صدیق حسن مرحوم : حوصلے، ہمت اور بصیرت کا استعارہ

0


مصدق مبین


وبا کے دنوں میں موت ایک روزنامچہ بن گئی ہے۔ گویا ہر روز کسی نہ کسی کے بچھڑ جانے کی خبر مل ہی جاتی ہے۔فطری افسوس و غم کی کیفیت میں مزید شدت اس وقت آتی ہے جب انتقال ایسے شخص کا ہو جو ملک و ملت کا محسن و خیر خواہ رہا ہو۔ صدیق حسن صاحبمرحوم ان محسنین میں ہی سے تھے جنہوں نے متاع زیست کا ہر لمحہ خلق خدا کی خدمت اور انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں لٹا دیا تھا۔2007 یعنی آج سے تیرہ سال پہلے کی بات ہوگی،پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں اور چائے کے باغانوں سے گھری، ریاست کیرلا کی مشہور وادی، وائناڈ میں ہم نے ایک تربیتی کیمپ منعقد کیا تھا۔ اس کیمپ میں صدیق حسن مرحوم بھی بطور ریسورس پرسنتشریف لائے تھے۔ انکی گفتگو کا عنوان دعوت اسلامی سے متعلق تھا۔ مجھے یاد ہے کہ گفتگو کی شروعات آپ نےسورۃيوسف کی ان آیات سے کی تھی۔۔۔ قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ أَدْعُوْآ اِلَی اللّٰهِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۔ تم ان سے صاف کہہ دو کہ “میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔۔۔ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے لفظ بصیرت پر زور دیا۔ اور دعوت و بصیرت کے باہمی تعلق کی وضاحت کی۔ بصیرت کو سمجھانے کے لیے انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بصیرت ہی ہے جسے ہم انگریزی میں”ویژن”کہتے ہیں۔ صدیق صاحب سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ اتفاق یہ کہ اسکے بعد صدیق صاحب کا جو بھی تعارف ہوا وہ “ویژن 2016” سے ہی ہوا۔
سچر کمیٹی رپورٹ کے بیک ڈراپ میں جماعت اسلامی ہند نے شمالی ہند کے مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی اور فلاح کے لئے ایک طویل المیعاد رفاہی منصوبہ بنایا تھا۔ جسے پہلے vision 2016 اور اب vision 2026 کہا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا ذمّہ، جماعت نے صدیق صاحب کے سپرد کیا۔ صدیق صاحب نے پوری دلجمعی، حوصلے اور لگن کے ساتھ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے رات دن ایک کر دیا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ویژن ایک حقیقت بننے لگا۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہر لحاظ سے پچھڑے ہوئے معاشرے کی تعلیمی، سماجی، اور معاشی ترقی کی کوششیں کوئی بچّوں کا کھیل نہیں ہے، جو چند دنوں اور چند سالوں میں آسانی سے مکمل ہوجائے۔ کسی بھی غیر سرکاری تنظیم کے تو بالکل بس کے باہر کی بات ہے۔ لیکن اسکے لیے ، زمینی منصوبہ بندی، مضبوط نیٹورک، چست انتظامیہ اور وسیع رابطہ عامہ کا قیام بھی انتھک محنت اور مستقل جدوجھد کا تقاضہ کرتا ہے۔ صدیق صاحب نے یہ کام کرکے دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ صدیق صاحب جب بہت زیادہ علیل ہوگئے اور اپنی ذمّہ داریوں سے الگ ہوئے ، تب بھی vision خوب سے خوب تر پیش قدمی کرتا رہا۔دراصل اسکے پیچھے وہ بنیاد کے پتھر تھے جو صدیق صاحب نے اپنے آپ کو فنا کرکے لگائے تھے۔ بعد میں ان بنیادوں پر کھڑی عمارت میں لوگ کنگورے لگاتے رہے، رنگ و روشنی سے روشن کرتے رہے۔
صدیق حسن صاحب پہلے،ریاست کیرلا کے جماعت کے امیررہے۔ پھر جماعت اسلامی ہند کے کل ہند نائب امیر جماعت کی زمہ داری کے فرائض انجام دئے۔ کیرلا حلقے میں امارت کی زمہ داری ادا کرتے ہوئے ملیالم روزنامے مدھیامم کا اجراء آپ ہی دیکھے گئے خواب کا حاصل تھا۔ جسے بجا طور پر ہندوستان کا پہلا عالمی اخبار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہی مدھیامم ہے جسکی پشت پر “میڈیا ون” جیسا قابل افتخار کام انجام پایا۔ اور پھر کیرالا سے دہلی تشریف لائے تو ویژن کے ماتحت ڈھیروں اداروں، سیکڑوں اسکیموں، اور متعدد پراجکٹس کو کامیابی سے نافذ کیا۔ ابوالفضل دہلی میں ملٹی اسپشالٹی الشفاء ہسپتال کا قیام،شمالی ہند کے مختلف علاقوں میں یتیم خانے ، تعلیمی ادارے، تعلیمی اسکالرشپ، ضرورت مندوں کے لئے غیر سودی بنکوں کا قیام،پانی کی قلت سے جوجھ رہے علاقوں میں آب پاشی کا کام ایسے کئی کامیاب تجربے تھے جو صدیق صاحب سے منسوب کئے جا سکتے ہیں۔
فرد کے ارتقاء کی سب سے آخری منزل احسان ہے۔ جسے سیلف اکچوالائزشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر انسان اپنے ذاتی مفادات سے آزاد اور بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یہی بے نیازی شخصیت کو دنیاوی چمک اور دمک، خود پسندی و خود نمائی اور ہٹو بچو کی تمام تر لذتوں سے بے زار کر دیتی ہے۔ صدیق حسن صاحب مرحوم احسان کی اس منزل پر فائز تھے۔نحیف و لاغر جسم ، خوابوں سے سجی ہوئی آنکھیں،سنجیدگی اور متانت سے اٹے چہرے اور مضطرب و دردمند دل لے کر، کل صدیق حسن صاحب خدائے برتر کے سامنےرِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ کی جیتی جاگتی تصویر لیکر حاضر ہو گئے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights