غزل

ایڈمن
مارچ 2015

ہوامغرب سے کچھ ایسی چلی آہستہ آہستہ متاع دین ودانش لٹ گئی آہستہ آہستہ تمنا یہ ہے صبح زندگی سے پیار اب کرلوں یہ شمع زندگی بجھنے لگی آہستہ آہستہ اندھیرے دھیرے دھیرے جہل کے روپوش ہوتے ہیں بڑھاتی ہے…

ہوامغرب سے کچھ ایسی چلی آہستہ آہستہ
متاع دین ودانش لٹ گئی آہستہ آہستہ

تمنا یہ ہے صبح زندگی سے پیار اب کرلوں
یہ شمع زندگی بجھنے لگی آہستہ آہستہ

اندھیرے دھیرے دھیرے جہل کے روپوش ہوتے ہیں
بڑھاتی ہے قدم جب آگہی آہستہ آہستہ

تجلی جب ضعیفی کی اداکاری کی ہنستی ہے
مٹاتی ہے سیاہی زلف کی آہستہ آہستہ

گناہوں کے اندھیرے آنسوؤں میں خون کے ڈوبے
جگر میں شمع توبہ جب جلی آہستہ آہستہ

کوئی جب چپکے چپکے جام مے کو منہ لگاتاہے
لٹادیتاہے عزت آدمی آہستہ آہستہ

ہوا عزم سفر آراستہ جب قلب سالک میں
مرے نزدیک منزل آگئی آہستہ آہستہ

سالک بستوی (ایم ۔ اے)

غزل

کوئی کہتا ہے جینے کو، کوئی کہتا ہے مرنے کو
کوئی محدود رہنے کو، کوئی حد سے گزرنے کو

بلندی پر پہنچنے کو میں جب پرواز کرتا ہوں
میرا اپنا ہی لے آتا ہے قینچی پر کترنے کو

کبھی غیروں کے در پہ جھانک کر میں نے نہیں دیکھا
مجھے کافی ہے سیرت کا ہی اک شیشہ سنورنے کو

جو کچھ اعمال کرنے ہیں وہ کرلے زندگانی میں
وہاں مہلت نہ مل پائے گی دوبارہ سدھرنے کو

نہ جانے کیوں ذرا سی پیاس کا اظہار کر ڈالا
وہ دریا ہی اُٹھا لایا مجھے سیراب کرنے کو

بلندی پر پہنچنے کا ہنر جس نے سکھایا تھا
وہ اب مجبور کرتا ہے مجھے نیچے اترنے کو

اب اس کی رہنمائی میں نہیں چلنا ہمیں طارقؔ
بتاتا ہے ہمیں سیلاب جو چھوٹے سے جھرنے کو

ریاض طارقؔ ، مانگرول، راجستھان
09785805379

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں