اسلامیات کا مطالعہ۔ موجودہ ہندستان میں

0

شاہ اجمل فاروق ندوی

علوم اسلامی کے ارتقاء میں ہندستان کا کردار متعدد ناحیوں سے بحث و تحقیق کا موضوع بن چکا ہے۔ اس موضوع پر بھی تحقیقات ہوچکی ہیں کہ ہندستان کے ارتقاء میں اسلامی علوم نے کیا کردار نبھایا۔ جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں اور حق کرتے ہیں کہ اسلام اپنے اندر ہر دور کا ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو یہ بحث خود بہ خود اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے کہ اسلامی علوم نے ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہوگا۔ اب اس پرانی بحث کو زندہ کرنے کے بجائے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس موضوع میں مستقبل کے امکانات پر غور کیا جائے۔ یعنی یہ بحث شروع کی جائے کہ اسلامی علوم موجودہ ہندستان کی تعمیر میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ یہ بحث ملک کے حفاظتی نقطۂ نظر سے بھی ضروری ہے اور اسلامیات کی ابدیت و ہمہ گیری کو ثابت کرنے کے نقطۂ نظر سے بھی۔ ملک کو خطرات سے محفوظ کرنے کے لیے بھی ہمیں اس بحث کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی توجہ کا مرکز بنانا ہوگا اور اسلام کی آفاقیت اور ابدیت کو دنیا کے سامنے علمی انداز سے پیش کرنے کے لیے بھی۔ ۲۰۱۴ کے پارلیمانی انتخابات کے بعد ملک میں جو ماحول بنایا جا رہا ہے، اُس کے پیش نظر اس بحث کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

موجودہ دور میں ہندستان کو کئی بڑے مسائل درپیش ہیں۔ سیاسی طور پر سب سے بڑا خطرہ فرقہ واریت کا ہے۔ ایک انتہاء پسند نظریات کی حامل جماعت مرکز میں برسراقتدار ہے۔ ملک کے عوام کو فرقوں میں تقسیم کرنا اور جمہوریت کو روند کر ایک فرقے کی بالادستی قائم کرنا، اُس کی اوین ترجیح ہے۔ اور تو اور، خود بابائے قوم موہن داس کرم چندر گاندھی(۱۸۶۹۔ ۱۹۴۸) کے نظریات جاں بہ لب ہیں۔ اُن کو قتل کرنے والا دہشت گرد ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ عدلیہ سخت دباؤ کا شکار ہے اور انتظامیہ پوری طرح حکومت کی ہم نوا۔ میڈیا ’’جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس‘‘ کو اپنے لیے راہِ عمل بنائے ہوئے ہے۔ کوئی حقِ صحافت ادا کررہا ہے تو اُس کا مستقبل غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ ان حالات میں علوم اسلامی کے ماہرین اور اسلامیات کے اسکالرز کی ذمے داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آگ کا علاج پانی ہی ہوتا ہے۔ یہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ فرقہ پرستی کے زہر کا تریاق اتحاد و اتفاق، ہم دردی اور بھائی چارہ ہے۔ اسلامیات کے اندر اس بات کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس تریاق کو ایک نظریے (Theory) کے طور پر ملک کے سامنے پیش کرے اور پھر اس نظریے کی بنیاد پر ایک متحدہ انسانی سماج کی تشکیل کرکے بھی دکھا دے۔

اسلامیات کے ماہرین اور طلبہ کو یہ ذمے داری ادا کرنی ہی ہوگی۔ قرآن، حدیث، سیرت، فقہ اسلامی اور تاریخ اسلامی سے اُن تعلیمات اور مثالوں کو ملک کے خواص و عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا، جو قوموں کے آپسی میل جول اور تعلقات و روابط کی آئینہ دار ہیں۔ تکثیری سماج کے اصول و ضوابط باشندگان وطن کو بتانے ہوں گے۔ تاریخ کو کنگھال کر ایسے واقعات نکالنے ہوں گے، جن میں کسی ظالم حکم راں یا بدعنوان حکومت کا مقابلہ مختلف مذاہب کے ماننے والے عوام نے کیا ہو۔ ساتھ ہی بحث و تحقیق کے بعد یہ مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا کہ اگر دو مختلف قوموں کے درمیان کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے، جو متحدہ معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ کرسکتا ہو، تو اُس معاملے کو کن بنیادی اصولوں کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے؟ اس مسئلے کو حل کرکے اُن فتنہ پرور طاقتوں کے پر کترے جاسکتے ہیں، جو ملک میں کسی حال امن و امان اور بھائی چارے کی فضاباقی نہیں رہنے دینا چاہتیں۔

ملک کو دوسرا بڑا خطرہ ذاتی مفادات کے لیے ملک کو برسوں پیچھے دھکیلنے اور اپنے وقتی فائدے کے لیے ملک کے مستقبل کو نقصان پہنچانے کے بدترین رویے کا ہے۔ یہ رویہ اعلیٰ ترین سیاسی رہنماؤں میں بھی موجود ہے اور ایک ادنیٰ ترین عام آدمی میں بھی۔ ایک عام شہری راستہ چلتے سڑک پر تھوک کر ملک کو نقصان پہنچاتا ہے تو سیاسی رہنما سرمایہ داروں کے ہاتھوں ملک کے قیمتی سرمائے کو اونے پونے داموں پر فروخت کرکے نقصان پہنچاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے تو اس میدان میں گزشتہ تمام حکومتوں سے آگے بڑھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ انتہائی غیرمعقول مقاصد کے لیے کی جانے والی نوٹ بندی اور پھر ایک ناقابل فہم قانون جی ایس ٹی لاگو کرکے حکومت سرمایہ داروں کو ہرحال میں خوش رکھنا چاہتی ہے۔ عوام کی اسے کوئی فکر نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام ہے کہ اسے آپس میں ایک دوسرے شہری کو لوٹنے کھسوٹنے، دھوکہ دینے اور تکلیف پہنچانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس کی اس حرکت سے ہم وطن کو دکھ پہنچے گا، ملک کا ماحول خراب ہوگا، صلاحیتیں ضائع ہوں گی اور ملک کی شبیہ خراب ہوگی۔ وہ بس اپنا وقتی فائدہ دیکھتا ہے۔ اس چکر میں دوسرے کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اسے گوارا ہوتا ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ اسلامیات کا کوئی سنجیدہ طالب علم اس صورت حال سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ اُس کی ذمے داری ہے کہ وہ وطن کے متعلق حکمرانوں اور عوام کے فرائض، حکمراں طبقے پر اپوزیشن کے حقوق اور اپوزیشن پر حکم راں کے حقوق، عوام پر حکومت کے اور حکومت پر عوام کے حقوق، ریاست کے سرکاری سرمائے کی حیثیت، ریاست کے مفادات کے لیے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی مشترکہ جدوجہد کے اصول و ضوابط، شہریوں کے آپسی حقوق و فرائض اور تمام شہریوں کے اندر وطن دوستی کا اعلیٰ ترین جذبہ پیدا کرنے کے امکانات کو اسلامیات کے سیاق میں پیش کرے۔ ان موضوعات کو اپنی تحقیقات اور غور و فکر کا موضوع بنائے۔ اس ذمے داری کو ادا کرکے بہ یک وقت متعدد فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے ملک کی سلامتی کے امکانات بھی پیدا ہوں گے، وطن کو نقصان پہنچانے کا رویہ بھی کم زور پڑے گا، مثبت انسانی جذبات پروان چڑھیں گے، اسلامیات کے مطالعے کے نئے نئے گوشے بھی سامنے آئیں گے اور دنیا کے سامنے اسلامی علوم کی ابدیت و آفاقیت بھی آئے گی۔

ملک کو درپیش مسائل میں ایک اور بڑا مسئلہ ملک کی تہذیبی وراثت کے تحفظ کا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت اپنے علاوہ دوسری تمام قوموں کے تہذیبی آثار اور علامات کو مٹا دینا چاہتی ہے۔ ویسے تو ہر ملک کے لیے تہذیبی وراثت بڑی اہمیت رکھتی ہے، لیکن ہندستان کے لیے اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہندستان کا اصل تعارف یہی ہے کہ یہ ملک تہذیبوں اور تمدنوں کا ملک ہے۔ ہزاروں برس پرانی تہذیبوں کے آثار اس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ ملک آج بھی مختلف مذاہب اور قوموں کا سنگم ہے۔ ہڑپا سے لے کر انگریزوں تک، نہ جانے کتنی تہذیبوں کے نشانات اس ملک کے کونے کونے میں ثبت ہیں۔ یہ ملک ایسا دل کش واقع ہوا ہے کہ ہر تہذیب اور قوم کو اپنے اندر سموتا گیا اور اسے اپنے قدرتی ذخائر سے فیض یاب کرتا گیا۔ غرض یہ کہ صدیوں پرانی تہذیبی وراثت ہی ہمارے ملک کی اصل پہچان ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری موجودہ حکومت سے وابستہ افراد خود ہی ملک کی اصل شناخت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی محدود عقل اور ناقص فہم کی بناء پر وہ ملک کو بس ایک تہذیب کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ تہذیبی ورثے کے تحفظ کا مسئلہ آج ہر ذمے دار شہری کو پریشان کر رہا ہے۔

اس مسئلے کے علمی حل کے لیے بھی ماہرین اسلامیات کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ تہذیبی وراثت سے متعلق موضوعات کو اپنی بحث و تحقیق اور گفت و شنید کا موضوع بنانا چاہیے۔ اس حوالے سے اسلامیات میں کیا کچھ موجود ہے؟ تہذیبی وراثت کو اسلام کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اس کے تحفظ کے لیے کیا کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اسلامی تاریخ میں ان وراثتوں کے متعلق حکم رانوں کو کیا رویہ رہا؟ خلافت راشدہ اور اس کے بعد اموی، عباسی اور عثمانی دور کی تہذیبی وراثتیں کیا کیا تھیں؟ ان حکومتوں میں ان کا کیا حال تھا اور آج کیا حال ہے؟ دنیا کی دیگر متمدن اقوام میں ان وراثتوں کے متعلق کیا نظریہ پایا گیا؟ آج کی ترقی یافتہ قومیں انہیں کس نظر سے دیکھتی ہیں؟ اگر اسلامیات کا مطالعہ کرنے والے ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کریں تو وہ موجودہ ہندستان میں تہذیبی وراثت کے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے میں اہم کردار نبھا سکتے ہیں۔

ان تین اہم مسائل کے علاوہ آج کے ہندستان کو اور بھی مسائل درپیش ہیں۔ یہ تمام مسائل دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے بھی اٹھا سکتے ہیں، لیکن اسلامیات کے شعبے سے وابستہ افراد ان مسائل کو جس خوبی کے ساتھ حل کرسکتے ہیں، کوئی نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ اُن کے پاس قرآن و حدیث کی شکل میں وحی الٰہی موجود ہے۔ چالیس سال پر مشتمل نبوی دورِ حکومت اور خلافت راشدہ کا وہ مبارک نظام موجود ہے، جس کا مقابلہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی دوسری حکومت نہیں کر سکتی۔ کئی صدیوں تک بلاشرکت ِ غیرے علمی ، تحقیقی و فنی دنیا کی قیادت کی شان دار تاریخ موجود ہے۔ لہٰذا اسلامیات کا ایک طالب علم ان موضوعات کو جس طرح اٹھا سکتا ہے، دوسرا نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن یہ موضوعات سخت محنت، سنجیدگی و متانت اور فکری اعتدال و توازن چاہتے ہیں۔ ان موضوعات کو چھیڑنے کے لیے شریعت اسلامی کے اصل مصادر، اسلامی تاریخ کے ماٰخذ، جدید تحقیقات سے واقفیت اور حالات پر گہری نظر ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ عملی اقدامات کرنے کے لیے ہم وطن محققین و اسکالرز کے ساتھ مل کر جامع حکمت عملی تیار کرنے اور اسے کام یابی کے ساتھ نافذ کرنے کی صلاحیت بھی درکار ہوگی۔ یہ کام کسی ایک فرد کا نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑے اسلامی مدارس، یونی ورسٹیوں میں اسلامیات کے شعبوں ، دینی تنظیموں اور تحقیقی مراکز کو تیار ہونا ہوگا۔ کام ذرا محنت طلب تو ہے، لیکن اسلامیات سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ اس کی ادائی کے لیے قدم اٹھایا جائے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights