روہت ویمولا کا قتل ’ہندوستانی دستور کا قتل‘

0

ہندوستان بھر کے طلباء بِنا کسی مذہب،فرقہ اور برادری کے فرق کے اس فرد کے حق میں آگئے ہیں جس نے کئی ماہ کی جدوجہد اور مشکل حالات کی تاب نہ لاکر سکون کی نیند اختیار کر لی۔ جو اپنے حق کے لئے لڑتا رہا آج اس نے سارے ہندوستان کے اہلِ علم اور انسانی ہمدردی رکھنے والے افر اد کو جگا دیا۔
مودی حکومت کے آنے سے لیکر آج تک ہندوستان نے کئی ایسے دردناک مناظر دیکھیں ہیں جس سے ہر سیکولر فرد یہ کہنے پر مجبور ہے کہ 2014 انتخابات کے نتائج ہندوستانی تاریخ کا بدنما داغ ہیں۔ جس دن سے مودی حکومت اقتدار میں آئی اس دن سے ہندوستانی عوام کئی ایک سنگین مسائل سے دوچار ہوئی ہے، کبھی رواداری و عدم رواداری کے نام پر،کبھی بیف کے نام پرتو کبھی گھر واپسی کے نام پر، نیز ایسے کئی واقعات ہے جنھیں کسی نے بھولا نہیں اور آج بھی حالات ہنوز بگڑتے ہی جا رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کثرت میں وحدت کا گہوارا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہیکہ یہاں کی مٹی کبھی سونا اْگلتی تھی۔ آج اسی مٹی میں ذات اور مذہب کے نام پر اور سیاسی مفادات کی خاطر کئی ایسے جنازے دفن ہو رہے ہیں جو انسانیت کی بقاکے لئے جدوجہد کررہے تھے۔ اس بات سے تو سبھی واقف ہیںکہ مودی حکومت درحقیقت اس ملک میں ہندو راشٹرا کا دوسرا نام ہے۔ ملک کے تمام ہی انصاف پسند افراد روہت ویمولا کی موت پر آبدیدہ ہیں۔ وجہ یہ نہیں ہے کہ اس نے انصاف نہ ملنے پر خودکشی کرلی بلکہ وجہ یہ ہے کہ اس ملک کو چلانے والے ظالم حکمران ،ملک کو جوڑ کر رکھنے والے اور حق کی آواز بلند کرنے والوں کو اپنا لقمہ بنارہے ہیں۔ روہیت کی موت ،خودکشی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند انداز میں حکومت کی جانب سے کیا گیا ’قتل‘ ہے۔ روہت ویمولا کی موت کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ یہ ہندوستان کے آئین کی دھجیاں اڑانے والا ایک سانحہ ہے جس میں تمام فرقہ پرست عوامل ذمہ دار ہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ایسے واقعات پہلی دفعہ نہیں ہو رہے ہیں،ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے دورِاقتدار سے قبل ہندوستان کے حالات نہایت ہی ظلم و بربریت کا شکار تھے اور مودی حکومت کے آنے سے قبل بھی کچھ ایسے ہی تھے ،لیکن جب سے بی جے پی بر سر اقتدار آئی ہے تب سے ملک کا کمزور طبقہ ایسے واقعات کا سامنا کررہا ہے اور ہندوستان پھر اسی دور میں واپس لوٹ رہا ہے جہاں انسانی شکل کے حیوان پائے جاتے تھے۔ ملک ایک طرف تو دنیا میں ترقی کی رفتار میں پیچھے نہیں ہے تو دوسری طرف دلت ، مسلم اور دیگر انصاف پسند عوامل کے خلاف تشدد میں بھی پیچھے نہیں ہے۔ روہت نے اپنی ساری زندگی علم کے میدان میں لگادی تھی اور جب ملک میں رواداری اور عدم رواداری کا معاملہ آیا تو اس نے رواداری کا ساتھ دیا اور فرقہ پرست پارٹیوں کے خلاف صدا بلند کی جسکی وجہ سے اس کو ذہنی طور پر ہر آساں کیا گیا اور بائیکاٹ کیا گیا اور پھر سیاسی دباؤڈالا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ روہت نے خودکشی کرلی۔
اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ روہت نے جہاں آخری وقت تک اپنی کو شش جاری رکھی تو وہیں دوسری طرف وہ مایوسی کا شکار ہوگیا اور ایسا سنگین قدم اٹھانے پر مجبور ہوگیا۔ اس پہلو سے تمام کو یہ سبق حاصل کرنا ہوگاکہ زندگی میں کبھی مایوسی اختیار نہ کریں اور اسلام بھی یہی تعلیمات پیش کرتا ہے کہ ’مایوسی کفر ہے‘ اور مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا ۔ اب احتجاج کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں بلکہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور حکومت پر دباؤ قائم رکھیں جب تک وہ روہت اور روہت جیسے دیگر افراد جو حکومت کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں انھیں انصاف نہ مل جائے اور گنہگاروں کو ان کے انجام تک نہ پہچا دیں۔
از: محمد فراز احمد

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights