علم نافع اور نظامِ تعلیم

0

انسانی تمدن کی تاریخ جتنی پرانی ہے غالباً تعلیم اور نظامِ تعلیم کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ ہر دور کے انسانوں نے آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس کی ہے اور اس ضرورت کی تکمیل کے لیے انفرادی و اجتماعی سطح پر انتظامات کیے ہیں۔ انسانی سماج میں پائے جانے والے تنوع کا عکس نظامِ تعلیم میں بھی نظر آتا ہے۔ چنانچہ ماضی اور حال کا جائزہ لیں تو نظام ہائے تعلیم کی بہت سی قسمیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اس تنوع کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ عموماً کسی تعلیمی نظام کے پیشِ نظر تین مقاصد ہوتے ہیں:
(الف) طلباء کو معلومات فراہم کرنا
(ب) اُن کی صلاحیتوں کی نشوونما
(ج) انسان و کائنات کے بارے میں ایک متعین نقطۂ نظر کی فراہمی اور اس کے مطابق طلبا کی شخصیت کی تعمیر۔
مختلف نظام ہائے تعلیم کے درمیان فرق ان تینوں مقاصد کے فہم میں اختلاف کی بنا پر ہوتا ہے۔ مثلاً طلباء کو کیا معلومات فراہم کی جائیں، ان میں زیادہ اور کم اہمیت کے اعتبار سے کیا ترتیب قائم کی جائے؟ کن صلاحیتوں کی نشوونما مقصود ہے۔ انسان اور کائنات کے بارے میں نظامِ تعلیم کو ترتیب دینے والوں کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ وغیرہ
آج کا غالب نظامِ تعلیم:
غالب نظامِ تعلیم سے مراد وہ نظام ہے جو حکومتوں کے تحت قائم ہے یا جسے طاقتور پرائیویٹ ادارے چلا رہے ہیں جن کے پیشِ نظر مخصوص ثقافتی اور تجارتی مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ نظامِ تعلیم اس فکری رجحان سے ہم آہنگ ہے جس کا آغاز مغربی دنیا کے صنعتی انقلاب سے ہوا تھا اور جس نے مذہب اور مذہبی تصورات سے بے نیازی کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی تعمیر کی کوشش کی تھی۔ ہندوستان کا موجودہ نظامِ تعلیم یہی رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس غالب نظامِ تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے اُن تین مقاصد کو سامنے رکھا جاسکتا ہے جن کا تذکرہ سطورِ بالا میں کیا جاچکا ہے۔
سب سے پہلے معلومات کے حصول کو لیجیے۔ معلومات کے سلسلے میں انسانی ذہن کی پرواز کی کوئی حد نہیں ہے۔ انسانی جذبہ تجسس اپنے دائرے میں اُن تمام موضوعات کو لے لیتا ہے جن تک تخیئل انسانی کی پہنچ ہوسکتی ہے۔ تاہم مغربی فکری و ثقافتی رجحان نے اس دائرے کو محدود کیا ہے اور خود معلومات کے درست ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی بحث کرکے بعض معیارات قائم کیے ہیں۔ ان مباحث کی جھلک موجود نظامِ تعلیم میں دیکھی جاسکتی ہے۔
انسان جن موضوعات سے دلچسپی رکھتا ہے ان میں ایک موضوع عالمِ غیب ہے۔ آج کا غالب نظامِ تعلیم اس موضوع کو یکسر نظر انداز کرتا ہے۔ چنانچہ یہ سوالات عموماً اس نظامِ تعلیم میں زیرِ بحث نہیں آتے کہ خدا ہے یا نہیں۔ ہے تو ہم انسانوں سے اس کا کیا تعلق ہے۔ کیا انسان ہدایتِ الٰہی کا محتاج ہے؟ یہ ہدایت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟ کیا انسان کی زندگی کی روحانی تعبیر کی جانی چاہیے یعنی کیا انسان کی زندگی کا کوئی ایسا مقصد بھی ہے، جسے روحانیت سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔ موت کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کی ماہیت کیا ہے؟ کیا انسان اپنے کاموں کے لیے انسانوں کے خالق کے سامنے جوابدہ ہے؟ اس جوابدہی کی صورت کیا ہے اور انسان سے اس امر واقعہ کے تقاضے کیا ہیں؟ انسانی روح کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا انسانی وجود سے کیا تعلق ہے؟ کیا انسان کے علاوہ بھی ایسی باشعور مخلوقات موجود ہیں جو ہماری نظروں سے غائب ہیں مثلاً جن اور فرشتے۔ کیا ان کا انسانوں سے کوئی تعلق ہے؟ وہ انسانوں سے یا انسان اُن سے کس طرح کا ربط قائم کرسکتے ہیں؟ امورِ غیب کے بارے میں جاننے کے قابل اعتماد ذرائع کیا ہیں؟ عالمِ غیب کے حقائق ہماری مادی زندگی پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟ روحانی ارتقاء محض واہمہ ہے یا ایک امرِ واقعہ ہے؟ وغیرہ
کوتاہ بینی
عالمِ غیب سے متعلق مندرجہ بالا استفسارات سے کوئی تعرض نہ کرنے کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کا غالب نظامِ تعلیم ناقص ہے۔ عالمِ غیب کے موضوع سے قریبی تعلق رکھنے والا دوسرا موضوع خود نفسِ انسانی ہے۔ اس موضوع سے آج کا غالب نظام صرف اس حد تک تعرض کرتا ہے کہ انسان کی ذہنی قوتوں کی مادی تعبیر کس طرح کی جائے اور ان قوتوں کی نشوونما کی کیا صورت ہے؟ رہا شخصیتِ انسانی کا روحانی پہلو تو آج کا نظامِ تعلیم اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق انسانی زندگی اور نفسِ انسانی کی تفہیم کے لیے مادی عوامل کا مطالعہ اور اُن کا تجزیہ کافی ہے۔ ان عوامل کے علاوہ کسی ایسی حقیقت کے تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے جس سے نفسِ انسانی کی روحانی تعبیر لازم آتی ہو۔
موضوعات کے یہ دو بڑے دائرے ہیں جن کا ذکر ابھی کیا گیا یعنی عالم غیب اور نفسِ انسانی۔ ان دونوں موضوعات کے سلسلے میں آج کے غالب نظامِ تعلیم کا رجحان منفی ہے یعنی ان موضوعات کو علمی تحقیق و تدریس کا میدان نہیں سمجھا جاتا۔ اس کوتاہ بینی کی بنا پر موجودہ نظامِ تعلیم کے دائرئہ معلومات میں بڑی تنگی پائی جاتی ہے۔
وہ قوم جو فیضانِ سماوی سے ہے محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
عالمِ غیب اور نفسِ انسانی کے علاوہ انسانی تجسس نے جن موضوعات کو قابلِ توجہ سمجھا ہے وہ انسانی سماج اور اشیاء کائنات ہیں۔ پچھلے تین سو سال میں مغربی تہذیب دنیا پر غالب رہی ہے اس کا سرمایہ علم زیادہ تر ان دو موضوعات پر مشتمل ہے۔ ان موضوعات پر علمی تحقیق و جستجو کی مرکوزیت کی وجہ واضح ہے۔ انسانی معاشرہ اور اشیاء کائنات کا مطالعہ — حواس اور عقل کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے چنانچہ مغربی تہذیب جو غیب کے انکار یا عالم غیب سے بے اعتنائی کا طاقتور رجحان رکھتی ہے (اور محض حواس و عقل پر انحصار کرتی ہے) ان دو دائروں کو انسان کی علمی کاوشوں کے لیے موزوں میدان تصور کرتی ہے۔
تاہم انکارِ غیب سے جو بے اعتدالی پیدا ہوتی ہے، اس نے ان دائروں کی حد تک بھی صحیح معلومات کے حصول کو مشکل بنادیا ہے۔ انسانی سماج کے مطالعے کے لیے روایتی سائنسی طریقِ کار پر جامد اصرار، اس بے اعتدالی کا شاخسانہ ہے۔ اسی بنا پر انسانی وجود کے اخلاقی پہلو کو ایک مؤثر سماجی عامل نہیں سمجھا جاتا۔ اس بے اعتدالی نے طبعی سائنس کے ارتقاء کو بھی متاثر کیا ہے جو اکیسویں صدی کی ابتداء تک آتے آتے ایک حد پر آکر رک گیا ہے۔ جب تک طبعی سائنس کے طریقِ کار میں اشیاء کو محض اجزاء کا مجموعہ سمجھنے کے رجحان (Reductionism)کے پہلو بہ پہلو، اشیاء کی کلی تفہیم (Wholism)کے طریقے کو تسلیم نہیں کیا جاتا، طبعی سائنس کی مزید ترقی مشکل نظر آتی ہے۔
انسانی صلاحیتیں:
معلومات کی فراہمی، نظامِ تعلیم کا ایک مقصد ہے۔ اس مقصد کے حصول کے اعتبار سے آج کا غالب نظام، ناقص ہے اس لیے کہ وہ علم کے دو بڑے دائروں — عالمِ غیب اور نفسِ انسانی — کو یکسر نظر انداز کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جن موضوعات سے اس غالب نظام نے تعرض کیا ہے یعنی انسانی سماج اور اشیاء کائنات — اُن کے سلسلے میں اس کا علمی طریقِ کار، بے اعتدالی کا شکار ہے۔ یہ بے اعتدالی اب اپنی انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ چنانچہ مغرب کا فکری ارتقاء تقریباً رک چکا ہے اور اس کے بحر کی موجوں میں اب کوئی اضطراب نظر نہیں آتا۔
کسی نظامِ تعلیم کا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلباء کو علمی وفنّی مہارتیں (Skills)سکھادی جائیں مثلاً پڑھنا، لکھنا، حساب، اظہارِ خیال، مشاہدہ، استدلال، مباحثہ، مذاکرہ وغیرہ۔ آج کے دور میں یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ طلباء جدید الیکٹرانک ذرائع سے معلومات اخذ کرنا بھی سیکھیں اور انسانی علوم کے طلباء سروے کرنے اور سماجی احوال کا مشاہدہ کرنے کے طریقے جانتے ہوں۔ طلباء کے اندر مہارتوں کے حصول کے اعتبار سے آج کے غالب نظامِ تعلیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے، کارکردگی کے معیار میں بہت نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ غالب نظام کا جو حصہ حکومت کے تحت ہے، اس کے بیش تر اسکول اور کالج پست معیار کے حامل ہیں، چنانچہ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے ضروری مہارتیں حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں یہ خبریں اخبارات میں آچکی ہیں کہ طلباء — زبان سکھانے والی ابتدائی کتب کو پڑھنے میں ناکام رہے اور آسان حسابی سوالات کو حل نہ کرسکے۔ یہاں تک کہ بہت سی جگہوں پر اساتذہ بھی ناواقف پائے گئے۔ آبادی کا بڑا حصہ جو غریب ہے، اس سرکاری نظامِ تعلیم سے استفادے پر مجبور ہے، چنانچہ علمی و فنّی میدانوں میں مہارت پیدا کرنے سے طلباء قاصر رہتے ہیں۔ ڈگری انہیں مل بھی جائے تب بھی صلاحیت پیدا نہیں ہوپاتی۔
دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں جن میں بہت سے اداروں کا معیار بہتر ہے۔ یہاں کے طلباء علمی و فنّی صلاحیتوں کے ارتقاء میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن یہ ادارے مہنگے ہیں۔ فیس، کتابوں و اسٹیشنری کی قیمت، یونیفارم کا خرچ، آمدورفت کے اخراجات اور عطیہ(Donation)کے نام پر لی جانے والی رقوم وہ چند مدات ہیں، جن کے تحت طلباء کے سرپرستوں کو زرِ کثیر صَرف کرنا پڑتا ہے، تب جاکر اُن کے بچے اور بچیاں اس قابل ہوتی ہیں کہ اپنی مہارت (Skill) کااستعمال کرسکیں۔یہ صورتِ حال اب پورے ملک میں عام ہوچکی ہے اور سماجی انصاف کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیم کے اس تجارتی رخ— (Commercialization of Education) کے مضر اثرات کا مشاہدہ سماجی مبصرین نے کرلیا ہے اور اس پر اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں۔
اس جائزے کا خلاصہ یہ ہے کہ غالب نظامِ تعلیم — انسانی صلاحیتوں کے ارتقاء کا موقع صرف اصحابِ ثروت کو فراہم کرتا ہے۔ غریب ان مواقع سے محروم رہتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے افکار میں انسان دوستی، انصاف پروری اور ازالہ محرومی کے جو اچھے رجحانات موجود تھے،آہستہ آہستہ اُن پر خود غرض مادہ پرستی اور انسانیت کُش سرمایہ دارانہ نظام نے غلبہ پالیا ہے۔ اس ناپسندیدہ صورتحال کی پوری عکاسی نظامِ تعلیم میں نظر آتی ہے۔
طلباء کی شخصیت:
تعلیم کا تیسرا مقصد —شخصیت کی تعمیر ہے۔ موجودہ غالب نظامِ تعلیم پر جو رجحان چھایا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طلباء کو کارگر انسان (Efficient Individual)بنایا جائے جو کسی کمپنی یا اجتماعی ادارے کا اچھا پرزہ (Component)ثابت ہوسکیں۔ یقینا اس نظام میں بسا اوقات انسان کی ہمہ گیر شخصیت (Total Personality)کا بھی تذکرہ ہوتا ہے، لیکن اس تذکرے کا مقصدصرف اتنا ہے کہ متعلق شخص ایک اچھا منیجر یا ایک اچھا انجینئر ہونے کے علاوہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھنے والا ہو، بیوی بچوں کو وقت دے اور ذہنی تناؤ(Tension)سے بچنے کے ذرائع اختیار کرے تاکہ وہ ایک اچھے پرزے (Tool)کی حیثیت سے کمپنی یا ادارے کے لیے زیادہ عرصے تک کارآمد ثابت ہو۔ جامع شخصیت کے اس تصور میں اخلاقی قدریں بطورِ مقصود داخل نہیں ہیںاور نہ روحانی ارتقاء کے امکان کو تسلیم کیا گیا ہے۔ طلباء اپنے گردوپیش کے ماحول میں جن انسانی نمونوں کو دیکھتے ہیں اور جن سے متاثر ہوتے ہیں وہ سب مادہ پرستی میں غرق نظر آتے ہیں۔ چونکہ طلباء کی شخصیت کی تشکیل میںرائج رجحانات اپنا ثر ڈالتے ہیں اس لیے طلباء کے تخیل میں ایک مثالی (Ideal)شخصیت ابھرتی ہے جو ایک فعال(Active)انسان کی ہوتی ہے، ایک صالح، انصاف پسند، اخلاقی اقدار کے قائل، خدا پرست شخص کی شبیہ اُن کے ذہن میں نہیں آتی۔
غالب نظامِ تعلیم کا درجِ بالا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ یہ نظام ناقص ہے اور اس کے اندر بے اعتدالی بھی موجود ہے۔ مثلاً انسانی وجود کے روحانی پہلو کا ادراک کرنے سے یہ نظام قاصر ہے اور انسان کے اخلاقی وجود سے بھی بہت کم تعرض کرتا ہے۔ اس نظام میں بلاشبہ بعض انسانی صلاحیتوں کے ارتقاء کا انتظام کیا گیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی غلبے کی بنا پر صرف مالدار طبقے ہی اس کا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک کی حد تک غریب و امیر کا یہ تفاوت بہت نمایاں ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ، اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ کوتاہ بینی، بے اعتدالی، روحانیت کا انکار اور اخلاقی تصورات کی محدودیت غالب نظامِ تعلیم کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات نے اس کے عملی ڈھانچے کو سماجی عدم مساوات میں اضافے کا سبب بنادیا ہے۔ چونکہ اچھے عملی نمونوں سے سماج عموماً اور نظامِ تعلیم بالخصوص محروم ہے، اس لیے طلباء کے سامنے کوئی مثالی شخصیت نہیں ہوتی جس سے ان کے اندر تعمیرِ کردار کی امنگ پیدا ہوسکے۔
اس جائزے کے بعد اب ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ غالب نظامِ تعلیم کے مقابلے میں اسلام نے کیا تصور پیش کیا ہے۔ (جس میں علمِ نافع کی اصطلاح کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔)
علمِ نافع اور مضر معلومات کا فرق:
اسلام نے انسان کی امتیازی خصوصیات میں علم کو شمار کیا ہے۔ تاہم جہاں تک علم کے لغوی معنی (یعنی سیکھنے) کا تعلق ہے، انسان ایسی باتیں یا ایسے کام بھی سیکھ سکتا ہے جو اس کے لیے نقصاندہ ہوں۔ اس لیے علم کو مطلقاً — خیر نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ اس کا نافع ہونا، اس کے باعثِ خیر ہونے کے لیے لازم ہے۔ نافع ہونے کی صفت کا اطلاق انسانی زندگی کے ہر پہلو پر کیا جاسکتا ہے۔ انسان کی مادی منفعت بھی مطلوب ہے اور اس کے اخلاقی و روحانی ارتقاء میں ممد معلومات بھی درکار ہیں۔ اس طرح انسانی شخصیت اور سماج کے لیے مفید علوم پسندیدہ قرار پائیں گے۔ قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے ایک واقعے کا تذکرہ کیا ہے جس میں اُن کی آزمائش کی گئی تھی۔ اپنے اخلاقی زوال کی بنا پر بنی اسرائیل ایک ایسے فن کو سیکھنے کے شائق ہوگئے تھے جس سے شوہر اور بیوی کے درمیان کشیدگی پیدا کی جاسکتی تھی۔ اس فن کے موثر یا غیر مؤثر ہونے سے قطع نظر، یہ کام بہت قبیح تھا اور انسانی سماج کے لیے انتہائی نقصاندہ تھا۔ قرآن کہتا ہے:
وَلَمَّا جَاء ہُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ کِتَابَ اللّہِ وَرَاء ظُہُورِہِمْ کَأَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ o وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّیَاطِیْنُ عَلَی مُلْکِ سُلَیْْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْْمَانُ وَلَـکِنَّ الشَّیْْاطِیْنَ کَفَرُواْ یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّی یَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ فَیَتَعَلَّمُونَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِہِ بَیْْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہِ وَمَا ہُم بِضَآرِّیْنَ بِہِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنفَعُہُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَا لَہُ فِیْ الآخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِہِ أَنفُسَہُمْ لَوْ کَانُواْ یَعْلَمُونَo وَلَوْ أَنَّہُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوبَۃٌ مِّنْ عِندِ اللّٰہ خَیْْرٌ لَّوْ کَانُواْ یَعْلَمُونَo
(البقرۃ:۱۰۱-۱۰۳)
’’جب اُن کے (یعنی بنی اسرائیل کے) پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اُس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے یہاں پہلے سے موجود تھی، تو ان اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پسِ پشت ڈالا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ (اللہ کی کتاب کو چھوڑ کر) وہ لگے اُن چیز وں کی پیروی کرنے جو شیاطین — سلیمان کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا۔ کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں – ہاروت اور ماروت پر نازل کی گئی تھی، حالانکہ وہ (فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے، تو پہلے صاف طور پر متنبہ کردیا کرتے تھے کہ ’’دیکھو، ہم محض ایک فتنہ (آزمائش) ہیں، تو کفر میں مبتلا نہ ہو۔‘‘ پھر بھی یہ لوگ اُن سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال سکیں۔ ظاہر تھا کہ اِذنِ الٰہی کے بغیر، وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچاسکتے تھے۔ مگر اس کے باوجود، وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لیے نفع بخش نہیں، بلکہ نقصان دہ تھی اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ کتنی بری متاع تھی جس کے بدلے انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ کاش انھیں معلوم ہوتا! اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے، تو اللہ کے یہاں اس کا جو بدلہ ملتا، وہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ کاش انہیں خبر ہوتی۔‘‘
مندرجہ بالا مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ مضر علوم بھی دنیا میں موجود ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ ان سے بچے اور مفید علوم کو حاصل کرے۔ اسی طرح نظامِ تعلیم ترتیب دینے والوں کو بھی مفید اور مضر علم کے درمیان امتیاز کرنا چاہیے اور اپنے نظام کو ان علوم پر مرکوز رکھنا چاہیے جو نفع بخش ہوں۔
حق و باطل میں امتیاز:
انسانی دنیا میں مختلف افکار، خیالات اور نظریات پائے جاتے ہیں جن کے درمیان کشمکش ہوتی ہے۔ اصلاً یہ کشمکش، حق اور باطل کے مابین ہوتی ہے۔ انسان کی فلاح کے لیے ضروری ہے کہ وہ حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرے اور حق کو اختیار کرے۔ قرآن مجید— حق کی اس خاصیت کو نمایاں کرتا ہے کہ ’’حق‘‘— انسانوں کے لیے مفید ہے اور اس بنا پر انسانی معاشرے میں دوام —حق کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بالمقابل — ’’باطل‘‘ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لیے مضر ہے، اس لیے اُسے بقا نصیب نہیں ہوتی۔
أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْْلُ زَبَداً رَّابِیْاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْْہِ فِیْ النَّارِ ابْتِغَاء حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الأَمْثَالo (الرعد: ۱۷)
’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ، اپنے ظرف کے مطابق اُسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں، جنہیں، زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اس مثال سے اللہ، حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز — انسانوں کے لیے نافع ہے، وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔‘‘
مندرجہ بالا آیت اس اہم حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے کہ حق — نفع بخش ہوتا ہے۔ نظامِ تعلیم کا مقصد اس حقیقت کے ادراک سے متعین ہوجاتا ہے یعنی ایک اچھے نظامِ تعلیم کو علمِ حقیقی کے فروغ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس علمِ حقیقی کی دوسری تعبیر علمِ نافع ہے۔ مزید برآں مندرجہ بالا آیتِ قرآنی یہ بھی بتاتی ہے کہ علمِ نافع کو دنیا میں اور انسانی معاشرے میں دوام حاصل ہوتا ہے۔ زمانے کے کروٹیں بدلنے کے باوجود حق کی کشش مدھم نہیں پڑتی اور انسانی قافلے اس کی طرف رخ کرتے رہتے ہیں۔ حق کے مقابلے میں ہر باطل نظریہ — حالات کے چند تغیرات کے بعد — اپنی چمک دمک کھودیتا ہے اور ایسا مٹتا ہے کہ بسا اوقات تاریخ کے اوراق بھی اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ چنانچہ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق مطلوب علم کی تین خصوصیات — حقانیت، نافعیت اور دوام — ہیں۔ یہ خصوصیات باہم لازم وملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مطلوب نظامِ تعلیم:
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق مطلوب نظامِ تعلیم وہ ہے جو تعلیم کے تینوں مقاصد کو پورا کرے یعنی — درست معلومات کی فراہمی، طلباء کی صلاحیتوں کی نشوونما اور جامع شخصیت کی تعمیر۔ اس سیاق میں، تربیت کو تعلیم سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں جس تعلیمی نظام کو فروغ بخشا تھا، وہ تعلیم اور تربیت دونوں کا نظم کرتا تھا۔ اس نظام میں کلیدی اہمیت انسانوں کو یعنی طلباء اور اساتذہ کو حاصل ہوتی ہے۔ محض خشک معلومات کی مشینی منتقلی، پیش نظر نہیں ہوتی۔ اسلام کے دیے گئے تصور تکریمِ انسانیت کا یہی تقاضا ہے۔ دورِ حاضر میں اس جامع نظامِ تعلیم کے احیاء کی ضرورت ہے۔ عملاً اس کام کو انجام دینے کے لیے مخلص، اہلِ علم اصحاب کو توجہ دینی ہوگی۔ پوری دنیا میں جہاں بھی مسلمان آبادی پائی جاتی ہو، وہاں اسلام کے مطلوب تعلیمی نظام کو ازسر نو زندہ کیا جانا چاہیے۔اگر حکومتوں (بالخصوص مسلم حکومتوں) کے وسائل اس کام کے لیے فراہم ہوجائیں تو یہ سب سے بہتر صورت ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو مؤثر اجتماعی اداروں اور تنظیموں کو نظامِ تعلیم کے احیاء کا کام انجام دینا چاہیے۔
مطلوب نظامِ تعلیم کے احیاء کے لیے چند امور شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(الف) علم اور تعلیم کے اسلامی تصور کی مفصل تفہیم
(ب) مادہ پرستانہ تصورات پر محققانہ تنقید
(ج) اسلامی نقطہ نظر کے مطابق تحقیق کے لیے، مسلمان اصحابِ علم کی آمادگی
(د) علمی و فکری کاوشوں کے لیے درکار اسلامی خطوط اور منہجِ تحقیق کی مسلسل نشان دہی
(ہ) اسلامی ثقافت کی ترجمان، درسی کتب کی تیاری
(و) اساتذہ کی فنّی واخلاقی تربیت کا اہتمام
(ز) تعلیمی و تحقیقی اداروں کے منتظمین کی جامع تربیت کا اہتمام
(ح) تعلیمی اداروں اور تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق اسلامی اقدار کی تفہیم و ترویج
جو تعلیمی ادارے اس وقت، مسلمانوں کے زیرِ انتظام ہیں اُن کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لے کر ان کو مندرجہ بالا معیارات پر لانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ غالباً نئے اداروں کے قیام کے مقابلے میں موجود اداروں کو کارگر، مؤثر اور مفید بنانا — بہتر حکمتِ عملی ہے۔ اس میں وسائل کی بچت بھی ہوتی ہے۔ تاہم ادارے نئے ہوں یا پرانے— وہ اس وقت مسلمانوں اور عام انسانوں کے لیے مفید ہوسکتے ہیں جب مندرجہ بالا شرائط پوری ہوجائیں یعنی تحقیق، علمی کاوش اور تعلیم و تربیت کا اسلامی تصور ذہنوں میں واضح ہوجائے، تعلیمی و تحقیقی کام کن خطوط پر کرنا ہے اس کی نشاندہی ہو۔ اہلِ علم وفکر، تعمیرِ نو کی ضرورت محسوس کرنے لگیں اور احیاء علم کے کام میں اپنی توانائیاں صَرف کرنے پر آمادہ ہوں، پورا معاشرہ ان کوششوں کی تائید اور حوصلہ افزائی کرے اور درکار وسائل فراہم کرے، پھر یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کا ماحول، اسلامی ثقافت کا آئینہ دار ہو اور اساتذہ و منتظمین کی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ مسلمان معاشرے کے وسائل کا وہی استعمال درست ہے جو اسلامی حدود کے اندر کیا گیا ہو۔ اس اعتبار سے مسلم حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نظام تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کریں۔ رائے عامہ کی تربیت کرکے مسلمان حکومتوں کو سمتِ سفر کی اس درستگی کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے تاکہ یہ حکومتیں نظامِ تعلیم کو اسلامی نقطہ نظر سے ہم آہنگ کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اس جانب عملی اقدامات میں حکومتوں کا پورا تعاون کیا جانا چاہیے۔
غالب نظامِ تعلیم سے رابطہ:
جو تعلیمی و تحقیقی ادارے — مسلمانوں کے زیرِ اہتمام ہوں ان کا مقصد، ماحول اور طریقِ کار، اسلامی نقطۂ نظر کاترجمان اور اسلامی ثقافت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے یقین، عزم، جرأت اور کاوش درکار ہے۔ یقینا اس سمت پیش رفت کی ابتدا، ان مخلص احباب ہی کو کرنی ہوگی جو ایمان باللہ کے تقاضے — دورِ حاضر میں پورے کرنے چاہتے ہیں اور انسانی قافلے کو ہدایتِ الٰہی سے روشناس کرانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ مسلمانوں کے اداروں کو اسلامی معیار پر لانے کی یہ کوشش، اسلامی معاشرے کی تعمیر کے جامع عمل کا ایک کلیدی جز ہے اور امت کے نظامِ اجتماعی کی بحالی کی جانب ایک ضروری قدم ہے۔
جب تک مطلوب نظامِ تعلیم قائم اور سرگرمِ عمل ہو، مسلمانوں کو موجودہ غالب نظامِ تعلیم سے ربط رکھنا ہوگا۔ اس ربط کی اہمیت کم نہیں ہے۔ مطلوب نظام کی صورت گری کی طرح یہ ربط بھی منصوبہ بند کوششوں کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ کوشش چند سطحوں پر کرنی ہوگی: معیاری تحقیق، تعلیمی مواقع کی یکسانیت، اخلاقی ماحول کی اصلاح اور متبادل کی فراہمی۔
یہ واقعہ ہے کہ کسی بھی علمی میدان میں اعلیٰ درجے کی تحقیقی کاوشیںاپنا مقام خود تسلیم کرالیتی ہیں۔ نقطہ نظر کے فرق اورتنوع کے باوجود، انسان، ایک دوسرے سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس حقیقت کی بنا پر مسلمان محققین کا ایک ضروری کام یہ قرار پاتا ہے کہ وہ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق عصرِ حاضر کے ضروری موضوعات پر معیاری تحقیق کریں اور اپنے نتائج تحقیق کو عمدہ علمی اسلوب میں پیش کریں۔ یہ تحقیقات اپنا علمی مقام تسلیم کرائیں گی تو اسلامی نقطہ نظر کا تعارف بھی ہوگا اور موجود نظامِ تعلیم کو اسلامی نقطہ نظر کی رعایت کرنے پر آمادہ کیا جاسکے گا۔
تعلیم، کیسی بھی ہو— بہرحال انسان کی صلاحیت وقوت میں اضافہ کرتی ہے اور شخصیت کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس بنا پر تعلیم سے محرومی، مواقع سے محرومی کا سبب بنتی ہے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر، دنیا کی اکثر حکومتیں — تعلیمی مواقع فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ اس دعوے کے باوجود، مواقع میں عملاً یکسانیت موجود نہیں ہوتی۔ آبادی کا بڑا حصہ، غربت و افلاس کی بنا پر تعلیم (مجرد) معیاری تعلیم اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رہتا ہے۔ مسلمانوں کو دنیا کی حکومتوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ تمام شہریوں کو تعلیمی مواقع فراہم کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اداروں کے قیام کے علاوہ ضروری قانونی و انتظامی اقدامات کریں۔
تعلیمی مواقع میں یکسانیت کے علاوہ مسلمانوں کو ان اخلاقی قدروں کی ترویج پر بھی گفتگو کرنی چاہیے جو تعلیمی اداروں کی فضا کو صحت مند رکھ سکتی ہیں یعنی امانت و دیانت، حیاو پاکیزگی، احترامِ انسانیت، عدل و انصاف، سچائی اور ایفائے عہد، عفت و عصمت اور شائستہ اظہارِ رائے کی آزادی۔ یوں تو یہ قدریں پورے سماج کو صحیح رخ پر رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں لیکن خاص طور پر تعلیمی اداروں کی ثقافتی زندگی میں یہ قدریں نظر آنی چاہئیں تاکہ نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے لیے وہ فضا میسر آسکے جس میں انسانیت فروغ پاتی ہے۔
جب تک انسان — اسلامی تصورِ کائنات سے واقف ہوں (تاکہ اُن کا نظامِ تعلیم درست بنیادوں پر استوار ہوسکے) اس وقت تک اُن کو تحقیق، تدریس و تعلیم کی اسلامی قدروں سے تو واقف ہونا ہی چاہیے تاکہ تصورِ کائنات کے نقص کے باوجود، اصلاح احوال کی جانب کچھ قدم اٹھ سکیں۔ ان قدروں میں علم کی نافعیت اور حقانیت— بنیادی قدریں ہیں۔ نظامِ تعلیم کے سربراہوں، اساتذہ اور والدین سب کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ انسانوں کو ایسا علم درکار ہے جو نافع ہو اور جو حقیقت سے مطابقت رکھتا ہو۔ نفع بخش ہونے اور حقیقت سے ہم آہنگ ہونے کی تشریح بہت وسیع اور جامع بھی ہوسکتی ہے اور نسبتاً محدود بھی۔ تاہم محدود تشریح بھی موجودہ نظامِ تعلیم کی خرابیوں میں کمی لاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے اظہارِ خیال میں علمِ نافع اور علمِ حقیقی کی اہمیت دنیا کے سامنے واضح کریں۔ مطلوب نظامِ تعلیم کی طرف پیش قدمی اور موجود نظامِ تعلیم سے ربط— دونوں کام ساتھ ساتھ جاری رہنے چاہئیں تاکہ فی الواقع دنیا، علمِ نافع کی برکات سے مستفید ہوسکے۔

 

از: ڈاکٹر محمد رفعت

1

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights