اہل قلم کو جرأتمندی کی ضرورت ہے

0


ڈاکٹر سلیم خان کے ناول ’’قلندر نما بندر‘‘ اور ’’فقروغنا‘‘ کی تقریبِ رسم اجراء میں 
معروف اردو ناول نگار جناب پیغام آفاقی کے صدارتی خطاب سے مأخوذ

ڈاکٹر سلیم خان کی اس کتاب کو میں ایک بہترین ناول مانتا ہوں۔ اس طرح کے ناولوں کا آنا سماجی طور پر بھی اور سیاسی طور پر بھی، ہمارے ملک کے لیے تو ضروری ہے ہی، لیکن اردو ادب اور اردو زبان کے رول کو تاریخی مقام دینے کے لیے، جس طرح کا رول اس نے آزادی کے زمانے میں ادا کیا، اس طرح کی کتابیں شائع کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہاں صاحب کتاب کو مشورہ دیا گیا کہ ادیب کو ایسا ہونا چاہئے، ادیب کو یوں لکھنا چاہئے، میں اس مجلس کی صدارت کررہا ہوں، نہیں تو جانتے میں کیا کہتا؟! میں کہتا کہ ادیب کو ہجڑا نہیں ہونا چاہئے۔ ادیب کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے۔ اس وقت سارے لوگ ناکام ہوچکے ہیں، کوئی سماج کے لیے آگے آنے کو یا توتیار نہیں ہوتا، اور اگر تیار ہوتاہے تو کامیاب نہیں ہوتا۔ ہمیں ذہنوں کو بدلنے کے لیے تلوار کی دھار، نشتر، اور اسٹیل کی طرح تیز ہونا چاہئے۔ سماج کے لیے اس طرح کا جذبہ اور تڑپ، ادیب کے لیے بہت ضروری ہے۔ میں نے اپنے ایک بزرگ سے، جو ہندی اور انگریزی کے ادیب تھے، اس سے متعلق آج سے بیس سال پہلے ایک دفعہ پوچھا تھاکہ بہت ہی نرم ونازک اور ڈھکے چھپے الفاظ میں لکھنا چاہئے، یا صاف صاف کہہ دینا چاہئے۔ کچھ دیر تک اسی طرح وہ مجھے دیکھتے رہے، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اسٹیل کے چاقو کی طرح چیر دینا چاہئے، جو سچائی ہے اس کو دکھادینا چاہئے۔
آپ ادیب بننے کے لیے لکھتے ہیں؟ کیا میں اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے ادیب کہا جائے؟ سوسال بعد ہم زندہ رہیں گے؟ سو سال کے بعد ہمارا نام زندہ رہے گا؟ اس سے ہمیں کیا ملے گا، وہ تو بعد کی بات ہے۔ اس وقت ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں، یا ڈاکٹر سلیم خان جو کچھ لکھ رہے ہیں، وہ اس لیے کہ یہ پریشان ہیں۔ اس لیے لکھ رہے ہیں کہ قدرت نے ان کو صلاحیت دی ہے، اور اس صلاحیت کا حق ان کو ادا کرنا ہے، یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ اگر ٹرین میں آپ جارہے ہیں ، اور ایک ڈاکٹر وہاں بیٹھا ہوا ہے، اور کسی کے ہاتھ میں کوئی پرابلم ہونے لگی، تو اس ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ جاکر اس مریض کو دیکھے۔ اگر ہم ادیب ایک بڑی تصویر پورے ملک کی، اس کے کرداروں کی، اس کے مسائل کی، اس کی سازشوں کی، اس طرح قوم کے سامنے پیش کرسکیں کہ وہ ملک کی موجودہ صورتحال کو سمجھ سکیں کہ یہاں کیا ہورہا ہے، اور کیوں ہورہا ہے، اور لوگوں کا سوچنے سمجھنے کا انداز کیا ہے، تو یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
بدلتی ہوئی صورتحال میں، ابھی جو معاشرہ بدلا ہوا ہے، اس کے اندر ہزاروں طرح کی طاقتیں کام کررہی ہیں، اس کومحسوس تو ہر آدمی کرتا ہے، لیکن اس کو آرگنائز نہیں کرپاتا، پس منظر میں نہیں جاپاتا، پیچھے کون لوگ یہ سب انجام دے رہے ہیں، اس کو نہیں سمجھ پاتا۔ ادیب کا کام یہ ہے کہ ایسی جگہ اس کو یہ سب کچھ دکھادے۔ ایک بار اگر ہم نے ایسا شہری پیدا کردیا، اور یہ کتاب اگر اس کو ہندوستان کا ہر شہری ایک بار پڑھ لے تو وہ ان باتوں سے واقف ہوجائے گا، ان باتوں سے اس کے واقف ہونے کے بعد اس کی دنیا تبدیل ہوجائے گی، ملک بدل جائے گا، ملک کے شہری کو، اس کے ذہن کو مضبوط کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ جب آپ اس مقصد کے لیے لکھیں گے، تو کوئی دوسرا کون ہوتا ہے املاء کرانے والا کہ ایسا کیوں لکھ رہے ہیں، کیا لکھ رہے ہیں، ایسا لکھئے ، وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کرتے کرتے ادب کو رکھ دیا گیا کنارے، نتیجہ یہ ہوا کہ ادب کی سماج میں وہ اہمیت نہیں، ناولوں کی وہ اہمیت نہیں، جو اس کی ہونی چاہئے۔
ناول دنیا میں مسلسل جو انقلاب آتے ہیں، ان کو پکڑنے کے لیے، اور جن جن انقلابات کی ضرورت ہے اس کو پیدا کرنے کے لیے ہتھیار ہے۔ ہندوستان میں ناولوں کی ضرورت ہے، اس طرح کی ناولوں کی ضرورت ہے۔ جس طرح پڑھنا لکھنا ایک ضرورت ہے، اسی طرح یہ بھی ایک ضرورت ہے۔ یہ واحد وہ طریقہ ہے، جس میں بکھرے ہوئے سماج کو ایک ساتھ پیش کرکے سچے وژن کے ساتھ، پوری سچائی کے ساتھ آرگنائز طریقے سے سارے کرداروں کو پیش کردیا جائے گا۔ خود بخود جس دن آپ فیصلہ کرتے ہیں، ووٹوں کے ذریعے سے اس دن آپ کا فیصلہ صحیح ہوگا۔ اور اگر فیصلہ غلط بھی ہوگیا، تو دوسرے دن سماج میں آپ ری ایکٹ کرنا جان رہے ہوں گے کہ اب آپ کو کیا کرنا ہے۔ اس لیے آپ کسی کے کہنے پر مت جائیے گاکہ کیسے لکھنا ہے، کیا لکھنا ہے، فلاں کا نام لکھنا ہے یا نہیں لکھنا ہے۔ جس دن آپ یہ سوچ لیجئے گا کہ نہیں لکھنا ہے، اس لیے کہ وہ برا مان جائیں گے، ان کی دل آزاری ہوجائے گی، جو کروڑوں کی دل آزاری کیا، کروڑوں لاکھوں کا خون چوستے اور بہاتے ہیں، ان کی دل آزاری؟! اور اگر نام کے ساتھ آپ کسی کو لکھ دیتے ہیں، تو کوئی بات نہیں، یہ ڈھکا چھپا ہے کیا کہ کس ملک میں کون سے لوگ حکومت کرتے ہیں، کہاں پر کون لوگ حکومت کرتے ہیں، اور وہاں کس کے ساتھ کیا ہوا۔ صحافی بکے ہوئے ہیں، معاف کیجئے گا! اخبار بیچنا ہوتا ہے، اور ٹی وی پر دکھانا ہوتا ہے، اگر کوئی ایسی چیز دکھاتے ہیں جس کو پیسے والے پسند نہیں کریں گے، تو ایڈ نہیں ملے گا۔ صحافت کو مارکیٹ میں جانا ہے، ٹیلی ویژن کو مارکیٹ میں جانا ہے، سیاست داں اس لیے بکا ہوا ہے کہ اس کو مارکیٹ میں جاکر ووٹ لینا ہے۔ تنہا جو آدمی تبدیلی لاسکتا ہے سماج میں، وہ ایک ادیب ہے، کیوں کہ وہ ایک کتاب لکھ سکتا ہے، اپنی طرف سے شائع کراسکتا ہے، اور اس کو تقسیم کراسکتاہے۔ اہل قلم کو کسی بھی قسم کے مصالح سے صرف نظر کرتے ہوئے جرأتمندی کے ساتھ اپنے کردار کو ادا کرنا چاہئے، یہی اہل قلم کی شان ہوا کرتی ہے، آج اسی جرأتمندی کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ ادب اپنی معنویت اور اثرانگیزی کھوتا جارہا ہے۔ ہندوستان میں قدیم اور جدید ناولوں میں کم ہی ایسے ناول ملیں گے جن میں سیاسی گلیاروں اور اہل اقتدار کے ذہن ودماغ کی عکاسی کی گئی ہو، اس قسم کے ناولوں میں ڈاکٹر سلیم کا ناول ایک اعلی مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان ان دونوں ناول، بالخصوص ’قلندر نما بندر‘ کے تعلق سے ہم سب کی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights