ڈاکٹر قمر صدیقی
مدیر ’اردو چینل‘،ممبئی
گھر پر فرصت کے اوقات میں ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے،بازار میں اپنی پسندیدہ برانڈ کی اشیاء خریدتے ہوئے یا بہت سارے شور و غوغا اور مردہ باد ،زندہ باد کے نعروں کے درمیان ووٹ ڈالتے ہوئے کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ظلم پرت در پرت کتنا متنوع ہوا ہے۔روزی کمانے اور روزی خرچ کرنے کے درمیانی وقفے میں یہ ظلم و جبر اوراستحصال کتنے روپ اور کتنے بھیس بدل کر ہمارے سامنے آتا ہے ،ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔زرعی دور کے مخصوص ظلم کے مقابلے مشینی دور کے ظلم کے طور طریقے کچھ علاحیدہ ہیں۔ ظلم اب کسی مخصوص شخص جنس، مذہب اور روایت تک محدود نہیں بلکہ اب تو سب سے بڑا مسئلہ اس کی حدوں کا تعین ہی ہے۔کبھی معاشرہ ظالم ہوتا ہے ،کبھی فرد،کبھی مرد ظالم ہوتا ہے ،کبھی عورت۔سماج کے ہر ذمہ دار فرد کے لیے،ایک شاعر ،ایک ادیب کے لیے،ایک ازم(Ism)کے لیے ،ایک حکومت کے لیے وقت کے ہر آن بدلتے اس رنگ روپ سے آشناہونا بہت ضروری ہے ۔کیونکہ نا آشنائی کا انجام وہی ہوتا ہے جو سوویت یونین کا ہوا۔بہر کیف ہمارے شعرا میں مجروح ؔ صاحب کے یہاںادوار کے روپ رنگ کی ان تبدیلیوں کا احساس اپنے دیگر معاصرین سے شدید تھا۔لہٰذا ان کی شاعری سکہ بند ترقی پسندی کی محدودیت کا شکار نہیں ہوئی۔وحید اختر مرحوم نے سچ ہی لکھا ہے کہ :
’’جدید غزل کی تشکیل اور توسیع میں مجروحؔ کا نام ناصرؔ کاظمی اور ظفرؔ اقبال سے پہلے آنا چاہئے۔‘‘
وحید اختر کے اس خیال کی توثیق مجروح سلطانپوری کے اشعار کرتے ہیں۔ کسی تلاش و تحقیق کے بغیر یہ چند اشعار جوان کے مجموعے میں سامنے آگئے پیش ہیں۔
اہل طوفاں آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسو بھنور کو چشم جانانہ کہیں
تشنگی ہی تشنگی ہے کس کو کہیے مے کدہ
لب ہی لب ہم نے تو دیکھے کس کو پیمانہ کہیں
میرے ہی سنگ و خشت سے تعمیر بام و در
میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے
جس ہاتھ میں ہے تیغ جفا اس کا نام لو
مجروحؔسے تو سائے کو قاتل کہا نہ جائے
اس نظر کے اٹھنے میں اس نظر کے جھکنے میں
نغمۂ سحر بھی ہے آہ صبح گاہی بھی
شمع بھی اجالا بھی میں ہی اپنی محفل کا
میں ہی اپنی منزل کا راہ بر بھی راہی بھی
کام آئے بہت لوگ سر مقتل ظلمات
اے روشنیِ کوچۂ دلدار کہاں ہے
مذکورہ بالا اشعار کا کلاسیکی لہجہ اور اشعار کے موضوعات ترقی پسند تہذیب کے علی الرغم ایک جداگانہ تہذیب سے قاری کا تعارف کرواتے ہیں۔ یہ اشعار بھیڑ کے نہیں فرد کے اشعار ہیں۔ ان شعروں میں درد و غم اور ظم و استحصال کی مختلف پرتوں کو فرد کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے۔ ایسے اشعار مجروح کے یہاں کثرت سے ہیں ، پروفیسر وحید اختر نے اسی لیے کہا تھا کہ جدید غزل کی تشکیل و توسیع میں مجروح سلطانپوری کا نام ناصر کاظمی اور ظفر اقبال سے پہلے آنا چاہیے۔
مجروحؔ صاحب کی شاعری میں کلاسیکی لہجہ قدرے نمایاں ہے اور یہ انھیں کا اعجاز ہے کہ اپنی شاعری میں کھردرے حقائق کو بیان کرتے ہوئے بھی تغزل کو برقرار رکھا ہے:
وہ جس پہ تمہیں شمع سر رہ کا گماں ہے
وہ شعلۂ آوارہ ہماری ہی زباں ہے
اے فصل جنوں ہم کو پئے شغل گریباں
پیوند ہی کافی ہے اگر جامہ گراں ہے
وہ تو گیا یہ دیدۂ خوں بار دیکھیے
دامن پہ رنگ پیرہن یار دیکھیے
دست منعم مری محنت کا خریدار سہی
کوئی دن اور میں رسوا سر بازار سہی
غزل کی شعریات میں مضمون اور معنی آفرینی کے ساتھ ساتھ کیفیت کے شعر کا بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ کیفیت کا شعر مضمون اور معنی سے آزاد ہوتا ہے ۔شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے کہ ’’ کیفیت کے تعلق سے خاص بات یہ ہے کہ کیفیت کے شعر میں مضمون کی خوبی ،تھوڑی بہت سہی ،ہوتی ضرور ہے ۔البتہ معنی بہت کم ہوتے ہیں ۔کیفیت کہتے بھی اسی کو ہیں کہ ہم معنی اور مضمون کے وفور کے بغیر شعر سے جذباتی طور پر متاثر ہو جائیں ۔‘‘مجروحؔ صاحب کی شاعری میں کیفیت کی مثال بھی جگہ جگہ دیکھی جا سکتی ہے اور مضمون آفرینی اور معنی آفرینی کی جلوہ فرمائی بھی:
جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
ممبئی سے متصل ضلع تھانہ میں ایک مشہور شہر بھیونڈی ہے ۔اپنی پاورلوم صنعت کے لیے دنیا بھر میں مشہور یہ شہر ۲۰ ویں صدی کے دو بڑے واقعات کا گواہ ہے ۔ایک تو ۱۹۸۴ کا فساد اور دوسرا ۱۹۴۹ میں ترقی پسند مصنفین کی آل انڈیا بھمڑی کانفرنس ۔پاورلوم کی کھٹر پٹر میں مصروف اس شہر کے بیشتر لوگ آج بھلے ہی ۱۹۴۹ کی اس کانفرنس کو بھول چکے ہیں مگر اردو ادب کی تاریخ میں یہ آج بھی زندہ ہے۔بنے بھائی(سجاد ظہیر) کی قائدانہ صلاحیت ،بیدی ،کرشن چندر،نیاز حیدر،خواجہ احمد عباس کی تخلیقی خوش نظری ،علی سردار جعفری کی علمیت آمیز سرداری ،کیفی کا کیف ،مجاز کا سرور سبھی کچھ تو موجود تھا وہاں،اور وہیں اسی دن ڈاکٹر علیم نے غزل کے خلاف یہ تجویز اتفاق رائے سے پاس کروا دی تھی کہ ’’غزل ہمارا ساتھ نہیں دے سکتی‘‘یہ اردو ادب کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا۔مخالفت کی اس آندھی کے سامنے مجروحؔ صاحب نے غزل کے چراغ میں سیاسیات اور سماجیات کا روغن ڈال کر یہ ثابت کردیا کہ غزل کی وسعت کبھی محدود نہیں ہوسکتی اور یہیں سے اردو غزل میں سیاسی رمزیت کی ابتداء ہوئی۔واقعات کو اگر بھمڑی کانفرنس کے پس منظر میں دیکھیں تو مجروحؔ صاحب نے یہ ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔