ہندوستان میں اشاعت اسلام کی تاریخ کا موضوع، ہندوستان ہی کی طرح وسیع اور اورپھیلا ہوا ہے۔ہندوستان میں اسلام کے پھیلنے کی رفتار بہت سست رہی، مسلمانوں کی بڑی پر شکوہ حکومتیں یہاں قائم رہی ، انھوں نے برسوں یہاں حکمرانی کی لیکن اسلام کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوپائی جو دنیا کے دیگر مفتوح علاقوں میں رہی۔مشرق وسطی کی طرح قوموں اور علاقوں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول نہیں کیا۔اسلام یہاں دھیرے دھیرے مختلف ادوار میں ، مختلف اسباب کے سبب پھیلا۔البتہ حیرت انگیز طور پر ہندوستان کی اشاعت اسلام کی تاریخ میں ایک خطہ ایسا پایا جاتا ہے جہاں اسلام اپنے فطری انداز میں یعنی پورے علاقے میں اجتماعی طور پر پھیلا اور یہ خطہ بنگال کا خطہ ہے۔
1947 میں مسلمانوں کی تقسیم کی بنیاد پر برٹش انڈیا کو دو آزاد ریاستوں، ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ بنگال میں، مسلم اکثریت والے علاقوں کو مشرقی پاکستان کہا گیا جو 1971 کے بعد میں بنگلہ دیش کی حیثیت سے علیحدہ ملک بنا ۔ جبکہ مسلم اقلیت والے صوبے جمہوریہ ہند کے اندر مغربی بنگال کے اندر شامل کردیے گئے۔1984 میں بنگلہ دیش اور مغربی بنگال کے 152 ملین بنگالیوں میں سے تقریباً 93 ملین مسلمان تھے، اور بنگلہ دیش میں رہنے والے اندازے کے مطابق 96.5 ملین افراد میں سے 81 ملین یا 83 فیصد مسلمان تھے۔ درحقیقت، بنگالی آج عربوں کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم نسلی آبادی پر مشتمل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں اشاعت اسلام کے سلسلے میں یہ استثناء کیونکر ہوا ۔ وہ کون سے تاریخی عوامل تھے جن کے سبب اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب ہوئی۔ مشرقی علاقے میں اتنی بڑی تعداد نے اسلام کیوں قبول کیا جبکہ مغربی علاقے میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ علاقہ جو اسلام کے مرکز سے دور رہا ، جو راست مسلم سلطنت کی نگرانی میں نہیں رہا ، بنگال جس کا رقبہ تقریبا ًمتحدہ اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ جتنا ہے وہاں اتنی بڑی تبدیلی کب، کیوں اور کیسے ہوگئی۔
انہی سوالوں کی کھوج میں زیر تبصره کتاب The Rise of Islam and the Bengal Frontier, 1204–1760 وجود میں آئی۔ کتاب کے مصنف رچرڈ میکسویل ایٹن (پیدائش 1940ء) ایک امریکی مورخ ہے، جو فی الحال ایریزونا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ 1800ء سے پہلے ہندوستانی تاریخ پر قابل ذکر کتابیں لکھنے کے لیے جانےجاتے ہیں۔ انہوں نے صوفیوں کے سماجی کردار، غلامی اور ماقبل جدید ہندوستان کی ثقافتی تاریخ پر بھی کام کیا ہے۔ ان کی تحقیق دکن، بنگال کی سرحد، ہندوستان میں اسلام اور فارسی دور میں ہندوستان پر مرکوز ہے۔
تحقیق اور تحریر کے تقریباً پچیس سال پر محیط اس کتاب کے مضامین کو دو زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا زمرہ تاریخ نویسی سے متعلق ہے اور دوسراہندوستان میں اسلامی تہذیب کے پھیلاؤ سے متعلق ہے۔تاریخ نویسی سے متعلق حصے میں ایٹن اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مورخین ان سوالوں کی تشکیل اور جواب کیسے دیتے ہیں جو وہ ماضی سے پوچھنے کے لیے منتخب کرتے ہیں، اس حصے میں مسلم آبادی کے ہندوستان میں پھیلنے کی سبھی تھیوریز کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں اور دلائل سے بتاتے ہیں کہ مختلف school of thought کے مورخین نے کہاں غلطی کی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ سب سے اہم ہے جو تاریخ کے مطالعے کا نیا زاویہ دیتا ہے۔
مؤخر الذکرحصہ ہندوستان میں مخصوص تاریخی برادریوں کے کیس اسٹڈیز کا احاطہ کرتا ہے۔رچرڈ ایٹن نے آثار قدیمہ کے شواہد، یادگاروں، داستانی تاریخوں، شاعری اور مغل انتظامی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے اسلامی اور ہندوستانی تہذیبوں کے درمیان طویل تاریخی مقابلے کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ایٹن نے صرف بنگال کی تاریخ کا احاطہ نہیں کیا بلکہ ان عالمی اور ملکی فیکٹرز کا تذکرہ بھی کیا ہے جنھوں نے بنگال کو متاثر کیا ہے۔
کتاب کی ابتداء آرین کے ہندوستان میں آنے اور گنگا کے اطراف میں بسنے سے شروع ہوتی ہے۔ آریاؤں کی آمد سے ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ایٹن لکھتے ہیں:
یہ تبدیلیاں شمال اور مغرب سے آنے والے تارکین وطن، ہند آریائیوں کی مداخلت کے ساتھ تھیں، جو اپنے ساتھ سنسکرت کے مقدس ادب کا ایک وسیع ذخیرہ لے کر آئے تھے۔ گنگا کے میدان میں ان کی ہجرت کا تعلق مٹی کے برتنوں کے نئے انداز کی ظاہری شکل سے بھی ہے۔
ایٹن کے مطابق آریاوں کی تہذیب 1000 سے 1500 قبل مسیح کی تھی۔ جس سے آرین تہذیب کی ہندوستان میں عمر 3 ہزار سال کے قریب قرار پاتی ہے جبکہ دائیں بازو کے مورخین آرین تاریخ کو پہلے 5 ہزار اور آج کل 10 ہزار سال پرانی بتارہے ہیں۔ کتاب کے اس حصے میں بدھ مذہب اور موریا سلطنت کے عروج پر گفتگو کی گئی ہے۔ اشوک کے زمانے میں بدھ مذہب کو غیر معمولی سرپرستی حاصل ہوگئی تھی اور برہمن ازم دب گیا تھا۔ لیکن برہمنوں نے شکست تسلیم کرنے کے بجائے سماج میں اپنے اثرات پھیلا نے شروع کردیے۔ برہمن پنڈتوں کی شکل میں پورے سماج میں پھیل گئے اورتمام رسم و رواج دھیرے دھیرے انہی کے ذریعے انجام دیے جانے لگے جبکہ بدھسٹ مذہبی پیشوا دربار سے وابستہ ہوکر فائدے اٹھاتے رہے لیکن گذرتے وقت کے ساتھ برہمنوں کی سماج پر پکڑ مضبوط ہوتی چلی گئی اور بالاخر اقتدار بھی ان کا ہم نوا ہوگیا۔ مسلمانوں کی فتوحات سے پہلے تک ہندووں یا برہمنوں کی مضبوط سلطنتیں ورمن خاندان اور خاص طور سے سینا خاندان قائم ہوچکیں تھی۔ عوام میں بھی ہندووں کے خداؤں شیوا اور وشنو کی پوجا ہونے لگی تھی۔ سیاسی اور مذہبی طور پر برہمن غالب آچکے تھے۔
دوسری طرف عالم اسلام میں نئی سیاسی تعبیریں وجود میں آرہی تھی۔ ابتدا میں خلافت روحانی اور سیاسی طاقت کا متحدہ مرکز ہوا کرتی تھی لیکن اب دونوں دھیرے دھیرے الگ ہونے لگے تھے اور عالمی سطح پر ایک سے زیادہ خلیفہ کے وجود کو بھی تسلیم کیا جانے لگا تھا۔ ایٹن نے اس تبدیلی کو امام رازی کے اس قول سے سمجھانے کی کوشش کی ۔
The world is a garden, whose gardener is the state ;
The state is the sultan whose guardian is the Law ;
The Law is a policy, which is protected by the kingdom ;
The kingdom is a city, brought into being by the army ;
The army is made secure by wealth ;
Wealth is gathered from the subjects ;
The subjects are made servants by justice ;
Justice is the axis of the prosperity of the world .
ایٹن کی رائے میں بنگال کا پہلا اور مشہور فاتح بختیار خلجی ریاست کے بارے میں امام رازی کے انھیں خیالات سے متاثر تھا۔1204ءمیں بختیار خلجی نے ایک چھوٹی سے فوج کی مدد سے سینا خاندان کی حکومت کاخاتمہ کرکے دہلی سلطنت کی توسیع بنگال تک کردی۔1204ء سے 1342ء تک بنگال کی حیثیت دہلی سلطنت کے صوبے کی رہی۔ اس دور میں بنگال میں ترقیاتی کاموں کے علاوہ اسلامی تہذیب کو مضبوط کرنے کے لیے ادارے بھی قائم کیے گئے۔ مورخ مسعودی کو نقل کرنے ہوئے ایٹن بختیار خلجی کی دور حکومت کے بارے میں لکھتا ہے۔
ایٹن کی رائے میں بنگال کا پہلا اور مشہور فاتح بختیار خلجی ریاست کے بارے میں امام رازی کے انھیں خیالات سے متاثر تھا۔1204ءمیں بختیار خلجی نے ایک چھوٹی سے فوج کی مدد سے سینا خاندان کی حکومت کاخاتمہ کرکے دہلی سلطنت کی توسیع بنگال تک کردی۔1204ء سے 1342ء تک بنگال کی حیثیت دہلی سلطنت کے صوبے کی رہی۔ اس دور میں بنگال میں ترقیاتی کاموں کے علاوہ اسلامی تہذیب کو مضبوط کرنے کے لیے ادارے بھی قائم کیے گئے۔ مورخ مسعودی کو نقل کرنے ہوئے ایٹن بختیار خلجی کی دور حکومت کے بارے میں لکھتا ہے۔
he left the city of Nudiah in desolation, and the place which is (now) Lakhnauti he made the seat of government. He brought the different parts of the territory under his sway, and instituted therein, in every part, the reading of the khutbah, and the coining of money; and, through his praiseworthy endeavours, and those of his Amirs, masjids , colleges, and monasteries (for Dervishes), were founded in those parts
بنگال کی تاریخ آزادی اور حریت کی تاریخ رہی ہے ۔ سامراجی قوتوں سے بنگال ہمیشہ ہی ٹکراتا رہا ہے۔1342ء میں ایک طاقتور رئیس شمس الدین الیاس شاہ (1342-57) نے بنگال کو دہلی کی گرفت سے آزاد کرایا اور کئی خاندانوں میں سے پہلی سلطنت قائم کی جو اگلی ڈھائی صدیوں تک شمالی ہندوستان سے آزاد رہی۔ اس عرصے میں اسلام پر بنگالی اثرات غالب رہے حالانکہ الیاس شاہی حکومت دہلی سلطنت کے بالمقابل عالم سے زیادہ قریب رہی۔بنگال کی اسلامی تاریخ میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب بنگال مغلیہ حکومت میں شامل ہوا۔ یہی وہ دور تھا جب بنگال میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلا۔ مختلف مغل حکمرانوں نے تدریجا ًبنگال کے مختلف علاقوں کو فتح کیا۔حالانکہ مغلوں نے اسلام کے پھیلنے میں کوئی بھی شعوری کوشش نہیں کی لیکن ان کا بنایا نظام اس سلسلے میں معاون ثابت ہوا۔
ایٹن اس کو واضح کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
As regards their religious culture, Bengal‘s Mughal ashrāf were distinctive in at least three respects—their special link with the pan-Indian Chishti order, their conceptual separation of religion and state, and, as a corollary to this, their disinclination to convert Bengalis to Islam.
مغل دور میں خاص طور پر مشرقی بنگال میں زرعی اور انتظامی اصلاحات کے سبب بنگال میں مسلمانوں کی آبادی میں مزید اضافہ ہوا۔مغلوں نے مشرقی بنگال میں وسیع غیر آباد جنگلات کا صفایا کیا اور مغل، وسطی ایشیائی، فارسی اور ترک امرا، جنگجو، سوداگر اور صوفیوں کو زمین کی ملکیت کے ساتھ آباد کیا جنہوں نے ان علاقوں کو پیداواری کھیتی باڑی میں تبدیل کر دیا، جس کے نتیجے میں اس خطے میں اقتصادی اور آبادیاتی دونوں طرح کی ترقی ہوئی۔مغل سلطنت کی زرعی اصلاحات نے صوفی مشنوں کے ارد گرد کاشتکاری دیہات کا ایک نظام تشکیل دے کر پورے بنگلہ دیش میں تبدیلی مذہب اور آبادی میں اضافے کو تیز کیا۔ بنگال میں بڑی تعداد میں صوفیوں نے ہجرت کی۔ یہ صوفی نرے اللہ والے نہ تھے بلکہ یہ اس بات میں بھی مہارت رکھتے تھے کہ کس طرح جنگلوں کو کاٹ کر زمیں کو زراعت کے لیے ہموار کیا جائے۔مغلوں نے گنگا کے زرخیز میدان کی ترقی کو تیز کرنے کے لیے ان صوفیوں ، پیروں اور فقیروں کو بڑی بڑی زمینیں دیں۔ صوفی مشنریوں نے جنگلات کی صفائی کے ساتھ لوگوں کے دلوں کی بھی صفائی کی اور بڑی تعداد میں مقامی بنگالیوں نے اسلام قبول کیا۔
مشرقی بنگال، جو اب بنگلہ دیش ہے، کی اسلامائزیشن کا عمل 1200ء سے 1600ء کی دہائی تک محدود دستاویزات کی وجہ سے پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آتا۔اس بارے میں بہت سے نظریات ہیں کہ اسلام خطے میں کیسے پھیلا۔ لیکن ایٹن زبردست شواہد کے ذریعے مقامی آبادی کی بدھ مت، ہندو مت اور دیگر مقامی مذاہب سے اسلام کی طرف بتدریج منتقلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو تیرہویں صدی میں شروع ہو کر صوفی مشنریوں (جیسے مثال کے طور پر سلہٹ میں شاہ جلال ) اور بعد میں مغل زرعی زراعت کے ذریعہ فراہم کی گئی تھی۔ کتاب اسی تدریجی عمل کو بہترین انداز میں بیان کرتی ہے۔ آج کے بدلتے ہوئے جدید ہندوستان میں اس کتاب کا مطالعہ افادیت کا حامل ہے۔