تعلیم اپنے آپ کو پہچاننے سے لے کر کائنات کی وسعتوں کے ادراک کا نام ہے۔ ماہرین تعلیم نے اس کی مختلف تاویلیں پیش کی ہیں۔ جان ڈیوی کے مطابق ’’تعلیم تجربات سے سیکھنے کا ایک مستقل عمل ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق ’’تعلیم انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے مکمل ارتقاء کا نام ہے اور یہ تاعمر جاری رہنے والا عمل ہے‘‘۔ سطور بالا کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم تجربات سے فائدہ اٹھانے، غوروفکر کرنے اور اپنی صلاحیتوں کے ارتقاء کا ایسا عمل ہے جو ساری عمر جاری رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کا ہر فرد کچھ منفرد تجربات اور صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ اب یہ معلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ طالب علم کی ان چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچانے اور ان کو جلا بخشنے میں معاون ثابت ہو۔
تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت حضرت آدمؑ کی برتری محض علم کی وجہ سے ہوئی، اور وہ نوری مخلوق (فرشتوں) کے مقابلے میں بزرگ تر قرار پائے (وعلم آدم الاسماء کلہا ثم عرضھم علی الملائکۃ)۔ موجودہ نظام تعلیم معیاری زندگی کے نام پر سب کچھ دیتا ہے۔ لیکن خدا سے تعلق کو کم زور تر کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نام نہاد تعلیم یافتہ حضرات بھی ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ رائج الوقت فلسفہ تعلیم درج ذیل مقاصد کے تحت تعلیم کا عمل انجام دیتا ہے۔
(۱)خودشناسی، (۲) کائنات کی حقیقت کا ادراک، (۳) انسان کی حقیقت کا ادراک، (۴) زندگی کی حقیقت، (۵) سچ کی جستجو
لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ رائج الوقت نظام تعلیم ان فطری سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام تعلیم سے جو افراد کسب علم کررہے ہیں وہ اپنے آپ کو بھی نہیں پہچانتے اور ان کاموں میں حصہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں سے میل نہیں کھاتے۔
خودشناسی کے نہ ہونے سے یہی ہوتا ہے
جن کو فنکار نہ بننا تھا وہ فنکار بنے
اسلام کے نزدیک معیاری تعلیم وہ ہے جس کے نتیجے میں انسان خودشناسی اور خدا شناسی سے ہمکنار ہو، ورنہ تعلیم اس کے رویے کو تبدیل نہ کرسکے گی۔ اور حالت یہ ہوگی کہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہ گئی
نادان کا الٹا بھی تو نادان رہا
اسلام ماں کی گود کو بنیادی درس گاہ قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ہماری ماؤں اور بہنوں کو اسلامی اقدار کا قدرشناس ہونا لازمی ہے۔ حصول علم کے سلسلے میں خاندان کے ادارے کی اہمیت خاصی ہے۔ چونکہ بچہ بنیادی طور سے جینے کا سلیقہ یہیں سے سیکھتا ہے۔
اسلام کے نزدیک تعلیم کا مقصد ایسے صالح افراد کی تیاری ہے جو سماج کی تعمیرنو میں معاون ثابت ہوں۔ جو برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ اور بھلائیوں کے فروغ کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو لگادینے کے لیے تیار ہوں۔ اسلام تعلیم کے ذریعے ایسے افراد کی تیاری چاہتا ہے جو کہ انسانیت کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہوں اور اپنے پہلو میں دلِ بے قرار لیے ہوئے ہوں۔
اسلام ایسے معلمین تیار کرتا ہے جو محض چاردیواری کے اندر درس وتدریس کا کام نہ کرتے ہوں بلکہ اپنے طلبہ کے لیے بیک وقت سرپرست، مربی اور مزکی کا کردار بھی ادا کریں۔ جو اپنے طلبہ کے لیے جیتا جاگتا اور قابل تقلید نمونہ ہوں۔ اور اپنے طلبہ کی پریشانیوں سے واقف ہوں۔ اور انہیں حل کرنے کی جانب توجہ دے سکیں۔
قرآن کسب علم کے دو ذرائع کی جانب رہنمائی کرتا ہے، غوروفکر اور سابق اقوام کے تجربات۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی حصول علم کے یہی دو معروف ذرائع ہیں۔ چنانچہ تحریک اسلامی کے افراد کو چاہیے کہ غوروتدبر کے ذریعے جدید مسائل کا حل تلاش کریں، مدبرین سے استفادہ کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں، فروغ علم کا یہی فطری طریقہ ہے، اور معرفت الٰہی کا واحد راستہ بھی۔
مقام فکر ہے پیمائش زمان ومکاں
مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلی
بحیثیت خیرامت اور بحیثیت ایک طالب علم یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ رائج الوقت نظام تعلیم کی قدر کریں۔ اسلام کے نظام تعلیم کی حقانیت اور افادیت کو بحث کا موضوع بنائیں، اپنے رفقائے درس کو زندگی کی حقیقت سے روشناس کرائیں اور علم نافع کی برکات اور علم غیرنافع کی تباہیوں سے آگاہ کریں۔ موجودہ علوم طبعی اور سماجی علوم کا ناقدانہ مطالعہ کریں، ان کے نفع بخش اجزاء اور نقصان دہ اجزاء کے درمیان خطِ امتیاز کھینچیں، یقینا یہ کام بہت عرق ریزی اور نظر چاہتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کارِخیر کو انجام دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
از: محمد معاذ