایک سرے سے بے نقاب کیا ہے۔ کہیں کہیں ہندوتوا کی لہر اور اس کو درپیش خطرات بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ الغرض یہ کہ اس کتاب کو پڑھ کر قاری ان سب خطرات کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے مناسب تدبیریں کر سکتا ہے۔

آگے مصنف مسلم قیادت کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے خود پر لگے تقسیم ہند کے الزامات کو دھونے کے لئے خود کو سیکولر جماعتوں کے ساتھ جوڑ لیا۔ اس وجہ سے انہوں نے سب سے بڑی سیکولر جماعت کانگریس کی حمایت کی اور یہ خود اپنی سیاسی شناخت اور سوجھ بوجھ کو مٹی میں ملا کر اس کے تابع ہو گئے۔ یہاں قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ جب مسلم سیاست پوری طرح اپنی شناخت کھو بیٹھی تو مسلمانوں کی‌اپنی تعلیم و تربیت، ثقافت، تہذیب اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیات پر کیسا اثر پڑا ہوگا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ نریندر مودی کی ہندووادی حکومت اور ہندو لہر کی وجہ سے سیکولر جماعتوں نے بھی مسلمانوں سے ایک محتاط دوری اختیار کرلی اور اس قوم کو حاشیے پر لا کھڑا کیا۔ اس طرح مصنف کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں رہی سہی عزت و اقتدار بچانے کے لیے مسلمانوں کی اپنی ایک سیاسی جماعت کی اشد ضرورت ہے۔

مسلمانوں سے منسلک مشہور تنازعات جیسے ہندوستان میں ان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کووڈ کے اوقات میں انہیں کمتر باور کرانے کی سازشوں کا خلاصہ بھی اس کتاب میں موجود ہے۔

اس کتاب کا ایک اہم حصہ مصنف کا اسلامو فوبیا کا تجزیہ ہے جس میں نازیہ ارم کی کتاب Mothering a Muslim کا جائزہ بھی شامل ہے۔ مصنف نے اسلاموفوبیا جو کہ ایک مغربی اصطلاح ہے،کا  ہندوستان میں پنپ رہے اسلامو فوبیا سے موازنہ کیا ہے۔ مغرب میں جہاں اسلامو فوبیا سیاسی ہے وہیں ہندوستان میں اس کے عناصر سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی، ثقافتی اور سماجی بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کی مورخ ہندوستان کو اسلامو فوبیا کا ‘ایپی سینٹر’ کہنے لگے ہیں۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب ہندوستان کی تاریخ کی روشنی میں اس کے حالیہ مسائل، واقعات اور تنازعات کو سمجھنے کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے لیے ایک جامع کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ البتہ اس کتاب میں مزید نظر ثانی کی گنجائش باقی ہے۔  مثال کے طور پر،  مصنف جہاں کانگریس کے تجزیے کے بارے میں کہتے ہیں کہ کانگریس نے سیکولرازم سے پہلے ہی سمجھوتا کر لیا تھا وہیں وہ کانگریسی لیڈران کے تجزیے میں تنقیدی پہلووں کو گول کر جاتے ہیں۔ خاص طور پر ششی تھرور کے تبصرے (ہندو پاکستان اور ہندو طالبان) پر مصنف کو جہاں تنقیدی رخ اختیار کرنا چاہیئے تھا وہاں  وہ ان کی تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ ہندو سماج کی رائٹ ونگ کی طرف مسلسل بڑھتے  رجحانات کو روکنے کے لیے اچھے مسلم اور برے مسلم کا کھیل  کانگریس کی پرانی تراکیب میں سے ایک رہا ہے۔ اسی ترکیب کا نتیجہ ہے کہ جو بےگناہ مسلمان سالوں سے قید میں رہ رہے ہیں انہیں مسلم سماج کسی عظیم بھلائی کے لئے قربان کر کے اپنا دامن چھڑاتے ہیں۔ اس طرح یہ کانگریسی حکمت عملی عام مسلمانوں کے ہوش و ہواس میں ایک برے مسلمان کے تصور کو اور مضبوط کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان، طالبان وغیرہ کا استعمال آج مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایک ٹول کی طرح کیا جاتا ہے اور اس طرح مسلمانوں پر کی گئی ساری زیادتی کو جائز قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اس کھیل کی مثال خود مصنف نے تقسیم کے الزام کو سمجھاتے ہوئےبیان کیا ہے ۔

ہندوستانی مسلمانوں نے تقسیم کا الزام لگنے کے بعد  اپنی سیاسی اور سماجی محفلوں میں پاکستان کا لفظ تک استعمال کرنا چھوڑ دیا۔ رفتہ رفتہ اس بات نے ان کے فکری عمل کو بھی متاثر کیا جس کا اثر اس کتاب میں بھی نظر آتا ہے۔ہندوستان کی نسبت سے اس کتاب کے 1947 سے پہلے کے تجزیے میں مصنف کے تخیل میں آج کے پاکستان اور بنگلہ دیش کی زمین اور آبادی تو شامل ہیں لیکن 1947 کے بعد کے تجزیے میں مکمل طور پر نظر نہیں آتی۔

کچھ مورخین کا یہ دعویٰ ہے کہ ہندوستان میں ہندوتواوادیوں کا مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ ہے اس پر پاکستان کا وجود اور اس کی سماجی و اقتصادی حالات کا  براہ راست اثر ہوگا اور ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ خود سنگھ اپنا مقصد، منصوبہ اور حکمت عملی طے کرنے کے وقت موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں اور زمین کو اپنے تخیل سے باہر نہیں رکھتا۔

اس کے علاوہ اس کتاب کا ڈھانچہ، جو بہت سے الگ مضامین پر مبنی ہے، بہت سی باتوں اور الگ الگ تجزیوں کو دہراتا نظر آتا ہے۔

یہ کتاب، ان تمام لوگوں  کے لئے جو ہندوتوا، ہندوستانی مسلمان، ہندوستانی سماج، بی جے پی کے پچھلے کچھ سالوں کی پالیسیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں ،بےحد مفید اور کارآمد ہے۔مسلمانوں کی فکری لائیبریری میں ایک اہم اضافہ کرنے پر مصنف قابل تعریف ہیں ۔

اگست 2022

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں