رابعہ عدویہ کا خوش نصیب میدان

0

مصر میں پولیس اور فوج کی خونی بربریت کا سلسلہ جاری ہے، ہوسکتا ہے کچھ اور دنوں تک نہتے مظاہرین پر بے دریغ گولیاں برسانے کا یہ سلسلہ چلتا رہے، یہ صورتحال بے حد شرم ناک ہے لیکن تعجب خیز نہیں ہے، کیونکہ اقتدار کی ہوس اور طاقت کے نشے میں چور ظالموں نے تاریخ کے ہر دور میں انسانی خون کو ارزاں ، اور انسانی وجود کو حقیر سمجھا ہے۔ شام کے خونی درندوں کو تو ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قتل کرکے بھی اب تک تشفی نہیں ہوئی۔ لیکن مصر کے حق پرست جیالے جس طرح امن کا پرچم اٹھائے آزادی اور حقِ جمہورکی بحالی کے لئے پرامن طریقوں سے خون کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، وہ دنیا کے ہر حق پسند اور آزادی دوست انسان کے لئے قابل رشک ہے۔
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
مغرب کا یہ دعوی ہے کہ اس نے انسانی دنیا کو جمہوریت اور حقوق انسانی کا درس دیا، یہ دعوی کہاں تک درست ہے اس سے قطع نظرمصر کے اخوانیوں نے ساری دنیا کو یہ مشکل سبق بھی سکھایا کہ برستی ہوئی گولیوں کے باوجود آزادی ،جمہوریت اور حقوق انسانی کی حفاظت کے لئے پر امن کوششیں کیسے کرتے ہیں، پرامن دھرنے کیسے دیتے ہیں اور پرامن مظاہرے کیسے کرتے ہیں ، لاکھوں لوگوں کے تائید میں جمع ہوجانے کے باوجود اعلی اخلاقی اقدار کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کس طرح کرنا ممکن ہوتا ہے،گولیوں اور بموں کا استقبال بے زرہ سینوں سے کس طرح کیا جاتا ہے۔دوسروں کا خون بہا کر اپنے نظریہ کو غلبہ و اقتدار عطا کرنا تو عام سی بات ہے، کمال تو یہ ہے کہ اپنے نظریہ کو اپنے خون سے سیراب کیا جائے۔انسانی تہذیب وتمدن کی تاریخ جب کوئی انصاف پسند مورخ لکھے تو اسے رابعہ عدویہ کی میدانی درسگاہ کا نام ضرور لکھنا چاہئے۔
اخوان المسلمون کی قربانیوں کی تاریخ طویل اور بھرپور ہے، اللہ نے انہیں شہادت کے اعزاز و انعام سے بھی خوب خوب نوازا ہے، ان کے لئے دنیا ایک قربان گاہ اور پوری زندگی ایک عید قرباں کا دن ہے۔ان کی تمام تر جدو جہد (ارنا مناسکنا )کی عملی تعبیر ہوتی ہے۔
موجودہ صورتحال میں اللہ پاک کے اخوان المسلمون پر بہت زیادہ انعامات ہوئے، حق کی حفاظت اور ظلم کے سد باب کے لئے گھر سے نکل پڑنے کی توفیق مل جائے ، یہ بھی اللہ کا انعام ہے، حق کے علم برداروں کے دل کی بے چینی اور سوز وتپش کروڑوں انسانوں کے دلوں میں منتقل ہوجائے، یہ بھی اللہ کی نصرت کا مظہر ہے، جن کے خلاف ضمیر فروش میڈیا بدنام کرنے کے سارے ہتھکنڈے استعمال کرڈالے ان کے لئے دنیا بھرکے آزادی پسند انسانوں کے دلوں میں محبت اور ہمدردی پیدا ہوجائے یہ بھی توفیق ایزدی ہے۔بہت امید ہے، اور اللہ کی قدرت سے بعید نہیں کہ آزمائشوں کا دور ختم ہو، ظلم کا خاتمہ ہو، ظالموں کو سزا ملے،مظلوم جسموں کے زخم بھر جائیں، شہید اقربا کی جدائی کا غم دھندلا ہوجائے، آزادی کا ڈنکا بجے، اور حق کو باطل پر فتح نصیب ہو۔
آزادی کے شیدائیوں پر اللہ کا ایک بڑا انعام رابعہ عدویہ کے میدان میں جمع ہونا تھا، اس میدان کے نصیب ایسے روشن ہوئے کہ وہ بدرو احد اور حنین و کربلا کی مبارک فہرست میں شامل ہوگیا، جن سعید نفوس نے ماہ رمضان اس میدان میں گذارا ان کی خوش نصیبی کا کیا کہنا، عہد رسالت اور دور صحابہ کے بعد ایسی روح پرور اور ایمان افروز محفلیں بہت کم سجائی گئی ہیں، رابعہ عدویہ کے میدان میں وہ لاکھوں لوگوں کا دھرنا نہیں تھا بلکہ ایمانی تربیت کا گہوارہ تھا کہ معرفت کے پیاسے خوب خوب سیراب ہوئے۔شیخ کامل ہو اور جوہر قابل تو سلوک کی منزلیں برسوں کے بجائے دنوں میں طے ہوتی ہیں،اور یہاں تو وقت کے معتبر ترین کاملین و عارفین جمع تھے، اور سیکھنے والوں میں تڑپ ایسی کہ نہ روزہ کی شدت کا احساس نہ موسم کی سختی کی پرواہ، اور نہ سر پر منڈلاتے ہوئے جنگی جہازوں اور گھات میں بیٹھے ہوئے اسلحہ برداروں کی فکر، بس ایک دھن کہ ایمان کی حلاوت نصیب ہوجائے، ایک تمنا کہ شہادت کا مقام حاصل ہوجائے، ایک مقصد کہ انسان انسانوں کی غلامی سے آزاد ہوجائے، ایک حیرت کہ انسان جب اپنے لئے آزادی پسند کرتا ہے تو دوسرے انسانوں کو غلام کیوں بنانا چاہتا ہے، ایک فکر کہ مسلم دنیا کے انسانوں کو حقوق انسانی اور مسلم جمہور کو حق جمہور کیسے اور کب حاصل ہوگا۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلم دنیا میں مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی وہ آزادی کب حاصل ہوگی جو دنیا بھر کے انسانوں کو اپنے نظریات پر عمل کرنے کے سلسلے میں حاصل ہے۔
رابعہ عدویہ کے ایمان افروز ماحول نے ایک ماہ رمضان میں لاکھوں کی تعداد میں جو حق کا شعور رکھنے والے اور حق سے محبت کرنے والے تیار کئے ، دنیا بھر کی وہ خانقاہیں اور تربیت گاہیں کیسے تیار کرپائیں جہاں نہ ایمان کی حرارت ہے نہ یقین کا سوز، کجا وہ امام وخطیب کہ جن کے خطبے منبر پر آنے سے پہلے شاہی دربار سے منظوری لیتے ہیں، اور جن کی دعائیں عرش الہی کی طرف جانے سے پہلے یہ اطمینان کرلیتی ہیں کہ یہودیوں کے غلاموں کو ان دعاؤں پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے۔
رابعہ عدویہ کے میدان میں چشم فلک نے ایثار وقربانی کے وہ مناظر دیکھے جو آج کی خود غرض دنیا کے لئے بالکل انوکھے تھے، سخت دھوپ میں خود سایہ چھوڑ کر اپنے ساتھیوں کو سائے میں جگہ دیتے، افطار وسحری میں ساتھیوں کو کھلاکر خود سیری محسوس کرتے، گولیوں سے لاپرواہ ہوکر اپنے زخمی ساتھیوں کو اٹھانے کے لئے دوڑ پڑتے، قائد عظیم محمد بلتاجی کی سترہ سال کی بیٹی شہید ہوجاتی ہے، تو بھی عزیمت سے روشن جبین پر کوئی غم کا سایہ نہیں آتا،کہ شہداء کی روحیں تو رحمان کے یہاں شاداں وفرحاں حاضری دے رہی ہوں گی۔ان جیالوں نے میدان احد کے زخموں سے چور مجاہدوں کی یادبھی تازہ کردی کہ روز گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں اور روز پچھلے زخموں سے لاپرواہ ہوکر ظالموں کے تعاقب میں خالی ہاتھ نکل پڑتے ہیں۔
رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے
ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے
رابعہ عدویہ کے میدان میں قرآن مجید کی تلاوت ہوتی تھی تو لگتا تھا کہ قرآن مجید کا نزول ہورہا ہے، دعائیں مانگی جاتی تھیں تو ہر دعا بے شمار آنسوؤں کے زیورسے آراستہ ہوکر اللہ کے دربار میں جاتی تھی، نعرے لگائے جاتے تھے تو لگتا تھا کہ فرشتے بھی ساتھ ساز میں ساز ملانے کے لئے اتر آئے ہیں، ہم تو تصویریں اور ویڈیو کلپس دیکھ کر اپنے اندر ایک کروٹ اور ایک تبدیلی محسوس کرتے تھے، جو وہاں صبح شام صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھ رہے تھے ان کے دل میں زندگی کے کتنے سورج طلوع ہوئے ہوں گے کبھی نہیں ڈوبنے کے لئے۔
آہ ، زندگی بھر افسوس رہے گا کہ اپنی زندگی میں ایسی روح پرور محفل منعقد ہوئی ایک ماہ سے زیادہ سجی رہی اور وائے محرومی کہ اس میں حاضری نہ دے سکے، ایسی محفلیں تو صدیوں میں کبھی کبھی سجا کرتی ہیں۔ ظالموں نے اس میدان کو تو اجاڑ دیا، لیکن اس میدان میں ایمان افروز تقریروں،آزادی اور امن کے نعروں،آنسووں کے قطروں ،خون کے فواروں اور آہ سحر گاہی کے نغموں سے سجائی گئی محفل کے تابناک نقوش صدیوں تک آزادی اور امن کے دیوانوں کا راستہ روشن کرتے رہیں گے۔ 2n2

 

محی الدین غازی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights