(ان نوجوانوں کے نام جو فحاشی اور عریانیت کے دلدل سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں )
رافع اطہر
وہ ابھی ابھی نیند سے بیدار ہوا تھا۔ گھڑی دیکھی تو فجر کا بالکل آخری وقت تھا۔ وضو کرنے کے لئے دوڑ لگائی لیکن پھر کچھ محسوس ہوا۔ پھر یہ سمجھنے میں بھی دیر نہ لگی کہ اسے غسل کی حاجت تھی۔ اب نماز پڑھنا ممکن نہ تھا۔ اسے قلق ہوا، لیکن اچانک ایک خیال نے جیسےاس کے اندر خوشی کی لہر دوڑا دی۔ ایسی خوشی پوری زندگی میں شاید ہی محسوس ہوئی تھی۔ آخر اس کی جدو جہد کا نتیجہ جو ظاہر ہونے لگا تھا! وہ کامیاب ہو رہا تھا۔
پہلے وہ ایک پر اعتماد ، تیز و طرار، ذہین اور محنتی طالب علم تھا۔ اسی طرح اس کےلئے نمازوں میں رونااور بے اختیار مسکرا دینا کوئی انہونی بات نہ تھی جیسے کہ دوسروں کے لئے ہوتی تھی۔ قرآن سے اس کا شغف کسی سے چھپا نہ تھا۔ ہر دم قرآن اور کتابوں کی باتیں کرنا گویا اس کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔
لیکن یہ تمام چیزیں آہستہ آہستہ کم ہوتی گئیں۔ اسکی پڑھائی متاثر ہونے لگی ، نمازوں میں اسکا خشوع اس سے چھنتا گیا اور قرآن و دیگر کتابوں سے دوری روز بروز بڑھتی گئی۔ وہ جس کی خود اعتمادی اور کنٹرول سے لوگ متاثر ہوتے اور جذبہ حاصل کرتے تھے اب اپنے آپ پر سے قابو کھوتا جا رہا تھا اور خود کو تنہا اور بے بس محسوس کرنے لگا تھا۔ اس کے سامنے کوئی مقصد ، ہدف اور محرک باقی نہیں رہ گیا تھا اور زندگی بالکل بیکا رلگنے لگی تھی۔
ابتداء میں تو اسکی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ پھر جیسے جیسے غور کرتا گیا، وجہ سمجھ آتی گئی لیکن وہ اس پر بندھ باندھنے میں ناکام رہا۔ بات پہلے پہل صنف نازک کو دیکھنے اور غیر ضروری کاموں اور باتوں میں وقت صرف کرنے سے شروع ہوئی۔ پھر شہوانی کتابیں پڑھنے اور فلمیں دیکھنے کا مرحلہ آیا۔ پھر بات محض فلموں سے گزر کر آہستہ آہستہ فحش فلموں اور ویب سائٹس تک جا پہنچی، اور آخر میں وہ گھناؤنا کام بھی کر گزرا جس کا وہ پہلے تصورتک نہ کر سکتا تھا، اور پھر خود لذتی کے دلدل میں دھنستا گیا۔ نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔ ہر بار خدا سے معافی مانگتا، اگلی بار نہ کرنے کا عزم کرتا لیکن پھر کچھ دنوں بعد عزم کا گھڑا دھڑام سے آ گرتا۔ مختلف ترکیبیں آزمالیں لیکن کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔اسے لگنے لگا کہ وہ اب شاید کبھی اس دلدل سے نہ نکل پائے گا۔ مایوسی کا دائرہ لگاتار بڑھتا جارہا تھا۔ اپنا آپ کبھی اتنا کمزور نہ لگاتھا۔ کیا کرے ؟ کہاں جائے؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ پھرایک دن ذہن میں آیا کہ کیوں نہ خدا سے وعدہ کرکے دیکھے؟ آخر کاراللہ کی ہستی کی عظمت اور وعدہ وفا نہ کرنے کے انجام کو ذہن میں رکھ کر پورےشعور کے ساتھ اس گناہ سے بچنے کا عہد کیا اور آج وہ عہد اپنارنگ دکھارہا تھا۔ اور اسی کا نتیجہ تھا کہ کئی مہینوں بعد وہ فطری طور پر جنابت کی حالت میں نیند سے جاگا تھااور بجائے اجنبیت کے ایک احساس آشنائی سے سرشار تھا۔ اور ہو بھی کیوں نہ؟ آخراسکی حیا اسے دوبارہ مل گئی تھی، وہ اپنے آپ کو دوبارہ سے زندہ محسوس کررہا تھا۔ اور کیوں نہ کرے؟ آخر ‘حیا ‘ کے معنی ہی زندگی کے تھے۔