فرد سے مخاطبت کا قرآنی انداز

2

فرد اور معاشرہ میں تبدیلی، قرآن مجید کے نزول کی اہم غرض ہے۔ اس کتاب کی تعلیمات دراصل انسانی تبدیلی کا سفر ہیں، ضلالت کے اندھیروں سے رشدوہدایت کی روشنی کی طرف۔

كِتَابٌ اَنْزَلْنَاهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِۙ

یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاوٴ۔(سورہ ابراہیم:۱)

تبدیلی کا اصل مرکز ومحور(epicenter) اور محرک قرآن مجید ہے۔پہلےاس کی تعلیمات اندھیرے سے اجالے کی طرف لے چلتی ہیں او رپھر اجالوں کا سفر مختلف پڑاؤ پار کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے ۔اس تناظر میں قرآن مجید پر جس نقطہ نگاہ سے غور وفکر ہونا چاہئے وہ فرد کی تبدیلی سے متعلق ہے۔ یعنی یہ کتاب تومعاشرہ میں نورتوحید کی کرنیں بکھیرتی ہے لیکن اس کا اصل ذریعہ انسان کو بناتی ہے۔انسان ہی اس کا مخاطب ہے۔بدلا ہوا انسان ہی اپنے معاشرہ کو بدل سکتا ہے۔لہذا اس پہلو سے قرآن مجید فرد واحد کو بڑے خاص انداز سے مخاطب کرتا ہے۔کہیں اس کی حیثیت اور مقام کی وضاحت کرتا ہے تو کہیں اس کو دعوت غور وفکر دیتے ہوئے اس کے قلب کو جھنجھوڑتا ہے ۔ تو کہیں انذار (warnings)کے ذریعہ حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے پر اس کو متوجہ کرتا ہے۔ذیل میں انہیں تین پہلوؤں کے تحت قرآنی تعلیمات کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جارہا ہے۔

(۱) انسان کی حیثیت اور اس کا مقام

(الف) انسان ، زمین پر اللہ تعالیٰ کا نائب

انسان کے لئے یہ بڑے شرف وعزت کا مقام ہے کہ وہ زمین پر اپنے خالق کانمائندہ(deputy) ہے۔

وَإِذ قَالَ رَبُّكَ لِلمَلَـٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِل فِي ٱلأَرضِ خَلِيفَةۖ

پھر ذرا اس وقت کا تصوّر کرو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سےکہا تھاکہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔(سورہ البقرہ: ۳۰)۔

انسان زمین پر اپنے خالق کی مرضی پر چلنے والا اور دوسروں کو چلنے کے لئے ترغیب دلانے والا ہے۔ظاہر بات ہے اس قدر اہم اور بڑی ذمہ داری بغیر خصوصی اختیارات کے ممکن نہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی احسن انداز سے تخلیق فرمائی ‘ اس کو علم عطا کیا اور اچھے اور برے کی تمیز دی ۔ان تینوں امور کے پیش نظر دنیائے انسانیت کا جائزہ لیجئے، ہر انسان اس پر کھرا اترتا ہوا نظر آتا ہے۔ البتہ جو لوگ اپنی حقیقت نہیں جانتے وہ گمراہ ہوکر شرک وجہالت میں زندگی گزارتے ہیں۔انسان کےافضل ہونے کا ایک پہلو علم سے متعلق بھی ہے۔ خلیفہ کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلأَسمَآءَ كُلَّهَا

اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔(سورہ البقرہ: ۳۰)۔

اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی ہی علم دینے والا ہے۔اللہ تعالی کی ذات علیم ہے وہ عالم نہیں۔اللہ ہی کے نام سے حصول علم کی کوشش ہونی چاہیے۔علم کی ابتدا اور انتہا اللہ تعالی کی ذات ہے۔ان تمام چیزوں کا علم سکھایا گیا جو انسانوں کی فلاح وکامرانی کے لئے ضروری ہے۔انسان کے لئے نفع بخش اور ضرررساں علم کاشعوردیا گیا۔علم کے حصول کیلئے درکار تمام ترصلاحیتیں اور قابلتیں ودیت کردی گئیں۔قیامت تک ہونے والی ایجادات  اور دریافتیں، وضع (frame) ہونے والے افکار وخیالات اسی علم کے دائرے میں آئیں گے، البتہ ان کے درمیان صحیح اور غلط کی پہچان کا طریقہ یہ ہوگا:

  • جو اللہ کی ہدایت کے مطابق ہوں گی وہ انسانوں کے لئے نفع بخش ہوں گی۔
  • جواللہ تعالیٰ کی ہدایت سے بے نیاز ہوں گی، وہ انسانوں کے لئے ضرررساں ہوں گی۔

(ب) قرآن مجید میں ہر فر دکا ذکر

اب زمین پر اللہ تعالیٰ کے نائب کی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے اس کو جس ہدایت کی ضرورت ہے ، اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں اپنے پیغمبروں اور رسولوں کو بھیج کر اسے پورا کیا۔آخری رسول محمد مصطفیٰﷺ پر جو قرآن نازل ہوا، وہ خاص(exclusive) ہر انسان کے لئے ہے۔یہ ہر انسان کے لئے بڑے اعزاز وشرف کی بات ہے کہ یہ کتاب اس کے لئے خاص ہے ، چاہے وہ کسی بھی زمانے میں ہو اور زمین کے کسی بھی خطہ میں رہتا ہو، چاہے وہ گورا ہو یا کالا، عربی ہو یا عجمی ۔

لَقَد اَنزَلنَا اِلَیکُم کِتٰبًا فِیہِ ذِکرُکُم ؕ اَفَلَا تَعقِلُونَ

ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟(سورہ الانبیاء:۱۰)۔

کتا ب سے بامعنی تعلق کے قیام کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اس کو خود پڑھنے والے کے لئےخاص کردیا جائے۔ اس کے بعد ہی صحیح فہم وشعور کی بنیاد پر قرآن سے بننے والا تعلق، فکر وعمل کے نئے نئے دروازے کھولتا چلاجاتا ہے۔جب کوئی فر د اس آیت پر غور کرے اور پوری کتاب کواپنی کتاب مانے تو لازماً وہ سمجھ جائے گا کہ اس کتاب میں خاص اس کے لئے:

  • اس کے دین کی تفصیل موجود ہے
  • زندگی کے تمام معاملات کے لئے احکامات ہیں
  • ثواب اور عذاب کی تفصیلات ہیں
  • مطلوبہ اخلاق وکردار کا ذکر ہے
  • ایسے اعمال کی تفصیل ہے جن سے زندگی‘حقیقی معنوں میں زندگی بنتی ہے

وَاِنَّه لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَۚ وَ سَوْفَ تُسْئَلُوْنَ

اور یہ (قرآن) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے اور تم سے عنقریب اس سلسلہ میں پوچھ گچھ ہوگی۔(سورہ الزخرف: ۴۴)۔

گویا جیسے انسانی بھوک مٹانےکے لئے دسترخوان ہوتا ہے، یہ قرآن بھی انسان کی روح کی بھوک اور پیاس بجھانے کے لئے خدائی دسترخوان کی حیثیت رکھتا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه کَانَ يَقُولُ: إِنَّ هَذَا الْقُرآنَ مَأْدُبَةُ اﷲِ، فَمَنْ دَخَلَ فِيْهِ فَهُوَ آمِنٌ۔

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ بیشک یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا دستر خوان ہے، پس جو اس دستر خوان میں شامل ہوگیا اسے امن نصیب ہو گیا۔(سنن الدارمی) ۔

(۲) فرد کے لئے قرآن مجید کا انداز تخاطب

 (الف ) قلب کو جھنجھوڑنے کا انداز

قرآن کے طرز تخاطب (addressing style)کا ایک انتہائی دلنشین باب سوالات پر مشتمل ہے۔ ہر سوال، پڑھنے والے سے ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو اورکسی بھی زماں و مکاں سے تعلق رکھتا ہو۔ قرآنی سوالات کا یہ باب انسان کے سامنے ایک ایسی پرکشش دنیا پیش کرتا ہے جس میں تلاش و جستجو کے بے انتہا امکانات ہیں ۔ان سوالات کے ذریعہ انسان کی خود رو ذہانت (inductive intellect)فروغ پاتی ہے اور قلب کو وہ مقام میسر آتا ہے جہاں وہ اپنے خالق کی پسند و ناپسند کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ ان قرآنی سوالات میں معرفت کی پررونق بہاریں بھی ہیں اور قلب وذہن کوجھنجوڑنے کا سامان بھی۔

 خدا سے متعلق سوالات:

 ان سے کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کراس کی پرستش کرتے ہوجو نہ تمہارے لئے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا؟ (المائدہ: ۷۶)۔ ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کاہے؟ (الانعام:۱۲)۔ ذرا غور کرکے بتاؤ ، اگر کبھی تم پراللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہو یاآخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ (الانعام:۴۰)۔ ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اورسماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہرکردے تو اللہ کے سوااور کونسا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلا سکتا ہو؟ (الانعام:۴۶)۔ کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے؟ اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی(یہ کام کرنے والا) ہے ؟ (النمل: ۶۲)۔

انسان کے اطراف کے ماحول سے متعلق سوالات:

 کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں؟ (الرعد: ۴۱)۔ کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟ (النحل: ۷۹)۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے او راس کی بدولت زمین سرسبز ہوجاتی ہے؟ (الحج: ۶۳)۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کررکھا ہے جو زمین میں ہے ؟اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر گر نہیں سکتا؟ ( الحج: ۶۵)۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنادیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں؟ (النور: ۴۳)۔ کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم بوتے ہو، ان سے کھیتیاں تم اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں؟ (الواقعہ: ۶۴-۶۳)۔ کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟ (الواقعہ: ۶۹-۶۸)۔

فطرت انسانی سے متعلق سوالات:

کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنالوں؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین اور آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے؟ (الانعام: ۱۴)۔ ان سے پوچھو تمہارے ٹہرائے ہوئے شریکوں میں کون ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟ (یونس: ۳۴)۔ ان سے پوچھو تمہارے ٹہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہو؟ (یونس: ۳۵)۔ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان؟ (الانبیاء : ۶۶)۔ کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غورو فکر نہیں کیا ؟ (الروم: ۸)۔ کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے؟ اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے؟ (لقمان: ۳۴)۔ کیا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی جو مطیع فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب سے رحمت کی امید لگاتا ہے؟ ان سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ (الزمر: ۹)۔

(ب) انسانی عقل کے لئے چیلنج

قرآن مجید میں انسانی عقل (intellect)کو چیلنج کرنے کی دو بنیادی وجوہات معلوم ہوتی ہیں۔اول یہ کہ انسان کو متوجہ کیا جائے کہ وہ اپنی سوچ وفکر کو ہی سب کچھ نہ سمجھے بلکہ وہ اپنے رب کے احکامات کے مکمل تابع ہوجائے۔دوم یہ کہ جب انسان اپنی عقل کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنے خالق کو بھول کر دوسروں کو اپنا خدا بنا بیٹھتا ہے تو اس کو مختلف حقیقتوں سے واقف کراتے ہوئے یہ باور کرایا جاتاہے کہ وہ کس قدر گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہے۔اب اس پس منظر کے ساتھ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہو:

اللہ کو کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں ہے نہ آسمانوں میں نہ زمین میں۔( فاطر : ۴۴)۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔(سورہ یس:۸۲)۔ کیا یہ دیکھتے نہیں کہ جس خدا نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زورآور ہے؟(حم السجدہ:۱۵)۔ اللہ حکومت کررہا ہے،کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔(سورہ الرعد:۱۴)۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کون ہے جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا؟ جواب میں کہو، وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا ہے۔(سورہ بنی اسرائیل:۵۱)۔ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکائے وہ عمل میں آجاتا ہے۔(سورہ القمر:۵۰)۔

اور اسکے بعد بھی اگر انسان اپنی ضلالت پر قائم رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب پر شکوک وشبہات(doubts) ظاہر کرتا ہے تو اس کے سامنے قرآن حسب ذیل چیلجنز پیش کرتا ہے:

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر ؐ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو، اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سُورة اس جیسی تصنیف کر لاوٴ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بُلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو۔(سورہ یونس:۳۸)۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو، اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو۔(سورہ ھود:۱۳)۔کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے۔ اگر یہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو اسی شان کا ایک کلام بنا لائیں۔(سورہ الطور:۳۳۔۳۴)۔

قرآن مجید اپنے پیش کردہ اس چیلنج کا خود جواب دیتا ہے : کہہ دو کہ اگر انسان اور جِن سب کے سب مل کر اِس قرآن جیسی کوئی چیزلانے کی کوشش کریں تو نہ لا سکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔(سورہ بنی اسرائیل:۸۸)۔

(ج) نشانیاں ہی نشانیاں

دنیا میں انسان کو اپنے خالق کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنی ہے اس لئے اس کو حقیقی خدا کی معرفت (realization)کرانے اور اس کے احکامات پر صدق دل سے عمل پیرا ہونے کے لئے یہ ساری کائنات گویا ایک ماڈل بنی ہوئی ہے۔جب بھی وہ اپنی آنکھیں کھولے گا اپنے آپ میں اور اطراف میں بے شمار نشانیوں کا مشاہدہ کرے گا۔ اس کی آتی جاتی سانسیں، اس کا دھڑکتا دل اس کے اندرون کی دنیا میں خدائے بزرگ وبرتر کے احسانات ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ آسمانوں کا سروں پر بطور آسرا (canopy)قائم رہنا اور زمین کا فرش کی طرح انسانوں کے کام آنا، رات اور دن کا باری باری آنا سب کا سب انسان کی بیرون کی دنیا میں اسی منعم (benefactor)حقیقی کے احسانات کو اجاگر کرتے ہیں۔یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن مجید ہر فرد واحد کے لئے پیش کرتا ہے:

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ

عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہی حق ہے (سورہ حم السجدہ: ۵۳)

(د) دعوت ، رب وخالق کی طرف

مختلف زمانوں میں آنے والے اللہ کے پیغمبروں اور رسولوں نے انسانوں کو اسی حقیقت کی جانب متوجہ کیا۔چنانچہ تمام ہی پیغمبروں کی دعوت کا بنیادی نکتہ بس یہی تھا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

لوگو،بندگی اختیار کرو اپنے اُس ربّ کی جو تمہارا اور تم سے پہلے لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالِق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت سے ہو سکتی ہے

 (سورہ البقرہ:۲۱)۔

 يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ

اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ (سورہ ھود:۸۴)۔

حضرات انبیا علیھم السلام کی دعوت کے بنیادی نکات، انہیں نشانیوں پر مشتمل ہیں جو انسان کے سامنے ہر وقت رہتی ہیں۔انہوں نے اپنی قوم کو اس خدا کی بندگی کی جانب متوجہ فرمایا جو ان کا رب اور خالق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان دوصفات کا قرآن مجید میں بکثرت ذکر ملتا ہے۔ یہ دونوںصفات الہی، انسانی وجود اور اس کے چاروں جانب پھیلی کائنات سے ازخود واضح ہوجاتی ہیں اگر انسان اپنی عقل سے کام لے۔اس کے پیداہونے سے لے کر بڑے ہونے اور مختلف مرحلوں سے گزر کر اپنی آخری عمر کو پہنچنے تک جن جن نعمتوں سے وہ مستفید ہوتا ہےان سے بخوبی جان سکتا ہے کہ یہ تمام کی تمام اس کے رب کی عنایات ہیں:

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ

تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔(سورہ النحل:۵۳)۔

رہی بات خالق کی وہ بھی انسان پر واضح ہے۔ یعنی اسی نے انسان سے لے کر کائنات کے ذرے ذرے کو اپنے بل پر پیدا کیاہے۔اس کاکوئی ثانی وشریک نہیں۔ اس کو کسی چیز کو بنانے کےلئے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ وہ کسی کی نقالی نہیں کرتا ۔وہ بغیر کسی مادے کے، ہر چیز پیدا کرسکتا ہے۔اور وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کب اور کس وقت تک اس کی کونسی کونسی مخلو ق کو دنیا میں رہنا ہے۔یہی وہ خالق ہے جس کی قدرت کے نمونے اور جلوے ہر انسان کے سامنے رونما ہوتے رہتے ہیں۔

یٰاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَۙ فِیْ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَؕ

اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اُس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دی۔ جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا۔(سورہ الانفطار:۶تا۸)۔

وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ

جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔(سورہ ابراہیم:۳۴)۔

(۳) انذار کے معنی اور موجودہ حالات میں اس کا مفہوم

قرآن مجید میں انذار وتبشیر (warning and glad tidings)کا بڑا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ بشارتوں کا انداز ایسا کہ سننے اور پڑھنے والا خداواسطے نیک زندگی گزارنے کے لئے آمادہ ہوجائے۔تبشیر یا ڈرانے کا انداز ایسا کہ سننے والا فوری اپنے رویوں کو درست کرلے اور سیدھی راہ اختیار کرلے۔مختلف زمانوں میں آنے والے پیغمبروں کا بھی یہی کام رہا کہ وہ اپنی قوم کو نیک روش پر بشارت دیں اور برے اعمال پر انہیں ڈرائیں:

رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا

یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھےتاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجّت نہ رہے اور اللہ بہر حال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔(سورہ النساء:۱۶۵)۔

قرآنی انداز انذار (warnings)کے دو پہلو نمایاں ہے۔ایک یہ کہ انسان کو اس خطرہ سے آگاہ کیا جاتا ہے جو اس راہ کا لازمی تقاضہ (retributive punishment)ہےجس پر فی الواقعی وہ چل رہا ہے۔ اس کے اس جاہلانہ طرز عمل کے حق میں نہ تو یہ کائنات ہے اور نہ ہی انسانی تاریخ۔ اس کے علاوہ بعض عقلی اور منطقی پہلوؤں سے بھی انذار کا قرآنی انداز ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے۔ ذیل میں اول الذکر دو پہلوؤ ں کا ذکر کیا جارہا ہے۔یعنی انسان کو جس برے اور بھیانک انجام سے ڈرایا جارہا ہے اس کی شاہد خو داس کی اپنی زندگی اور اس کے ناقص خیالات ہیں۔قرآن کی مندرجہ ذیل آیات دیکھیں:

تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے (سورہ حم السجدہ:۲۲)۔وہ کہتے ہیں جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہوکر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟ (بنی اسرائیل: ۴۹)۔ وہ کہتے ہیں کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہوکر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کرکے اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟ کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ (بنی اسرائیل: ۹۹-۹۸)۔ کیا ان لوگوں کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے اور ان کو بناتے ہوئے وہ نہ تھکا، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں کو جلا اٹھائے؟ (الاحقاف: ۳۳)۔

دوسرا پہلو انسانی تاریخ سےمتعلق ہے۔گویا یہ دنیا ایک ایسامیوزیم ہے جس میں خالق ارض وسماء نے عبرت و نصیحت کی بے شمار چیزیں پھیلا رکھی ہیں اور پھر وہ اپنی کتاب کے ذریعہ ہر فرد سے یوں مخاطب ہے:

کیاانہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے؟ (الانعام: ۶)۔ ان سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے؟ (الانعام: ۱۱)۔ اے نبیؐ تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبربھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں، پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو اس سے پہلے گزرچکی ہیں؟ (یوسف: ۱۰۹)۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں ، پھر آج کہیں تم ان کا نشان پاتے ہو یا ان کی بھنک بھی کہیں سنائی دیتی ہے؟ (مریم: ۹۸)۔ کیا ان لوگوں کو (ان تاریخی واقعات میں) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ اس میں بڑی نشانیاں ہیں، کیا یہ سنتے نہیں ہیں؟ (السجدہ: ۲۶)۔ کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزرچکے ہیں؟ ( مومن: ۲۱)۔

اس تناظر میں موجودہ حالات کے لئے یہی سبق ہے کہ انسانوں کو آخرت کے برے انجام سے خبردار کرنا چاہئے۔ آخرت کا برا انجام کوئی سزانہیں بلکہ وہ لازمی اور منطقی نتیجہ ہے جو انسان کی گمراہی اور ضلالت کے سلسلہ میں نکل سکتا ہے (retributive punishment) ۔اس پر نہ صرف انسانی فطرت گواہی دیتی ہے بلکہ اس کی ساری تاریخ اس سے متعلق عبرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اختتامیہ

 انسان غفلت نہیں برت سکتا

اگر انسان نے یہ حقیقت بھلادی ہو، وہ نہ جانتا ہو کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کے خالق نے اس کے لئے رشدو ہدایت کا کیا انتظام کیا ہے ، تو پھر وہ خود اپنی گمراہی اور ضلالت پر گواہی کے لئے کافی ہوگا۔جیسے وہ اپنے سر کی آنکھوں سے اطراف کا منظر دیکھ سکتا ہےبالکل وہی کیفیت اس کی اپنی صورت حال جاننے سے متعلق ہوگی ۔

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِه بَصِیْرَةٌۙ وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهؕ

بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے۔

یعنی انسان اپنے آپ کو خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ فی الوقعی کس حال میں ہے؟ آیا وہ خیر کے راستے پر ہے یا شر کے راستے پر؟قرآن کے اس انداز تخاطب کا مطلب ہے کہ ہر شخص:

  • اپنے عیوب سے اچھی طرح واقف ہے
  • اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے
  • وہ اپنے اعمال پر خود گواہی دینےوالا ہے

لہذا کسی شخص کا کوئی حیلہ بہانہ اور ٹال مٹول کام نہیں آئے گا:

فَیَوْمَئِذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ

پس وہ دن ہوگا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ اُن سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔(سورہ الروم:۵۷)

کیونکہ ہر شخص جس سلیم فطرت پر پیدا کیا گیا تھا‘اس کے علی الرغم زندگی گزارنے سے خود جان جائے گا کہ فی الواقعی اس کی زندگی کیسی گمراہی میں گزری تھی:

اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ

پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔(سورہ بنی اسرائیل:۱۴)۔

– مصنف: عبدللہ جاوید

2 تبصرے
  1. ظہیر احمد نے کہا

    ماشاء اللہ ، بہت ہی خوبصورت تحریر، انفرادی ہر پہلوؤں کے متعلق سوالات کے قرآنی جوابات ۔۔۔
    بہترین انداز سے غافل فرد کا انجام ،قرآن کی روشنی میں
    اللہ تعالیٰ آپ جزائے خیر عطا فرمائے ۔۔۔اور ہم کو،ہمارے والدین کو ،ہمارے بھائی بہنوں کو، ہمارے بچوں کو ،ہماری نسلوں کو اور ساری امت کو ہدایت عطا فرمائے اور اپنا مطیع و فرمان بنائے۔۔۔آمین یارب العالمین

  2. Abdul khadar نے کہا

    MashaAllah it’s nice and informative zajakallah khair

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights