قرآن میں ’’قلب‘‘کا معنی و مفہوم

عمر سفیان اصلاحی

انسانی دل کو اللہ تعالی نے خیر و شر کے جذبات کی آماجگاہ بناکر چھوڑ نہیں دیا ہے کہ انسان اس میں بھٹکتا رہے بلکہ انسانی دل میں کچھ ایسے احساسات بھی رکھے ہیں جو خیر انجام دینے پرانسان کے…

امام راغب اصفہانی ’’مفردات القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:

قلب الشيء : تصريفه وصرفه عن وجه إلى وجه ، كقلب الثوب وقلب الإنسان، (قلب کہتے ہیں کسی چیز کو الٹنا پلٹنا، کسی چیز کو ایک صورت سے دوسری صورت میں بدلناجیسے کپڑے کو الٹنا پلٹنا اور انسان کے دل کاایک حالت سے دوسری حالت میں پھرنا ) ( امام راغب اصفہانی : مفردات القرآن : دار القلم ، دمشق : ط: ۲۰۰۹ ءص: ۶۸۱ )

انسان کے جسم پر جس طرح کپڑے ہوتے ہیں اسی طرح انسانی دل پر جذبات ہوتے ہیں جو کسی چمکتے کپڑے کی طرح صاف و شفاف بھی ہوتے ہیں اور کسی میلی کچیلی پوشاک کی طرح گدلے بھی ۔ جس طرح انسان جسم پر نوع بنوع کے کپڑے پہنتا ہے اسی طرح انسانی قلب پر نوع بنوع کے جذبات کا گزر ہوتا ہے۔ دل کے جذبات اور جسم کی پوشاک میں اسی مشابہت کی وجہ سےعربی زبان میں دل کے لئے ثیاب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عہد جاہلی کامشہور شاعر امرؤ القیس اپنے معلقے کے اشعار میں کہتا ہے:

وإن تَكُ قَد سَاءَتكِ مِنِّي خَلِيقَةٌ

فَسُلِّي ثِيَابِي مِن ثِيَابِكِ تَنسُلِي

(اور اگر تمھیں میرے اندر کوئی عادت بری لگ رہی ہو

تو میرے دل کو اپنے دل سے نکال لو تو دل جدا ہوجائیں گے)

اپنے ایک دوسرے شعرکے پہلے مصرعہ میں وہ کہتا ہے :

ثِیَابُ بَنِی عَوفٍ طَہَارَیٰ نَقِيَّةٌ

(بنی عوف کے دل بالکل پاک صاف ہیں)

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

وَثِيَابَكَ فَطَہِّرْۙ۔ “اور اپنے دامن دل کو پاک رکھ ۔(سُورَہ مُدَّثِّر)

انسان اشرف المخلوقات اس لئے ہے کیونکہ اس کے پاس ایک با اختیار دل ہے یعنی ایک ایسا دل جس میں ہر طرح کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان جذبات پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔جذبات مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی ۔یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی چیز کا مثبت یا منفی ہونا ایک اضافی (Relative)شئے ہے ۔مثلا حیاء ایک مثبت جذبہ ہے اور غصہ ایک منفی جذبہ لیکن اگر یہی حیاء کسی علم کے حصول کی راہ میں حائل ہوجائے اور انسان جھجکنے اور شرمانے لگے تو یہ مثبت جذبہ منفی ہوجائے گا اور غصہ جو ایک منفی جذبہ ہے اگر کسی ظالم کے خلاف کسی مظلوم کی مدد میں آجائے تو یہ منفی جذبہ مثبت ہوجائے گا ۔انسانی دل میں اللہ تعالی نے اچھے اور برے ہر طرح کے جذبات ڈالے ہیں اور انسان کو قوت فیصلہ بھی دی ہے کہ وہ ان کے اچھے اور برے کی تمیز کرسکے اور پھر انسان کو ایک عرصہ حیات دےکر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس دورانیہ میں خیر و شر کا انتخاب کرتا رہےاور زندگی میں خیر کو زیادہ سے زیادہ جمع کرے اور شر سے دامن بچاتا رہے۔ اس چیز کو اللہ تعالی نے اس طرح بیان فرمایاہے۔

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَا۝فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَا۝ ۔ “اور نفس انسانی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا”۔ (سورۃ الشمس)

سورہ بلد میں فرمایا :

 اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہ عَيْنَيْنِ۝وَلِسَانًا وَّشَفَتَيْنِ۝وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِ۝ ۔ “کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں ، ایک زبان ، اور دو ہونٹ نہیں بنائے ہیں اور کیا ہم نے اسے دونوں نمایاں راستے نہیں دکھا دئیے” ۔ (سورۃ البلد)

سورہ دہر میں اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

 اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۝ نَّبْتَلِيْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝ اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۝۔ “ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا متحان لیں ،اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ۔ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ،خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔(سورۃ الدہر)

انسان پوری زندگی خیر و شر کے انہیں جذبات کے درمیان الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔جذبات کی یہ موجیں چونکہ ہمہ وقت انسانی دل میں اٹھتی رہتی ہیں اور خون بن کر اس کی رگوں کی گہرائیوں میں دوڑتی ہیں اس لئے صالح انسان ہمیشہ اس خوف میں ہوتا ہے کہ شر کی موجیں کہیں اسے بہا نہ لے جائیں اس لئے وہ ہمہ آن اللہ تعالی سے دعا گو ہوتا ہے کہ خدایا خیر کے جذبات کی طرف میرا رخ کردے اور مجھے حق پر ثابت قدم رکھ ۔نبی کریم ﷺ نے درجہ ذیل حدیث میں یہی بات کہی ہے۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ : أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ (صحیح مسلم : ۲۶۵۴)

عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بیشک بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی مانند ہیں جسے اللہ جدھر چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ دل کو پھیرنے والے ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے ۔

انسان کو ہر وقت یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ اس کے دل کی گہرائیوںمیں اٹھنے والی جذبات کی ہر موج سے خدا واقف ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ۔ “اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجایا کرتا ہے”۔ (سورۃ الانفال آیت:24)

انسانی دل کو اللہ تعالی نے خیر و شر کے جذبات کی آماجگاہ بناکر چھوڑ نہیں دیا ہے کہ انسان اس میں بھٹکتا رہے بلکہ انسانی دل میں کچھ ایسے احساسات بھی رکھے ہیں جو خیر انجام دینے پرانسان کے اندر خوشی اور اطمینان پیدا کرتے ہیں اور شر کے انجام دینے پر اس کے اندر گھبراہٹ، بے چینی اور تکدر پیدا کرتے ہیں اس سے انسان کو اشارہ دیاجاتا ہےکہ کون سا کام کس موقع پر انسان کے لئے خیر ہے اور کب وہ شر یا اس کے لئے نامناسب بن جاتا ہے مثلا کسی انسان کے آگے سجدہ انسان کے دل میں ذلت و رسوائی اور ناپسندیدگی کا احساس پیدا کرتا ہے اور وہ زبردستی کسی لالچ یا خوف کی بنیاد پر کسی کو سجدہ کرتا ہے جبکہ اللہ کے آگے سجدےسے اس کے اندر انشراح و انبساط ، خوشی اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔اسی لئے جب انسان کو کوئی کامیابی ملتی ہے تو بے اختیار اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ خدا کے آگے سجدے میں گر جائےاسی لئے نبی کریم ﷺ نےفرمایا :

عن وابصة بن معبد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له : (جِئْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ نَعَمْ فَجَمَعَ أَنَامِلَهُ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِنَّ فِي صَدْرِي وَيَقُولُ يَا وَابِصَةُ اسْتَفْتِ قَلْبَكَ وَاسْتَفْتِ نَفْسَكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ۔ وَاِنْ اَفْتَاکَ النَّاسُ وَاَفْتَوْکَ (اخرجہ احمد ۱۸۰۲۸)

وابصہ بن معبد ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان سے فرمایا : تم مجھ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کرنے آئے ہو ؟ (وابصہؓ) نے فرمایا: جی ہاں! تو نبی کریمﷺ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کیا اور میرے سینے سے لگاتے اور فرماتے : اے وابصہ اپنے دل سے پوچھ لیا کرو، اپنے دل سے پوچھ لیا کرو ، آپ نے تین بار فرمایا۔نیکی وہ ہے جس پر دل مطمئن ہوجائے۔اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور اس کے بارے میں سینے میں تردد پیدا ہو،اگرچہ لوگ تجھے فتووں پر فتوے دیتے رہیں۔

اس اطمینان قلب کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ۔ “سنو!اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں”۔ (سورۃ الرعد:۲۸)

جو بچہ بھی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے دل میں اچھے جذبات پر خوشی اور برے جذبات پر گھبراہٹ کا احساس اس وقت تک پیدا ہوتا رہتا ہے جب تک کہ وہ بار بار اپنے دل کی خوشی کے خلاف برائی کرکے اسے دباتا رہے یہاں تک کہ اچھائی کا یہ سگنل آنا ہی بند ہوجائے۔

خیر پر خوشی اور برائی پر گھبراہٹ پیدا کرنے والا یہی جذبہ ہوتا ہے جسے قرآن نے دل کی آنکھ بتایا ہےاور جو انسان کے چہرے والی آنکھ سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔اس جذبہ کا مرجانا اندھا ہونا ہے اور یہ اندھاپن چہرے کی آنکھ کے اندھے پن سے زیادہ بڑا ہوتا ہے۔اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۝ کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہوتے ہیں۔ )سورۃ الحج:46)

جب انسان برابر برائی کرتا ہے تو اللہ تعالی اسی احساس کو ختم کردیتا ہے اور اسی کواللہ تعالی نے دل پر زنگ لگنے یا مہر لگنے سے تعبیر کیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:

 خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰي سَمْعِہِمْ۝ وَعَلٰٓي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃ۝ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝ ۔”اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر ایک پردہ ہے اور ان کے لئے ایک دردناک عذاب ہے”۔ (سورۃ البقرۃ)

قرآن مجید میں انسانی دل کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔اسے ہی خیر کو قبول کرنے کی جگہ قرار دیا گیا ہے ۔ وحی کا نزول بھی قلب ہی پر ہوا تھا ۔ بہت سارے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ سائنس کے رو سے تو دل خون کو پمپ کرنے کا ایک آلہ ہے سوچنے ، سمجھنے ، اور فیصلہ کرنے کی قوت تو دماغ میں ہے۔ لیکن قرآن مجید کی آیات پر اگر غور کریں تو دل پر ہی زور دیا گیا ہے ۔ اور یہ بات مزید تحقیق طلب ہے کہ دل کا انسانی جذبات سے کیا رشتہ ہے؟ حالانکہ خون کی گردش سے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور دل کے سگنلس دماغ تک جاتے ہیں اور دماغ انھیں سگنلس کے مطابق ردعمل کرتا ہے۔قرآن مجید کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ انسان کے حواس خمسہ Five senseدل کو میسیجز بھیجتے ہیں اور دل ان کے بارے میں اچھے یا برے ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے اور ان احساسات کے مطابق دماغ عمل کرتا ہے۔ اسی لئے دل اور دماغ کا رشتہ نہ صرف بہت اہم ہے بلکہ تحقیق کا ایک اہم موضوع بھی ہے ۔

مضمون نگار: محمد عمیر سفیان اصلاحی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں