جتندرنرموہی
رتلام میں آل انڈیا مشاعرہ چل رہا تھا۔مشاعرہ نفیس بریولی کنڈکٹ کر رہے تھے۔ مشاعرہ اپنے رنگ میں تھا۔ نفیس بریلوی نے کہا، ”حضرات اب میں جس شاعر کو آواز دینے جا رہا ہوں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،اردو ادب کی جدید شاعری میں ان کا بڑا نام ہے، میری مراد جناب راشدؔ مومن کوٹوی سے ہے، وہ آئیں اور اپنا کلام پیش کریں“۔ راشدؔ بڑی نزاکت کے ساتھ اٹھے، محفل کو آداب کیا اورشعر کہنے لگے، ”وہ ادھر سے گزر کے کدھر جا رہے ہیں،دیکھئے دیکھئے دل لیے جا رہے ہیں“لوگوں نے واہ واہ کیا۔ انہوں نے وہاں پر مطلع پھر دہرایا۔ا نہیں لگنے لگا اب مشاعرہ ان کے قبضہ میں ہے، جیسے جیسے شعر پڑھتے، لوگ مکر ارشاد مکر ارشاد کہتے، وہ شعر بار بار پڑھتے۔ اب غزل کا مقطع پڑھنا تھا۔انہوں نے پڑھا،”یہ خوشبو یہ کیسا نشہ ہے،ہم بنا جام آنکھوں سے پئے جا رہے ہیں“واہ واہ کی آواز بلند ہوتی چلی گئی۔ صدرمشاعرہ خود اٹھے اور انہوں نے محترم راشدؔ مومن کوٹوی کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال دیا۔ انہوں نے اپنے پائجامے کی طرف دیکھا، پھراسٹیج کو دیکھا، نفیسؔ بریلوی کی آواز آئی،”جناب راشدؔصاحب!شعراء حضرات کی گزارش پر ایک غزل اور پڑھیے“۔راشدؔصاحب نے آداب کیا۔ چند قطعات پڑھے اور پھر غزل پڑھی۔ ان کے کلام میں اشاروں ہی اشاروں میں اپنی تنگ دستی کا اشارہ بھی تھا، لوگ جھوم اٹھے۔ سچ کہیں تو راشدؔ مومن کوٹوی پورے مشاعرے کا مزہ لوٹ چکے تھے۔ فیض آباد میں اگلے مہینے کے تیسرے جمعہ کو آل انڈیا مشاعرہ ہونا تھا۔ اصغرؔ فیض آبادی نے سوچا کیوں نہ اس شاعر کو فیض آباد بلا لیا جائے۔ مشاعرہ ختم ہونے پر اصغرؔ صاحب راشدؔ مومن کوٹوی کے پاس گئے اور گزارش کی،”جناب ہمارے فیض آباد میں اگلے مہینے کے تیسرے جمعہ کو آل انڈیا مشاعرہ ہے، آپ کا جو بنتا ہے، آپ اس سے دوہزارزیادہ لے لیں اور فیض آباد تشریف فرماں ہو“۔ راشدؔصاحب نے سوچا اس مشاعرے سے پہلے کیسی فاقہ کشی تھی، کوئی بھولا بھٹکا ہی بلاوا آتا تھا مشاعرے کا، یہ کیا ہو رہا ہے، شاید اس مشاعرے کا کمال ہے۔ انہوں نے ہوئے کہا، ”جناب اصغر صاحب اگلے مہینے مشاعرے ہیں، آپ ہمارے بڑے قریبی ہیں، صرف دو ہزار پیشگی دے دیجئے، میری طرف سے مشاعرے کی ہاں ہے“۔ اصغرؔ فیض آبادی نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جھٹ سے پانچ سوکے چار نوٹ راشد صاحب کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ راشد مومن کوٹوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آتے وقت تو وہ اپنے دوست مہیندر سے کرایا لے کر آئے تھے، اس مشاعرے میں بھی اگر انہیں چیک دیا جاتا تو نقد کی نام پر تو ایک طرح سے جیب خالی ہی تھا۔ راشد صاحب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ آج وہ بڑے خوش تھے، بہت زیادہ خوش۔ یہ وہی مشاعرہ تھا، جس نے ان کے حالاتِ اضطراب دور کردیے تھے۔ ناظموں نے خوش ہو کر انتظامیہ کمیٹی کے صدر کی جانب سے انہیں دو ہزار کا چیک زیادہ دیا تھا۔ انہوں نے پھر اپنے پائجامے کو دیکھا، بڑا لکی (lucky) پائجامہ ہے یہ۔ اس کی وجہ سے ہی آج کا کامیاب مشاعرہ اختتام پر پہنچا تھا، شاید اس کی وجہ سے ہی فیض آباد کا مشاعرہ انہیں ملنے جا رہا تھا۔ وہ محفل اٹھ جانے پر پھر پائجامے کو دیکھنے لگے، انہیں پھر خیال آیا کہیں لوگ ان کی طرف تو نہیں دیکھ رہے، لیکن ایسا نہ تھا۔
وقت وقت کی بات ہے، آج سے پندرہ دن پہلے تو گھر میں کھانے کا انتظام بھی نہیں تھا۔ قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں، نصیب کہاں سے کہاں لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ وہ شہر کے جانے مانے ٹیلر ماسٹر شکور بھائی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے، ٹیلر صاحب کی رامپورمیں بہت شاندار دوکان داری چلتی تھی، شہر کے سب بھی بڑے لوگ عموما وہی کپڑے سلواتے۔ شکور صاحب سوٹ اسپیشل تھے۔ راشد میاں کی دوکان میں کم شاعری میں زیادہ توجہ ہوتی تھی۔ ابا کے نہ رہنے کے بعد راشد بھائی کو بڑی پریشانی ہوئی، کبھی کبھی تو وہ گھنٹوں ابا کو یاد کرتے رہتے۔ وہ جب کبھی دوکان پر بیٹھتے تو اسی حساب سے بڑے بھائی انہیں کچھ دے دیا کرتے تھے۔ کل ملا کر ان کی روزی روٹی کا ذریعہ مشاعرہ ہی ہوتا تھا۔ دھیرے دھیرے مشاعروں کا بلاوا کم ہوتا چلا گیا۔ ان دنوں مفلسی کی حالت میں رتلام آل انڈیا مشاعرے کا بلاواآنا ان کے لیے بہت بڑی راحت کی بات تھی۔ جس دن مشاعرے کا کارڈ آیا، انہوں نے اپنی پرانی اچکن کی طرف دیکھا اب بھی اس میں چمک موجود تھی، لیکن علیگڑھی پائجامہ تو جیسے آخری جمعہ پڑھ چکا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کاش کسی طرح پائجامے کا جگاڑ ہوجائے، کرایا خرچ تو وہ دوست سے لے لیں گے، مہندر کس دن کام آئے گا، پر پائجامے کے لیے کیا کریں؟ پھر دیکھا جائے گا، اللّٰہ کچھ نہ کچھ تو کرے گا ہی سہی۔ وہ جب بھی پریشان ہوتے شہر کے قبرستان میں ابا کی قبر کے پاس جا بیٹھتے۔ شام ہوتے ہوتے لوٹ آتے۔
کھٹارہ اسکوٹر میں آج بھی بمشکل آدھا لیٹر پیٹرول ہوگا۔ انہوں نے سوچا چلو چمبل گارڈن سے شیری ناتھ ہوتے ہوئے نئے کوٹا سے واپس پرانی بستی میں آ جائیں گے، جیسے تیسے انہوں نے من بنایا اور چل پڑے۔ قسمت کا کوئی بھروسہ نہیں، نہ انسان کو کچھ یاد رہتا ہے، نہ انسان کا کچھ بس ہی چلتا ہے، کوئی غیبی طاقت ہوتی ہے جو دماغ پر سوار ہو جاتی ہے اور وہ ذہن کو ویسا ہی کر دیتی ہے، یہ اتفاق ہی تھا کہ شہر کے بہت بڑے بلڈر کے والد صاحب کے انتقال پر انہیں شاندار کفن نصیب ہوا تھا۔ سب بڑے آدمی ان کی میت میں شمشان گھاٹ گئے تھے۔ آخری وقت ان کا کفن ہٹایا گیا، ایک بڑے ہوا کے جھونکے سے کفن گیٹ کے باہر چلا گیا۔ پھر ایک اور جھونکا آیا اور وہ کفن جو ایک شاندار کپڑا معلوم ہو رہا تھا 80فٹ روڈ کے دوسری طرف رولنگ میں جاکر لگ گیا۔ ایک دم شاندار کپڑا، لیکن اس پر کسی کی نظر نہیں پڑی۔ ادھر سے آنا جانا بھی لوگوں کا کم ہی تھا۔ جو اس محلے کے گنے چنے لوگ تھے وہ تو سمجھ سکتے تھے کہ پاس کے شمشان سے آیا ہوا کفن کو سکتا ہے، لیکن شہر کے باہر کئی کلومیٹر اندر پرانی بستی کے انسان کے لئے تو وہ شاندار کپڑاہی تھا۔ آخر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ راشد مومن کوٹوی کی نظر اس کپڑے پر پڑگئی، راشد بھائی نے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا۔کوئی بھی نہیں تھا۔ ان کے ذہن میں خیال آیا کہ یہ کپڑا یہاں کیوں آیا، اچھا کپڑا ہے، کہیں سے اڑ کر آگیا ہوگا، پھر سوچا کوئی بھول بھی سکتا ہے۔لیکن ان کو اس سے کیا لینا دینا، کسی سے کیا مطلب کہاں سے آیا ہو، اچھا خاصا کپڑا ہے پائجامہ زور دار بنے گا۔ کپڑا بھی کیا خوب ہے، ماشاء اللہ۔انہوں نے کپڑے سے دھول پتے جھاڑے۔اس کی گھڑی کرکے اس کو اسکوٹر کی سیٹ ہٹا کر اس میں رکھ دیا۔ روڈ پر نیو میڈیکل کالج آتے آتے ان کا دل بیٹھنے لگا تھا۔ پر جیسے ہی انہوں نے رنگ باڑی روڈ سے اپنے گھر کی طرف رخ کیا جو تقریبا دس بارہ کلومیٹر تھا، ان کے تو پنکھ لگ گئے۔ گھر پہنچ کر اسکوٹر کھڑا کیا۔ کپڑا خراب نہ ہو اس لئے سیدھا بڑی بالٹی میں ڈالا اور دھو کر سکھا دیا۔ سوکھنے کے بعد کپڑا اور چمکدار ہوگیاتھا، راشد میاں اب شاعر نہیں تھے، وہ اب ٹیلر ہو گئے تھے،قینچی بھی علی گڑھی اور پائجامہ بھی علی گڑھی۔ایک غزل پڑھتے پڑھتے انہوں نے پائجامہ کی کٹائی کی اور شاندار پائجامہ سل ڈالا۔ پہن کر دیکھا، آئینہ دیکھا، اب اچکن لی، اچکن پہنی، آئینہ دیکھا تو دیکھتے رہ گئے۔ دلی ہی دل میں کہنے لگے، واہ راشد میاں کمال کے لگ رہے ہو۔
رتلام مشاعرے میں یہی پائجامہ پہن کر آئے تھے اور کمال ہو گیا۔ واہ واہ واہ کیا مشاعرہ تھا، وہ دل ہی دل میں کہنے لگے راشد میاں مشاعرہ لوٹ لیا نا۔ راشد مومن کوٹوی بڑے خوش تھے۔ نیند لے کر سویرے ایکسپریس گاڑی پکڑنی تھی، شیروانی پائجامے کی گھڑی کی، بیگ جمایا اور راہ پکڑلی۔ انور فیض آبادی کے دوہزار روپئے جیسے اچھل رہے تھے، شاعر امیربنے کے بگڑے۔بازار سے دو کلو رتلامی سیو لیے، مکھن حلوائی کے یہاں سے ایک کلو شری کھنڈ،ایک کیلو گلاب جامون لیے، اسٹیشن پر اُنہیں ٹی سی نے پہچان لیا تھا، اس رات اس نے مشاعرہ جو سنا تھا۔ ”وہ بولا مومن صاحب، میرے ہوتے ہوئے آپ جیسے بڑے شاعر کو سلیپر میں جانا اچھا نہیں لگتا، رتلام سے کوٹہ کتنا سا سفر ہے، آپ تھرڈ اے سی میں بیٹھیے، تھوڑا سا مان مجھے دے دیجیے“۔ نیکی اور پوچھ پوچھ؟راشد بھائی نے اس میں سے کچھ سامان ٹی سی کو دیا اور ٹھاٹھ سے اس کے بتائے برتھ کو پکڑ لیا۔ چومحلہ اسٹیشن سے گزرتے ہوئے انہوں نے محسوس کیا شکیل بدایونی بھی تو ممبئی سے دلی اسی ایکسپریس سے جاتے تھے نہ ایسی ڈبے میں، انہیں لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب پورا ہونے جارہا ہے۔ وہ ٹھاٹھ سے کوٹا اتر کر اپنے گھر پہنچ چکے تھے۔
کوٹہ میں گھر جا کر سب سے پہلے تکان اُتاری۔ آج بیوی بھی بہت خوش تھی، اس نے بہت دنوں بعد ہرے ہرے نوٹ، شیری کھنڈ، گلاب جامن کا مزہ لیا تھا۔ فیروزہ کادل کہہ رہا تھا کہ آج جی بھر کر کھالیں۔ راشد بھائی نے فیروزہ کو پورے مشاعرے کا واقعہ سنایا، فیروزہ جھوم اٹھی، بولی، ”شاعر صاحب کی بلا!آپ نے تو بڑا کمال کر دیا“۔ راشد بھائی نے چہکتے ہوئے کہا، ”بیگم میں نے کیا اس پائجامے نے کمال کیا ہے۔“ بیگم نے پلٹ کر بھی نہ پوچھا کیوں۔
شام کو مہندر آیا، راشد بھائی نے بٹوے سے اس کے ادھار لیے پیسے لوٹا دیے، پھر رتلام مشاعرے کا ہوبہو منظر سامنے رکھ دیا۔ مہندر بڑا خوش تھا، اسے لگ رہا تھا اس کے عزیز دوست راشد کے جیسے دن بدلنے جا رہے ہو۔اسے یقین تھا راشد مشاعرے میں چھا جائے گا، آخر اس نے کہا ہی سہی، ”یار راشد تو نے کمال کر دیا۔“ راشد بھائی بولے، ”پیارے میں نے کیا اس پائجامے نے کمال کیا ہے۔“ مہندر بولا، ”وہ کیسے؟“ راشد نے پورا قصہ بنا کسی لاگ لپیٹ کے مہیندر کو سنا ہی دیا۔ مہیندر نے غور کیا، کہ یہ تو ایشور جی کے والد صاحب کے انتقال کے دن والی شام کا ماجرا ہے، پھر بھی وہ کشمکش میں تھا۔ اس کے ذہن میں کچھ تو آ رہا تھا، پر یار کی خوشی کے آگے سب دبتا ہوا نظر آیا۔ راشد بھائی سے نہ رہا گیا، وہ بولے، ”اس پائیجامے کی وجہ سے مجھے اگلے مہینے کے تیسرے جمعہ کو فیض آباد کا مشاعرہ بھی ملا ہے۔“ اب مہیندر نے بات دبانا ہی ٹھیک سمجھا۔ وہ بولا ”ٹھیک ہے یار، اس دن گیارہ بجے میں تجھے چھوڑنے کے لئے آؤں گا،ٹرین دوپہر پونے تین بجے کی ہے نا؟“ راشد نے تپاق سے کہا، ”اب کی بار کرایا ہوا ادھار تھوڑی لوں گا“ دونوں قہقہہ لگانے لگے۔
آخر کار جمعرات بھری مراد آ ہی گئی۔ آج راشد مومن کوٹوی کو فیض آباد جانا تھا۔ گھڑی میں دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے، انہوں نے پریس لی اورعلی گڑھی پائجامہ پر یس کرنے لگے۔ مہندربھی آ گیا۔ اس نے جی بھر کر پائجامہ دیکھا۔ وہ دیکھتے ہی کپڑے کو پہچان گیا، لیکن دل کی بات چھپا کر اس نے کہا”یار بڑے کمال کا پائجامہ ہے، لا میں بھی دیکھوں“ اس نے پائجامہ چھوا، بولا ”ماسا اللہ“ مہیندر بولا، ”یار راشد آج کل ہمارے یہاں بڑے لوگوں کے بیٹوں میں ایک چلن چل پڑا ہے، جب بھی کوئی امیر زادے کی مراد پوری ہوتی ہے وہ کسی پیڑ کو یا ہریالی جھاڑیوں کو بیش قیمتی کپڑا اوڑھا دیتے ہیں“۔راشد بھائی ہنس نے ہنس کر کہا۔ مہندر نے جواب دیا ”ابے! اب یہ کپڑا نہیں۔۔۔جناب راشد مومن کوٹوی کا پائجامہ ہے! “دونوں پھر قہقہہ لگانے لگے۔