ماہنامہ رفیق منزل کی کوشش ہے کہ دعوت سے متعلق صحت مندگفتگو جاری رہے۔ اس غرض سے مختلف تحریریں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ اسی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئےڈاکٹر حسن رضا کی ایک تقریرکو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ یہ تقریر ایس آئی او کرناٹک کی جانب سے منعقدہ ایک پروگرام میں کی گئی تھی ۔ (ادارہ )
نوجوان ساتھیو! آپ کے عنوان سے میری بھی خاص دلچسپی ہے۔ بلکہ یہ عنوان سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ دعوت كا كام ہم کرتے تو ہیں، دعوت کى مہم بھی چلاتے ہیں، لیکن دعوت کے سلسلہ میں کچھ سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ اور اس میں سے ایک سوال بہت اہم ہے جس کو آپ لوگوں نے اپنا عنوان بنایا ہے۔ دعوت کے کلی تناظر اور مجموعی توازن کا شعور دن بدن بڑھتا گيا، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور کی جو اصل علمى کمزوری ہے وہ یہی ہے کہ معاملات زندگی اور مسائل حیات کو توڑ توڑ کر دیکھا اور اور سمجھا جاتا ہے اس لئے ہر چیزکا جزوی حل تو ہوتا ہے، کلی حل نہیں ہوپاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی سرگرمیوں کا بھی متوازن شعور رکھیں اور چیزوں کو کلی تناظر میں دیکھیں۔ یہ جو ہم لوگ اپنی تحریکی اور جماعتی زندگی کے لئے بہت سے عنوانات طئے کردیتے ہیں اور ان عنوانات کو تقسیم کرتے ہیں: دعوت، تربیت، تنظیم، اسلامی معاشرہ، خدمت خلق، ملکی مسائل اور ملی امور وغیرہ،یہ سب چیزیں بظاہر تو علیحدہ ہیں لیکن تحریک اسلام کا ایک کلی تناظر ہے اور یہ ایک ہی کام کی مختلف جہتیں (Dimensions) ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک دوسرے کے کام میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ اگر ایک پہلو کمزور ہوگا تو اس کے اثرات دوسرے پر پڑیں گے۔ دعوت کا اثر تربیت پر بھی پڑے گا، تربیت کا اثر دعوت پر بھی پڑے گا، اصلاح معاشرہ کا اثر دعوت پر بھی پڑے گا۔ ملکی وملی امور میں ہماری کوتاہیوں کا اثر دعوت پر بھی پڑے گا۔ کلی شعور کو اہمیت اس پہلو سے بہت بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنے کاموں کی مختلف جہتوں کے لئے الگ الگ عنوان رکھ کر جب گفتگو کرتے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک کام کرتے رہتے ہیں تو یہ جو الگ الگ جہتیں ہیں ان کے باہمی تعلق سے جوکلی تناظر بنتا ہے، وہ مجروح ہوجاتا ہے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تحریک اسلامی کے کارکنوں میں دعوت کے کلی تناظر کو سمجھنے پر گفتگو اور بات چیت ہو۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ کبھی کبھی دین کو کامل صورت میں پیش کرنے کے بجائے اہم اجزائے دین کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ کل دین ہوجاتا ہے۔ میرے پیش نظر صرف تحریک اسلامی ہی کی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ میں چل رہی تحریکی اور دعوتی کوششیں ہیں۔ اس میں ايك کمزوری یہ ہے کہ دعوت کا کلی تناظر سامنے نہیں رہنے کی وجہ سے دین کو کامل صورت میں پیش کرنے کے بجائے اجزائےدین کو اس طرح پیش کردیا جاتا ہے کہ وہ کل دین معلوم ہونے لگتے ہیں۔
كسى جزؤ دین کو مخصوص تناظر میں ایسا پیش کیا جاتا ہے کہ پھر فکر وعمل اور دعوت وتربیت کی ساری سرگرمیاں اسی محور ومرکز سے وابستہ ہوکر سامنے آجاتی ہیں۔ اس کی بڑی اچھی مثال آپ لوگوں کو اشاروں میں بتا دینا کافی ہوگا، تبلیغی جماعت کی ہے جنہوں نے کلمہ، نماز، اکرام مسلم، وقت کی فراغت اور اخلاص نیت کو ایک مخصوص جہت کے ساتھ جوڑ کر کل دین کے طور پر پیش کردیا۔اس طرح گویا دعوت دین کا جب کلی تناظر واضح نہ ہو تو اس کوتاہی کا اندیشہ لگا رہتا ہے، اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ دین اپنی کامل صورت میں نہیں آپاتا، خاص لوگوں کے اندر بھی دین کا پورا فہم متعارف نہیں ہوتا اور مخصوص اجزائے دین کو وہ اہمیت حاصل ہوجاتی ہے جو دین میں اس کی فی الواقع نہیں ہے ۔ اس کا لحاظ کرنا بہت اہم اور ضروری ہے۔
دوستوں! دعوت دین کے کلی تناظر کے سلسلہ میں دو باتیں میں نے آپ کے سامنے عرض کیں۔ ایک اور بات جو بڑی اہم ہے وہ یہ کہ دعوت کے سلسلہ میں perspective کے محدود ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئى کہ مغرب میں جب چرچ اور رياست کا جھگڑا شروع ہوا، اور رياست چرچ پرحاوی ہوگئی،یاد رہے کہ یہ وہی زمانہ ہے جب دنیا کو انہوں نے غلام بنانا شروع کیا اور جب یہcolonization ہونے لگا اور نو آبادیاتی نظام قائم ہوا، جہاں جہاں یہ گئے وہاں چرچ بھی گیا اور وہاں جاکر ان دونوں کے درمیان تال میل ہوگیا، تال میل ہونے کے نتیجے میں نوآبادیاتی نظام کو چرچ اور تبلیغ نے مل کر ایک قوت بخشی اور اس نظام نے ان کو طاقت بخشی۔ چنانچہ پوری دنیا کے اندر مذہب کی دعوت اور تبلیغ کے حوالے سے کرسچین مشنریزکی وجہ سے یہ تصور پیدا ہوگیا کہ نوآبادیاتی نظام اور استحصال کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے۔ چنانچہ جب قوموں میں بیداری اور آزادی کا تصور پیدا ہوا اور انہوں نے نو آبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی تو انہوں نے مذہب کے تبلیغی مشن ، جو چرچ کے ذریعہ ہورہا تھا ، کو بھی اس کا حصہ سمجھ کر دعوت وتبلیغ کو ایک سیاسی آلہ کے طورپر سیاسی بالاتری کےحصول کے لئے ایک ذریعہ سمجھ لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تبلیغ ، دعوت اور مذہب کی تبدیلی کا عمل ، اس کے ذریعہ تعداد کو بڑھانے اور سیاسی قوت اور قومی کشمکش کا ذریعہ بن گیا۔ اس طرح گویا ایک نیاperspective سامنے آیا کہ دراصل مذہب کی دعوت وتبلیغ کسی قوم کا استحصال کرنے، کسی قوم میں بالا تری قائم کرنے اور اپنی عددی قوت کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ اس کے ردعمل میں گھر واپسی، ایک نئی تبدیلی مذہب كی کوشش شروع ہوئی اور اس طرح عمل اور ردعمل کے نتیجہ میں پورا دعوتی تناظر ہیpoliticalise ہوگیا۔
میرے خیال میں یہ نقطہ بہت اہم ہے، اس کو ٹھیک سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف کرسچین مشنریز نے استعمارى طاقت کو مضبوط کرنے میں معاونت کی اور دوسری طرف اس کے خلاف بھی جب آزادی کی تحریک چلی تو مقامی مذہب کے ماننے والوں نے اس مشنری کوشش کو بھی ایک سیاسی بالادستی کے ذریعہ کے طور پر سمجھ کر اس کے خلاف اپنے مذاہب کی دعوت وتبلیغ اور گھر واپسی کا عمل شروع کیا، تو گویا دعوت وتبلیغ کا، مشنری کام كا، مذہب دوسروں تک پہنچانے کا، مذہب کے تعارف کا، مذہب کے نام پر خدمت کا، یہ سارا منظر نامہ ایسا بدل گیا کہ ایک سياسى کشمکش کا ذریعہ ہوگیا۔ ان حالات میں دعوت کا پیغمبرانہ، خیر خواہانہ اور اعلی درجہ کی بےنفسی کا عمل سیاسی مفاد پرستی، قومی کشمکش، نفرت و عداوت کا عمل بن گیا۔ اس کا اصل پس منظر مذہب کی تبدیلی کے ذریعہ عددی قوت کا اضافہ اور سیاسی قوت کے حصول کا ذریعہ بن گیا۔ لہذا دعوت کا جب ہم کلی تناظر کہتے ہیں تو یہ مکانی و زمانی پس منظر بھى ہمیں سمجھنا چاہیے۔
جب ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مکالمہ کرتے ہیں اور بات چیت کرتے ہیں تو یہperspective ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔ دوسرى بات یہ ہے کہ جب دعوت استعماری طاقت كى مدد کا ذریعہ بنی اور اس کے رد عمل میں واپسی کا عمل ایک مقامى مذہب کی تبلیغ کا ذریعہ بنا تو ایک نئی چیزبھی شروع ہوگئی جسے ہم لوگ مناظرہ بازی کہتے ہیں۔ پروپیگنڈہ، غلط بیانی، حقیقت کو توڑ مڑوڑ کے پیش کرنا، ذہنی کشمکش یعنی ایک دوسرے مذہب سے تبادلہ خیال، افہام وتفہیم، نقطہ اتحاد کی تلاش کے بجائے گو ایک دوسرے پر الزام تراشی، پروپیگنڈہ اور ایک ذہنی کشتی کا عمل بن گیا۔ دعوت اور تبلیغ کا عمل نہ ذہنی کشتی کا عمل ہے، نہ مناظرہ کا عمل ہے، نہ پروپیگنڈہ کا عمل ہے اور نہ فتح و شکست کا کوئی میدان، وہ دراصل انتہائی خیرخواہانہ جذبہ کا اظہار ہے اور ہونا چاہیے۔ دعوت کے تناظر میں، دعوتی کام كو كرنے میں یہ بات ہمارے سامنے ہونی چاہیے کہ آج بھیdecolonization کے بعد جب نیشن اسٹیٹ بن گئے اور ساری دنیا میں مذہب کی دعوت وتبلیغ کا عمل شروع ہوا ہے تو اس کا ایک مخصوص perspective ہے اور اس میں دعوت دین کے عمل کو اس طرح کرنا چاہیے کہ دین کا جو ظاہر ہے وہ بھی سامنے آئے اور دین کا جو باطن ہے وہ بھی سامنے آئے۔ جو لوگ دعوت وتبلیغ کا کام کرتے ہیں ان کے جذبات اور احساسات بھی سامنے آئیں۔ اس پورے perspective کے ساتھ دعوت دین کا عمل جاری وساری رہنا چاہیے۔
دعوت کے عمل میں کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں؟ دعوت کا کچھ موضوع ہوتا ہے، کچھ اسلوب ہوتا ہے اور ایک پورا پس منظر ہوتا ہے۔ سیاسی، سماجی، تہذیبی، اور معاشرتی پس منظر میں یہ عمل انجام پاتا ہے۔ دعوت کے عمل میں ایک طرف داعی ہے اور داعی گروہ ہے دوسری طرف مدعو اور مدعو گروہ ہے۔دوسری اہم بات دعوت کا عنوان اور اسلوب ہے! سیاسی ،معاشی اور تہذیبی تناظر میں دعوت کو پیش کرنے کا کام بغیر کلی تناظر کو سمجھے انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو ہندوستان میں تحریک اسلامی کے دعوتی کاموں کے سلسلے میں ہمارے نوجوانوں کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں دعوت کا تصور کیا ہے؟ ہمارے یہاں دعوت، دین کا ایک پہلو ہے۔ کرسچین مشنری کے یہاں دعوت ان کی زندگی کاکل نصب العین بن جاتا ہے، ہمارے یہاں دعوت زندگی کا کل نصب العین نہیں ہے۔ دعوت دین کا ایک تقاضا ہے، ایک تقاضا اپنی ذات سےمتعلق ہے، ایک تقاضادوسرے کی ذات سے، ایک حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد۔ حقوق العباد میں وہ لوگ بھی ہیں جو ہمارے ماتحت ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو اس دین سے ناآشنا ہیں۔ تحريك اسلامی نے دعوت کو غیرمسلموں سے وابستہ رکھا ہے اور اصلاح معاشرہ کو ملت سے وابستہ رکھا اور تربیت کو ذات، اہل خانہ ورشتہ داروں سے وابستہ رکھا۔ یہ دین کی دعوت کے کلی تناظر کا تقاضا ہے۔ اگر ہم دعوت کو پورے دین کا تقاضا سمجھ جائیں تو گویا ہم نے دین کے سلسلہ میں دعوت کو وہ مقام دے دیا ،جو اس کا مقام نہیں ہے۔ دعوت کے کلی تناظر میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ دعوت کو دین میں جو اہمیت ہے وہی حاصل ہونی چاہیے اور جو تربیت کی اہمیت ہے وہ تربیت کو حاصل ہونی چاہیے، حقوق العباد اور حقوق اللہ کے فرق کو سمجھنا چاہیے،اسی سے اسلامی دعوت صحيح دعوت ہوتی ہے ورنہ نہیں ہوتی۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی نومسلم مسجد میں آتا ہے تو سب مسلمان خوشی منانے لگتے ہیں، اگرچہ ان کی اپنی زندگی میں اسلام نہیں ہوتا، اگرچہ کہ وہ خود نماز نہیں پڑھتے لیکن ایک غیر مسلم نمازی ہو جاتا ہے تو خوشیاں منانے لگتے ہیں۔ وہ خوشی ان کی دينى اور اسلامی نہیں ہوتی ہے، دراصل قومى اور تہذیبی خوشی ہوتی ہے۔
دعوت کا یہ پہلو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ دعوت اسلام کا ايک کام ہے، اگر کلی کام سمجھ لیا جائے تو اس کا تناظر بگڑ جائے گا، اس کا توازن وتناسب بگڑ جائے گا، ہمارے یہاں دعوت کا تصور یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو بطور خلیفہ پیدا کیا، اس کو اقتدار و اختیار کے ساتھ علم و عقل سے آراستہ کیا اور یہ اس كى خاص محبت، شفقت اور اپنے بندوں کے ساتھ غايت درجہ کی رحمت کا تقاضا ہے کہ اس نے انسانوں كى ہدایت کے لیے پیغمبروں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ پیغمبروں کا یہ سلسلہ اللہ تعالی کی ایک خصوصی شفقت، خصوصی نعمت اور خصوصی رحمت ہے۔ اسى لیے ہمارے یہاں دعوت اور مدعو کا تعلق محبت ومودت کا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ دنیا کے مختلف قوموں میں پایا جانے والا دین کا تصور اور روایتوں میں پائی جانے والی دینداری،درحقیقت انبیائی تعلیمات ہی کا مظہر ہیں ۔ اس لئے کہ پیغمبر ہر جگہ آئے ہیں ۔یہ کوئی ہماری برتری کا معاملہ نہیں ہے۔ ان كى طرف الله تعالى نے جو تعلیمات بھیجی تھیں، اس سے ان کوآگاہ کریں اور اگر کوئی کجی، کوتاہی اور کمزوری ہو رہی ہو تو ہمارے پاس اس کا آخری ایڈیشن ہے۔ اس سلسلہ میں ہم ان کی رہنمائی اور مدد کریں۔
اس لیے جب ہمارا قوموں سے واسطہ پڑتا ہے، ان کے عرف کو ہم نہیں مٹاتے، ان کی قدیم راویتوں میں تلاش کرتے ہیں کہ کہاں حق کی کرنیں ہیں، ہم ان کے ادب میں تلاش کرتے ہیں کہ اس میں کہاں توحید، کہاں رسالت اور آخرت ہے اور ان چیزوں میں کہاں ان سے کجی اور کمی ہوئی ہے تو یہ گویاconversion نہیں ہوتا بلکہ ان کی تجدید ہوتی ہے۔ دعوت دین کے تصور میں ہر قوم کے ساتھ اس قوم کاتجديدى عمل، احياء کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ دعوت کے عمل سے کسی قوم کی احیاء کا عمل شروع ہوتا ہے اوراس قوم کی تجديد كا عمل ہوتا ہے،کیونکہ وہاں پیغمبر آئےہیں، ان کے پاس کتاب موجود رہی ہے،اس کو وہ بھول گئے ہیں۔مثلا ہم ‘أرأيت الذى يكذب بالدين’ کی تلاوت کرتے ہیں، دین کا جیسا کلی تناظر اس سورہ میں پیش کیا گیا ہےآپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ میں مختصراًاس کی تشریح کردوں تاکہ آپ دعوت دین کےاس کلی تناظر کو ،جو اس وقت مکہ کی زندگی میں قرآن نے پیش کیا تھا، سمجھ سکیں۔ شروع کیا ہے دین کا انکار کرنے والے کے تذکرہ سےاور قرآن نے دین کا انکار کرنے والے کی جو تشریح کی وہ اس طرح کی کہ ان کے یہاں جواخلاقی شعورونظام تھا اس کی پوری رعایت ہو اور ا سے اپیل کرے، اس لئے کہ دین اخلاق کی تکمیل کے لئے آیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “بعثت لأتمم مكارم الأخلاق”۔ میں اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا ہوں۔پھرسورۃ میں کہا گیا “فذلک الذی یدع الیتیم ولا يحض على طعام المسكين” اور اس کے بعد نماز کے بارے میں کہا کہ نماز کی حقیقت سے غافل ہوتے ہیں۔ان کے یہاں انفاق نہیں ہوتا ہے، مذہب ان کا ریاکاری پر مبنی ہوتا ہے۔مطلب کہ جو دین کا انکار کرنے والے ہیں، وه جو خرچ بھی کرتے ہیں یا ان کے اندر جو مذہبی عمل ہوتا ہے وہ سب ریاکاری، شہرت و ناموری کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اسلام نے دین کی دعوت کا ایک مکمل تناظر پیش کیا ہےگویا دین کے کلی تناظر میں دین کے احکام کا توازن بھی نہیں بگڑتا اور مدعو کی رعایت بھی ہوتی ہے۔ اس لیے سورہ یوسف میں یوسف علیہ السلام نے کہا: ‘على بصيرة أنا ومن اتبعنى’۔ ہم بصیرت پر ہیں اورہماری اتباع کرنے والے بھی بصیرت پر ہیں۔گویا جب کلی تناظر کا عنوان آپ نے پیش کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوتِ دین کے لیے جو بصیرت درکار ہے آپ اس پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور یہ آپ کے باشعور ہونے کی علامت ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام بہت سے افراد کر رہے ہیں لیکن انہوں نے چند پہلوؤں ، چند باتوں اور ايك مخصوص اسلوب کو پکڑ لیا ہے اور اسی کو پکڑ کر ساری چیزوں کا مداوااور اسی کو کل دین سمجھ بیٹھے ہیں یا ساری سرگرمیوں کا محور اور مرکز بنا لیا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کے ہندوستان میں مسلمانوں کے مسئلوں کا حل دعوت ہے۔یہ صحیح بات ہے لیکن یہ ایک پہلو ہے،جو حوصلہ دلانے اورحرکت پیدا کرنے کے لیے ہے۔لیکن دعوت کا عمل مسلمانوں کے مفاد سے جڑا ہوا نہیں ہے،صرف خدا کی رحمت سے یقیناً جڑا ہوا ہے اورہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس کی کمزوری کا علاج ضرور ہے۔لیکن فرق ہے اس اپروچ میں اور
دوسرے اپروچ میں جس میں غیر مسلموں کے ساتھ گفتگو اس شعور کے ساتھ کی جائے کہ یہ سب آدم اور نوح علیہم السلام کی اولاد ہیں اور ان کے یہاں بھی خدا کی ہدایات آئی تھی ۔
دعوت دین کا کلی تناظر اگر آپ اپنے سامنے رکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ دعوت کے پورے محرک کو سامنے نہ رکھ کر ایک محرک پر زور دینا،اس کے اندر عدم توازن پیدا کرتا ہے۔خود رسول ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی کو قرآن نے تین حصوں میں پیش کیا ہے: ایک تو یہ کہ آپ نے شریعت مکمل کیا جس میں بنی اسرائیل سے گویا امامت چھینی گئى اور امت مسلمہ کو دی گئی جس کا ذکر آپ قرآن کے پہلے حصہ میں سورہ بقرہ سے سورہ مائدہ تک دیکھتے ہیں۔یہ حصہ حضور ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی کی ایک جہت ہے جس میں آپ نے شریعت کو مکمل کیا اور بنی اسرائیل كے کتاب شریعت اور قانون کو الله تعالیٰ نے مسترد کر کے محمد ﷺ کے ذریعے دىن كو مكمل كيا،الیوم اکملت لکم دینکم۔ دوسرا ، یہ کے آپ نے خانہ کعبہ جو بنی اسماعیل کا مرکز تھا اور بت پرستی کا اڈہ بن گیا تھا، کو آپ نے آزاد کرکے پھر سے توحید کا مرکز بنایا جس کے لیے ابراہیم علیہ السلام نے اسے بنایا تھا، اس کا ذکر گویا سورہ مائدہ سے سورہ توبہ تک ہے۔تیسرا ، امت مسلمہ کی تشکیل کا ہے۔ رسول اللہ کی پیغمبرانہ زندگی کی یہ تین جہتیں بہت اہم ہیں جہیں سمجھے بغیر نہ دین کا، نہ دعوت کا، نہ امت کا مشن کلی تناظر میں سمجھ آ سکتا ہے۔اس کا ذکر سورہ یونس سے شروع ہو تا ہے اور سورہ نور پر ختم ہوتا ہے اور سورہ حج میں جاکر کے امت مسلمہ کی تشکیل کا اعلان ہوتا ہے جس کے بعد امت مسلمہ کو جو لائحہ عمل دیا ہے اس میں کہا گیا ہے، “يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱرْكَعُواْ وَٱسْجُدُواْ وَٱعْبُدُواْ رَبَّكُمْ وَٱفْعَلُواْ ٱلْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَوَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ۔
پہلی دفعہ قرآن میں سورہ حج میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ نام رکھا اور وہیں پر بتایا کہ یہ نام اس لئے ہم نے رکھا ہے کہ تمہارے وجود كا مقصد ہی یہ ہے کہ تم شہادت دو، اب یہ دیکھیے دعوت کے کلی تناظر میں شہادت کے تصور کے بغیر دعوت كا تصور مکمل نہیں ہو سکتا۔ شہادت کیا ہے؟ مطلب یہ کہ پوری زندگی، آپ کی انفرادی و اجتماعی زندگی، آپ کی معاشرتی زندگی، آپ کی معاشی سرگرمیاں، آپ کا سیاسی رویہ، آپ کی تہذیبی اور ادبی سرگزشتیں، سب اس کے مطابق ڈھل جائیں یہاں تک کہ چلتے پھرتے گواہی دیں۔اسی لیے ہمارا جو پہلا کلمہ ہے، وہ صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار نہیں ہے ،بلکہ اس کی شہادت ہے”اشہد ان لا الہ الا اللہ” شہادت اور اقرار میں بڑا فرق ہے۔ تو دعوت کا تصور شہادت کے ساتھ مل کر ہی مکمل ہوتا ہے۔ تحریک اسلامی میں دعوت پہلے نمبر پر ہے اور اسلامی معاشرے اس کے بعد آتا ہے، جب کہ سیرت میں پہلے اسلامی معاشرہ ہوا کرتا تھا اور دعوت دوسرے نمبر پر ہوتی تھی۔ اگر مسلم معاشرہ دین کا چلتا پھرتا نمونہ نہ بنے اور اس کی سیاسی زندگی دعوت سے ہم آہنگ نہ ہو تو دعوت کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔
قومی کشمکش کی سیاست دعوت سے متضاد ہے اسی لئے تحریک اسلامی ہندوستان کی سیاست میں قومی کشمکش کے خاتمے کو بنیادی اہمیت دیتی ہے۔ اس لئے جب تک معاشرہ نہیں بنے گا تب تک ہم دعوت کے عمل کو مکمل نہیں کر سکتے۔ دعوت ہمارے یہاں conversion کا نام نہیں ہے۔ دعوت ہمارے یہاں مسلم آبادی بڑھانے کا نام نہیں ہے۔ دعوت قوت کے اضافے کا نام نہیں ہے۔یہ ہندتوا یا متعصب لوگ الزام ڈالتے ہیں تبلیغ پر، ممکن ہو اس کا سرا ملتا ہو اس استعمارى زمانہ سے جہاں استعمارى طاقت کے ساتھ مشنری کاموں نے مل کر ایک دوسرے کی تقویت اور استحصال کا ذریعہ بنایا ، لیکن یہاں تو دعوت کسی قوم کی احیاء کا نام ہے، کسی قوم کو پھر زندہ کرنے کا نام ہے۔ کسی قوم میں جو انبیاء آتے رہے ہیں ان کی تعلیمات کو زندہ کرنے کا نام ہے۔ جس کا آخری ایڈیشن قرآن ہے،اسی لئے اس پر ہم خود عمل کرتے ہیں۔
ہندوستان میں دعوت کے کلی تناظر کی اہمیت اس لئے بھی ہےکہ اس کے بغیر قومی عصبیت، قومی کشمکش، حقوق کی جنگ کے خاتمے کی طرف ہم نہیں جا سکتے ۔ ملک کی سماجی، معاشی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کے ساتھ شرکت، غایت درجہ کی ہمدردی و انسیت، ہندو آبادی اور عام برادران وطن کے دکھ درد میں شرکت انہی سے عبارت ہے۔ یہاں کی تہذیبی روایت کے عرف اور اس کی دینی اور مذہبی زندگی کے اچھے اجزاء اور اس میں توحید، رسالت اور آخرت کے جو عناصر ہیں وہ تجدید کے متقاضی ہیں۔
دعوت کا كلى تناظرہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دعوت کو دین نے جو اہمیت دی ہے اتنی اہمیت دیں۔ دعوت کے سلسلے میں دین کے صرف چند اجزاء کو نہ پیش کریں، پورے اجزاء کو پیش کریں۔ جس تناسب سے پیش کرنا ہے، اس تناسب سے پیش کریں۔یہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم دعوت دین کے سلسلے میں کسی ایک جزو کو یا چند اجزاء یا زمانی اور مکانی پہلو سے کسی چیز کو اتنا نمایاں نہ کر دیں کہ دوسرے اہم پہلو نظر انداز ہو جائیں۔ دعوت کا کلی تناظر شہادت کا بھی تقاضا کرتا ہے، یعنی ہم اس کی عملی گواہی بھی دیں۔ اس کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ ہم غایت درجہ کی خیر خواہانہ زندگی گزاریں اور ہر طرح کی قومی کشمکش سے بچیں۔ایسانہیں ہو سکتا ہے کہ زندگی کے کچھ عقائد، کچھ مذہبی عبادات اور روايت کے سلسلے میں دعوت وتبلیغ کا کام کریں۔سیاسی اور سماجی زندگی میں ہماری عبادت بھی سیاست،سیاست بھی عبادت دونوں كو ایک دوسرے سے قوت حاصل کرنی چاہیے۔
بہت سے لوگ کچھ لٹریچر کو پہنچا دینا ہی دعوت سمجھتے ہیں،بلاشبہ قرآن کا ترجمہ کرنا، دعوت کے اہم کاموں میں سے ایک کام ہے۔یقیناً یہاں کی مختلف زبانوں کو سیکھنا، زبان عصر میں، لسان قوم میں گفتگو کرنا،اعلیٰ ادبی سطح پر گفتگو کرنا یہ سب دعوت کے تقاضے ہیں ليكن کُل نہیں ہے۔دعوت کے کلی تناظر کے تقاضے یہ بھی ہیں کہ اسلام کو اس طرح پیش کیا جائے کہ داعی کا عمل انتہائی خیر خواہانہ نظر آئےاور زندگی کے تمام معاملات میں اس کی رہنمائی شامل حال ہو۔اجتماعی زندگی سے ہٹ کر صرف اپنے مسائل کو حل کر کے قومی و ملی مسئلے کو الگ الگ کر کے اگر ہم کوئی کام کرتے ہیں، تو ہم خود گویا دعوت کے كلی تناظر کے تقاضے سے اپنے آپ کو محروم کرتے ہیں۔ لہذا ايس آئی او اور تحریک اسلامی کے نوجوان جو اس وقت دعوت کے کام کو متحرك وفعال کر رہے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ دعوت کی اہمیت کے کلی تناظر اور اس کے تقاضوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں اور آمادہ کریں۔
تحریک اسلامی کی یہ خاصیت رہی ہے کہ اس نے اس بات پر توجہ دی۔ لیکن حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہمارا فوکس بدل گیا ہے، مثلاً ہہم اقامت دین کی جو تشریح کرتے ہیں اس سے ایسا معلوم پڑتا ہے گویا کہ اسلام جہاں بھی جاتا ہے، اسلامی حکومت کا قیام اس کا اصل ہدف بن جاتا ہے۔ايك خاص پس منظر میں اس کی اہمیت بھی ہے لیکن ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں دراصل انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگی میں خدا کی ہدایت پر عمل در آمد کرنا اور اس طرح کرنا کہ انفرادی زندگی بھی اور اجتماعی زندگی بھی اس کی داخلی زندگی بھی اور خارجی زندگی بھی، اس کی سماجی اور معاشی،تہذیبی،معاشرتی،روحانی اور سیاسی زندگی بھی، اس کی جمالیاتی زِندگی بھی، اس کا ادب و تہذیب بھی، سب خدا کی ہدایت کے مطابق نشو نما پائے، یہ ہدف ہے۔اور زندگی کے تمام میدان میں انسان اعلیٰ اخلاق سے مزین ہو، اسى لیے قرآن نے مقصد زندگی کے اسلامی تصور میں کہیں تزکیہ، کہیں تعلیم و تربیت، کہیں عبادت، کہیں خلافت، کہیں تقویٰ، کہیں اظہار دین،کہیں اقامت دین کے الفاظ استعمال کیے تو ان سب چیزوں کو سامنے رکھ کر جو تصور بنتاہے وہى دعوت دین کا کلی تناظر ہے۔
نہ دین کے چند اجزاء کو محور و مرکز بنا لیا جائے، نہ چند الفاظوں کو محور و مرکز بنا لیا جائےاور نہ حالات حاضرہ سے بےخبر ہو کر کوئی چیز پیش کی جائے، نہ کسی قوم کی قومی زندگی سے الگ کر کےرکھا جائے۔ دعوت دین کا ہدف نہ ہی تعداد و طاقت کو بڑھاتا ہے اور نہ یہ مذہب کی تبدیلی ہے۔ بلکہ میں اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ کسی قوم کے ساتھ دعوت کے رابطے کا مطلب ہے کہ اس قوم کا آپ احیاء کرتے ہیں،اس کو زندہ کرتے ہیں، ہندوستانی قوم کے احیاء دین کرنے والوں کا رویّہ ہمارارویّہ ہونا چاہیے۔اور اس کے لیے کسی قوم کا،کسی تہذیب کا، کسی سماج کا، کسی سیاسی زندگی کا، اس کی پوری اجتماعی زِندگی کاہمیں حصہ بننا ہوگا۔ ہم اس ملک کی جس کشتی میں سوار ہیں اس میں ہندتوا سوراخ کرنا چاہے یا کوئی اور نقصان پہنچانا چاہے تو اسے بچانے کے لیے ہم داعی کو سب سے زیادہ آگے بڑھا ہوا پائیں گے۔اس كو بچاتے ہوئےہمیں ہدایت الٰہی کا تعارف کرانا چاہئے۔یہ کردار ہو کہ کبھی قول بولتا ہے، کبھی دلیل بولتی ہے، کچھ آیات بولتى ہیں،کبھی کردار ورویّہ بولتا ہےاور سب مل کر شہادت دیتے ہیں تب دعوت مکمل ہو سکے گی۔