تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

0

بندہ مؤمن کے لیے صبح و شام کے اُلٹ پھیر، چاند کی تاریخیں ، دنوں کا آنا  اورجانا ، ماہ و سال کی آمد و رخصت، محض وقت کی تبدیلی اور سالوں  کا بدلنا نہیں ہے۔ بلکہ اُس کے لیے یہ چیزیں غووفکر ،تدبّر ، تزکیہ نفس  اور اجتہاد  کا سامان ہوتی ہیں ۔ ایک شخص کا جب اپنے رب سے حقیقی اور شعوری تعلق بیدار ہو جائے تو اُس کا ہر گزرتا ہوا لمحہ اپنے رب کی طرف پلٹنے اور  اس سے یقینی ملاقات کا اگلا قدم ہوتا ہے ۔ہماری زندگی کا کارواں دن،  ہفتے،  مہینے اور سال کے دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم ان ماہ و سال میں سفر کرتے  ہوئے اس دنیا کی زندگی کو مکمل کرکے دوسری دنیا کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں ۔

زندگی کی اس مختصر مدت میں ہمارا خالق ہماری ہدایت سے بے نیاز نہیں ہوا اور نا ہی اُس نے اپنے بندے کی بے نیازی کے رویّے کو پسند فرمایا ۔ لہٰذا اُس نے بندے کی رُشد و رہنمائی کا بہترین انتظام انبیاء  و رسول اور کتابوں کے ذریعے سے کیا اور اس بندے کو مقدّم اور محبوب جانا جس نے اس ہدایت سے فیض اٹھایا۔ اس  ہدایت اور فیض کا تعلق قرآن سے ہے اور قرآن کا خاص تعلق رمضان سے ہے۔سال کے بارہ مہینوں میں کچھ مہینے اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے الگ مقام رکھتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثنَا عَشَرَ شَهرا فِي كِتَٰبِ ٱللَّهِ يَومَ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلأَرضَ مِنهَآ أَربَعَةٌ حُرُمۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلقَيِّمُۚ فَلَا تَظلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمۚ وَقَٰتِلُواْ ٱلمُشرِكِينَ كَآفَّةٗ كَمَا يُقَٰتِلُونَكُم كَآفَّةۚ وَٱعلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلمُتَّقِينَ

“مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وه تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے۔ (سورۃ التوبہ: 36)

یہ حرمت والے مہینے رجب ، ذوالقعدہ ، ذولحجہ اورمحرم ہیں ۔ ان حرمت والے مہینوں کے علاوہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک اور عظیم ماہ کا ذکر کرتا ہے ۔ وہ ماہ ماہ رمضان ہے ۔ماہِ رمضان تمام مہینوں کا وہ درخشاں ستارہ ہے جس کی چمک دمک جس کی رونق و روشنی جس کی ماہ بھر کی تربیت و ٹریننگ دوسرے 11مہینوں کی زندگی کو روشن کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں ۔جس طرح تمھارے پہلے والوں پھر روزے فرض کیے گئے تھے ۔اُمید ہے ہے کہ تم متّقی بن جاؤ ۔ (البقرۃ: 183)

اس آیت میں روزے کے مقصد کو تقویٰ سے تعبیر کیا گیا۔  ایک امید وابستہ کی گئی کہ اگر کوئی شخص خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر جب اپنی تربیت و ٹریننگ کا اہتمام کرے گا، اپنے ظاہر و باطن کے ساتھ خدا سے ایک شعوری تعلق بیدار کرے گا،نظم و ضبط کی پابندی ، طریقے و اصول کی پابندی ، خدا کے بنائے ہوئے حدود کی پابندی کرے گا،تو اس کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔دراصل تقویٰ نام ہے محتاط ہونے کا۔  تقویٰ اہتمام ہے سنجیدگی کا۔  اپنے رب کے ساتھ بے ریائی صداقت پورے اخلاص اور سچائی کے ساتھ جڑ جانے کا ۔ایک بن دیکھے رب کے جس کی حقانیت کائنات کے ذرّے ذرّے سے عیاں ہے اُس کے ساتھ خوف اور امید کے جذبات لیے ہوئے جیے جانے کا اور  اس کی طرف بڑھے جانے کا ۔

آپ  ﷺ نے جا بجا تقویٰ کی تلقین کی اور  تقویٰ کی دعا فرمائی ۔اللہ نے انسان  کےعروج و زوال کا پیمانہ اسی تقویٰ کو بتایا۔ مسند احمد میں سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا “غور کرو ! تو کسی سُرخ يا سیاہ فام سے بہتر نہیں ہے۔الا یہ کہ اس پر تقویٰ کی برتری رکھتا ہو۔”  صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آپ ﷺدعا کیا کرتے تھے ۔اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت ،تقویٰ ، اور عفت اور تونگری کا سوال کرتا ہوں ۔

رمضان قرآن کے نزول، اس سے تعلق اور ربط قائم کرنے کا مہینہ ہے۔ لہٰذا ہم  سب کا  ماہِ رمضان میں قرآن سے ایک غیر معمولی تعلق  مطلوب ہے۔ ہم آج انفرادی اور اجتماعی طور پر قرآن پڑھنے کے اہتمام کوتو  دیکھتے ہیں، مگر افسوس قرآن کے ہم سے مطالبے کے اہم ترین سبق کو فراموش کرتے ہیں ۔دین کا صحیح فہم نہ ہونے اور غلط تصور دین کی وجہ سے ہم ان اہم مقاصد سے محروم ہیں جس کا مطالبہ قرآن ہم سے کرتا ہے ۔

قرآن بلا شبہ ایک انقلابی کتاب ہے۔ جس  شخص کا اس سے تعلق مضبوط ہو جائے اس شخص کی زندگی تبدیل ہو جانے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ اُس کا ظاہر و باطن قرآن کا آئینہ ہوگا۔ اُس کے اخلاق و کردار قرآن کا نمونہ ثابت ہوں گے۔ بشرط یہ کہ اس قرآن سے ہم ویسا ہی فیض اٹھائیں جیسا کہ اُس کا حق ہے ۔ قرآن کے ساتھ سب سے بڑی ستم ظریفی یہی ہے کہ اُس کے ساتھ دھو دھو کے پلانے اور تعویذ بنانے والا رویّہ اختیار کیا گیا ۔رحمتوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا رہا اور ہماری کم نظری کہ ہم نے اس سے ایک بوند کا بھی فیض حاصل نہ کیا ۔

ہماری کوتاہی  ، کم علمی اور قلت تدبّر کی وجہ سے قرآن کے ساتھ ہمارا رویّہ رٹنے،  بغیر جانے بوجھے اور ایک ایک حرف سے دس دس نیکیاں لینے کی ہوڑ میں لگے رہن کا رہا ۔جب کہ خدا کے میزان کو تعداد نہیں اخلاص درکار ہے۔ محض زبانی نہیں عملی تبدیلی درکار ہے۔ زِندگی کا جمود نہیں، قرآن سے حاصل ہونے والی حرکت درکار ہے ۔ ہم رمضان میں دیکھتے ہیں اُمت کی ایک بڑی تعداد قرآن کے کئی کئی دور کرنے میں مصروف ہے ۔خصوصاً خواتین میں یہ مقابلے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ذکر اذکار کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ۔ ہاتھ میں تسبیح اور لب پر ذکر کا ورد لیکن عملی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ زبان خدا کی کبریائی بیان کرتی ہو اور عملی زندگی میں خدا کی مرضی کہیں نظر ہی نہ آئے؟۔ جب کہ اسلام کے تمام ارکان ہم سے عملی زندگی کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ عملی زندگی میں تبدیلی تبھی واقع ہو سکتی ہے جب ہم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو ۔ جسے  رمضان کا مقصود  اور قرآن سے رہنمائی کا اصول بتایا گیا ۔

تحریر نگار: شیریں ماریہ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights