عبداللہ ثانی فارس العنازی
عبداللہ ثانی فارس العنازی دوہرے معذور شخص ہیں ، انہوں نے افغانستان میں امریکی بمباری میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوا دیں ۔ اس وقت وہ کارکن برائے امداد انسانی کے طور پر ملازم تھے۔ ہسپتال میں ان کی پہلی ٹانگ کاٹ دی جانے کے بعد، باؤنٹی ہنٹروں (کرائے کے سپاہیوں) نے ان کو تخت شفا سے ہی گرفتار کر کے امریکی افواج کے حوالے کر دیا۔ امریکی حراست میں رہتے ہوئے، ان کی دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی گئی۔ آپ کو 2002 سے گوانتانامو میں رکھا گیا ہے، جہاں میسر طبی امداد نا کافی ہے۔ یہاں بعض اوقات آپ کو ڈکٹ ٹیپ سے باندھے ہوئے مصنوعی اعضاء پر چلنے پر بھی مجبور کیا جاتا رہا ہے۔
باپ کے نام
اس دور افتادہ قفس میں دو برس گزر گئے ہیں
دو برس گزرے کہ میری آنکھیں کاجل سے آراستہ ہوئیں
دو برس گزرے کہ میرا دل
میرے دکھوں کے خاموش پیغام
ان بستیوں کو ارسال کرتا رہا
جہاں میرے لوگ رہتے ہیں
جہاں عطر کی خوشبو والے نرم پھول اگتے ہیں
جہاں چراگاہوں سے مویشی تازہ دم پلٹتے ہیں۔
اے فلیج تم ،مہمانوں کو بتا دینا
کہ میری زندگی کیا تھی
مجھے معلوم ہے میری روح کی آواز سن کر
تمھارے ذہن میں کرب کے طوفان اٹھتے ہیں
مگر میری التجا ہے کہ جب تم بو میر کو دیکھو
اسے میری محبت کا سلام کہنا، اس کی
پیشانی پر میرے بوسوں کی بارش اتارو
کہ وہ میرا باپ ہے، قسمت نے ہمیں یوں
جدائی دی جیسے نو مولود سے ماں بچھڑے۔
اے میرے باپ یہ نا انصافیوں کی قید ہے
اس کے جور و ظلم سے پربت بھی روتے ہیں
میں بے گناہ اور بد اعمالیوں سے پاک ہوں پھر بھی
میرے پنجے مڑے ہوئے ہیں اور مجھے
گدرائی ہوئی موٹی بھیڑ کی مانند بیچ دیا گیا ہے
حق کے سوا میرا کوئی دوست نہیں
وہ مجھ سے ان گناہوں کا اقرار کروانا چاہتے ہیں
جو میں نے کیے نہیں، میرا اعمال نامہ بے داغ ہے
جس کے لئے میں معذرت نہیں چاہتا
انہوں نے مجھے وقار کی بلندیوں سے گرا دینا چاہا
کہ میں ان بیڑیوں کو زندگی کی
آسائشوں سے بدل ڈالوں گا
خدا گواہ ہے
اگر وہ میرے جسم کو زنجیروں میں جکڑ رکھیں
تمام عرب ایمان کا سودا کر گزریں
میں اپنا ایمان نہ بیچوں گا۔
میں یہ سطور اس دن کے لئے تحریر کر رہا ہوں
جب تمہاری اولادیں بڑی ہو جائیں گی
اے خدا، مالک عرش و فرش
اے واحد، احد اور بے نیاز
اے رحیم ، اے بشیر
اے ہمارے معبود بر حق
اس مظلوم قلب پہ صبر کی بارش اتار
اور ظلم کی بھٹی سے مجھے آزاد کر!