اللہ تعالٰی نےقرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت اورشخصیت کو پوری وضاحت کےساتھ بیان کیاہے۔آپ کی شخصیت کےبہت سےپہلوہیں۔ہرپہلوبڑاہی دل آویز،بڑاہی نرالااورشان والاہے۔ہرپہلوہرزمانےکےانسانوں کےلیےسبق آموزبھی ہےاورایمان افروزبھی۔اہل ایمان کےلیے توآپ کی روشن زندگی میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔
توحیدکی دعوت ہو،شرک سےبےزاری ہو،دعوت دین کی بےچینی اوربےقراری ہو،ابتلا وآزمائش میں استقامت وپامردی ہو،یاراہ خدامیں طرح طرح کی قربانی ہو۔ہراعتبارسےآپ ایک ممتازحیثیت رکھتےہیں۔
آپ علیہ السلام کی زندگی کاایک ابھراہواپہلویہ ہےکہ آپ نےمختلف مواقع پراللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی ہیں۔آپ کی زندگی کاکوئی بھی پہلودعاسےخالی نہیں ہے۔اللہ تعالٰی نےآپ کی ان دعاؤں کابڑےاہتمام سےذکرفرمایاہے۔ دراصل آپ کی دعائیں وقتی اورعارضی نہیں تھیں بلکہ ان دعاؤں میں آنےوالےانسانوں کےلیےسبق اورپیغام ہے۔ان دعاؤں سےپتہ چلتاہےکہ آپ کاتعلق باللہ کتناگہراتھا۔آپ رجوع الی اللہ کےجذبےسےکتناسرشارتھے اور آپ کےخلوص وللٰہیت اورخشیت وانابت کی کیفیت کتنی بڑھی ہوئی تھی۔آزمائش کے دور میں دعا کی اہمیت کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ چہار جانب خوف و ہراس کی فضا اور ظلم و جور کی رت اور نفرت و انابت کاماحول ہو تو بندۂ مومن دامنِ دعا کی جانب بھاگتا ہے جہاں اسے اطمنان قلب بھی، جستجو کے طریقے بھی اور آگے بڑھنے کی ہمت بھی نصیب ہوتی ہے۔
دعاؤں کا پیغام:
- یہ دعائیں پیغام دیتی ہیں کہ ہمیں ہمیشہ اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا اوراسی کےسامنے دامن کوپھیلاناچاہیے۔
- یہ دعائیں پیغام دیتی ہیں کہ ہمیں ہمیشہ اللہ ہی سےدین ودنیاکی سربلندی،عزت،نیک نامی اورترقی کی دعامانگنی چاہیے۔
- یہ دعائیں پیغام دیتی ہیں کہ ہمیں ہمیشہ اعمال صالحہ کوانجام دینےکی توفیق طلب کرنااورتوفیق ملنےپرقبول اعمال کی دعااسی سےمانگنی چاہیے۔
- یہ دعائیں پیغام دیتی ہیں کہ ہمیں ہمیشہ آزمائشوں میں استقامت وثابت قدمی سےکام لیناچاہیے۔
- یہ دعائیں پیغام دیتی ہیں کہ ہمیں ہمیشہ دعوتِ دین کافریضہ انجام دیتےرہنااوراس راہ میں آنےوالی مشکلات کاسامناکرتےرہناہے۔
- یہ دعائیں پیغام دیتی ہیں کہ مومن کی زندگی میں ابتلا وآزمائش کاآنایقینی ہے۔اس راہ سےگزرکرہی ایمان پختہ سےپختہ ترہوگا۔
- یہ دعائیں پیغام دیتی ہیں کہ نعمتیں ملنےپرخداکوبھولنانہیں بل کہ ہمیشہ اسےیادرکھنااوراس کاشکراداکرناہے۔
- آئیے ہم بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں جیسی دعائیں مانگیں اوران کےپیغام سےاپنےدین وایمان میں پختگی پیداکریں اوراپنےرب سےحقیقی معنوں میں جُڑجائیں اوردین ودنیاکی ساری بھلائیاں سمیٹ لیں۔
اقامتِ نمازکی دعا:
رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ(ابراہیم:۴۰)
’’میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب اور میری دعا قبول فرما۔‘‘
اس دعاکاپیغام یہ ہےکہ اقامتِ صلوٰۃ یعنی معاشرے میں نماز کا رواج قائم کرنا انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کا فرضِ اولین بھی ہے اور ان کی دعا و تمنا بھی۔ اقامتِ نمازکےلیےوقت کےنبی کی دعاسےنمازکی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ایک مسلمان کی ذمےداری ہےکہ وہ اپنےمحلےاورگاؤں میں نمازکورواج دےاورسب سےپہلےنمازقائم کرنےوالابنےاوراپنےگھروالوں کوبھی نمازی بنانے کی فکرکرتارہے۔نمازقربِ الٰہی کاسب سےبڑاذریعہ اورمشکلات میں عظیم سہاراہے۔ آج ہم نمازسےبےحدغفلت کررہےہیں۔رمضان کےرخصت ہوتےہی نمازی بھی مسجدوں سےرخصت ہوگئےہیں ۔
اطاعت پرقائم رہنےکی دعا:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرہ:۱۲۸)
’’اے ہمارے رب!اورہم دونوں کو اپنا فرمانبرداربنائے رکھ اور ہماری اولاد میں سے ایک ایسی امت بنا جو تیری فرمانبردار ہو اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا دے اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لكَ، ’’ اے ہمارے رب!اورہم دونوں کو اپنا فرمانبرداربنائے رکھ۔ ‘‘
وہ حضرات اللہ تعالیٰ کے کتنےمطیع و مخلص بندے تھے پھر بھی یہ دعا اس لیے مانگ رہے ہیں کہ مزید اطاعت و عبادت و اخلاص اور کمال نصیب ہو۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں ،آپ کی طرف سےیہ توبہ ،یہ تواضع یعنی عاجزی ہے ۔
اس میں’’اللہ والوں ‘‘کے لیے بڑاسبق ہے۔ایک سچےاورمخلص بندےکی ہمیشہ یہ آرزوہوتی ہےکہ وہ ہمیشہ اطاعت وبندگی کی راہ پرگامزن رہے۔’’بندگی کی راہ‘‘سےذرا بھی ہٹےنہیں اوربندگی کی راہ میں ذرا بھی کوئی کمی واقع نہ ہو۔
وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا، ’’ اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا۔‘‘
معلوم ہوا کہ عبادت کے طریقے سیکھنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔اس کیلئے دعا بھی کرنی چاہیے اور کوشش بھی۔ بغیر طریقہ سیکھے عبادت کرنا اکثر عبادت کو ضائع کردیتا ہے۔
لائق اولاد کی دعا:
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(الصافات:۱۰۰)
’’ اے میرے رب! مجھے لائق اولاد عطا فرما۔ ‘‘
ادھردعاکی ادھردعاقبول ہوئی۔فرمایا:
فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ، ’’تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوش خبری سنائی۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صرف اولادکی دعانہیں کی بل کہ نیک اورلائق اولاد کی دعاکی۔دعاکامقصدیہ تھایہ لائق بیٹا دینِ حق کی دعوت دینے اوراللہ کی عبادت کرنے پر اپنےباپ کا مددگاربنے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے جب بھی اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا مانگی جائے تو نیک اور صالح اولاد کی دعا مانگنی چاہئے۔ کامل ایمان والوں کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ نیک، صالح اورمتقی بیویوں اوراولاد کی دعا نگتے ہیں تاکہ اُن کے اچھے عمل دیکھ کر نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی اطاعت دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش ہوں۔
ہردل عزیزی کی دعا:
رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوةَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیۡۤ اِلَیْهِمۡ (ابراہیم:۳۷)
’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، اے ہمارے رب!۔ تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے۔‘‘
یہ دعا پیغام دیتی ہےکہ دینی قیادت کے لیے ہر دلعزیزی ہی بنیاد ہے۔ چونکہ مذہبی قیادت کی حکومت گردنوں پر نہیں دلوں پر ہوتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ رائے عامہ کو دینی معاشرے میں کس قدر اہمیت حاصل ہے۔
رزق کی دعا:
وَارۡزُقۡهُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ (ابراہیم:۳۸)
اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔
’ثمرات‘سےمرادصرف میوہ جات اورثمرات نہیں ہے،بل کہ ہرقسم کی آمدنی ہے،جیساکہ ہرزبان میں محاورہ ہےکہ یہ اجرفلاں محنت کانتیجہ اورثمرہ ہے۔اس کی وضاحت سورہ قصص آیت ۵۷میں کی گئی ہے:
اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
’’کیا ہم نے ان کو حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائے جاتے ہیں (اور یہ) رزق ہماری طرف سے ہے ؟ لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔‘‘
جس خدا نے اپنے حرم محترم میں پناہ دی اور امن وامان دیا اور رزق دیا اور مقام محفوظ میں ان کو بسایا اس کاتقاضایہ ہےکہ اگر وہ اسلام لے آئیں اور خدا پرست بن جائیں تو خدا کی رحمت سے پہلے سے زیادہ مامون اور محفوظ ہوں گے اور پہلے سے زیادہ رزق پائیں گے۔لیکن رزق پاکراگر خدا پرستی اور حق پرستی اور ہدایت کی اتباع سےمنہ موڑااوراللہ کی ناشکری کی تو اس نعمت و کرامت سے وہ خود کومحروم کرلیں گے۔
امن وسلامتی کی دعا:
وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰهیۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا (ابراہیم:۳۵)
’’اور جس وقت کہا ابراہیم نے، اے رب کر دے اس شہر کو امن والا ۔‘‘
امن وامان کےبغیر عبادت واطاعت متأثرہوگی،خوشی اورخوش حالی متأثرہوگی،کاروبارمتأثرہوگا،تعلیم وتربیت متأثرہوگی۔گویا ہرچیزمتأثرہوگی۔ اس لیےامن وامان کی فضابنانااورقائم رکھنااورامن وامان کوغارت کرنےوالےعوامل کودورکرناضروری ہے۔ سماج میں فتنہ وفسادمچانےوالےاورشرپسندعناصرسےمعاشرےکوپاک رکھناوقت کی اہم ضرورت ہے۔
شرک وبت پرستی سےاجتناب کی دعا:
وَاجۡنُبۡنِیۡ وَ بَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ (ابراہیم:۳۵)
’’ اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔‘‘
اس آیت کریمہ میں شرک سےبچنےاوردوسروں کو بچانےکی تلقین کی گئی ہے۔اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا اوربتوں کوپوجناشرک ہے۔ شرک کرنا،شرک کےدروازےکھولنا،شرک کی طرف دعوت دینابہت بڑاظلم ہے۔ ہمیں خود بھی شرک کی تمام قسموں سےبچناہےاوربرادرانِ وطن کوبھی شرک جیسےگھناؤنےکام سےبچانےکی فکراورسنجیدہ کوشش کرنی ہے۔ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی سےہمیں یہی سبق ملتاہے۔وہ خالص توحیدکےعلم برداراورشرک سےبےزارتھے۔
قبولیتِ دعاکی دعا:
رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ ابراہیم (ابراہیم:۴۰)
’’اور قبول کر میری دعا۔‘‘
بارگاہِ الٰہی میں ہماری دعاقبول ہوجائے،ہمیں اس کی بھی دعاکرنی چاہیے۔اوردعاکوقبولیت کےمقام تک پہنچانےکی خوب سےخوب ترکوشش بھی ہونی چاہیے۔
قبولِ عمل کی دعا:
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (بقرہ:۱۲۷)
’’جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں بلند کررہے تھے(یہ دعا کرتے ہوئے) اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما ،بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
آیت کاتذکیری پہلویہ ہےکہ باپ اوربیٹےدونوں کویہ فکردامن گیرتھی کہ ان کی یہ اطاعت وخدمت بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوجائے۔ایک طرف دونوں حضرات اللہ کےگھرکی تعمیرمیں لگےہوئےہیں اوردوسری طرف پورےخلوص اوردل کی گہرائیوں کےساتھ ان کی زبان پریہ دعائیہ کلمہ برابرجاری ہے:
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ
’’اے ہمارے رب! ہم سےیہ قبول فرمالے۔‘‘
آیت کاپیغام یہ ہےکہ جہاں ہم نیک عمل کریں وہیں اس بات کی بھی فکرکریں کہ ہماراوہ عمل قبول ہوجائےاورقبول ہونےکےلیےضروری ہےکہ اس میں نہایت خلوص وللٰہیت ہو،تواضع وانکساری ہو،خشیت وانابت ہو۔
مغفرت کی دعا:
رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ (ابراہیم:۴۱)
’’اے ہمارے رب بخش مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور سب ایمان والوں کو جس دن قائم حساب ہو۔‘‘
آدمی کویہ احساس ہمیشہ ستاتا رہےکہ اس نےبہت کچھ کرنےکےبعدبھی گویاکچھ بھی نہیں کیا،جیساکرناچاہیےتھاویسانہیں کیا۔نبیوں کی یہ صفت ہوتی ہےکہ وہ اپنےکیےہوئے عمل کوزیادہ اورکافی نہیں سمجھتے۔وہ اس احساس کےساتھ جیتےہیں کہ کاش اورکیاہوتااوربہتراندازسےکیاہوتا۔انھیں یہ احساس ستاتارہتاہےکہ کہیں اطاعت وعبادت میں کوئی کمی نہ ہوگئی ہو،کہیں ہمارااللہ ہم سےناراض نہ ہوجائے۔
کافروں کانشانہ نہ بننےکی دعا:
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الممتحنہ:۵)
’’اےہمارےرب!ہمیں ان کاتختۂ مشق نہ بناجوکافرہیں اوراےہمارےرب!ہمیں معاف کر،بےشک توہی غالب حکمت والاہے۔‘‘
آج کےدورِابتلاءوآزمائش میں اس دعاکی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے۔مومنوں کواس دعاکاخاص اہتمام کرناچاہیے۔ ہم دعاکریں کہ اےاللہ ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال، کافروں کوہم پرغلبہ وتسلط نہ عطاکر،اس طرح وہ سمجھیں گےکہ وہ حق پرہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ دعابھی کریں کہ اےپروردگار!ہماری لغزشوں اورکوتاہیوں کومعاف فرما۔
علم وحکمت کی دعا:
رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا (شعراء:۸۳)
’’اے میرے رب مجھے کمال علم عطا فرما۔‘‘
حکم سےمرادکمال درجہ علم وحکمت اوردانائی ہے۔ ایسا علم جس سےخداکی صحیح صحیح معرفت نصیب ہو، جس سےاحکام الٰہی کی سمجھ پیداہو، جس سےلوگوں کےدرمیان فیصلےکرناآسان ہو۔ جب ہم دعاکریں تواسی طرح کےعلم وشعوراورفکروآگہی کی دعاکریں۔ یعنی گہراعلم، پختہ علم، نفع بخش علم، ایساعلم جس سےخلقِ خدافیض یاب ہو۔
صالحین کےساتھ رفاقت کی دعا:
وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (الشعراء:۸۳)
’’اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا۔‘‘
اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں ۔
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی، چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنَّهُ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(البقرہ:۱۳۰)
’’ اور بیشک وہ آخرت میں ہمارا خاص قرب پانے والوں میں سے ہے۔‘‘
انسان کوچاہیےکہ وہ نیک لوگوں کی صحبت اختیارکرے۔کیوں کہ سلامتی اورہدایت انھیں اپنےدامن میں لیےرہتی ہے۔وہ رحمت کےسایے میں جیتےہیں۔اورجب ایک انسان ایسےلوگوں کی صحبت اختیارکرےگاتوآخرت میں ان کےمقام ومرتبہ سےقریب ہوجائےگا۔ ہماری کوشش ہوکہ ہم نیک سیرت،اعلی کردار،عبادت گزار،اطاعت شعارلوگوں کی ہم نشینی اختیارکریں اوران سےکسب فیض کریں۔اللہ والوں کی ہم نشینی کامزہ اورفائدہ کچھ اورہی ہے۔
اللہ کےرسول صلى الله عليہ وسلم نےفرمایا:
(الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ) (البخاري، كتاب الأدب، باب علامة الحب في الله)
’’ آدمی کا انجام اس کےساتھ ہوتاہےجس سےاسےمحبت ہوتی ہے۔ ‘‘
نیک نامی کی دعا:
وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الآخِرِينَ (الشعراء:۸۴)
’’اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی ناموری رکھ۔ ‘‘
ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کرتے ہیں کہ میرے بعد بھی میرا ذکر خیر لوگوں میں جاری رہے۔ لوگ نیک باتوں میں میری اقتداء کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعابھی قبول کی اور ان کا ذکر رہتی دنیاتک کےلیے باقی رکھا۔
طاہرابن عاشورآیت﴿وَاجْعَــــلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ﴾
کی تفسیرکرتےہوئےلکھتےہیں:
’’یعنی لوگوں میں حسنِ تعریف کامطلب یہ ہےکہ میرےبعدآنےوالی تمام امتوں میں میراذکرِخیرہو۔اس اسلوبِ دعامیں ذکرِدائمی اوردرجۂ کمال کاسوال ہے۔اورآپ کی تعریف کاچرچاکرنےکی دعاہے۔اوریہ وہ چیزہےجس سےآپ کی وفات کےبعدروح کوغذاملےگی۔ کیونکہ ان کی تعریف کاتقاضاہےکہ لوگ آپ کے پاکیزہ نفس کوپہچاننےکےعوض میں ان کےحق میں دعاکریں اوران پردوردوسلام بھیجیں۔‘‘
( التحرير والتنوير ،طاہر بن عاشور، 19/ 156)
جنت کےوارثوں میں بنائے جانےکی دعا:
وَاجْعَلْنِي مِن وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ (الشعراء: ۸۵)
’’اور مجھے نعمت کی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔‘‘
حضرت ابرہیم علیہ السلام اس دعامیں اپنی اس آرزوکاذکرکیاہےکہ میرا ذکر جمیل جہاں دنیامیں باقی رہے وہاں آخرت میں بھی جنتی بنایا جاؤں۔یعنی صرف دنیامیں ذکرخیرنہ ہوبلکہ اصل زندگی(آخرت)میں بھی سعادت کی زندگی نصیب ہو۔ اس دعاکاپیغام یہی ہےکہ ایک مومن کی نگاہ ہمیشہ اصل اورباقی رہنےوالی زندگی پررہنی چاہیے۔اسے دنیاکی عارضی زندگی میں پھنس کرہمیشہ والی زندگی کوکبھی بھی فراموش نہیں کرناچاہئے۔
قیامت کی رسوائی سےبچنےکی دعا:
وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ (الشعراء:۸۷)
’’اورمجھے رسوا نہ کر، جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔‘‘
قیامت کی رسوائی سےبڑھ کرکوئی رسوائی نہیں۔وہاں کی ناکامی سےبڑھ کرکوئی ناکامی نہیں۔ہمیں اس بات کی ہروقت فکررہےکہ اللہ وہاں کی رسوائی سےبچائے۔اوراس رسوائی سےبچنےکاراستہ اختیارکئے بغیرقیامت کی رسوائی سےبچناناممکن ہے۔یہ چیزصرف آرزوؤں اورتمناؤں سےنہیں ملےگی۔اس کےلیے’’عملِ صالح‘‘کابہترین ذخیرہ اکٹھاکرناہوگا۔ آج اس امت کوقیامت کی رسوائی سےبچنےکی فکرکرنی چاہیے۔یہ امت آخرت کی بازپرس سےغافل ہوتی چلی جارہی ہے۔
آخری نبی کی بعثت کےلیےدعا:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَیُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ (البقرہ:۱۲۹)
’’ اےہمارے رب! اور ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیج جواِن پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت والاہے۔
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ’’اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے۔اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن پاک اور اس کی تعلیم سے اس کے حقائق و معانی کا سکھانا مراد ہے۔اور حکمت میں احکامِ شریعت اور اسرارِشریعت وغیرہ سب داخل ہیں۔ اس آیت کاپیغام یہ ہےکہ کتاب وحکمت کی تعلیم اورلوگوں کی اصلاح وتربیت کاکارِعظیم اب اس آخری نبی کی امت پرعایدہوتاہے۔ ضروری ہےکہ سب لوگ کتابِ الٰہی کی تعلیم حاصل کریں۔کتابِ الٰہی سے ’’حکمت وبصیرت‘‘کےچشمےپھوٹتےہیں اورحکمت وبصیرت کےدروازےکھلتےہیں۔قرآن مجیدکوچھوڑکرنہ یہ امت کام یاب ہوسکتی ہےاورنہ بھٹکتی ہوئی انسانیت کوکام یابی کی راہ دکھاسکتی ہے۔ جن جن قوموں نےجب جب اللہ کی کتاب سےروگردانی اختیارکی تب تب ان پرذلت ورسوائی کی مارپڑی۔ یہ مارآج امت مسلمہ پرپڑرہی ہے،پھربھی غفلت میں پڑی ہوئی سورہی ہے۔
رسوائی سےبچنےکاواحدراستہ یہی ہےکہ ہم اللہ کی کتاب سےوابستہ ہوجائیں۔اپنےآپ کوکتابِ الٰہی کےحوالےکردیں۔اس کواپنارہنمابنائیں۔اس کی رہنمائی میں زندگی گزاریں۔اس کی روشن تعلیمات سےاپنےکردارکوسنواریں۔اس کے’’پیغامِ عمل‘‘ کوخودسمجھیں اورپوری دنیاکوسمجھائیں۔
قرآن میں ہوغوطہ زن ہواےمردِمسلماں
اللہ کرےتجھ کوعطاجدتِ کردار
(علامہ اقبالؒ)
– محمد اکمل فلاحی