نبی ؐ کیسے تھے، کیا تھے اور کیا نہ تھے؟

0

ڈاکٹر وقار انور

عن ابی ہریرہ کان ﷺ شبح الذراعین اھدب اشفار العینین بعید ما بین المنکبین یقبل جمیعا و ید برجمیعا لمہ یکن فاحشا ولامتفحشاولا صخابا فی الاسواق (السلہ الصحیحہ حدیث نمبر 2184 )

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپؐ کی کلائیاں چوڑی تھیں اور آنکھوں کے کشادہ کناروں والے تھے، کاندھوں کے درمیان فاصلہ تھا، پوری توجہ سے آگے چل کر آتے اور پوری توجہ سے واپس جاتے، بدگو، بدزبان اور بازاروں میں شور کرنے والے نہ تھے۔

درج بالا حدیث شمائل نبی ؐ سے متعلق ہے ۔ اس طرح کی روایات میں اصحاب کرام رضی اللہ عنھم حضور ؐ کی شکل و صورت، عادات و اطوار، ذوق و مزاج اور سیرت و کردار کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہیں۔ الفاظ اصحاب کرام کے ہوتے ہیں اور بیان آقائے نامدار ؐ کا ہوتا ہے۔ آں حضرت ؐ پر ایمان لانے والوں نے کس محبت، تعلق اور توجہ سے آپؐ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک خصوصیات کا مشاہدہ کیا، یاد رکھا اور ان کی روایت کی ہے وہ انسانی تاریخ کا ایک عجوبہ اور حسین باب ہے ۔ اس طرح نبی ؐ کی پوری قلمی تصویر محفوظ ہو گئی ہے اور آپ کی شخصیت کے تمام پہلو صفحہ قرطاس پر موجود ہیں۔ ایسا نہ اس سے قبل کسی اور شخصیت کے سلسلہ میں ہوا اور نہ بعد میں اور نہ قیامت تک ہونے کا کوئی امکان ہے۔

شمائل نبی ؐ کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جو قاری کے اندر محبت رسول ،جو در اصل ایمان و عمل صالح کا لازمی تقاضہ ہے، کی لوکو بڑھانے والا ہے۔ یہ لو جتنی تیز ہوگی ایمان کا نور اتنا ہی زیادہ منور ہوگا اور قرب الٰہی اس شخص میں اتنا ہی زیادہ بڑھتا چلا جائے گا۔

متذکرہ حدیث میں حضور ؐ کی کلائیوں ،آنکھیں اور کاندھوں کے سلسلہ میں جو ذکر ہے اس کا ذکر آپ ؐ سے ذاتی تعلق کو بڑھانے والا ہے۔ ذات رسول سے یہ ذاتی تعلق محبت رسول کی ایسی کیفیت پیدا کر سکتا ہے جس کے بعد اطاعت رسول سہل ہو جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو جو حسن و جمال عطا کیا تھا اسے کوئی دوسرا شخص اپنے اندر پیدا نہیںکر سکتا لیکن اس کا گرویدہ ہو کر اطاعت اور اتباع رسول کی راہ میں آگے کا سفر طے کرنے کی سعی کر سکتا ہے۔

اس حدیث میں بقیہ باتیں ایسی بیان ہوئی ہیں جن کا اتباع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ راوی نے حضور ؐ کی یہ صفت بیان کی ہے کہ آپ ؐ پوری توجہ سے آگے چل کر آتے تھے اور پوری توجہ سے واپس جاتے تھے(یقبل جمیعا وید برجمیعا)۔اس کا ترجمہ اس طرح بھی کیاجا سکتا ہے کہ سامنے ہوتے تومکمل اور پیچھے مڑتے تو مکمل۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے ہی دوسری روایت یہ ہے ’’میں نے کسی کو رسول اللہ ؐ بڑھ کر تیز رفتار نہیں دیکھا ہے، گو یا زمین آپؐ کے لیے لپیٹ دی جاتی تھی۔ ‘‘ دوسری روایتوں سے جو بات معلوم ہوتی ہے کہ قدم رکھتے تو پورا قدم رکھتے ، جھٹکے سے اٹھتے پھر جھٹکے سے پائوں اٹھاتے اور نرمی سے چلتے اور جب مڑتے تو پورے مڑتے۔ کسی سے گفتگو کر رہے ہو تے تو صرف چہرہ اس کی طرف نہیںکرتے بلکہ پورا جسم اس کی طرف کر لیتے۔ ان تمام باتوں سے جو صفات سامنے آتی ہیں کہ وہ یہ ہیں کہ آپؐجو کام کرتے پوری توجہ، پوری دلجمئی اور مکمل طور پر کرتے، آتے تو پورے طور پر آتے، جاتے تو پورے طور پر جاتے اور مڑتے تو پورے طور پر مڑتے اور کسی سے گفتگو کرتے تو پوری سنجیدگی کے ساتھ اور یہ صفات زندگی کے تمام معاملات پر محیط ہیں۔ہمارے لیے بھی اسوہ رسول یہی ہے کہ کوئی کام بے دلی اور ڈھیلے ڈھالے طریقہ پر انجام نہیں دیا جائے۔ زندگی کا ہر کام کو حتی کہ نشست و برخواست جیسے بظاہر عمومی اور معمولی کام بھی پوری سنجیدگی اور دل وجان کی آمادگی کے ساتھ کیا جائے۔

راوی حدیث نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ حضورؐ کیسے تھے، اخیر میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ آپ کیا نہ تھے، یعنی کن خرابیوں کا شائبہ تک بھی آپ کے یہاں نہیں پایا جاتا ہے۔ راوی بتاتے ہیں کہ رسول اللہ بد گو، بدزبان اور بازاروں میں شور کرنے والے نہ تھے۔ یہ وہ خرابیاں ہیں جو عام انسانوں میںا کثر پائی جاتی ہیں لیکن آپؐ ان سے پاک تھے اس لیے امت کے افرا د کو بھی اسوہ رسول کے اتباع میں ان خرابیوں سے بچنا چاہیے۔

متذکرہ حدیث کا حسن یہ ہے کہ اس کے شروع میں آں حضرت ؐ کے ظاہری حسن کابیان ہے اور بعد میں حسن باطنی کا جس کے پر تو کے طور پر آپؐ کا بنیادی کردار کیا تھا اور کیا نہ تھا اس کا ذکر آگیا ہے۔ محبت، اطاعت اور اتباع رسول کا وافر سامان اس روایت میں موجود ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights