قسط: 05
مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید
ہجرت
اگرچہ معراج ایک لحاظ سے نبی پاکؐ کی زندگی کی روحانی تاج پوشی تھی، لیکن اس سے آپؐ کو زمینی سطح پر فوری کامیابی نہیں ملی۔ مکہ مکرمہ میں ہر ممکن طریقے سے آپؐ کے ساتھ بدتمیزی اور ظلم کیا گیا۔ خدیجہؓ اور ابو طالب کی موت کی وجہ سے آپؐ کی زندگی بہت دشوار ہوچکی تھی۔ نبی پاکؐ نے دوسرے مقامات خصوصا طائف میں بھی تبلیغ کرنے کی کوشش کی، لیکن آپؐ کو کامیابی نہیں ملی بلکہ آپؐ کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ یہ آپؐ کی بیرونی زندگی کا وہ سب سے تاریک لمحہ تھا اور یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔ جب یثرب جسے بعد میں مدینہ یا رسول اللہ کا شہر کہا جانے لگا ، کے کچھ افراد نے آپؐ سے رابطہ کیا۔ ان لوگوں نے آپؐ کو یثرب کے مختلف گروہوں کے مابین موجودہ تنازعات کو طے کرنے اور ان کی رہنمائی کے لئے اپنے شہر منتقل ہونے کی دعوت دی۔ یہ رابطہ 622 ء میں مکہ مکرمہ کی زیارت کے دوران انتہائی خفیہ طور پر ہوا تھا۔ نبی مبارک ؐ، جوبہترین مدبر و سیاست داں بھی تھے، کے سامنے یہ واضح تھا کہ یہ رابطہ خدا کی جانب سے دین اسلام کی بقا اور مکمل قیام کے لئے ایک اشارہ تھا۔ آپؐ نے اس دعوت کو قبول کیا اور نوخیز اسلامی جماعت کے افراد کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں مکہ مکرمہ سے مدینہ بھیج دیا تاکہ ان کا پتہ نہ چل سکے۔ آخر میں صرف آپؐ، ابوبکرؓ اور علیؓ رہ گئے۔ دریں اثنا، مکہ والوں نے نبی پاکؐ کے غیر متزلزل ارادے اور ان خطرات سے ڈرتے ہوئے جو آپؐ کی کوششوںسے ان کو لاحق ہونے والے تھے ، خدا کے رسول کے گھر پر حملہ کرکے انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ شخص جو دنیا کو بدلنے والا تھا، واضح طور پر یہ اس کی زندگی کا ایک فیصلہ کن لمحہ تھا ۔
چونکہ خدا ہمیشہ اپنے نبیوں کی حفاظت کرتا ہے جبکہ وہ اس کام کو انجام دے رہے ہوتے ہیں جس کے لئے ان کو منتخب کیا جاتا ہے۔اللہ نے نبی پاکؐ کو بھی بالکل صحیح وقت پر خطرے سے بچنے کی ہدایت دی۔ اس بدقسمت رات آپؐ اور ابوبکرؓ مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے اور علیؓ سے کہا گیا کہ وہ رسول اللہؐ کے بستر پر سوئے رہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کو گھیرے ہوئے دشمنوں نے اتحاد اور یکجہتی سے مل کر آپؐ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ کسی ایک کو اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جا سکے۔ جب قاتل تلواریں اور خنجر کھینچ کر گھر میں داخل ہوئے اور بستر سے چادرہٹایا، جہاں وہ رسول کریمؐ کو سوتے ہوئے پانے کی توقع کر رہے تھے تو انہیں وہ شخص نہیں ملا جس سے ملنے کے لئے انہوں نے تیاری کر رکھی تھی بلکہ وہاں نوجوان علیؓ تھے جنہوں نے رسولؐ اللہ کی جان بچانے کے لئے موت کا خطرہ مول لیا تھا۔ حملہ آور غصے میں اس شخص کی تلاش میں گھر سے نکل گئے جس کو انہوں نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اسی اثنا نبی مبارکؐ اور ابوبکرؓ مدینہ کی سمت چل پڑے تھے اور راستے میں ایک غار میں پناہ گزیں ہو گئے تھے۔ قریش ان کے تعاقب میں ریت پر ان کے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ گئے، لیکن اندر داخل نہیں ہوئے کیوں کہ روایات کے مطابق ایک مکڑی نے غار کے دہانے پر جالا بن دیا تھا اور کبوتروں کی ایک جوڑی نے اس کے سامنے اپنا گھونسلہ بنا لیا تھا۔ خدا کے حکم سے عالم فطرت، جو اسلامی علوم میں اہم مقام رکھتا ہے، اس خاص واقعہ میں شریک ہوا اور رسول بابرکتؐ اور ابوبکرؓکی جانوں کی حفاظت کی۔ قریش نے ان فطری عناصر کو خاص طور پر مکڑی کے جالے کو دیکھ کر سوچا کہ اس بناوٹ میں بغیر خلل ڈالے کوئی شخص غار میں داخل نہیں ہو سکتا، اور وہ اس فضول تلاش کے بعد مکہ مکرمہ واپس لوٹ آئے۔
یہ غار کی کہانی بھی، بانی اسلام کی زندگی کے دیگر اہم واقعات کی طرح، اس کی تاریخی اہمیت سے بالاتر ہے۔ معراج کی مانند یہ واقعہ بھی بعد کے ان تمام مسلمانوں کے لئے ایک مستقل حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے جو اپنے مذہب کے اندرونی معنی میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ غار باہر کی دنیا سے اس طرح پوشیدہ تھی جیسے انسانوں کا دل، اور در حقیقت، یہ غار قلب کی علامت ہے۔ اگر کوئی خدا کا حقیقی دوست ہونا چاہے تو اسے قلب میں داخل ہونا چاہئے جہاں انسان تمام بیرونی خطرات سے محفوظ ہو جاتا ہے جیسا کہ نبی مبارکؐ اور ابوبکرؓ تھے۔ جلال الدین رومی اپنے دیوانِ شمس میں فرماتے ہیں:
اس سینے کو ایک غار جانو،
اپنے خلیل کی روحانی پناہ گاہ،
اگر تم واقعی غار کے ساتھی ہو،
غار میں اترو، غار میں اترو۔
مزید ، مکڑی کا جالا تخلیق شدہ دنیا یا خود کائنات کی علامت ہے جو روحانی دنیا اور الوہی وجود پر بیک وقت پردہ بھی ڈالتی ہے اور اسے بے نقاب بھی کرتی ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر، غار میں رسول کریمؐ اور ابوبکرؓ کی پناہ کی داستان اسلامی ادب کا پسندیدہ موضوع بن گئی اور نثر و نظم دونوں میں ہی عظیم تخلیقات جیسے رومی کی شاعری نے اسے موضوع بنایااور اس پر گفتگو کی ہے۔
خطرہ ٹلنے کے بعد، رسولؐ اللہ اور ابوبکرؓ غار سے نکلے اور علیؓ ، جو اب تک خود بھی مکہ مکرمہ چھوڑ چکے تھے، کے ذریعہ پہنچائے گئے سامانِ سفر کی مدد سے،مدینہ روانہ ہوگئے جہاں تاریخ اسلام میں ہی نہیں بلکہ عرب اور در حقیقت پوری دنیا کی تاریخ میں ایک نیا باب شروع ہونے والا تھا۔ ابتدائی اسلامی برادری بشمول نبی پاک کی یہ مکہ سے مدینہ ہجرت مذہب کی تقدیر میں اس قدر اہم تھی کہ اسلام کا مذہبی کلینڈر اس واقعہ سے شروع ہوتا ہے جسے ہجرت کہا جاتا ہے۔ آج تک اسلامی تقویم ہجری کلینڈر ہی ہے، جس کی بنیاد رسول مبارکؐ اور آپؐ کے پیروکاروں کی مدینہ ہجرت اور اس شہر میں پہلی اسلامی جماعت کا قیام ہے۔ یہ دیگر مذاہب ، جیسے عیسائیت کی طرح، ان کے بانیوں کی تاریخ پیدائش پر مبنی کلنڈر نہیں ہے۔ یہ حقیقت بذات خود نبی بابرکتؐ کی مدینہ ہجرت کی مرکزی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے کہ جہاں آپؐ کے مشن اور اسلام کے مستقبل کا ایک مذہب اور ایک انسانی امت کی حیثیت سے اظہار ہوا ۔
ہجرتِ مدینہ رسولؐ اللہ کی زندگی میں بنی نوع انسانی کے قائد اور عملی زندگی میں ڈوبے ہوئے فرد کی حیثیت سے ایک نئے مرحلے کا آغاز تھا۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ مرحلہ اس اول مرحلے کے بعد آیا جس میں بیرونی نقطہ نظر سے زیادہ گنجائش نہ تھی لیکن جس کا کردار انتہائی روحانی تھا۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ رسول بابرکتؐ نے پہلے معراج اور خدا کی قربت کا تجربہ کیا اور پھر مدینہ ہجرت کی۔ یہ حقیقت کہ واقعہ معراج مکہ معظمہ سے تعلق رکھتا ہے اور یہ کہ نبی کریمؐ کا بنی نوع انسانی کے قائد کے طور پر کردار اپنی مکمل شکل میں اس کے بعد ہی سامنے آیا اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ غوروفکر کا مرحلہ، عمل سے اور وجود کا ادراک، کام کرنے سے زیادہ اولیت کا حامل ہے۔ خدا کے تمام انبیاء کی طرح، نبی مبارک ؐ کو پہلے منتخب کیا گیا، آزمایا گیا، ڈھالا گیا اور کمال تک پہنچایا گیا اور اس کے بعد ہی آپؐ کو دنیا کی اصلاح اور تعمیرِ نو کے لئے بھیجا گیا۔ مدینہ منورہ میں، آپؐ الہی مرضی کے مطابق ایک انسانی اجتماعیت کو اس لئے ڈھال سکے کیونکہ آپؐ خود اندرونی اور ظاہری طور پر اسی مرضی کے مطابق زندگی گذار رہے تھے ۔ آپؐ کی زندگی کا خد و خال اسلام کے اس عالمگیر اصول کا نمونہ ہے کہ اچھا کرنے کے لئے بہتر ہونا ضروری ہے۔ دنیا کو فتح کرنے کے لئے پہلے خود کو یعنی اپنے نفسانی جذبات کو فتح کرنا لازمی ہے۔
اس آفاقی سچائی کا آج جب کہ بہت سارے لوگ اپنی اصلاح کیے بغیر ہی دنیا کی اصلاح کی خواہش رکھتے ہیں، پہلے سے کہیں زیادہ اعادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کی تقلید اس روحانی عروج کا تجربہ کرنے کی کوشش کیے بغیر ہی کرنا چاہتے ہیں جس کی اعلی ترین مثال معراج ہے۔ وہ اسلام کے قوانین و ضوابط کو مسلط کرنا چاہتے ہیں جو بذات خود ایک قابل تعریف فعل ہے، لیکن وہ یہ کام خود کی اور معاشرے کی روحانی اور اخلاقی ترقی کیے بغیر ہی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انہیں ایک کے بعد ایک ناکامی اور اکثر تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ اسلامی دنیا سمیت جدید دنیا کی تاریخ اس کی گواہی دے رہی ہے۔
شاید سب سے بڑا سبق جو نبی بابرکتؐ کی زندگی ان مسلمانوں کے لئے پیش کرتی ہے جو اسلام کی تعلیمات کو بیرونی دنیا میں لاگو کرنا چاہتے ہیں، یہ ہے کہ نبی مبارکؐ ایک انسانی اجتماعیت کے حکمران، فوجی رہنما اور جج وجود کی تمام سطحوں کو عبور کر لینے اور روحانی اتحاد کا ثمر چکھ لینے کے بعد بنے نہ کہ اس سے پہلے۔ البتہ نبی کے معاملے میں بتدریج خود کمالی اور اصلاح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ خدا کا منتخب کیا ہوا اور خدا کے اذن سے فرشتہ قوتوں کے ذریعہ کمال کو پہنچایا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا معاملہ ان عام انسانوں سے مختلف ہے جو حقیقت میں صرف نبی کی مثال کی مدد سے ہی خود کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ لیکن جہاں نبی بابرکتؐ کی زندگی مسلمانوں کے لئے ایک انتہائی ضروری سبق فراہم کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ظاہری عمل سے ، اگر یہ عمل حق کے مطابق انجام دیا جانا ہے تو، باطن کا کمال زیادہ اولیت کا مستحق ہے۔ اگر کسی مسلمان کو اخلاص کے ساتھ عمل کرنا ہے اور اگر اسلامی نقطہ نظر سے حق کے بغیر کوئی عمل نہیں ہے تو جو عمل کر رہا ہے اسے پہلے حق کا تجربہ کرنا چاہئے اور اس کے مطابق ہی زندگی گزارنا چاہئے۔ آپؐ جنہیں خدا کی مخلوقات میں سب سے کامل ترسمجھا جاتا ہے، ان کی سیرت اس بنیادی سچائی کی ایک شاندار مثال ہے۔