الیا ایکتا
اگر ہمیں DUSU کے انتخابات کی اہمیت کو سمجھنا ہے تو اس پر ایک وسیع نظر ڈالنی ہوگی۔ہندوستان کے سب سے بڑے کیمپسوں میں شمار اس کیمپس کے طلباء نے 1954 کے بعد سے کئی انتخابات ہوتے دیکھے ہیں اور یہ بھی کہ کس طرح یہ انتخابات لوک سبھا اور راجیہ سبھا انتخابات سے مختلف نہیں ہوتے ہیں۔ کس طرح طلبہ کو لبھایا جاتا ہے کہ جو صرف بینک تسلیم کئے جاتے ہیں۔ایک ایسی جگہ جہاں ہم نے بہت سے طلبہ تنظیموں اور ان کے نمائندوں کے سورج کو پروان چڑھتے اور اترتے دیکھا ہے، اس بات کا احساس بہت آسانی سے ہوجاتا ہے کہ یہاں سیاست اپنی اصل شکل میں کھیلی جاتی ہے۔ یہاں کا ہر طالب علم کسی نہ کسی صورت سے سیاست اور سیاسی امتیازات کا حصہ ضرور ہوتا ہے۔ خواہ وہ ذات، طبقات و علاقائیت کی بنیاد پر ہو یا خصوصاً جنس کی بنیاد پر!اے بی وی پی جو کہ بھاجپا کی نمائندہ تنظیم ہے اور NSUI جسے کانگریس کی حمایت حاصل ہے ان طلباء تنظیموں کے نمائندہ رہنماؤں جیسے کہ ارون ہوڈاNSUIاور جیتیندر چودھریABVPکو دیکھ کر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہاں کی سیاست میںذات کا کردار کتنا اہم ہے۔صرف وہی لوگ شرکت کرتے اور فتح یاب ہوتے ہیں جن کے پاس یا تو شناسائوں کی موروثی طاقتیں ہوں یا خود کے پیسےکا زور۔
اس سال DUSU کے انتخابات 12ستمبر کو منعقد ہوئے۔ کیمپس کچھ یوں منظر پیش کر رہے تھے، جابجا نمائندہ امیدوار کچھ پچاس ساٹھ حمایتیوں کے ساتھ ہاروں سے سجے ہوئے کیمپس میں مختلف مقامات پر نعرے لگاتے یا اکثر کمرۂ جماعت، کالج کی دیواروں اور دروازوں پر انتخابات کے اشتہاری پوسٹرز لگاتے ہوئے نظر آتے تھے۔یہاں کیمپس میں اگر کسی طالب علم سے دریافت کیا جائے کہ “آیا لوگ یہاں کے پرسکون ماحول میں علم حاصل کرنے آتے ہیں؟” تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ “ہر وہ امیدوار جو ان انتخابات میں شریک ہوتا ہے، اس کا مقصد و نگاہوں کا مرکز قومی سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں” اور اکثر چائے خانوں کے باہر طلبا کو گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا کہ “ہم نے سنا ہے کہ لوگ یہاں مختلف شعبوں میں داخلہ ہی اسی غرض سے لیتے ہیں کہ وہ دہلی یونیورسٹی کے انتخابات میں شریک ہو سکیں اور قومی سطح کی سیاست کے لیے راہ ہموار کر سکیں۔”ایک طالب علم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اکثر فاتح امیدوار کسی ایک مخصوص فرقے یا جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً،جاٹ یا گجّر۔ ۲۰۱۶-۲۰۱۷ کے انتخابات میں چار عہدوں (صدر، نائب صدر ، سیکریٹری، جوائنٹ سیکریٹری) کے حامل افراد انہیں جماعتوں سے تھے۔ ان جماعتوں سے متعلق افراد اپنے زور و طاقت اور جارحانہ تیوروں کی بنا پر بھی مشہور ہیں۔اگر اس سال کے طلبا پر نظر کریں تو ABVP سے رجت چودھری اور NSUI سے راکی تسید ہیں۔ ان کے نزدیک انتخابات یا توطاقت کے زور کی بنا پر جیتے جاتے ہیں یا علاقائیت اور ذات پات کی سیاست کی بنا پر۔ ذات پات کی سیاست کا یہ رجحان بہت بڑا چیلنج پیش کرتا ہے جمہوری خیال و طرز کو جو کہ مساوات، آزادی اور صاف ستھرے انتخابات کا مظہر ہیں۔DUSU نمائندہ جوان رہنماؤں کی فراہمی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
ایسے رہنما جو بہت سی خوبیوں اور عزت کے حامل ہیں اور قومی و بین الاقوامی سیاست میں اپنی موجودگی کا احساس دلا چکے ہیں۔ ارون جیٹلی، اجے ماکن، اور الکا لامبا ایسے سیاستدانوں کی چند بہت اہم مثالیں ہیں۔ یہ افراد DUSU سے منسلک رہے اور صدر و نائب صدر کے عہدوں تک پر بھی فائز ہوئے۔اس سال DUSU کے CEO اور NSUI کے صدارتی امیدوار راکی تسید کے درمیان کافی کشمکش رہی اور ABVP کوبائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے خلاف نمٹنے کے لیے کافی جد و جہد کرنی پڑی۔ ووٹ دیکر لوگ جب باہر نکلے تو انھوں نے دیکھا کہ بہت سی سیاسی جماعتوں کے بڑی عمر کے ارکان اپنی نمائندہ تنظیموں اور امیدواروں کی حمایت کے لیے وہاں موجود تھے۔یونیورسٹی اور کالج ہمیشہ پہلا مرحلہ و موقع رہے ہیں کیمپس کی سیاست و دیگر تحریکات کے لیے۔ قریب کے تین چار سالوں میں ہندوستان کے مختلف کیمپسوں میں ایک شورش و بغاوت دیکھنے کو ملی ہے۔ DU میں ABVP اور عام طلبہ کے درمیان ہاتھا پائی اور جھڑپ بھی سننے میں آئی۔ #studentagainstabvp ایک کافی با اثر و سود مند ٹرینڈ رہا جس نے پانچ سال بعد انتخابی نتائج پر بہت بڑا اثر ڈالا ہے۔#StudentsAgainstABVP نے طلبا میں ایک سیاسی بیداری لائی۔ لوگوں کو کیمپس میں ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی ہوئی اور لوگوں نے
آگے بڑھ کر کیمپس کو غنڈوں اور جارحانہ رجحانات والے اراکین سے پاک کرنے کا ارادہ کیا۔”رامجس” کے سانحے کے بعد مختلف کالجیز سے طلبا نکل کر باہر سامنے آئے اور ABVP کے خلاف احتجاج درج کروایا۔ اور جیسے کہ نتائج سامنے آئے اس سال ABVP کو صرف دو عہدوں(secretary, joint secretary) پر اکتفا کرنا پڑا۔ایسے گروپ عام طور پر لوگوں کے حقوق کی وکالت کرتے ہیں۔ یہ احتجاجات کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ میں ہی شروع ہو گئے تھے۔یہ بات ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ طلبا کی فعالیت ۲۰۰۹-۲۰۱۴ کے دور میں کافی تیزی سے پروان چڑھی ہے۔ اس معاملے میں اس ملک نے بہت سے چڑھائو دیکھے ہیں۔ تقریباً ۳۰۰ احتجاجات ہر روزمنعقد ہوتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ یہ صرف اور صرف طلبا کی خون میں ڈوبی تحریروں اور غصہ چھلکاتے نعروں کی عظیم طاقت کی بدولت ممکن ہو سکا ہے۔ مختلف دشواریوں اور پریشانیوں کے باوجود یہ طلبا اکثر ریلی و مظاہرےکرتے ہوئےدیکھے گئے ہیں۔ جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا جن کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
یونیورسٹی انتخابات طلبہ کو مواقع فراہم کرتے ہیں کہ کس طرح منظم طریقے سے اجتماعی طور پر ایک جیسی ذہنیت کے حامل افراد کسی مشترک سبب کو لے کر مارچ یا احتجاج کر سکیں۔ چنانچہ یہ انتخابات طلبا میں کثیر تنوع اور سوال کرنے کے جذبے کو بیدار رکھتے ہیں۔ہم نے بہت سے طلبا کو دیکھا ہے جو آگے بڑھ کر بنیادی ضروریات کے لیے احتجاج درج کرواتے ہیں اور بہت سے اہم نکات و ضروریات کی جانب مرکزی حکومت کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ یہاں اثر پذیر ہونے کے لئے طلباء کا بڑی تعداد میں میں باہر آنا اور ووٹ دینے کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جمہوریت میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہر ایک کی آواز سنی جائے اور اس پر غور کیا جائے۔ “کیا چیز صحیح ہے اور کیا غلط” اس بنیاد پر پرکھ کر ہر انسان کو فیصلہ لینے کی طاقت کا موجود ہونا،یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔