حسرت ان غنچوںپہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے

ایڈمن

جویریہ ارم، نظام آباد

وادی کشمیر میں ایک 8سالہ لڑکی کو 10 جنوری کو اغواء کیا گیا ایک ہفتہ قید میں رکھ کر اس کی عصمت لوٹی گئی پھر اسے قتل کرکے پھینک دیا گیا۔ بتایا جارہا ہے کہ لڑکی کے جسم پر انسانی دانتوں کے نشان پائے گئے اور اس کے پیر توڑ ے گئے تھے۔ کھٹوا ضلع سے تعلق رکھنے والی آصفہ بانو کے ساتھ ہونے والا یہ حادثہ انتہائی ہولناک ہے، کہا جارہا ہے کہ باوثوق افراد اس معاملے میں ملوث ہیں جنھیں بچایا جارہا ہے۔ دوسری طرف دو الگ الگ واقعات میں اتر پردیش میں عصمت ریزی کے واقعات پیش آئے ایک 16 سالہ لڑکی چھیڑ چھاڑ جنسی ہر اسانی کی شکار ہوئی تھی، میڈیکل جانچ کے بعد خود کشی کر اپنی جان گنوادی، ملزمین میں دو لڑکے جن کی عمر 22سال اور24 سال ہیں ایک لڑکے کا نام ضمیر بتا یا جارہا ہے۔

دوسری خاتون اتر پردیش کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والی 32 سالہ خاتون جو کہ حاملہ بھی تھی عصمت ریزی کی شکار ہوئی۔ پاکستانی پنجاب کے قصور ضلع کی رہنے والی زینب امین انصاری جس کی عمر 7سال تھی اغوا، عصمت ریزی اور قتل کی شکار ہوئی اور مردہ حالت میں ایک کوڑے کے ڈھیڑ سے برآمد ہوئی۔ قصور میں 2015 سے اب تک تقریباً ایک درجن ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ 6سالہ کائنات اس وقت زندگی اورموت کی جنگ لڑ رہی ہے جسے کچھ عرصہ قبل انتہائی تشویشناک حالت میں اغوا، عصمت ریزی کے بعد برآمد کیا گیا تھا۔ ملزم پکڑا جا چکا ہے جو کہ ایک 23سالہ نوجواں عمران علی ہے جس نے اب تک 10لڑکیوں کے ساتھ عصمت ریزی اور قتل کا اقبالِ جرم کیا ہے۔

اس طرح کے دل خراش، دل دہلانے والے واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں۔ کیا ہم اس دین کے پیرو نہیںہیں جو خواتین کے حقوق کا علمبردار ہے؟ یا پھر بیٹی کی پیدائش باعثِ رحمت نہیں؟ رحمِ مادر میں اس کی ہلاکت گناہِ کبیرہ اور قیامت میں سخت پکڑ کا سبب ہے۔ کیا بیٹی کی پرورش جنت میں نبی کریمؐ کے قربت کا موجب نہیں ہے؟ عورت کے ساتھ کی گئی ہر بدسلوکی روزِ محشر اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے بلکہ مرد کے لئے اچھائی کا معیار عورت کے ساتھ نیک سلوک کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اگر ہمارے معاشروں میں ، سماج میں اس طرح کے واقعات ہوں کہ معصوم ننھی بچیاں زیادتی کی شکار ہوجائیں، خواتین جہیز کے لئے ہر اساں کی جائیں ، خریدو فروخت اور نفس و جنس کی تسکین تک اس کی حیثیت گھٹادی جائے اور مسلمان تماشائی بن جائے یا مذمتی بیانات یا لفاظی کرتا رہ جائےتو کیا قیامت کے دن اللہ ان سے سوال نہیں کرے گا؟ کیا اللہ ہم سب مرد و خواتین کو مذمتی بیانات، افسوس کے اظہار، زبانی جمع خرچ کرنے پر بری الذمہ قرار دے کر روز محشر اپنی عالی شان جنتوں میں داخل کردے گا؟

روزِ محشر رب العالمین جب زندہ درگور کی گئی لڑکی کو پوچھے گا کہ کس قصور میں ماری گئی تھی تب کیا صرف اپنے قاتل کی نشاندہی کرے گی یا پھر دنیا میں اپنے آس پاس پائے جانے والی انسانی بھیڑ کو اللہ کی عدالت میں گھسیٹے گی؟

نبی کریمؐ بھی ایک ایسے سماج میں تنہا کھڑے ہوئے تھے جو لڑکیوں اور خواتین کے لئے بالکل سازگار نہیں تھا، نبی کریمؐ کے پاس نورِ ہدایت، حکمت اور ایمانی حرارت ہی تھی کہ آپ نے سماج میں ہوتے ہوئے ظلم کو اس طرح جڑ سے اکھاڑ دیا کہ ایک عورت گھر کی ملکہ سے لے کر ایک معلم، سیاسی ، سماجی ، معاشی معاملات کی ماہر تک کہلائی جہاں اس کی حیثیت مردوں سے کسی بھی طرح کم تر یا بالا تر ہونے کے بجائے یکساں تسلیم کی گئی۔ اللہ کے بندوں کی حیثیت تقویٰ و پرہیزگاری کے معیار پر لیاقت ، شجاعت ، صداقت ، قابلیت کے اوصاف پر تسلیم کی گئی ہے۔ نبی کریمؐ کے جانثار امتیوں کا کیسا معاشرہ ہم آج دیکھ رہے ہیں؟ ہماری غیرت اور حمیت ہمیں کچھ کرنے پر آمادہ ہی نہیں کر رہی ہے کہ اس مسئلہ کا سدباب کیا جائے۔ جیسے نبیؐ اور صحابہ رضوان اللہ نے حکمت اور بصیرت سے نورِ ہدایت کی روشنی میں کیا تھا۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نبی آخر الزماں ؐ اور صحابہ کرام رضوان اللہ جیسے Solution Oriented لوگ نہیں ہیں، ہمارے ہاں فقہا ، صلحاء بنانے کا رواج عام ہے لیکن حکمت سکھانے کا عمل رائج ہی نہیں ہے۔ بہت سے ایسے سوال ہیں جن کے جواب اب ہمیں ڈھونڈنے پڑیں گے، ہمیں اپنے اسلاف کی طرح اپنے مسائل کے حل کے لئے خود جدوجہد اور سخت کوشش کرنا ہوگی نا کہ ابابیلوں کا انتظار۔۔۔۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ مجموعی طور پر ہمارے سماج پر ، اس کے افراد پر ، ماحول پر اور نفسیات پر اس طرح کے واقعات کے کیا اثرات قائم ہوں گے؟ ان گھنائونے واقعات کے متاثرین پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کا حل کیسے نکالا جائے ؟ اور اہم سوال کہ مرد و عورت ایک دوسرے کواور خود اپنے آپ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ان میں سے تما م ہی سوالات اور ذیلی سوالات و پہلوئوں پرباری باری غور کرتے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ جنسی ہر اسانی ، عصمت ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات خواتین اور خصوصاً معصوم ننھی بچیوں کے اندر خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ مردوں پر بے اعتباری پیدا کردیں اور عمومی طور پر مردوں کو ہوس کے غلام سمجھا جانے لگے۔ ہر طرف سے ہم دیکھ رہے ہیں کہاجارہاہے کہ بچیوں کویہ سکھایا جائے کہ اچھا لمس اوربرا لمس کیا ہے، خطرہ کو بروقت وہ بھانپ لیں وغیرہ وغیرہ۔ ہوسکتا ہے کہ بچیاں خطرہ کو بھانپ لیں اور کئی جگہوں پر وہ محفوظ ہوجائیں یہ بھی ممکن ہے کہ اوباش اور چھچھورے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ شریف النفس لڑکے اور نوجوان بھی شک کی نگاہوں سے دیکھے جائیں گے۔ گلی، محلوں، بازاروں میں کوئی شریف آدمی خواتین کی امداد یا ہمدردی کی کوشش کریں اور بچیوں کی خوف زدہ نگاہیں انھیں سخت الجھن میں ڈال دے۔ جب خواتین اپنے آس پاس پائے جانے والے مردوں پر اعتبار نہ کر پائیں تو یہ صرف ان کی نہیں بلکہ مردوں کے لئے بھی سخت الجھن و پریشانی کا باعث ہوگا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ صرف متاثرہ پر ہی قیامت ٹوٹتی ہے صرف وہی معصوم تباہ نہیں ہوتی بلکہ پورا سماج کسی نہ کسی حد تک اس کی زد میں آتا ہے۔

اگر متاثرین کے کرب کی بات کریں کہ ان ننھی پریوں پر کیا گزری ہوگی تو روح کانپ جاتی ہے، معصوم لڑکیاں کتنا روئی ہوں گی، کتنا گڑگڑائی ہوں گی، کس ذہنی اور جسمانی تکلیف سے گذری ہوں گی؟ مگر ظالم کو رحم نہ آیا معصوم کے آنسو دیکھ کر بھی باز نہ آیا ہوگا،کسی معصوم کی آنکھوںکے آنسو اورتکلیف کیسے کسی کو نیند آنے دے سکتے ہیں۔ بے قصور اس طرح کے حادثات اور زیادتی کے بعد جب بچ جاتی ہیں تو معاشرے کے پاس ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا، انھیں پاکیزہ تصورنہیں کیا جاتا،ہے کوئی غیرت مند جو آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھام لے گا؟ مرجائے تو لوگ موم بتیاں جلانے اکھٹا ہوجاتے ہیں زندہ بچ جانے پر ساتھ چلنے کے لئے بھی آجائیں گے؟ جب کہ ہماری سوسائٹی میں بچوں والے باپ کو دوسری شادی کے لئے بھی کنواری لڑکی کی تلاش ہوتی ہے، کیا مجرمین سے اپیل کی جائے کہ اپنی زیادتی کی شکار بنائی جانے والی لڑکی کو زندہ نہ چھوڑیں بلکہ قتل کر کے اس پر رحم کردیں؟ اصل بات تو یہ ہے کہ عورت اور مردکو ہماری سوسائٹی اخلاق، کردار قابلیت تقویٰ کے معیار پر دیکھتی ہی نہیں۔ شریف اور دین دار لڑکی کو مرد اپنے لیے معیار بناتے بھی ہیں تو اس کے پیچھے بھی ان کا منشاء کچھ اور ہی ہوتا ہے۔

آخر ہماری سوسائٹی میں عورت کی حیثیت و مقام کیا ہے؟ ایک اعلیٰ مخلوق اور ایک ادنیٰ مخلوق پر مبنی معاشرہ انسانی سماج کہلاتا ہے؟ جہاں مرد بالادست اور اعلیٰ اور عورت ثانوی حیثیت میں ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اللہ کے ساتھ تعلق، اس کی بندگی، انسانیت، اخلاقیات، نیکی اور بدی، جرم و سزا، انعام و اکرام کے پہلو سے مرد و عورت برابر کیوں ہیں؟ دونوں خداکی بندگی کے لئے پیدا کئے گئے ، دونوں سے یکساں تقاضا ہے کہ وہ انسانیت کے معیار پر پورے اتریں دونوں پر برابر کی اخلاقی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ، دونوں نیکی اور بدی کی آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں دونوں کا اعمال نامہ مرتب ہورہا ہے دونوں سے برابر کی سطح پر ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ دونوں کے لئے دنیا اور آخرت میں برابر کی سزائیں اور انعامات ہیں۔ مرد ہو یا عورت جو بھی نیکی کرے گا اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو ایسے ہی لوگ ہیں جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ بھر ظلم نہ کیا جائے گا۔(سورۃ النساء)۔

ازدواجی تعلق کی بات کی جائے تب بھی سورۃ بقرۃ آیت 187 میں عورت کو مرد کا لباس اور مرد کو عورت کا لباس قرار دیا دونوں کو ایک لفظ سے تشبیہ دینے سے دونوں کی برابری ظاہر ہوتی ہے۔ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لئے باعثِ زینت اور آرام کا موجب ہوں نا کہ شادی بوجھ اور عذاب بن جائیں۔ دونوں کو یکساں ایک دوسرے کے لئے راحت، اور آلودگی اور گندگی سے بچانے والا لباس ہونا چاہیے اور نیکی کے کاموں کا ساتھی بھلائی پھیلانے اور برائی مٹانے میں معاون و مددگار ہونا چاہئے۔

بر صغیر کے سماجی نا برابری کے کلچر کو ہم نے ایسا گھول کر پی لیا ہے کہ مرد نہ اپنی بالادستی سے نکل پاتا ہے اور نہ عورت اپنے احساسِ کم تری اور عدم تحفظ سے نکل پاتی ہے۔ اگر ہم اپنے عائلی ماحول پر نظر دوڑائیں تو دیکھتے ہیں کہ یہاں Survival of fittest کا کھیل چل رہا ہے اجنبی ماحول میں اپنے گھر کو چھوڑ کر آنے والی ایک لڑکی کو بے شمار آزمائشوں سے گزارا جاتا ہے اس کے نئے گھر میں قدم جمانے کے لئے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اورپھرآہستہ آہستہ گھر کے تمام افراد کی کمزوریوں سے واقف ہوجاتی ہے تو خاتون خانہ وہ سب سود کے ساتھ شوہر نام دار کو زبانِ فخر سے واپس کردیتی ہے جو انھوں نے نئے گھر میں شروعات کے دنوں اس بے چاری کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ عدم تحفظ کا شکار خواتین جب اللہ کے بجائے گھر کے مردوں میں اپنا سہارا ڈھونڈے انہیں اپنا محافظ، رازق سمجھنے لگے تو یہ insecuruties اور مردکی احساس برتری ستم بالائے ستم بن کر اکثر گھروں کے ماحول کو خراب کر دیتی ہے یا کم از کم عرصے دراز تک رسہ کشی کا سلسلہ چلنے کے بعد زندگی نارمل موڈ پر آتی ہے۔ اپنی چھوٹی موٹی چیزوں میں الجھنے مسلمانوں سے دنیا کو بدل دینے ، انقلاب کے نقیب بننے ، انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے ، اسلام کے نظامِ حیات کو گلی کوچوں ، قریہ قریہ پہنچانے اور نافذ کرنے کا کام کیسے ہو پائے گا؟ اخروی نجات کیسے مل پائے گی؟

جہاں عورتوںاورچھوٹےبچوںمیں شعوربیداری کی مہم چلانے کی بات ہوتی ہے مردوں میںمہمات کی بات کیوںنہیںہوتی ۔ہمیںچاہئے کہ بچپن سے بچوں کو دین کی سمجھ حکمت سکھائیں۔ گھریلو ماحول کو سدھاریں، گھر کے لڑکوں کو عورتوں کی عزت کرنےوالے اوراپنی طرح کا انسان سمجھنے والے بنائیں، انھیں یہ بتانا پڑے گا کہ اپنے جذبات کی تسکین کے لئے اس کا کسی عورت کو بے وقوف بنانا، گمراہ کرنا یا زبردستی کرنا، اسے عورت سے کم تر اور بے حیثیت کردے گا۔ یہ اس کی بہادری نہیں بلکہ کمزوری کی علامت ہوگا۔ خواتین کو ہم خود کفیل بنانے پر زیادہ زور دیتے ہیں جب کہ ان کو یہ سکھانا چا ہئے کہ مرد بھی اپنی ہی طرح کے انسان ہیں۔ انہیں زندگی اللہ کے سہارے، اس پر توکل اوربھروسے پر گزارنی چاہئے ان کی زندگی کا مقصد اپنے گھر کے مردوں کی خوشنودی کے ارد گرد نہیں بلکہ اللہ کے راضی ہو جانے کے گرد گھو منی چاہئے۔ اللہ کو راضی کرنے کے لئے جو تگ و دو ہونی چاہئے وہ کرے، اللہ رب العالمین کو ناراض کرکے مرد و خواتین اپنی چالاکیوں سے ایک دوسرے پر فتح حاصل کرنے کی دوڑ میں نہ لگ جائے۔

انسانوں سے محبت کریں وہ بھی اللہ کی خاطر۔ تب ہی ہم دیکھیں گے کہ ایک مثالی معاشرہ بنے گا جو ہمارے مقصد حیات، بندگی کے تقاضوں کو پورا کرپائے گا۔کیوں کہ صرف سخت قوانین ہی جرائم کا سد باب کرنے کے لئے تنہا کافی نہیں ہوتے بلکہ معاشرہ کی اخلاقی حیثیت بھی بہت ہی اہم رول ادا کرتی ہے، ہاں اس بات سے انکار نہیں کہ قوانین اور جرائم پر سخت سزائیں ہوں تو عوام میں جرائم سے بچنے کا احتمال زیادہ ہوتاہے لیکن Law and order کی صورتحال، پولیس اور انتظامیہ کی چوکسی، انصاف کے حصول کا آسان عمل ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ عدالتوں میں کیس کا نمبر آتے آتے متاثرین اور ان کے ورثاء کے حوصلہ جواب دے چکے ہوتے ہیں اگر انصاف کے حصول کے لئے عوام قانون اپنے ہاتھ میںلے لے تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا اس لئے عدلیہ کو بھی اور پولیس محکمہ کو بھی اصلاحات کے عمل سے نوازنا چاہئے۔

جولائی 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں