الحمد

0

كل وجود شئ نعمة من نعمه فلا منعم الا هو

ہر شئے کا وجود اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے،  اُس کے سواکوئی منعم نہیں ہے۔ (اسماعیل حقی)

حمد ادراکِ حقیقت کی وہ کیفیت ہے جس کے کھلتے رہنے سے لب ورد سے تر رہتے ہیں۔ انسان کا مقصدِ حیات ، ادراکِ حقیقت کی جستجو ہے۔ حقیقت جتنا کھلے گی اُس کا دل اتنا ہی حالت حمد و ثناء میں محو ہوتا رہے گا۔ یہ حقیقت بجا   کہ حمد کے لائق صرف خدا کی ذات ہے اور انہی اسماء میں اُس کی حمد ممکن ہے جو محبوب نے خود اپنے لئے منتخب کیے ہیں۔ ادراکِ حق کی جستجو محمد مصطفی ﷺ  سے عشق و محبت کے بغیر محال ہے، کیونکہ حق سے سب سے زیادہ قریب رسول اللہ کی ذات ہے اسی لئے خدا نے انہیں قرآن میں احمد کہا ہے۔ امام رازی کہتے ہیں: “فاعلم أن الحمد إنما يكون حمداً على النعمة، والحمد على النعمة لا يمكن إلا بعد معرفة تلك النعمة،” تو جان لو کہ حمد نعمت کی تعریف ہے، اور نعمت کی تعریف اُس نعمت کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ معرفتِ نعمت حقیقت میں منعم حقیقی کا ادراک ہے۔ نعمت، منعم کے ادراک کے بغیر کوئی شئے نہیں ہے۔ انسان کے سامنے خدا نعمت کے پردے میں موجود ہے جس کی آغوش میں انسان پل رہا ہے یا وہ نعمت انسان کی پرورش کررہی ہے۔ معرفت ایک لا متناہی سفر ہے کیونکہ اُس کی نعمتیں بھی لامحدود ہیں۔ خدا فرماتا ہے:

  وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ ٱللَّهِ لاَ تُحْصُوهَا  (ابراهيم: 34)  اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو کبھی شمار نہیں کر پاؤگے۔

حمد اصل میں محبت کا اظہار ہے، محبوب کی نعمتوں کا اظہار، محبوب کے احسانات کا اظہار، یا اُس سے آگے ہمارامحبوب،  خدا جو حقیقت میں اپنی محبت کا اظہار اپنے بندوں سے کررہا ہے اُس کے احساس و ادراک کے نتیجے میں انسان پر طاری ہونے والی کیفیت کا نام حمد ہے۔ نعمت کی معرفت سے مراد اُس میں موجود فاعلیت خدا کا ادراک جس کی وجہ سے نعمتیں وجود میں آتی ہیں اور اپنا فائدہ ظاہر کرتی ہیں اور ہم سب سیر ہوتے ہیں۔

تسبیح اور تحمید

 تحمید کے ساتھ تسبیح کا ذکر اس لئے ضروری ہے کیونکہ تسبیح تحمید سے پہلے آتی ہے اور تحمید کے لئے تسبیح کے عمل اور اُسکے مقام کی واقفیت ضروری ہے۔ کوئی بھی چیز اپنے آپ میں کچھ نہیں ہے بلکہ وہ ایک ترتیب اور اُس ترتیب میں اپنے مقام کے ساتھ اپنی معنویت رکھتی ہے اور خود کو اُسی مرتبے کی واقفیتِ حال کے ساتھ گزارنا، حال دل کی کیفیت سے بیدار شخص کا ادب ہے۔

تسبیح کا ذکر جہاں بھی آیا ہے وہ تحمید پر مقدم ہے۔ ایک حدیث میں ہے جس کا ٹکڑا اس طرح ہے، سبحان الله والحمد لله، اور قرآن میں بھی اس کی دلیل بالکل صاف نظر آتی ہے۔ امام رازی نے اس بات کو انتہائی خوبصورت طریقے سے پیش کیا ہے۔ ایک ہی ذات کا ذکر دو مختلف احوال میں مختلف صفات کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جب اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا ذکر اُوپر کی طرف سفر کے ساتھ کرتا ہے تو سبحان الله کے ساتھ کرتا ہے۔ سورہ الإسراء میں کہتا ہے: سُبْحَانَ ٱلَّذِى أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلاً  (الإسراء:1) ایک بات یہ واضح ہے کہ جب ذات محمدی اُوپر کی طرف اپنے محبوب کے پاس سفر پر نکلتی ہے تو لب اپنے محبوب کی ذات کے لئے تنزیہ میں تر رہتی ہے۔ اور جب ذات پاک کی طرف سے نعمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی ہے تو الحَمدُ کی صفت کے ساتھ اترتی ہے، یعنی اُس نعمت کی معرفت کے ساتھ بھیجنے والی ذات کے لیے حمد و شکر میں ذات اقدس کی زبان تر رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى أَنْزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ ٱلْكِتَـٰبَ (الکھف: 01)۔ اس انتہائی خوبصورت اور روحانی کیفیت کے حوالے سے امام رازی اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں لکھتے ہیں:

“أن التسبيح أول الأمر لأنه عبارة عن تنزيه الله عما لا ينبغي وهو إشارة إلى كونه كاملاً في ذاته والتحميد عبارة عن كونه مكملاً لغيره، ولا شك أن أول الأمر هو كونه كاملاً في ذاته. ونهاية الأمر كونه مكملاً لغيره۔”  یقیناً تسبیح پہلا مقام ہے جو اللہ کی تقدیس/تنزیہ سے عبارت ہے اور وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اُس کا وجود اپنی ذات میں کامل ہے، اور تحمید اس بات سے عبارت ہے کہ اُس کا وجود بغیر کسی کے مکمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پہلا معاملہ بتاتا ہے کہ اُس کا وجود اپنی ذات میں کامل ہے اور آخری معاملہ اُس کے وجود کے بغیر کسی چیز کے مکمل نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے امام فرماتے ہیں، اُوپر کی طرف سفر پر سبحان اللہ کمال (Perfection) کا پہلا مرتبہ ہے اور نزولِ کتاب پر الحمد للہ اُس کمال (Perfection) کی انتہاء ہے۔ یہ بات اپنی فطرت میں حقیقی ہے کہ خدا کی طرف سفر معراج حصولِ کمال کا متقاضی ہے اور کتاب کا ذات محمدی پر نازل ہونا ان کی ذات کا مکمل ہونا یعنی پیرکامل کا متقاضی ہے تاکہ انسانی روحوں کو حیوانی گراوٹ سے اعلیٰ درجے تک لے جایا جائے۔

ہر وقت جب ہم سبحان اللہ اور الحمد للہ کا ورد کرتے ہیں یا اُس ذکر میں ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی ذات کو معرفت و کمال کے درجات و مقامات کے سفر میں محو رکھتے ہیں اور رسول اقدس کی ذات کو اپنی زندگی کا محور، اپنی آنکھ کی بینائی، اپنے دل کی دھڑکن اور اپنی ذات کے اُوپر سایہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحریر نگار: سلمان وحید

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights