اکیسویں صدی کے لیے اکیس اسباق

تبصرہ کتاب:21 lessons for the 21st century

1

ہماری اس خوبصورت دنیا کی سب سے حسین شئے یقیناً کتابیں ہیں جس میں  علم کی ہر شاخ  پائی جاتی ہے۔ بلکہ دنیا کا حسن ہی شاید ان کتابوں سے آراستہ ہے۔ ان میں   کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو  کسی مخصوص موضوع پر آپ کوزیادہ معلومات فراہم نہیں کرتیں ،آپ کے علم میں کوئی خاص اضافہ  نہیں کرتیں یاکسی مسئلہ کو اٹھا کر اس کا حل  بھی پیش نہیں کرتیں بلکہ محض سوال قائم کرتی ہیں ۔اپنے اطراف میں ہو رہی چیزوں کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ دیتی ہیں اور غور فکر کی نئی راہیں پیش کرتی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یووال نوح حراری کی کتاب 21 Lessons for the 21st Century کاتعلق کتابوں کی اسی مخصوص قسم سے ہے۔حراری  ایک اسرائیلی مورخ ہیں جو آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں اور فی الحال اسرائیل کی Hebrewیونیورسٹی میں شعبہ تاریخ سے وابستہ ہیں ۔یہ مصنف کی تیسری کتاب ہے جو 2018 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ پہلی کتاب تاریخ سے متعلق ہے،دوسری  دنیا کے مستقبل پرگفتگو کرتی ہے اور یہ تیسری حال سے بحث کرتی ہے۔

مصنف نے کتاب میں 21 اسباق یا موضوعات سے متعلق بحث کی ہے۔مصنف کے نزدیک یہ وہ اہم مسائل ہیں جن سے پورے عالم کو مستقبل قریب میں سابقہ پیش آنے والا ہے ۔لہٰذا ہم اپنی روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی ضروریات میں الجھے رہ کر ان اہم مسائل سے یکسر غافل نہیں رہ سکتے۔کیونکہ یہ مسائل وہ ہیں جو سارے انسانی معاشروں پر اثر انداز ہو رہے ہیں   اور موجودہ دنیا کو ایک نئے سرے سے تشکیل دے رہے ہیں   اور ان سے بے رخی برتنا بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔یووال کے مطابق اس بحث میں جو کہ  اب چھڑ چکی ہے، سارے انسانوں  اور پورے سماج کو حصہ لیتے ہوئے اپنا حق ادا کرنا چاہیے۔وہ لکھتے ہیں :

“ایک مورخ کی حیثیت سے میں لوگوں کو لباس اور غذا تو مہیا نہیں کرا سکتا ،لیکن میں سچائی کی طرف بڑھنے اور اسے پیش کرنے کی کوشش ضرور کرسکتا ہوں ۔تاکہ یہ عالمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد کرسکے۔اگر میری یہ کوشش چند لوگوں کو بھی اس بات پر آمادہ کردے کہ وہ حیات انسانی کے مستقبل کی بحث میں حصہ لیں تو میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔”

آج ہمارے اطراف میں ہو کیا رہا ہے؟ آج کے سب سے بڑے مسائل کیا ہیں ؟ ہمیں کس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے؟ہمیں اپنے بچوں کو کیا سکھانا چاہیے؟۔ مصنف نے مستقبل قریب سے  بحث کرتے ہوئے ان چند سوالوں کو کھڑا کیا ہے اور پوری کتاب میں انھیں سے متعلق گفتگو کرنے کی کوشش کی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ ان سوالات کے ذیل میں حراری کے نظر میں وہ کون سے مسائل ہیں جو سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہیں ۔

اس کتاب میں کل پانچ  حصے ہیں ۔ ٹیکنولوجیکل چیلینج ،سیاسی چیلینج، مایوسی و امید،سچائی اور استقامت و استقلال۔

پہلے حصے میں مصنف نے مسلسل ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی اور اس کے ساتھ پیداہونے والی آسانیوں اور مشکلات پر گفتگو کی ہے۔ اس کے ذیل میں وہ لکھتے ہیں کہ “انسان  حقائق، نمبرات اور Equationsکے بالمقابل کہانیوں کے بارے میں  زیادہ سوچتے ہیں اور اسی پر یقین بھی رکھتے ہیں۔اور اسی لیے ہر فرد،جماعت اور ملک کی اپنی کہانیاں اور حکایات ہوتی ہیں لیکن بیسویں صدی کے دوران عالمی اشرافیہ) (Elitesنے نیویارک، لندن ، برلن اور ماسکو سے تین عظیم کہانیاں تشکیل دیں اور ان کا دعوی تھا کہ اس کی بنیاد پر سارے ماضی کی تشریح کی جاسکتی ہے اور مستقبل کی پیشن گوئی بھی کی جاسکتی ہے۔وہ کہانیاں تھیں فسطائی،اشتراکی،اور لبرل اسٹوری۔دوسری جنگ عظیم نے فسطائی کہانی کو باہر نکال پھینکا اور 1940ء سے 1980ء کے درمیان پوری دنیا محض کمیونزم اور لبرلزم کے درمیان میدان جنگ بنی رہی ۔پھر کمیونزم بھی اپنی شکست کو پہنچا ،لہٰذا دنیا کی واحد رہنمائی کی حیثیت سے صرف لبرلزم غالب طور پر باقی رہا  ۔ حراری کا  کہنا ہے کہ جس طرح بیسوں صدی ان تین سیاسی نظریوں کے بارے میں تھی اسی طرح اکیسویں صدی نے تین نئی کہانیوں  یا طبقات کو جنم دیا۔یعنی Humans، Super Humans، اور Artificial Intelligence  ۔ AI کے بڑھتے قدم سے یہ امید ہے کہ شاید انسانی زندگی مزید آسان اور تیز ہوجائے۔لیکن ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ اس سے لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔کیونکہ آنے والےوقت میں مشینیں بھاری تعداد میں انسانوں کی جگہ لے لیں گی۔بڑی کمپنیوں اور سیاسی جماعتوں میں جو فیصلے انسان لیا کرتے تھے اب وہ ڈیٹا کی مدد سے کمپیوٹر لیں گے۔ایسے میں ایک بڑی تعداد کو ضروریات زندگی مہیا کرانا حکومتوں کے لیے بڑا چیلینج ہوسکتا ہے۔حراری کا کہنا ہے کہ بڑی تیزی سے ڈیٹا اب انسانی دماغ کی جگہ لے رہا ہے۔اوراس سے آگے بڑھ کر شاید ہم اپنی زندگی کے ذاتی اور حساس فیصلوں میں بھی ڈیٹا  پر انحصار کرنے لگیں گے۔ مصنف اس کی ایک دلچسپ مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘اگر کسی شخص کو شادی کرنا ہے تو یہ فیصلہ کرنے میں کہ اس کے لیےمناسب ترین کون ہوگا وہ گوگل یا فیس بک سے پوچھے کیونکہ یہ کمپنیز آپ پر چوبیس گھنٹے نگاہ رکھتی ہیں ، آپ کے لائکس،شیئرس اور کمینٹس، پھر کونسی پوسٹ پر آپ کس قسم کا ردعمل دیتے ہیں ،کس چیز پر آپ خوشی، غم یا غصہ کا اظہار کرتے ہیں،کس قسم کے گروپس اور اکاونٹس کو آپ فالو کرتے ہیں اور اسی طرح کی دسیوں چیزیں ایسی ہیں جس کی بنیاد پر وہ آپ کی پسند اور نا پسند ، آپ کی کمزوریوں اور خوبیوں ، آپ کے مزاج اور جذبات کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں  ایسے میں وہ اس بات کے زیادہ اہل ہیں کہ آپ اپنی زندگی کے فیصلوں میں ان سے مدد لیتے رہیں ۔

مصنف  کہتے ہیں کہ سچائی کی تعریف ہر زمانے میں بدلتی رہی ہے لیکن آج سچائی گوگل سرچ انجن کے Top Resultsسے طے کی جاتی ہے۔حراری کے مطابق ہمارے دور کے سب سے بڑے سیاسی سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس Big Dataکو کس طرح قائدے اور اصولوں کا پابند کیا جائے۔لکھتے ہیں  “Those who owns the data owns the future” یعنی مستقبل اسی کے ساتھ وابستہ ہے جس کے پاس یہ ڈیٹا ہو۔

کتاب کا دوسرا حصہ ہے سیاسی چیلینج۔جس میں معاشرہ،قوم پرستی اور مذہب وغیرہ سے بحث کی ہے۔نئے زمانے کے معاشرے پر اثرات کے بارے میں حراری کا کہنا ہے کہ یقیناًٹیکنا لوجی نے دور کسی ملک میں بیٹھے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنا ہمارے لیے بےحد آسان کردیا  لیکن ہر روز صبح کھانے کی میز پر ہم اپنی ہی بیوی، شوہر یا بہن بھائی سے ٹھیک سے بات نہیں کرپاتے کہ ہر کوئی اپنے موبائیل فون میں مصروف دکھائی دیتا ہے ایسے میں یہ سوال انتہائی ہم ہے کہ ٹیکنالوجی اور گلو بلائیزیشن نے نئے انسانی رشتوں کو جوڑا یا اصلاً  اپنے حقیقی رشتوں ے ہم   کو توڑا ہے؟ Civilization پر بحث کرتے ہوئے یہ اندازہ ظاہر کیا کہ شاید بہت سی تہذیبیں ضم ہو کر ایکGlobal Civilization یا عالمی معاشرے میں تبدیل ہوجائیں اور دنیا تیزی سے اس کی طرف بڑھ بھی رہی ہے۔مصنف کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عالمی ماحولیات ، عالمی معیشت، اور عالمی سائنس ہے لیکن دنیا کے ملک قومی سیاست میں پھس کر رہ چکے ہیں جو کہ سیاست کو کارگر بننے سے روک رہی  ہے۔ یعنی ہمیں معیشت ، major science  اور    سیاست کو بھی گلوبلائز کرنا چاہیے ۔   حراری global governance     کی اصطلاح استعمال کرتے  ہوئےکہتے ہیں کہ “یہ تو عملی تور پر ممکن نہیں ،اس سے میری مراد یہ ہے کہ ملکوں کو داخلی طور پر اپنی سیاست میں عالمی مسائل کو زیادہ ترجیح دینا چاہیے۔”  حراری نے حب الوطنی اور وطن پرستی پرتبصرہ  کرتے ہوئے بڑی دلچسپ بات کہی کہ “حب الوطنی یہ ہے کہ آپ یہ مانیں کہ میرا وطن سب سے منفرد ہے جو کہ ہر ملک کے حوالے سے صحیح ہو،لیکن مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب آپ یہ کہیں کہ میراوطن سب سے اعلیٰ ہےمیں صرف اسی کی وفاداری کا مقروض ہوں  اور دوسروں کی مجھ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔اور پھر یہی چیز متشدد تضاداد کی  بڑی بنیاد فراہم کردیتی ہے۔”

مصنف نے دو مختلف اسباق میں  مذہب اور خدا پر بھی بحث کی ہے ۔ حراری نے مذہب پر  بحث کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ “یہ مذاہب قرون وسطی میں تو کارگرو متعلق ثابت ہو سکتے تھے  لیکن آج AI, Bioengineering, Global warming, اور Cyberwarfare کے زمانے میں یہ کیسے انسانوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں؟  کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں جب کوئی اور ذریعہ نہ تھا تو   پادری و پنڈت آسانی سے یہ بتا دیتے تھے کہ فصل کے لیے کب بیج بونے چاہیے اور کب نہیں  لیکن اب یہ کام سائنس زیادہ  کامیاب طریقہ سے کرتی ہے ، پہلے زمانے میں جب طوفانی بارش ہوجائے یا پھر قحط  پڑ جائے   تو پادری و پنڈت  اس کی وجہ بتانے کے بجائے اس کو justify کرنے میں زیادہ مہارت رکھتے تھے اور وہ بس یہی کرسکتے ہیں تو ایسے میں 21ویں صدی میں ان   مذاہب کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟”   مصنف کی مذہب کے بارے میں اس رائے پر ایک سوال  پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اصلاً مذہب انسانوں کی  کس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہے اور اس کی معنویت کیا ہے؟   کیا  مذہب کاکام واقعی میں یہ ہے کہ وہ کسانوں کو بتائے کہ بیج کب بوئیں یا ماہرین ماحولیات کو سمجھائیں کہ گلوبل وارمنگ سے کیسے لڑیں؟ اگر ماضی میں مذہب کے نام پر یہ کام پادریوں اور پنڈتوں نے کیا بھی ہےتو یہ ان کی غلطی ہے مذہب کی نہیں ۔ مذہب کا کام تو  اس سوال کا جواب دینا  ہے کہ بیج بونے پر سخت زمین کا سینہ پھاڑ کر ننھا  سا پودا جو حیرت انگیز طور پر باہر آجاتا ہے،  اس انتہائی پیچیدہ اور دلکش نظام کو  کس نے بنایا  اور کیوں بنایا ۔ گلوبل وارمنگ اگر قدرتی نظام میں خلل کی وجہ سے ہو رہی ہے تو مذہب یہ بتاتا ہے کہ یہ قدرتی نظام آخر آیا کہاں سے کیوں آیا نہ کہ یہ بتاتا ہے کہ یہ نظام کس طرح کام کرتا ہے اور گلوبل وارمنگ کو ہم کیسے کم کر سکتے ہیں ۔ اگر ماضی  میں یہ کام اہل مذہب نے کیا بھی ہے تو اس میں چند اہل مذہب کی غلطی ہے لیکن اس کی بنیاد پر سرے سے مذہب کی  معنویت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے بے ضرورت اور غیر متعلق قرار دینا یقیناً ایک بڑی غلطی ہے۔ مذہب کے اسی باب میں مصنف  یہ بتاتے ہوئے کہ مذہب policy problems کو حل کرنے میں کس طرح ناکام ہے یہ مثال دیتے ہیں کی اگر ایران  کے آیت اللہ خمینی کو یہ طے  کرنا ہو کہ ایران کی معاشی پالیسی کیا ہو تو   وہ اس کا جواب قرآن میں نہیں ڈھونڈ سکتے کیونکہ ساتویں صدی کے عرب نئی  صنعتی معیشیت اور  عالمی  تجارتی منڈیوں کے مسائل و مواقع کے  بارے میں کم ہی جانتے تھے نتیجتاً آیت اللہ خمینی کوجوابات حاصل کرنے کے لیے  کارل مارکس،ملٹن فرائڈمین،اور فرائڈریچ ہائیک کی طرف جانا  پڑتا ہے۔ آگے ظنز کرتے ہیں کہ “ہاں آیت اللہ خمینی اپنے قرآنی علم کو استعمال کر سکتے ہیں   یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہی اللہ کی مرضی ہے جو کہ انھوں نے اصلاً مارکس وغیرہ سے لیا ہے  اور اگر آپ  اچھے قرآنی اسکالر ہیں تو یہ کام آپ کے لیے بہت آسان ہے۔ لیکن یہ کوشش اس وقت بے فائدہ ہوجاتی ہے جب آپ شیعی ایران، سنی سعودی عربیہ ، یہودی اسرائیل، ہندو بھارت اور عیسائی امریکہ کو دیکھتے ہیں تو ان سب کی پالیسی میں آپ کو بہت کم فرق نظر آتا ہے۔” مصنف یہ بھول گئے ہیں کی مارکس اور فرائڈ سے پہلے بھی دنیا میں معاشی نظریات ہوا کرتے تھے ۔ رہی بات کہ ساتویں صدی کے عرب موجودہ دنیا کے بارے میں کم ہی جانتے تھے تو مصنف اس غلط فہمی میں ہیں کہ قرآن عربوں کی تصنیف کردہ ہے۔ ایک کمی یہاں یہ بھی نظر آتی ہے کہ حراری  جب مذہب پر اور اہل مذہب پر تنقید کرتے ہیں تو اسلام کو بھی دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ شامل کرلیتے ہیں جب کہ قرآن اور اسلام   ان بہت ساری خامیو ں سے پاک ہے جس کا شکار دوسرے مذاہب ہیں۔ ایسے میں اسلام کو تمام مذاہب کے ساتھ شامل کرتے ہوئے تنقید کرنا  ایک غیر علمی طریقہ ہے۔  جہاں تک مصنف کی یہ بات ہے کہ آپ قرآن میں اپنے ملک کے لیے  معاشی پالیسی نہیں  ڈھونڈ سکتے تو ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ قرآن  کوئی بھی پالیسی فراہم نہیں کرتی بلکہ تمام پالسیز کی بنیادیں فراہم کرتا ہے چاہے وہ معاشی پالیسی ہو یا سیاسی،  خارجہ پالیسی ہو یا داخلی۔  قرآن طریقوں کی کتاب نہیں بلکہ اصولوں کی کتاب ہے۔ یعنی وہ اصول جس کی بنیاد پر طریقہ اور   پالیسی بنائی جائے گی۔ حراری کی مذہب پر کی گئی بحث   پڑھ کر اس بات کا اندازہ مزید قوی ہوجاتا ہے کہ مغربی اور مغرب کے تعلیم یافتہ مفکرین اس مغالطہ میں مبتلا ہیں کہ  ماضی میں  وہ جن سخت تجربوں سے گزرے ہیں شاید اس وقت پوری دنیا کی صورتحال  وہی رہی ہو۔ خصوصاً   مغرب و  یورپ میں  عیسائی چرچ کی ظلم  و ستم کی جو تاریخ رہی ہے اور اسی بنیاد پر ان کی ساری مذہبی تنقید کھڑی ہے  وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے تلخ تجربہ سے مشرق کبھی نہیں گزرا یا کم سے کم اسلام اور مسلمانوں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ایسے  میں مذہب پر گفتگو کے دوران اپنے احساسات کو ساری دنیا پر تھوپ دینا ایک حماقت ہے جس میں عام طور پر مغربی مفکرین نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے  وزیر خارجہ کا ایک جرنلسٹ کے سوال پر دیا گیا  جواب اس صورتحال پر بہت صادق آتا ہے کہ یورپ و امریکہ کو اس مغالطہ سے باہر آنا چاہیے کہ  ان کی ترجیحات ساری دنیا کی ترجیحات ہیں اور ان کے مسائل ساری دنیا کے مسائل ہیں ۔

حراری نے دہشت گردی پر بھی بحث کی ہے ۔  یہ ڈیٹا پیش کیا کہ عالمی سطح پر ہر سال اوسطاً 25000 افراد دہشت  گردی کی وجہ سے مرتے ہیں جبکہ diabetes سے 3.5 میلن اور شوگر کی وجہ سے 7 میلن افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں باوجود اس کے دہشت گردی ہمیں ایک بڑا مسئلہ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملکی حکومتوں نے اور خصوصاً میڈیا نے اس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جس کی وجہ سے یہ مسئلہ بڑا نظر آتا ہے۔ مصنف کے مطابق دہشت گردی کےبجائے دوسرے اہم مسائل کو زیادہ توجہ دینی چاہیے۔مصنف یہاں سادہ لوحی کے شکار نظر آتے ہیں بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردی  کو بڑھاوا دینا تو بڑی حد تک عالمی طاقتوں کی ایک ضرورت ہے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے ۔ بڑی طاقتیں جب کسی کمزور ملک کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہیں تو وہ اسے  دہشت گردی کا اڈہ قرار دے کر  اپنے جبر و استبداد کے لیے راہیں ہموار کرلیتی ہیں ایسے میں میڈیا اسے سب سے بڑا مسئلہ بنا کر کیوں نہ پیش کرے۔

مختصرا ً  اس کتاب میں مصنف نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان ڈیٹا  اور ایکویشن کے بالمقابل حکایات اور کہانیوں پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ ہر قوم کی اپنی ہی حکایات اور کہانیاں ہوا کرتی ہیں ۔  ماضی میں ہمیشہ سے ہر انسانی مسئلہ کا حل  مذہب ہوا کرتا تھا ۔ پھر اس کی جگہ تین عالمی کہانیوں یعنی  فسطایئت ، اشتراکیت اور لبرل ازم نے لی اور یہ نام نہاد لبرل ازم  بھی اب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے ۔ ایسے میں ترقی کرتی ٹیکنا لوجی نے انسانوں کی نئی کلاس کو جنم دیا یعنی  Human ،Super Human اور Artificial Intelligence ۔ لہذا ان نئی تبدیلیوں  سے پیدا ہونے والے مسائل اور امکانات سے نمٹنے اور فائد ہ اٹھانے کے لیے سارے  عالمی معاشرے  کو مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ لیکن اس اشتراک کی مضبوط بنیادیں  مسائل کے حل کے سوا  اور کیا ہوں، اس سے یہ کتاب  خالی ہے۔  لیکن  مجموعی طور پر اس کتاب کا مطالعہ انتہائی دلچسپی کا باعث ہے اس لیے کہ  یہ کتاب غور و فکر کی چند نئے زاوئے فراہم کرتی ہے۔ ہمارے  خیالات کو چیلنج کرتی ہے اور نئے سرے سے سوچنے پر آمادہ کرتی ہیں ۔ ساتھ ہی  مصنف   کا انداز بیان اور زبان کا استعمال بہت ہی دلچسپ ہے جو قاری کو باندھے رکھتا ہے۔

مبصر: زکریا خان

1 تبصرہ
  1. قاضی عبدالرحمن نے کہا

    برادر من، ماشاءاللہ مختصر اور خوبصورت تبصرہ ہے- ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہب اور قرآن سے متعلق حراری کے اعتراضات پر آپ ایک مبسوط مضمون لکھے-

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights