قرآن کریم میں درج بالا موضوع پر اتنی تفصیلات موجود ہیں کہ ان کا احاطہ کسی ایک زخیم کتاب میں بھی کیا جانا سہل نہیں ہو گا۔ البتہ قرآن کریم کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے طویل مضامین کو اختصار کے ساتھ مختلف مقامات پر بیان کر دیتا ہے جو بہت جامع ہوتے ہیں۔ ہم اس مضمون میں قرآن کریم کے ایسے ہی ایک مقام کے حوالہ سے جہاں صرف تین مختصر آیات کا جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ، اس کے انبیاء کرام اور ان پر ایمان لانے والوں کے باہمی تعلقات کا جامع ذکر ہے، کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ البتہ تمہیدی کلمات کے طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے تعارف کے سلسلہ میں قرآن کریم نے جو اسلوب اختیار کیا ہے اس کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا تعارف
ذات باری تعالیٰ کے سلسلہ میں قرآن کریم نے صرف سورہ اخلاص کی چار آیات میں معلومات فراہم کی ہیں، جن کے مطابق وہ ایک ہے، بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کو قرآن کریم نے صرف صفات کے حوالہ سے متعارف کرایا ہے۔ ان صفات باری تعالیٰ کے ذکر سے قرآن کریم کا گوشہ گوشہ بھرا ہوا ہے ۔ زیادہ تر کوئی ایک صفت یا دو، تین یا چار صفات کا ذکر، اس موقع پر جو مضموں بیان ہو رہا ہو اس کے حوالہ سے ، موجود ہوتا ہے۔ البتہ دو مقامات ایسے بھی ہیں جہاں ایک ساتھ زائد صفات کا ذکر ہوا ہے۔ ایک مقام سورہ بقرہ ،آیت 255 (آیت الکرسی) ہے اور دوسرا مقام سورہ حشر آیات 22 تا 24 ہے۔ دونوں مقامات پر صفات کے مجموعوں کا مزاج و آہنگ مختلف ہے کیونکہ ان کے تناظر الگ ہیں۔ ٖصفات باری تعالیٰ کے ان مجموعوں کا جائزہ مفید ہو گا اور اس سے پتہ چلے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں قرآن کریم کا ایمان لانے والوں سے کیا مطالبہ ہے؟
آیت الکرسی کا تناظر
بنیادی طور پر آیت الکرسی کا مزاج چیلنج کرنے کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی دوسری ہستی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کی حامل کوئی دوسری ہستی نہیں ہے۔ وہی معبود حقیقی ہے، زندہ ہے، سب کچھ تھامے ہوئے ہے، اسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ۔ کوئی دوسرا وجود ایسا نہیں ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کے حق میں سفارش کر سکے ۔ وہ تمام علوم کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ کوئی دوسرا اللہ کے عطا کردہ علم سے زیادہ معلومات کا حامل نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کی کرسی زمین و آسمان پر حاوی ہےاوروہ بزرگ و برتر ذات بغیر کسی مشقت کے پوری کائنات کی تمام مخلوقات کا نظم چلا رہی ہے۔ اس طرح اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی بھی دوسری ہستی کی اپنے مقابلہ میں بذات خود علم یا قوت کے حامل ہونے کی مکمل نفی کر دی ہے۔
اس سے قبل والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آخرت میں کسی ظالم شخص کو مال خرچ کر کے یا دوستی یا شفاعت کے ذریعہ اللہ کی پکڑ سے بچ جانے تمام امکان کا انکار کر دیا ہے۔ یہ وہ واضح حقیقتیں ہیں جن کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں ،دین میں کسی اکراہ کے نہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اب ہر شخص کو انتخاب کی آزادی حاصل ہے۔ یہاں پر یہ خاص بات نوٹ کرنے کی ہے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ایمان کو طاغوت کے انکار سے تعبیر کیا ہے۔ ایمان باللہ کی لازمی شرط کفر بالطاغوت ہے۔ دوسرے لفظوں میں توحید کا اثبات طاغوت کی نفی کا لازمہ ہے۔ آیت الکرسی اور اس کے تناظر میں یہ پہلو ابھرا ہوا ہے۔
سورہ حشر آیات 22 تا 24 کا تناظر
یہ تین آیات سورہ حشر کی آخری آیات ہیں۔اس سورہ میں کفر کی پسپائی کے تناظر میں اہل ایمان سے خطاب کیا گیا ہے اور کفر کے تمام رویوں کو لفظ فسق سے تعبیرکی گیا ہے۔ جس کے حاملین کو شیطان اور اس کے بھائی قرار دیتے ہوئے ان کا اصل مرض اللہ تعالی کو بھلا دینا قرار دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنے نفس سے بھلا دیا۔ قرآن کریم نے اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ کی صفات کی ایک لڑی پیش کی جن میں جلال و جمال کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس بات کا یہاں موقع نہیں ہے کہ صفات باری تعا لی کا ان دو مقامات پر جو ذکر ہوا ہے ان کی معنویت پر گفتگو کی جائے۔ درج بالا تذکرہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قرآن میں جن مقامات پر آئی ہیں ان کے مطالعہ میں ان کے پس منظر اور تناظر پر تفکر کرنا مفید ہوگا۔
دوسرا غور طلب پہلو
ایک دوسرا غور طلب پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور صفات کی معرفت اور اس نتیجہ میں انسانی زندگی کے تقاضوں کا پتہ کیسے چلتا ہے؟ سورہ آل عمران کے آخری رکوع کے ابتدائی حصہ میں بتایا گیا ہے کہ اپنے ارد گرد پھیلی دنیا اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر اور ان پر تفکر کے نتیجہ میں یہ معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔ اپنی عقل کو اس درست طریقہ پر استعمال کرنے والا انسان پکار اٹھتا ہے کہ سب کچھ بیکار نہیں پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود بھی لا سبب نہیں پیدا کیا گیا ہے۔ یہ احساس اللہ تعالیٰ کی ناگواری کے سببِ عذاب الہٰی تک کا پتہ دے دیتی ہے۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران آیت 191) “اے ہمارے رب تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو سب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔”
یہ غیر نبی انسانی ذہن کی معراج ہے۔ اس سے آگے کا سفر اس کے لئے بغیر بشر کی صورت میں ہادی کے ممکن نہیں ہے۔
رَّبَّنَآ اِنَّنَا سَـمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِىْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُـوْا بِرَبِّكُمْ فَـاٰمَنَّا ۔ “اے رب ہمارے! ہم نے ایک پکارنے والے سے سنا جو ایمان لانے کو پکارتا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ سو ہم ایمان لائے۔”
اس آیت کو ہم ایک اصول کے طور پر بیان کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ایک بالغ نظر فرد توحید سے معاد تک کا سفر اپنی عقل سلیم کے ذریعہ کر سکتا ہے۔ اس کے بعد اسے اپنے سفر کی باگ ڈور رسالت کو دینی ہو گی۔ عقل یہ تو بتا سکتی ہے کہ اللہ تمام اشیاء کا ایک خالق ہے، جس نے تخلیق بلا سبب نہیں کی۔ اس کا لازمی نتیجہ خود انسان کے اپنے وجود کی بلا مقصد تخلیق کی نفی اور اس کی خالق کے سامنے جواب دہی ہے اور اس میں خالق کو ناراض کرنے کا خطرہ ہے۔ لیکن اس جواب دہی سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کا لائحہ عمل کیا ہو اس کی خبر کے لئے خالق کے متعین کردہ ہادی کی حاجت ہے۔
توحید،معاد اور رسالت کی متذکرہ ترتیب کو سورہ الفاتحہ میں، جو بندے کی جانب سے خدائے بزرگ و برتر کے حضور دعا ہے، نوٹ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کی صفات میں بندہ اس کے مالک یوم الدین ہونے کا ذکر کر کے صراط مستقیم کی دعا مانگتا ہے اور اس کی تشریح میں ان لوگوں کی راہ کا حوالہ دیتا ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا اور جن پر اللہ کا غضب نازل نہیں ہو اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔ یہی انعام یافتہ، غضب الٰہی سے محفوظ اور گمراہی سے بچے ہوئے افراد دوسرے بشر کے لئے ہادی و رہنما ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اصلاً تو انسانوں کو صحیح راہ اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی سعادت مطلوب ہوتی ہے لیکن اس کا طریق وہی ہے جس پر اس سے قبل کے با مراد افرد چل کر نشان راہ واضح کر چکے ہیں۔
صراط مستقیم کے حوالہ سے قرآن میں ایک مقام پر اللہ، اس کے رسول اور ان پر ایمان لانے والوں کے مابین تعلقات کی وضاحت جامع طریقہ پر کی گئی ہے، جہاں حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ کی دعوت اور ان کے متبعین کے رویہ کا ذکر ہے۔ اِنَّ اللّـٰهَ رَبِّىْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ۗ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِـيْمٌ۔ فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيسٰى مِنْـهُـمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِىٓ اِلَى اللّـٰهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّهِۚ اٰمَنَّا بِاللّـٰهِۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْـتُـبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ۔ “بے شک اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے، سو اسی کی بندگی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔ جب عیسٰی نے بنی اسرائیل کا کفر محسوس کیا تو کہا کہ اللہ کی راہ میں میرا کون مددگار ہے؟ حواریو ں نے کہا ہم اللہ کے دین کی مدد کرنے والے ہیں، ہم اللہ پر یقین لائے، اور تو گواہ رہ کہ ہم فرمانبردار ہونے والے ہیں۔ اے رب ہمارے! ہم اُس چیز پر ایمان لائے جو تو نے نازل کی اور ہم رسول کے تابعدار ہوئے، سو تو ہمیں گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔”
یہ تین آیات اپنے مضموں میں بہت جامع ہیں۔ ان کی طویل تشریح کی جا سکتی ہے۔ البتہ ہم اختصار کے ساتھ چند باتوں پر اکتفا کریں گے۔
رسول خود بھی اللہ کے رب ہونے کا اعلان و اقرار کرتے ہیں اور اپنے مخاطبین کو اس کی خبر دے کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ بات ضمناً نوٹ کرنے کی ہے کہ زیادہ تر ایمان کی دعوت دیتے وقت قرآن کریم نے اللہ کی صفت رب کا حوالہ دیا ہے۔ رب دراصل تدریجاً نشو و نما دے کر حد کمال کو پہنچا دینے والے کو کہتے ہیں اور جب اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے سلسلہ میں ہوتا ہے تو مالک ہونے کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے۔ انسانوں کی تمام ضرورتیں اللہ تعالیٰ پوری کر رہا ہے جس کی خبر اور جس کا احساس ہر ذی شعور انسان کو ہوتا ہے۔ کھانے، پینے، سانس لینے اور حیات کے جملہ تقاضوں کے ساتھ ہدایت بھی انسانوں کی بنیادی ضرورت ہے جسے انبیاء کرام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے پورا کرنے کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔ اسی وجہ سے ایسے موقعوں پر جہاں ہدایت کی بات چل رہی ہو، قرآن صفت رب کا حوالہ دیتا ہے۔ درج بالا آیت میں حضرت عیسی ؑ نے اس دعوت کو صراط مستقیم کا نام دیا ہے۔ اس طرح سورہ فاتحہ میں جس سیدھی راہ کی دعا مانگی گئی ہے اس کی تشریح ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ کو رب مان کر اس کی عبادت ہی وہ مطلوب راہ ہے۔
درج بالا دوسری آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ ؑ کا یہ مکالمہ ان کی دعوتی زندگی کے آخری ایام کا ہے۔ ان کی دعوت پر ان کے حوارین نے لبیک کہہ کر جو بات کہی اس سے ایمان والوں کا اللہ اور اس کے رسول کے رشتہ کی واضح تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ حوارین یہ سمجھ جاتے ہیں کہ گرچہ رسول اللہ نے صدا لگائی تھی کہ کون ہے ان کا مددگار؟ لیکن یہ صدا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی ۔اس لئے اس صدا کا راست جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول وقت ایمان والوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کی کڑی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرا رہا ہے۔ مطلوب رجوع الی اللہ ہے۔ اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لائے اور اس پر وہ رسول اللہ کی گواہی چاہتے ہیں۔
رسول اللہ کی اس گواہی سے بھی ان تینوں، اللہ، رسول اور ایمان والوں کے درمیان کے رشتہ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ان کا کام کما حقہ اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے اور اپنے مدعوئین سے اس مشن کے مکمل ہونے کی گواہی لینا اور اس دعوت کے نتیجہ میں اپنی امت کے رویہ کی گواہی دینا ہے۔ اب معاملہ ان کی امت اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے۔اس ایمان کے دعوی میں کون کتنا سچا ہے اور اللہ تعالیٰ اس گواہی کو کس طرح قبول کرتا ہے، اس میں اللہ اور ایمان لانے والوں کے درمیان رسول اللہ نہیں ہوں گے۔ اسی وجہ سے تیسری آیت میں حوارین اللہ سے راست دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ آیات و پیغام پرایمان لایا اور رسول کی اتباء کی۔ اپنے اس ایمان اور عمل کے صلہ کے طور پر وہ دعاگو ہیں کہ ان کا نام گواہوں میں درج کر لیا جائے۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ اللہ پر ایمان کافی نہیں ہے بلکہ اللہ کے رسول کی اتباع بھی لازم ہے۔ یہی وہ شئے ہے جسے دوسرے مقامات پر ایمان کے ساتھ عمل صالح کہا گیا ہے۔ دوسری بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ رسول اللہ کے ذمہ پیغام پہنچا دینا اور اس سے متعلق ایمان کا دعوی کرنے والوں کے رویہ کی شہادت دینا ہے۔ آگے شاہدین کی فہرست میں شامل کرنے اور اس کے مطابق اجر سے نوازنے کا معاملہ ایمان لانے والوں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے درمیان کے معاملات ہیں۔
مصنف: ڈاکٹر وقار انور
مزید مطالعہ کے لئے: فرد سے مخاطبت کا قرآنی انداز