قومی معیشت کا عالمی تناظر

ایڈمن

قومی معیشت کے حوالے سے عوام میں چاہے جتنی بے چینی پائی جاتی ہو لیکن وزیر خزانہ بے حد مطمئن ہیں۔اگر آپ کیلئے یہ جملہ ناقابلِ یقین ہوتونومبر ۲۰۱۵ء کے اواخر میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیا گیا انٹرویو…

قومی معیشت کے حوالے سے عوام میں چاہے جتنی بے چینی پائی جاتی ہو لیکن وزیر خزانہ بے حد مطمئن ہیں۔اگر آپ کیلئے یہ جملہ ناقابلِ یقین ہوتونومبر ۲۰۱۵ء کے اواخر میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیا گیا انٹرویو دیکھ لیں جس میں معاشی ترقی کے بارے میں پائی جانے والی قنوطیت کو یکسرمسترد کرتے ہوئے ارون جیٹلی نے معاشی بحران اور نشیب و فراز کے اس سال میں ہندوستانی معیشت کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس کی بنیاد خزانے میں آمدنی کا ضافہ بتایا۔ ویسے عوام پراضافی بوجھ ڈال کر زیادہ ٹیکس وصول کرلینا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ میں بیرونی سرمایہ کاری کے بابت چین پر سبقت والی جو خبر آئی تھی اس کی حقیقت یہ تھی کہ وہ اعداوشمار گھریلو پیداوار کے نہیں بلکہ کھپت کے ہیں اور اس سے برآمد کے بجائے درآمد میں اضافہ ہوتا ہے ۔

            گھریلو کھپت کی بنیاد پر یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھاکہ معیشت ۵ء ۷ فیصد کی شرح سے ترقی کرسکتی ہے۔ اس خوش فہمی پر یقین کرنے کا دل اس لئے نہیں کرتا ۲۰۱۵ء کے پہلے نصف میں ملک کے ۸ بڑے شہروں میں ۷ لاکھ مکانات گاہکوں کے منتظر تھے جو تعمیراتی شعبہ کے مندی کی واضح علامت ہے۔اس سال گھروں کی فروخت میں ۵ تا۶ فیصد کی کمی کے امکانات ہیں اور ان تیار شدہ مکانات کو بکنے میں کم از کم ۳ سال کی مدت درکار ہے۔ تیزی سے بکنے والی روز مرہ کے استعمال کی اشیاء میں جولائی۔ستمبر کے دوران ۴ء۲ فیصد کی کمی آئی اس کی بنیادی وجہ لگاتار دوسالوں سے قحط سالی کا شکار دیہی معیشت ہے۔

معیشت کو تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے گزشتہ سال کی ابتداء میں حکومت  نے ’’میک ان انڈیا‘‘ کے نام سے ایک شیر میدان میں اتارا تھا جس سے یہ توقع کی گئی تھی کہ وہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کا شکار کرکے انہیں اپنے ملک لے آئیگا۔ اس اقدام سے نہ صرف صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ معیشت بھی مضبوط ہوگی اور روزگار کے مواقع بھی فراہم ا ہوں گے۔ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اس ایک سال کے اندر ہندوستان کی برآمدات میں اوسطاً ۵ء۱۶فیصد کی گراوٹ آئی اوراگر ماہِ نومبر کے اعداوشمار دیکھیں تو وہ ۴۲ فیصد ہے۔ یہ  ۲۰۰۹ء کے عالمی بحران سے بھی دگرگوں صورتحال ہے۔ گزشتہ سال کے پہلے ۹ ماہ میں عالمی سطح پر برآمدات میں ۱۱ فیصد کمی آئی لیکن ہندوستان ۱۷ فیصد پر تھا جبکہ چین نے اسے ۲ فیصد پر روک دیا۔

            ’’میک ان انڈیا‘‘ نامی مہم کی بنیادی وجہ اس انتخابی وعدے کی پاسداری تھی جس میں دعویٰ کیا گیا  تھا نئی حکومت ہر سال ۵ء۲ کروڑ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے گی۔ اس وعدے کا تعلق چونکہ براہِ راست عوام کی خوشحالی سے ہے اسلئے اس کا قدر ے تفصیل سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔  مودی جی جس وقت یہ وعدہ کرتے پھر رہے تھے اس وقت یعنی ماہِ اپریل تا  جون ۲۰۱۴ء میں پرانی سرکار کے طفیل ۷۲ء۱  لاکھ نئے لوگوں کو ملازمت ملی تھی۔ اس کے بعد والی تِماہی میں یہ تعداد گھٹ کر ۶ء۱ لاکھ پر آئی اور پھر ۲ء ۱  لاکھ سے ۴۶ہزار پر پہنچ گئی۔ اپریل تا جون ۲۰۱۵ء میں تو یہ ۶ گنا گھٹ کر ۳۴ ہزار پر پہنچ گئی۔ اس میدان میں مودی جی اپنے سارے پیش رووں سے آگے نکل گئے اس لئے کہ ایک سال کے اندر اس سے زیادہ معاشی بدحالی کسی اور کے بس کا روگ نہیں ہے۔  معاشی زوال کی ایک کسوٹی روپیہ کی قیمت میں کمی بھی ہے جو پہلی بار نئی سرکار کی بدولت ڈالر کے مقابلے ۷۶ روپئے پر پہنچ گئی ہے۔

            معاشی بہی کھاتے میں آمد کے ساتھ ساتھ خرچ کا بھی خانہ ہوتا ہے اسی طرح خوشحالی کے شانہ بشانہ اس کی سب سے بڑی دشمن بدعنوانی کی جانب توجہ دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ گزشتہ  ڈیڑھ سال سے وزیراعظم نے ساری دنیا کا دورہ کر کے سرمایہ داروں سے خصوصی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان میں آکر صنعتکاری کی دعوت دی لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی جس کی بنیادی وجہ بدعنوانی ہے۔ گزشتہ سال نیویارک کی کرول نامی کمپنی نے اس بابت ایک سروے کروایا جس میں بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والے۷۷۰ سینئر افسران سے رابطہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ مرتب کی گئی۔

مندرجہ بالا جائزے کے مطابق بدعنوانی ، رشوت خوری اور دھوکہ دھڑی کے میدان میں ہندوستان  بہت سوں آگے ہے۔ ان اہلکاروں کے مطابق دنیا بھرکے دوتہائی ممالک میں یہ مسئلہ ہے مگر ہندوستان کے اندر ان میں سے ۸۰فیصد کا دھوکہ دھڑی سے واسطہ پڑا۔ خود اپنے دفتر کے اندر پائی جانے بدعنوانی کا عالمی تناسب ۱۱ فیصد مگر ہندوستان کے اندر یہ ۲۵فیصد ہے۔  اس بابت اگر دنیا کے سب سے بدعنوان ممالک مثلاً چین اور روس سے موازنہ کیا جائے تو وہاں داخلی بدعنوانی بالترتیب ۱۸اور ۲۰فیصد ہے۔ قانون شکنی کے باب میں بھی جہاں عالمی اوسط ۱۲فیصد ہے ہم ۲۰ فیصد پر ہیں۔صرف  چوری کے معاملے ہندوستان کی حالت بہتر ہے دنیا بھر میں اس کا تناسب ۲۲ فیصد ہے مگر ہندوستان میں یہ برائی صرف ۵ئ۱۷ فیصد ہے۔

            کالا دھن گزشتہ اتخابی مہم کا وہ نعرہ ہے جو ضرب المثل بن کا مقام حاصل ہے۔ عالمی سطح پر ہرسال ۸ لاکھ کروڑڈالرکامنہ کالا ہوجاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے مل کرعالمی بنک اور بین الاقوامی اقتصادی فنڈ(آئی ایم ایف) قائم کیا اور ان کے توسط سے ساری دنیا کو معاشی غلامی کے چنگل میں پھانسنے کا منصوبہ بنایا۔ اس جال سے نکلنے کیلئے پانچ سب سے اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں نے متحد ہو کر برکس نام کی معاشی تنظیم بنائی اور اپنے عالمی بنک کے قیام کا اعلان بھی کیا لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ دنیا کے چار سب سے زیادہ بدعنوان ممالک میں برکس کے چاروں بنیادی ارکان پیش پیش ہیں۔

            بدعنوانی کا عالمی اوسط ۲۲ فیصد ہے لیکن چین میں بدعنوانی اس سے بھی زیادہ یعنی ۱۲ فیصد ہے۔اس کے بعد روس ۲۰فیصد پر ہے ، ہندوستان ۵ء ۱۷اور برازیل ۷ء۱۶فیصد پر ہیں۔ جنوبی افریقہ بھی بہت پیچھے نہیں ہے۔ جی ۲۰ممالک میں بدعنوانی پر قابو پانے والے نظام کا جب جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ ہندوستان ، جرمنی ، میکسیکو، جاپان ، ترکی اور روس میں یہ اوسط درجے کا جبکہ امریکہ ، آسٹریلیا، کناڈا ، چین ، برازیل اور جنوبی کوریا میں یہ نظام نہایت کمزور ہے۔ امریکہ میں اس نظام کی کمزوری کو دیکھ کر قارئین کا چونکنا واجب ہے اس لئے کہ بدعنوانی  بابت عام تاثر یہ ہے کہ ترقی یافتہ جمہوریت میں یہ مرض نہیں پایا جاتا۔

            امریکہ اپنے آپ کو ساری دنیا کا چوکیدار سمجھتا ہے اور آئے دن ایسے اقدامات بھی کرتا رہتا ہے جس سے یہ بھرم پروان چڑھے۔ مثلاً حال میں امریکی انتظامیہ کی جانب سے مشہور فرانسیسی کمپنی السٹوم پر ۷۷ کروڈ ڈالر کا جرمانہ لگایا جانا۔ السٹوم پر امریکہ کے اندر بدعنوانی کا الزام نہیں تھا بلکہ اس نے انڈونیشیا، مصر اور دیگر ممالک میں ٹھیکہ لینے کیلئے رشوت دی تھی اس کے باوجود اس پر جرمانہ لگایا گیا۔ اسی طرح فی الحال ملیشیائی وزیراعظم پر جو بدعنوانی کے الزام لگائے گئے اس کی تحقیق بھی امریکی انتظامیہ کررہا ہے۔ ۷۰کروڈ ڈالر کے سنگین الزامات کے سبب  ملیشیائی وزیراعظم کو کولالمپور میں منعقد ہونے والی بدعنوانی کے خلاف کانفرنس میں شرکت سے منہ چرا نا پڑا تھا۔ امریکی سیاستدانوں پر یہ نوبت نہیں آتی حالانکہ وہاں بھی یہ وباء پائی ہی نہیں جاتی۔

            امریکی جہاں ساری دنیا پر نگاہ رکھتے ہیں وہیں اس کی داخلی صورتحال یہ ہے کہ بدعنوانی کی روک تھام کرنے والے اہلکار رشوت خوروں کو پکڑنے کے بجائے دن میں ۸ گھنٹے برہنہ فلمیں دیکھتے ہیں یہی حال جوہری توانائی یا ماحولیات کے تحفظ کرنے والے اہلکاروں کا بھی ہے۔ منشیات پر قابو پانے والے افسران منشیات کے سوداگروں کی جانب سے دی جانے والی جنسی تقریبات میں شرکت کرنے سے پس و پیش نہیں کرتے۔ حکومت نے بنکوں کو بدعنوانی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ لیہ من بنک کے فراڈ میں حکمرانوں کے ملوث ہونے کے کئی نظائرسامنے آئے ہیں چند سابق افسران کو قید و بند کی سزا بھی ہوئی۔ حکومت نے جانتے بوجھتے ۱۰سالوں تک گھروں کے رہن رکھنے کے کاروبار میں ہونے والی بدعنوانی کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا اور پھر سرکاری خزانے سے بدعنوان لوگوں کی مدد کی۔

اب تو لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ امریکہ میں بنکوں اور بڑے سرمایہ داروں کیلئے قانون جدا ہے اور عام لوگوں کیلئے مختلف قانون ہے۔ بڑے کسان، سرمایہ دار اور صنعتکار کو اپنی من مانی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لوگوں نے یہاں تک کہنا شروع کردیا ہے کہ وہاں جمہوریت یعنی عام لوگوں کی نہیں بلکہ مٹھی بھر اشرافیہ کی حکومت ہے جو دولت کے زور سے سیاست دانوں کو خرید لیتے ہیں اور اس طرح یہ دونوں طبقات ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ عوام کا کام صرف ذرائع ابلاغ میں ان سے تفریح حاصل کرنا اور انہیں ووٹ دے کر برسرِ اقتدار لانا ہے۔

یہ  غیر متوقع صورتحال نہیں ہے ۱۸۶۴ء میں امریکی صدر ابراہم لنکن نے کرنل ولیم ایلکنس کو ایک خط لکھ کر اس خطرے سے آگاہ کردیا تھا۔  انہوں نے لکھا’’میں مستقبل قریب میں ایک بحران کو آتا  دیکھ رہا ہوں جس سے میں کانپ جاتا ہوں اور مجھے جھرجھری آنے لگتی ہے۔ کارپوریشنس کی تاجپوشی ہوچکی ہے اور اونچے مقامات پر بدعنوانی کا دور آنے ہی والا ہے۔ اس سے عوام کی خواہشات پر دولت کی طاقت کا قبضہ ہوجائیگا یہاں تک ساری دولت چند ہاتھوںمیں سمٹ جائیگی اور جمہوریت تباہ ہوجائیگی۔ میں جنگ سے قبل اور بعد کی بہ نسبت اس لمحہ اپنے ملک کی حفاظت کی بابت زیادہ فکرمند ہو جاؤں گا۔ خدا کرے کہ میرے اندیشے بیجا نکلیں ‘‘۔  اس خط کے ۱۵۰سال کے بعد ہر کوئی ابراہم لنکن کے اندیشوں کی تعبیر بسروچشم دیکھ سکتا۔ ہمارا ملک بھی چونکہ امریکی سرمایہ داری کے نقش قدم پر بگ ٹٹ دوڑ رہا ہے اس لئے بدعنوانی پر بروقت قابو نہیں پانے کی صورت میں ہمارا انجام بھی مختلف نہیں ہوگا۔

از: ڈاکٹر سلیم خان

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں