مسیح الزماں انصاری کل ہند سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا سے ایک ملاقات
ایس آئی او آف انڈیا نے اس میقات میں نارتھ انڈیا میں ایجوکیشن موومنٹ چلانے کا فیصلہ کیا ہے، کیا ہے یہ ایجوکیشن موومنٹ؟
ایس آئی اوایک طلبہ تنظیم ہے، اس لیے تعلیم اور تعلیم سے جڑے ہوئے مسائل اس کی ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں۔ نارتھ انڈیا میں ایجوکیشن موومنٹ چلانے کا فیصلہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ایس آئی او کی مرکزی مجلس شوری(سی اے سی) نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ تنظیم نارتھ انڈیا میں تعلیم کے میدان میں پائے جانے والے مسائل کے حل کے لیے، نیز اسے کرپشن سے آزاد کرانے کے لیے مستقل اور سخت جدوجہد کرے گی۔ ایس آئی او کا یہ ماننا ہے کہ آزادی کے ۶۶؍سال بعد بھی ملک میں تعلیم عام شہریوں کے لیے آسان نہیں ہوپائی ہے، ہمارے ملک میں ایسے علاقے آج بھی پائے جاتے ہیں جہاں لوگ تعلیم سے دور ہیں اور تعلیمی مواقع سے وہ فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں، اسی طرح اپنے حقوق اور فرائض سے ناواقف ہونے کے سبب مختلف مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ سچر کمیٹی کے مطابق ملک کے مسلمان، دلت اور آدی واسی آج بھی تعلیمی، سیاسی، اور معاشی پہلو سے پچھڑے ہوئے ہیں، دن بہ دن مہنگی ہوتی تعلیم نے ان طبقات کے حوصلوں کو اور بھی کمزور کردیا ہے۔ ایس آئی او اس موومنٹ کے ذریعہ ایسے سبھی مسائل کو اٹھائے گی اور ان کے حل کے لیے جدوجہد کرے گی۔
تعلیم کے میدان میں بہت سی این جی اوز کام کررہی ہیں، پھر ایس آئی او کا اس مہم کو چلانا کہاں تک صحیح ہے؟
ایس آئی او اور دوسری این جی اوز کے کاموں میں بہت فرق ہے، ایس آئی او ایک تحریک ہے جس کا مشن ہی سماج کا ارتقاء ہے، ایس آئی او کا یہ ماننا ہے کہ تعلیمی تبدیلی کے بغیر سماجی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ایس آئی او کی تاسیس ہی اس مقصد کے تحت ہوئی ہے کہ طلبہ اور نوجوانوں کو سماجی برائیوں کی روک تھام کے لیے تیار کیا جائے۔جب تک تعلیمی نظام میں، نصاب تعلیم اور سرکاری پالیسیز میں تبدیلی نہیں آتی سماجی ترقی ممکن نہیں۔ ایسے میں ایس آئی او اپنا فرض سمجھتی ہے کہ تعلیم سے جڑے ہوئے مسائل کو لے کر ایک مہم چلائے، ملک کے دانشمند طبقات کو، عوام کو، سیاسی لوگوں کو، اساتذہ کو، طلبہ طالبات اور نوجوانوں کو، اور عام لوگوں کو ان اشوز کے تعلق سے بیدار کیا جائے، نیزان کے حل کے لیے دوسروں کو ساتھ لے کر جدوجہد کی جائے۔
ایس آئی او اس ایجوکیشن موومنٹ سے کیاہدف حاصل کرنا چاہتی ہے؟
ایس آئی او یہ چاہتی ہے کہ ملک کے مسلم، دلت، آدی واسی اور دیگر ایسے طبقات جو تعلیمی پسماندگی کے شکار ہیں، ان سبھی لوگوں تک تعلیم کو پہنچایا جائے۔ تعلیمی عدم مساوات کو دور کیا جائے، سرکاری بجٹ کا استعمال صحیح طریقے سے کیا جائے۔ نصاب تعلیم پر ازسرنو غوروفکر کیا جائے۔ تعلیم کو جنسِ بازار نہ بننے دیا جائے۔ تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ اچھے اساتذہ کو لایا جائے۔ تعلیم کو کرپشن سے آزاد کرایا جائے۔ اسے سرمایہ داروں کی گرفت سے آزاد کرایا جائے۔ نیز اس پر سرکار کا کنٹرول ہو۔ پرائمری اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ، ان کی تنخواہوں کا مسئلہ حل کیا جائے، تاکہ پرائمری تعلیم کو بہتر بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں ملک کے سبھی طبقات کو بغیرکسی اونچ نیچ کے تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرانے ہوں گے۔ ایس آئی او کا یہ ماننا ہے کہ جب تک ملک کے سبھی طبقات کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم نہیں ہوں گے، تب تک صحیح معنوں میں ملک کی ترقی ممکن نہیں۔ ایس آئی او ایجوکیشن موومنٹ کے ذریعہ انہیں اہداف کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔
ملک کے بہت سے صوبے ایسے ہیں جن میں تعلیمی پسماندگی پائی جاتی ہے، ایسے میں محض نارتھ انڈیا پر خصوصی توجہ دیناکہاں تک درست ہے؟
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ملک کے بہت سے صوبے ایسے ہیں جو تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں، یا جہاں تعلیمی مسائل موجود ہیں۔ مگر پھر بھی ایس آئی او نارتھ انڈیا پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، اس کا سب سے بنیادی سبب یہ ہے کہ نارتھ انڈیا کے تین بڑے صوبے اترپردیش، بہار اور جھارکھنڈ تعلیمی میدان میں بہت ہی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس کے اور بھی اسباب ہیں، جنہیں مندرجہ ذیل نکات سے سمجھا جاسکتا ہے:
(۱) ایجوکیشن ڈیولپمنٹ انڈکس(EDI)کی رپورٹ کے مطابق نارتھ انڈیا کے تین بڑے صوبے اترپردیش، بہار اور جھارکھنڈ تعلیمی ترقی کے میدان میں سب سے نیچے آتے ہیں، جن میں بہار۴ء، اترپردیش ۵۸۶ء، اور جھارکھنڈ ۴۹ء ہیں۔
(۲)بھارت میں تعلیم کا تناسب ۲۰۱۱ ء کے مطابق ۰۴ء۷۴ ہے، جس میں ملک کے تین بڑے صوبے اترپردیش، بہار اور جھارکھنڈ ایسے ہیں جن میں تعلیم کا تناسب سب سے کم ہے۔ جن میں اترپردیش ۷ء۶۹، بہار۸ء۶۳، اور جھارکھنڈ ۶ء۶۷ ہے، جو دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
(۳) نارتھ انڈیا کے ان تین بڑے صوبوں میں تعلیمی اداروں کی بہت ہی زیادہ کمی پائی جاتی ہے، نیز ان صوبوں کے ہزاروں طلبہ کو تعلیم کے لیے دوسرے صوبوں کی طرف جانے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔
(۴) نارتھ انڈیا کے ان تین بڑے صوبوں میں سیاسی اتھل پتھل کا ماحول بہت زیادہ ہے، جس کے سبب کوئی بھی سرکار تعلیم کے میدان میں کوئی ٹھوس قدم اٹھاپانے میں ناکام ہوتی ہے۔
(۵) ان صوبوں میں سیاسی انتشار کے سبب تعلیم کا میدان سب سے زیادہ متأثر ہوتا ہے، نیز تعلیمی ادارے گندی سیاست کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
(۶) تعلیم کا نجی کرن (پرائیوٹائزیشن) بھی ان صوبوں میں بہت تیزی سے بڑھا ہے، جس کے سبب ان علاقوں میں عام لوگوں کے لیے تعلیمی مواقع مشکل یا ناممکن الحصول بنتے جارہے ہے۔
(۷) نارتھ انڈیا کے ان صوبوں میں میں مائناریٹی اداروں کی بھی کمی پائی جاتی ہے جس کے سبب اقلیتی طبقے اپنی روایات اور اقدار کے ساتھ تعلیم کے حصول میں ناکام ہوتے ہیں۔
اس طرح کے بہت سے اسباب ہیں جن کو سامنے رکھ کر ایس آئی او نارتھ انڈیا کے لیے ایجوکیشن موومنٹ چلارہی ہے۔
اس ایجوکیشن مہم کی مدت کیا ہوگی، یہ کتنے دن تک چلے گی؟
ایس آئی او کی ایجوکیشن موومنٹ کوئی مہم نہیں ہے کہ جس کی مدت متعین کی گئی ہو، بلکہ یہ ایک تحریک ہے اور کسی بھی تحریک کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مستقل اور لگاتار جدوجہد کرتی ہے۔ کسی مہم کا ہدف لوگوں میں بیداری لانا ہوتا ہے، لیکن ایک تحریک نظام میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ چونکہ ایس آئی او اس ایجوکیشن موومنٹ کے ذریعہ تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا چاہتی ہے، اور ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی بڑی تبدیلی ایک لمبی جدوجہد اور ایک طویل وقت چاہتی ہے۔ ایس آئی او اس ایجوکیشن موومنٹ کے ذریعہ تعلیمی نظام میں تبدیلی کے لیے ایک طویل اور مستقل جدوجہد کے لیے تیار ہے۔
ایس آئی او اس ایجوکیشن موومنٹ کو چلانے کے لیے خود کو کتنا تیار پاتی ہے؟
ایس آئی او اس موومنٹ کو چلانے کے لیے پوری طرح تیار ہے، اور کام کا آغاز بھی ہوچکا ہے، ایس آئی او کی مرکزی سیکریٹریٹ نے اس موومنٹ کو منظم انداز سے اور بڑے پیمانے پر آگے بڑھانے کے لیے سات ممبران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی ہے، اس ٹیم میں ایسے ممبران شامل ہیں جنہیں نارتھ انڈیا میں کام کا اچھا تجربہ حاصل ہے، نیز یہ تنظیم کی مختلف ذمہ داریوں کو نبھا چکے ہیں، اس ٹیم کے ذریعہ سے ایس آئی او اس موومنٹ کو آگے بڑھائے گی۔ اس کمیٹی نے ایک روڈ میپ بھی تیار کیا ہے۔ جو زونس کو دیا جائے گا، نیز اس روڈ میپ کے ذریعہ زونس اپنی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے موومنٹ کو آگے بڑھائیں گے۔
تعلیم کا میدان بھارت میں بڑا پھیلاؤ کا شکار ہے اور اس میں پائے جانے ولاے مسائل بھی اتنے ہی پھیلااؤ کا شکار ہیں، ایسے میں ایس آئی او کا ان سبھی مسائل سے ایک ساتھ مقابلہ کرنا کہاں تک ممکن ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح تعلیم کا میدان پھیلاہوا ہے ، اسی طرح اس میں پائے جانے مسائل بھی پھیلے ہوئے ہیں، پرائمری ایجوکیشن، اسکول ایجوکیشن، نیزہائرایجوکیشن کے الگ الگ مسائل ہیں، کسی بھی تنظیم یا تحریک کا ایک ساتھ اتنی ساری مشکلات اور مسائل کو سلجھانا یا حل کرنا بہت زیادہ کٹھن کام ہے، اس کے لیے ایس آئی او کی مرکزی سکریٹریٹ کے ذریعہ تشکیل کردہ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس موومنٹ میں ابھی صرف پرائمری ایجوکیشن اور اس سے جڑے مسائل ہی کو ایڈریس کیا جائے گا۔ اس میں پرائمری کے اساتذہ اور ان سے جڑے ہوئے مسائل کو بھی شامل کیا گیا ہے، نارتھ انڈیا میں اس وقت پرائمری ایجوکیشن سے جڑے ہوئے بے شمار مسائل ہیں جن کو اس موومنٹ کا حصہ بنایا جائے گا، اور ان کے حل کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ 2n2