علامہ قرضاوی۔ جدوجہد سے بھرپور زندگی

ایڈمن

ابورملہ علامہ یوسف القرضاوی عہد حاضر کی ایک عظیم اسلامی شخصیت ہیں۔ تقریباً ایک صدی پر محیط علامہ قرضاوی کی شخصیت اپنے اندر بہت ہی دل آویز اور حوصلہ بخش پہلو رکھتی ہے۔ علامہ قرضاوی کی شخصیت کا ایک پہلو…

ابورملہ


علامہ یوسف القرضاوی عہد حاضر کی ایک عظیم اسلامی شخصیت ہیں۔ تقریباً ایک صدی پر محیط علامہ قرضاوی کی شخصیت اپنے اندر بہت ہی دل آویز اور حوصلہ بخش پہلو رکھتی ہے۔ علامہ قرضاوی کی شخصیت کا ایک پہلو خالص علمی وفکری ہے جب کہ دوسرا پہلو خالص عملی اور تحریکی ہے۔
علامہ قرضاوی نے علماء کی عالمی تنظیم ’انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرس‘ کی تاسیس کے بعد کئی میقاتوں تک اس کی قیادت کا فریضہ انجام دیا۔ آپ دنیابھرکے علماء کے درمیان احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، اور آپ کی تحریروں سے دنیا بھر کے ممالک اور علمی اداروں میں استفادہ کیا جاتا ہے۔
علامہ قرضاوی نے اخوان المسلمون کے ابتدائی دور میں سرزمین مصر میں رہتے ہوئے تحریک اسلامی کے لیے زبردست عملی اور زمینی سطح کی جدوجہد کی ہے۔ اور قطرمیں پناہ گزیں ہونے کے بعد اخوان کے عالمی نظم میں بھی کافی اہم اورمتحرک کردار ادا کیا۔ اخوان کے ستر سال کی تکمیل پر آپ نے ’دعوت، تربیت اور جہادسے متعلق اخوان کی ستر سالہ جدوجہد‘ کا بھرپورتعارف کراتے ہوئے ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی۔ اس کتاب سے اخوان کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور اخوان سے آپ کے تعلق اور رشتے کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
علامہ قرضاوی کو اخوان کی اعلی قیادت اور عظیم شخصیات مثلاً امام حسن البنا شہیدؒ، امام سید قطب شہیدؒ، شیخ محمد الغزالیؒ، شیخ محمد قطبؒ وغیرہ سے قریب رہنے اور ان سے استفادہ کرنے کا خوب خوب موقع ملا، البتہ امام حسن البنا شہیدؒاور شیخ محمد غزالیؒ کے افکار سے آپ بہت زیادہ متأثر ہوئے۔
علامہ قرضاوی نے کئی بار سنت یوسفی بھی ادا کی، پچاس کی دہائی میں بھی وہ جیل گئے، اس کے بعد جمال عبدالناصر کے زمانے میں بھی کئی بار جیل جانا پڑا، اور بالآخر ایک ایسا وقت آیا جب آپ کو مصر سے نکل کر قطر میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ گزشتہ دنوں مغرب اور عرب دنیا کے بہت سے ممالک میںآپ کے جانے پر پابندی بھی لگادی گئی، اور عرب بہاریہ میں آپ کے ایکٹیو رول کی وجہ سے مصر ی حکومت نے 17جنوری 2018کو آپ کے خلاف عمرقید کا فیصلہ سنایا، اور اسی دوران آپ کے خلاف انٹرپول سے نوٹس بھی جاری کرائی۔
……………………
علامہ قرضاوی کا مزاج شروع ہی سے علمی اور فکری میدان کی جانب مائل تھا، چنانچہ آپ نے فکری سطح پر کام کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور فکری میدان میں تحریک اسلامی کو بھی اور پوری امت کو بھی مختلف پہلوؤں سے خوب خوب مالامال کیا۔ آپ کو متعدد بار اخوان کا مرشد عام بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن ہر بار آپ نے یہ کہتے ہوئے اس سے معذرت کی کہ آپ کا اصل میدان عمل فکری ہے، عملی قیادت کی صلاحیت میں وہ اپنے آپ کو اس مقام پر نہیں پاتے کہ اخوان جیسی عالمی تحریک کی قیادت کی ذمہ داری اٹھاسکیں۔
علامہ قرضاوی نے ویسے تو بہت سے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے لیکن آپ کا خاص میدان فقہ اسلامی اور فکر اسلامی ہے۔گزشتہ دہائیوں میں فقہ اسلامی کے میدان میں بہت سے نئے موضوعات متعارف ہوئے ہیں، جن میں فقہ الاقلیات، فقہ المقاصد، فقہ الاولویات، فقہ المآلات اور فقہ الموازنات خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان تمام ہی موضوعات پر علامہ قرضاوی کی تحریریں بہت ہی اصولی اور رہنما قسم کی ہیں، بلکہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فقہ اسلامی کے جدید مباحث کے سلسلے میں آپ نے امامت کا کردار ادا کیا ہے۔ فکر اسلامی کے ضمن میں آپ کی تحریریں کچھ توخالص اصولی اور بنیادی نوعیت کی ہیں، اور کچھ خالص عملی رہنمائی سے متعلق ہیں۔ ’الصحوۃ الاسلامیۃ‘ (اسلامی بیداری اور انقلاب) سے متعلق آپ کا سلسلہ تصانیف تحریک اسلامی کی فکری اور عملی دونوں ہی قسم کی رہنمائی کرنے والا زبردست لٹریچر ہے۔
……………………
علامہ قرضاوی کی ولادت مصر کے ایک گاؤ ں میں 9 ستمبر 1926میں ہوئی۔ ابتدائی عمر ہی میںآپ نے حفظ قرآن مکمل کرلیا، اور تجوید میں مہارت حاصل کرلی۔ سکنڈری اور ہائر سکنڈری کی تعلیم آپ نے ازہر یونیورسٹی کے ایک اسکول سے امتیازی نمبرات کے ساتھ حاصل کی،حالانکہ یہی وہ زمانہ تھا جب پہلی بار آپ کو قید وبند کی آزمائشوں سے بھی دوچار ہوناپڑا تھا، لیکن اس کے باوجود آپ نے پورے ملک میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اعلی تعلیم کے لیے آپ نے ازہر یونیورسٹی کے کلیۃ اصول الدین کا انتخاب کیا، کلیۃ اصول الدین سے تکمیل کے بعد آپ کلیۃ اللغۃ العربیۃ میں داخل ہوگئے۔ 1960میں آپ نے ایم اے اور 1973میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاںحاصل کیں۔
……………………
علامہ قرضاوی نے قطر میں سکونت کے بعد وہاں کئی بڑے علمی وفکری پروجیکٹس پر کام کیا۔ وہاںکئی اداروں کے ذمہ دار بھی بنائے گئے۔ قطر میںشاہی گھرانے کی جانب سے آپ کا جس قدر احترام اور آپ کی جس قدر عزت وتکریم کی گئی ، وہ قطر کی سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اس سے زیادہ روشن اور دلچسپ باب اہل علم کی تاریخ میں یہ لکھاجائے گا کہ علامہ قرضاوی شاہی گھرانے کے تمام احسانات کے باوجود کبھی اپنے موقف اور اپنی آراء میں کمزور نہیں پڑے، نہ تو عوام کے ردعمل کاانہوں نے کبھی خوف کھایا اور نہ شاہی گھرانے کی ناراضگی سے خوفزدہ ہوئے۔ اسرائیلی وزیراعظم شیرون جب یاسر عرفات کے ساتھ میٹنگ کی غرض سے قطر آیا تو علامہ قرضاوی نے اس کی قطر آمد پر کھل کر مذمت کی اور حکومت کے خلاف اپنے موقف کو کھل کر درج کرایا۔ قطر اور خلیجی ممالک میں امریکی فوجی اڈوں کے تعلق سے بھی آپ نے ہمیشہ بہت ہی صاف اور دوٹوک موقف اختیار کیا اور جب بھی موقع ملا اپنے موقف کا صاف طور سے اعلان کیا۔ تیونس، مصر، شام اور لیبیا میں عوامی انقلاب کی کھل کر تائید کی، مصرکے انقلاب کے بعد وہ مصر کے سفر پر بھی گئے، لیبیا کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو قذافی کے قتل کا فتوی بھی دیا، شام کے حالات میں بشارالاسد کے تعلق سے صاف طور سے اپنا موقف پیش کیا۔
……………………
علامہ قرضاوی کی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد عالمی سطح کے ایوارڈ بھی پیش کیے گئے۔ جن کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:
٭ اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکنگ کے تعلق سے آپ کی علمی وفکری خدمات کے اعتراف میں 1990میں آپ کو اسلامک ڈیولپمنٹ بینک کی جانب سے ایوارڈ پیش کیا گیا۔
٭ اسلامی علوم وفنون میں آپ کی خدمات کے اعتراف میں 1994میں عالم اسلام کی عظیم شخصیت سید سابق مرحوم کے اشتراک کے ساتھ آپ کو عالم اسلام کا سب سے قیمتی ایوارڈ ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ پیش کیا گیا۔
٭ علمی اور تحقیقی کارناموں کے اعتراف میں 1996میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی آف ملیشیا کی جانب سے آپ کو ایک بڑا ایوارڈ پیش کیا گیا۔
٭ فقہ اسلامی میں آپ کی خدمات کے اعتراف میں 1997 میں برونائی کی حکومت نے آپ کو سلطان حسن البلقیہ ایوارڈ پیش کیا۔
٭ سائنس اور کلچر کے میدان میں آپ کی نمایاں علمی خدمات کے اعتراف میں 1999میں آپ کو سلطان اویس ایوارڈ پیش کیا گیا۔
٭ قرآنیات کے سلسلے میں آپ کی خدمات کے اعتراف میں 2000میں دبئی انٹرنیشنل قرآن ایوارڈ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
٭ اسلامیات کے سلسلہ میں آپ کی خدمات کے اعتراف میں قطر حکومت نے آپ کو ایک بڑا سرکاری ایوارڈ پیش کیا۔
اس کے علاوہ بھی دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے آپ کی خدمت میں بہت سے سرکاری اور غیرسرکاری ایوارڈس اور اعترافات پیش کیے گئے۔ 2008میں فارن پالیسی میگزین نے دنیا کے بیس بڑے دانشوروں کے لیے سروے کرایا تھا، جس میں آپ کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا۔
……………………
جدید دنیا کے مسائل کے شرعی حل کی تلاش میں علامہ قرضاوی نے ساری زندگی جدوجہد کی۔ اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکنگ کا جب سلسلہ شروع ہوا تو اس میں آپ نے فکری سطح پر بھی خوب رہنمائی کی اور عملی طور پر بھی اسلامک بینکوں کے شریعہ بورڈ وغیرہ میں شریک رہے۔ قطر اسلامی بینک اور بحرین اسلامی بینک کی شرعی امورومسائل کے سلسلے میں نگرانی کے لیے تشکیل کردہ بورڈ کے آپ چیئرمین بھی رہے۔
مغربی دنیا میں سکونت پذیر یا غیرمسلم اکثریتی ممالک میں سکونت پذیر مسلمانوں کے مسائل جب تیزی کے ساتھ سر اٹھانے لگے تو آپ نے اس سلسلے میں بھی فکری اور عملی ہر دو سطح پر نمایاں کردار ادا کیا۔ فکری اور علمی سطح پر فقہ الاقلیات اور فقہ کی جدید بحثوں کو مضبوط اور مستحکم کیا، اور عملی سطح پر ان جیسے ممالک کے لیے اجتہادی عمل کو منظم اور مضبوط کرنے کے لیے یورپین کونسل فار افتاء تشکیل دی اور اس کے تحت جدید مسائل پر بحث وگفتگو کے لیے دنیا بھر کے نمائندہ علماء کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔اس کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی مکہ کی فقہ اکیڈمی اور دوسرے فقہی اداروں کی رہنمائی کا کام بھی انجام دیا۔
علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب’ فتاوی معاصرہ‘ جدید دنیا کے مسائل کے سلسلہ میں، بالخصوص نئی نسل کے ذہنوں کو ایڈریس کرنے والی ایک بہت ہی منفرد اور مفید چیز ہے۔ اردو زبان میں مولانا مودودی کی ’رسائل ومسائل‘ میں جس طرح سے جدید مسائل اور جدید ذہن کو بہت ہی واضح اور عام فہم انداز میں ایڈریس کیا گیا ہے، عربی زبان میں علامہ قرضاوی کی فتاوی معاصرہ بھی بالکل اسی طرح جدید مسائل کے سلسلے میں جدید ذہن کو اطمینان بخش اور واضح قسم کی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
……………………
علامہ یوسف القرضاوی کے ہاں۔۔۔ ایک دردمند دل ہے۔۔۔ امت کے لیے بہت ہی غیرمعمولی طور پرفکرمندی ہے۔۔۔ اور امت کے مسائل کے حل کی تلاش کے لیے ہرہر پہلو سے غوروفکر اور تلاش جستجو ہے۔۔۔ ذیل کا اقتباس ان کی شخصیت کے اس پہلو کی بخوبی ترجمانی کرتا ہے:
’’میں نے بہت سے نیک طینت مسلمانوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی ایسے شہر میں مسجد کے لیے عطیہ دیتے ہیں جہاں پہلے سے بے شمار مساجد ہوتی ہیں اور اس پر پانچ دس لاکھ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کرڈالتے ہیں۔ مگر جب ان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اس کی آدھی یا چوتھائی کے برابررقم دعوت اسلام کی اشاعت میں، کفروالحاد کا مقابلہ کرنے میں یا اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر کی جانے والی کوششوں میں یا اس طرح کے دوسرے عظیم اہداف میں خرچ کریں جن کے لیے بعض اوقات افراد تو دستیاب ہوتے ہیں مگر مال کی کمی ہوتی ہے، تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ آپ کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی اور وہ آپ کو کوئی مثبت جواب نہیں دیں گے۔ وہ اینٹوں اور پتھروں کی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں مگر انسانوں کی تعمیر ان کی نظر میں فضول ہے۔ ہر سال حج کے دنوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ صاحب ثروت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسی بات پر بضد ہوتی ہے کہ وہ نفل حج کی سعادت سے محروم نہ ہوں۔ اور بہت سے لوگ ہیں کہ رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا بھی اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں۔ اس میں وہ پوری سخاوت کے ساتھ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی اپنے ہی خرچ پر دوست احباب کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کو اللہ تعالی نے نہ حج کا مکلف کیا ہوتا ہے اور نہ عمرے کا۔ ان سے جب آپ کہتے ہیں کہ وہ یہ سالانہ اخراجات فلسطین میں یہودیوں کے مقابلے کے لیے یا بوسینیا اور ہرزگ میں سربوں کے مقابلے کے لیے، یا انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور دوسرے ایشیائی اور افریقی ممالک میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنے کے لیے دے دیں ، یا کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کرنے کے لیے یا ایسے داعیوں کی تیاری کے لیے خرچ کریں جواس میں تخصص حاصل کرکے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے وقف کریں، یا اسے تصنیف وتالیف اورترجمے یا دینی کتابوں کی اشاعت کا کوئی ادارہ قائم کرنے کے لیے عطیہ کردیں، تو قرآن کے الفاظ میں ’’سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے روکتے ہیں‘‘۔ ‘‘


ABU RAMLA
Research Scholar
Jamia Millia Islamiya
New Delhi-110025

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں