شکر، روح عبادت

صفی الرحمن نبیل

شکر کیا ہے؟

شکر اظہارِ نعمت ہے، ناشکری کفرانِ نعمت ہے۔ شکر ایک مطلوب چیز ہے۔ یہ عبادت کی روح اور اس کا مظہر ہے۔ شکر وہ ہے جو بندوں کے اندر عبادت کی روح کو پروان چڑھائے۔ شکر اور صبرمیں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ صبر کا رویہ عبادتوں میں مطلوب ہے تاکہ اس کے ذریعے سے عبادتوں میں دوام ہو، لیکن شکر کا رویہ اظہار نعمت کے سلسلے میں مطلوب ہے جس کا دائرہ صبر سے بہت بڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً صابر بہت لوگ ہوتے ہیں لیکن شاکر بہت کم۔ صبر اور شکر دونوں کے سلسلے میں قرآن مجید کی الگ الگ تعبیر ہے ہم اسے آج سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

شکر : روح عبادت

عبادت کے سلسلے میں قرآن مجید نے بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 56) لیکن عبادت کا مقصود کیا ہے جب تک یہ واضح نہ ہو تب تک عبادت جو مطلوب ہے اس کی کما حقہ ادائیگی بہت مشکل ہے۔

عبادتوں سے فلاح دارین مقصود ہے، یعنی دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی کی ہم دعا کرتے ہیں۔ “رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ”

قرآن مجید نے بہت واضح انداز میں ایک جگہ ذکر کیا ہے: عَنِ الْمُجْرِمِين۔ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ۔ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ۔ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ۔ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ۔ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ۔ حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ۔ ( سورہ المدثر: 41-47)

یہاں جنت سے محرومی کے حوالے سے دو چیزوں کا تذکرہ ہے۔ اولاً، ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ دوم،  ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ ایک آیت کے بعد ایسا نہ کرنے کی وجہ بھی بیان کی ہے کہ ہم بحث و مباحثہ میں پڑے رہتے،اور آخرت پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ مزید ایک جگہ فرمایا: فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ۔ وَلَٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ۔ (سورہ القیامۃ: 31-32) اس سورہ میں بھی اسی بات کا تذکرہ ہے کہ اولا تصدیق نہ کی اور اس کے نتیجے میں نماز نہ پڑھی اور دوم جھٹلا دیا آخرت کو اور اعراض کیا مسکینوں سے۔

اس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

  • مطلوب عبادت کامل یقین کے بعد ہی مکمل ہوسکتی ہے۔
  • عبادتیں کچھ صفات کے ذریعہ عمل میں آتی ہیں۔
  • عبادتیں کچھ صفات پیدا کرتی ہیں۔
  • عبادت کا وسیع تصور واضح ہوتا ہے۔ (حقوق اللہ اور حقوق العباد)
  • دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی ہی اصل راہ ہے۔

امام فراہیؒ لکھتے ہیں کہ “نماز کا تعلق واضح طور پر توحید سے ہے اور زکوۃ کا آخرت سے، نماز ظاہر ہے کہ توحید کا مظہر یا خدا کی وحدانیت کے اقرار و اعتراف کی صورت ہے اور زکوۃ آخرت کی تصدیق ہے۔” (1) مندوجہ بالا دلائل کے ساتھ ساتھ سورہ الماعون کی تفسیر میں بھی امام فراہیؒ کے بہت قیمتی نکات مل جائیں گے۔ (2)

امام فراہی سورہ فاتحہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ “الحمد للہ رب العالمین، فطرت کی گہرائیوں سے اول و آخر یہی صدا بلند ہوتی ہے کہ شکر و تعریف سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ شروع میں اس وجہ سے کہ شکر ایمان کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالی کی شان پروردگاری کو دیکھ کر پہلا اثر یہی مرتب ہوتا ہے کہ مخلوق اس کا شکر ادا کرے جو کہ ایک واضح حقیقت ہے۔” مزید لکھتے ہیں کہ، “شکر پورے دین یعنی امور شریعت اور ایمان یعنی کتاب و حکمت دونوں کا جامع ہے۔ چنانچہ یہ وحی رسالت کی روح ہے”۔ چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں: “غرض یہ ہے کہ سب اس کے شکر گزار بنیں، اس کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہیں اور اللہ کی کتاب میں جو پڑھا ہے اسے لوگوں کو بتائیں۔ ان کے رب نے انھیں شکر نعمت کی تعلیم دی ہے۔ کیونکہ شکر وہ چیز ہے جو توحید، معاد، اور نبوت سب پر حاوی ہے، نیز نماز، زکوۃ، اور کامل بندگی کو بھی اپنے دائرہ میں لیے ہوئےہے۔ چنانچہ جس طرح وہ ایمان کی اصل ہے اسی طرح اسلام کی بھی اصل ہے۔(3)

شکر کے سلسلے میں علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: “لغت میں شکر کے اصلی معنی یہ ہیں کہ جانور میں تھوڑے سے چارہ ملنے پر بھی تروتازگی پوری ہو اور دودھ زیادہ دے۔ اس سے انسانوں کے محاورہ میں یہ معنی پیدا ہوا کہ کوئی کسی کا تھوڑا سا بھی کام کردے تو دوسرا اس کی پوری قدر کرے، یہ قدر شناسی تین طریقوں سے ہوسکتی ہے، دل سے، زبان سے اور ہاتھ پاؤں سے، یعنی دل میں اس کی قدر شناسی کا جذبہ ہو، زبان سے اس کے کاموں کا اقرار ہو اور ہاتھ پاؤں سے اس کے ان کاموں کے جواب میں ایسے افعال صادر ہوں جو کام کرنے والے کی بڑائی کو ظاہر کریں۔” (4)

مزید شکر کی بڑی عمدہ وضاحت کرتے ہوئے اسے عملی زندگی میں کیسے لایاجائے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ “اللہ تعالی اپنے بندوں سے صرف دو باتیں چاہتا ہے، شکر اور ایمان، ایمان کی حقیقت تو معلوم ہے، اب رہا شکر تو شریعت میں جو کچھ ہے، وہ شکر کے دائرہ میں داخل ہے، ساری عبادتیں شکر ہیں، بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور نیک برتاؤ کی حقیقت بھی شکر ہے، دولت مند اگر اپنی دولت کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں دیتا ہے تو یہ دولت کا شکر ہے، صاحب علم اپنے علم سے بندگان الہی کو فائدہ پہنچاتا ہے ، تو یہ علم کی نعمت کا شکر ہے، طاقت ور کمزوروں کی امداد اور اعانت کرتا ہے، تو یہ بھی قوت و طاقت کی نعمت کا شکرانہ ہے۔” (5)

ایک غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے لکھتے ہیں:  “شکر کے باب میں ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے زبان سے الحمد للہ پڑھ دیا تو مالک کا شکر ادا ہوگیا، حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے، شکر دراصل دل کے اس لطیف احساس کا نام ہے، جس کے سبب سے ہم اپنے محسن سے محبت رکھتے ہیں، ہر موقع پر اس کے احسان کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کے لیے سراپا سپاس بنتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کو خوش رکھ سکیں۔” (6)

شکر کے سلسلے میں قرآن مجید کی تعبیر:

ثُـمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (سورہ البقرۃ: 52)

ثُـمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (سورہ البقرۃ: 56)

فَاذْكُرُوْنِـىٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُـرُوْا لِىْ وَلَا تَكْـفُرُوْنِ (سورہ البقرۃ: 152)

وَهُوَ الَّـذِىْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَـهَاۚ وَتَـرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِـهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ (سورہ النحل: 14)

رَّبَّنَـآ اِنِّـىٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِىْ بِوَادٍ غَيْـرِ ذِىْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ رَبَّنَا لِيُـقِيْمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَـهْوِىٓ اِلَيْـهِـمْ وَارْزُقْهُـمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُـمْ يَشْكُـرُوْنَ (سورہ ابراھیم: 37)

وَاللّـٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَيْئًا وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ (سورہ النحل: 78)

وَهُوَ الَّـذِىٓ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَةَ ۚ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُـرُوْنَ (سورہ المومنون: 78)

‘لعل’  کا استعمال ترجی، تعلیل، استفہام کے لیے ہوتا ہے، الترجی، وھو ترقب شئ لا وثوق بحصولہ۔ وقد تجیئ لتعللیل، کما فی التنزیل العزیز: فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ۔ وقد تجیئ للاستفہام ، کما فی التنزیل العزیز: لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا (7)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شکر کو اکثر جگہ لعل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور وہاں لعل تعلیل کے معنی میں ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ نعمت پر شکر ادا کرنا بحیثیت انسان فرض ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی جگہ قلیلا ما تشکرون کے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ کم ہی ہیں جو شکر گزار ہیں۔وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ(الاعراف: 10) وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَةَ ۚ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُـرُوْنَ(السجدہ: 9)

اس کے علاوہ جو تعبیر ہے کہ “تاکہ تم شکر گزار بنو”، انسان شکر گزار ہونے کے بجائے ناشکری کا عادی ہے اس طور سے کہ ایک شکر کے موقع کو ٹال دیتا ہے یہ سوچ کر کہ یہ اور یہ حاصل ہوجائے پھر دیکھا جائے گا اسی مسلسل ٹال مٹول کی وجہ سے یہ تعبیر استعمال ہوئی۔

شکر، صبر، تقوی

شکر روح عبادت ہے، اور صبر مرکز عبادت ہے، تقوی حاصل عبادت ہے۔

امام فراہی لکھتے ہیں: “صبر تقوی کا نقطہ آغاز ہے۔ کیونکہ انسان اپنے لیے خیر ہی کا طلب گار ہوتا ہے۔ وہ گناہ محض وقتی لذت کے لیے کرتا ہے۔ جو شخص وقتی لذت سے اپنے نفس کو باز رکھے اس کے اندر صبر کا مادہ ہونا یقینی ہے۔ لیکن وہ صبر اسی صورت میں کرسکتا ہے جب اسے آخرت میں اچھے انجام کا یقین ہو جو کہ برحق ہے۔(8) مزید ایک جگہ لکھتے ہیں: “دین کی حقیقت قلب کی درستگی سے عبارت ہے اور جب قلب درست ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس میں محبت ڈالتا ہے جس کی دو شاخیں ہیں۔ ایک خالق کی محبت اور اس کا سرچشمہ نماز ہے اور دوسری مخلوق کی محبت جس کا نتیجہ مواساۃ اور ہمدردی ہے۔(9)

مولانا امین احسن اپنی کتاب حقیقت تقوی میں ایک جگہ لکھتے ہیں: “وتعاونواعلی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان( المائدہ:2) اس آیت میں بر کا اثم سے اور تقوی کا عدوان سے تقابل ہے اور کسی لفظ کا مقابل اپنے مقابل کے صحیح مفہوم کی تعیین میں سب سے زیادہ مدد کرتا ہے۔ عدوان کے معنی ‘تجاوزعن الحد’ یعنی اپنی متعینہ حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں، اس وجہ سے تقوی کے معنی اللہ کے حدود کی حفاظت کے ہوں گے یعنی اللہ نے جو حقوق واجب کردیے ہیں، جو حدود متعین کردیے ہیں، جوحلال وحرام ٹہرا دیے ہیں پورے خوف خدا کے ساتھ ان کی نگہداشت کی جائے۔ (10)

شکر، صبر، تقوی ہر ایک کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس کے باوجود ان میں ایک ربط محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً شکر ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو مزید عبادت پر اکسائے جس سے عبادت میں تسلسل ہوگا جو صابر کی پہچان ہے،اور اس کا فائدہ حدود اللہ کی حفاظت ہے جو کہ تقوی ہے۔

شکر کے فوائد

  • یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔
  • اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔
  • عبادت میں خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
  • رجوع الی اللہ کی کیفیت امید و خوف ہر حالت میں پروان چڑھتی ہے۔
  • شکر کی صفت انسان کو مزید خوبیوں سے آراستہ کرتی ہے۔
  • شکر کی صفت سے انسان مزید ترقی کرتا ہے، اور ناشکری سے انسان پستی کی طرف جاتا ہے۔
  • شکر کی صفت سے غوروفکر کا فائدہ ہوتا ہے، ناشکری سے غوروفکر کا راستہ بند ہوتا ہے۔
  • نعمتوں کے شکر سے مزید نعمتوں کا حصول ہوتا ہے۔
  • خدا کے شکر سے انسانوں کے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
  • انسانوں کے شکر سے تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔
  • شکر سے فلاح دارین کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔

شکر دراصل مسائل میں بھی مواقع کو تلاش کرلینا ہے۔ اس صفت سے آراستہ لوگوں کے لیے ہر جگہ مواقع میسر ہیں ان کے یہاں ناامیدی اور مایوسی کی کیفیت نہیں ملے گی۔ لیکن ناشکری کرنے والوں کے یہاں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے یہاں شکر کی کیفیت موجود ہوتی ہے اور وہ قومیں ترقی نہیں کرتی ہیں جہاں ناشکری ہو۔ شکر دراصل خود کو دیکھنے اور جاننے کا نام ہے اور ناشکری دوسروں پر الزام لگانا اور خود کو نہ دیکھنے کا۔

اجتماعی زندگی میں شکر:

شکرکا تعلق فرد سے بھی ہے اور اجتماعیت سے بھی ہے، سماج جب شکر گزار ہوگا تو وہ ترقی کرے گا۔ شکر کی خاص بات یہ ہے کہ کوئی متعین مقدار نہیں ہے کہ اس مقدار پر نعمت حاصل ہوجائے پھر شکر ادا کریں بلکہ شکر ہر نعمت پر ضروری ہےاور ہر ایک لیے ضروری ہے، اور نعمت جو لامحدود ہے جس کا حساب وشمار مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

اگر ہم اس سوچ کے ساتھ شکر ادا کرنے والے بن جائیں تو ہماری اجتماعی زندگی میں تبدیلی آئے گی اور ہمارا رویہ بدلے گا۔ ملک وملت کی خراب صورت حال میں مایوسی کے بجائے امید بڑھے گی اور شکر کا جذبہ مزیدنئے راستے دکھائےگا۔ شکر سے ہم سب اعلی سوچ کے حامل ہوجاتے ہیں کیونکہ شاکر کے سامنے اس کے رب کی ذات ہی سب کچھ ہے، وہاں تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ شکر کا جذبہ اجتماعی زندگی میں ہر انسان کو نعمت پر شکر ادا کرنے کے ساتھ بندوں کے کام آنے کا جذبہ بھی پیدا کرتاہے جس سے لوگ ایک دوسرے کا شکر ادا کرتے ہیں، جس سے سماج میں فلاح وبہبود کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔

حوالہ جات:

1۔ رسالہ آخرت ۔ امام حمید الدین فراہی۔ دائرہ حمیدیہ، مدرسۃ الاصلاح۔ ص۔ 7

2۔ امام فراہی کے قرآنی حواشی ۔ ترجمہ وترتیب ، عبیداللہ فراہی / تصحیح ،مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی۔دائرہ حمیدیہ، مدرسۃ الاصلاح۔ص۔ 632

3۔ امام فراہی کے قرآنی حواشی۔ ترجمہ وترتیب ، عبیداللہ فراہی / تصحیح ،مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی۔دائرہ حمیدیہ، مدرسۃ الاصلاح۔ص 5

4۔ سیرت النبی ﷺ۔ جلد پنجم۔ علامہ سید سلیمان ندوی۔ دارالمصنفین، اعظم گڑھ۔ ص۔ 324

5۔ سیرت النبی ﷺ۔ جلد پنجم۔ علامہ سید سلیمان ندوی۔ دارالمصنفین، اعظم گڑھ۔ص۔ 326

6۔ سیرت النبی ﷺ۔ جلد پنجم۔ علامہ سید سلیمان ندوی۔ دارالمصنفین، اعظم گڑھ۔ص۔ 332

7۔ المعجم الوسیط، الجزء الاول، المکتبہ الاسلامیۃ۔ ص۔ 829

8۔ امام فراہی کے قرآنی حواشی (ایضا) ص۔ 628

9۔ امام فراہی کے قرآنی حواشی۔ 637

10۔ حقیقت تقوی۔ مولانا امین احسن اصلاحی۔ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز۔ ص۔ 20

تحریر نگار: صفی الرحمن نبیل

اپریل 2023

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں