دورجدید کے تعلیمی افکار ۔ ایک جائزہ

ایڈمن

تعلیم کا مقصد لوگوں کو حقیقت سے روشناس کرانا ہے۔لیکن یہ سوال بھی لازماً اٹھنا چاہیے کہ “حقیقت “کیا ہے؟حقیقت وہ ہے جس کی بنیادیں حددرجہ پختہ ہیں۔جس کی اساس کار میں تبدیلی نہیں لائی جاتی البتہ زماں و مکاں…

تعلیم کا مقصد لوگوں کو حقیقت سے روشناس کرانا ہے۔لیکن یہ سوال بھی لازماً اٹھنا چاہیے کہ “حقیقت “کیا ہے؟حقیقت وہ ہے جس کی بنیادیں حددرجہ پختہ ہیں۔جس کی اساس کار میں تبدیلی نہیں لائی جاتی البتہ زماں و مکاں کے قیود سے بالاتراضافہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔برخلاف اس کے ناقص تعلیم وہ ہے جس کی بنیادیں حد درجہ کمزور ہوں اور عموماً مفروضوں پر منحصر ہو۔پھر یہ ایسے مفروضے ہوں جن کی نہ کوئی سند ہو اور نہ ہی کوئی بنیادہے۔اردو میں تعلیم کا لفظ دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی ، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے ، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی میں۔ جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یا تعلیمات ، حضرت عیسی ؑکی تعلیم یا تعلیمات وغیرہ۔ لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما، تخیلّی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب ، سماجی عوامل و محرکات ، نظم و نسق ،مدرسہ و اساتذہ ، طریقہ تدریس و نصاب ، معیار تعلیم ، تاریخ تعلیم ،تعلیمی نفسیات، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔اس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ علامہ اقبالؒ، مولانا مودودی ؒاور ڈاکٹر ذاکر حسین ؒکے افکار و نظریات کا مطالعہ کرتے ہوئے تعلیم کے ان اعلیٰ مقاصد سے روشنا ہوں،جو درحقیقت انسان کو نہ صرف خودشناس بناتے ہیں بلکہ خدا شناسی اور نصب العین کا شعور بھی فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر حسین ؒ کے تعلیمی افکار:
ڈاکٹر ذاکرحسینؒ کی شخصیت کے کئی پہلو نمایا ں ہیں مثلاً ماہر معاشیات ،ماہر سیاست اور ماہر تعلیم ۔ڈاکٹر صاحب نے تعلیم کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا معلومات اکٹھا کرنا دوسرا تجزیہ اور تحقیق کے ذریعے ان معلومات کا جوہر اخذ کرنا اور تیسرا اس جوہر سے ایک اخلاقی شخصیت کی تعمیر کرنا۔ اگر یہ تینوں عملی طور پر کسی انسان میں ظاہر ہوں تو وہ انسان تعلیم یافتہ کہاجاسکتاہے۔ تحصیل علم کا مقصد تلاش حق ہے اور تلاش حق کا مدعا خدمت خلق ہے۔تلاش حق میں بھی تین منزلیں ہیں۔ خودبینی ،جہاں بینی اور خدا بینی۔ ذاکر صاحب کے نزدیک یہ سب خوبیاں جس انسان میں یکجا ہوں اس میں حق وانصاف ، رحم و کرم ، حمیت وہمدردی ، صدق و صفا او رمحبت ومروت کی صفات خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں اگر ایک تعلیم یافتہ انسان میں یہ قدریں نہ ہوں تو اس کی ڈگریاں بے کارہیں۔ذاکر حسین کے تعلیمی فلسفے کا ایک اہم جزیہ ہے کہ وہ فرد کی تعلیم کو تعلیم نہیں سمجھتے ان کے نزدیک اصلی اور ابتدائی چیزمعاشرہ ہے۔ انسان کے افکار و نظریاتک کا ارتقاء جو تعلیم کا اصل مقصد ہے سماج کے بنا ممکن ہی نہیںہے۔ایک فرد واحد جاندار تو ہوسکتا ہے لیکن اگر وہ ایک بامہذب سماج کا حصہ نہ ہو تو وہ مکمل انسان نہیں کہلائے گا۔کیونکہ انسان کی امتیازی خصوصیت اس کا پختہ ذہن ہے لہذا یہ ارتقائی مراحل سماج کے تصّور کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ انسان کے افکار،نظریات،تصورات اور عقائد معاشرہ کے کسی نہ کسی دوسرے انسان کے ذہن کی پیداوار ہے ۔ ذہنی زندگی میں”تو”نہ ہو”میں” کا وجود بھی نہ ہو۔ اس لئے ذہن کی بالیدگی کے لیے سماج کا وجود لازم ہے ۔لہذا ایک بہتر سماج کے قیام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیم کا نظام درست کرے۔ سماج جس طرح کا بیج بچوں کے ذہن میں بوئے گا اس قسم کا پھل پائے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ببول بوئے اور گلاب کے پھول اگنے لگیں۔ذاکر صاحب کے نزدیک استاد کا بہت بڑا مقام ہے جو سماج کا ایک لازمی حصہ ہے۔ استاد کا کام صرف یہ ہے کہ شاگردوں کو کسی طرح انسان کی ذہنی زندگی سے روشناس کرادے۔ افلاطون نے اس ضمن میں ایک بڑے کام کی بات بتائی ہے :تعلیم وتربیت کے کاموں کو یوں سمجھنا چاہئے کہ معلم و طلبہ سب کے سب ایک گہرے اندھیرے غار میں پڑے ہوئے ہیں کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں استاد کا کام صرف یہ ہے کہ شاگردوں کا رخ اس طرف کردے جہاں غار میں روشنی کی ایک جھلک نظر آرہی ہے ، استاد اپنے شاگردوں کو بصیرت نہیں بخش رہاہے شاگردخود آنکھ رکھتے ہیں ، استاد کا کا م صرف یہ ہدایت ہے کہ صرف اس طرف دیکھو جس طرف سے روشنی آرہی ہے ۔استاد کا کام صرف ایک reciever کا ہوتاہے ۔غرض ذاکر صاحب ذہن کی بیداری کو تعلیم سے تعبیر کرتے ہیں(ـ”تعلیمی خطبات “،از ڈاکٹر ذاکرحسین،مکتبہ جامعہ، نئی دہلی)۔
ڈاکٹر ذاکر حسین نے افلاطون سے لے کر انگلستان کے فرانسس بیکن ، امریکہ کے ڈیوی ، جرمنی کے کرنزیٹز شیلر مار شر اور دیگر اکابرین تعلیم سے بہت کچھ سیکھا اور گاندھی جی کے تجربات وخیالات کو لے کر اسلامی فلسفے کی کسوٹی پر پرکھا اور اپنے فکر و تحقیق کے سانچے میں ڈھالا ، پھر اس سانچے کو ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کی مختلف ضروریات، احساسات ، تہذیبی رجحانات اور ذہنی امتیازات کے مدنظر ان میں ضروری ترمیمات کرکے خود اپنا فلسفہ تعلیم تیار کیا۔ اسی لگن اور محنت کودیکھتے ہوئے گاندھی جی نے اپنے بنیادی تعلیم کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 1937ء میں جو کمیٹی بنائی اس کا سربراہ ذاکر صاحب کو مقرر کیا۔ ذاکر صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ ان کا بنایا ہوا تعلیمی دستور العمل یعنی بنیادی تعلیم کا نظریہ ملک میں رائج کردیا جائے۔ اس اسکیم کے پیچھے مسلسل دس سال (1937-47)تک جان توڑ کوشش کی گئی کمیٹیاں بنیں ،کئی قراردادیں اور اور تجویزیں منظور ہوئیں لیکن ملک نے اس کو قبولیت کا شرف نہیں بخشا ‘ کبھی سیاست رکاوٹ بنی ، کبھی حکومت سے نااتفاقی رہی ، کبھی عہدیداروں کی ہٹ دھرمی اور کبھی ماہرین تعلیم کی آپسی کشمکش کی وجہ سے یہ اسکیم شرمندہ تعبیر نہ ہوسکی ۔
جیسا کہ ذکرکیا گیا ذاکر صاحب یورپ کے اکابر تعلیم سے بہت متاثر ہوئے تھے اور خاص طور سے جرمنی کے کرشرٹیز سے حالانکہ وہ وہاں معاشیات کے شعبہ سے منسلک رہے تاہم تعلیمی تجربات بھی کرتے رہے اور ان تجربات وخیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرف رخ کیا ۔ذاکرحسین کے تعلیمی نظریات کے اولین نقوش ہمیں ان کے تعلیمی خطبات میں ملتے ہیں جو مکتبہ جامعہ نے 1943ء میں شائع کئے تھے۔ ان خطبات کو کاشی ودیا پیٹھ کے جلسہ تقسیم اسناد میں پڑھا گیا یہ خطبہ ایک اہم اور یادگار خطبہ ہے کیونکہ ہمارے عصری تقاضوں کے پیش نظر اس کی مقبولیت بالکل عیاں ہے اس خطبہ میں ذاکر صاحب نے تعلیم کے مفہوم اور قومی تعلیم کے مقصد کی وضاحت یوں کی ہے :تعلیم دراصل کسی سماج کی اس جانی بوجھی ، سوچی سمجھی کوشش کا نام ہے جو وہ اس لئے کرتی ہے کہ اس کا وجود باقی رہے اور اس کے افراد میں یہ قابلیت پیدا ہوجائے کہ وہ بدلے ہوئے حالات کے ساتھ زندگی میں بھی مناسب اور ضروری تبدیلی لاسکیں۔نیز جو سماج اپنی تعلیم کا نظام درست نہیں رکھتا وہ اپنے وجود کو خطرے میں ڈالتاہے ۔
ذاکر حسین کے وہ خطبات جو تعلیم اور نظریہ تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں،انہیں “تعلیمی خطبات”کے عنوان سے مکتبہ جامعہ،نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔اس میں وہ رقم طراز ہیں:”ہمارے تعلیم یافتہ لوگ جو جمہوریت کے لبرل فلسفے کو پڑھ پڑھ کر اور ہَر کلیس،پرامیٹھیسس اور رابنسن کے ناموں اور کاموں اور افسانوں سے متاثر ہوکر اکیلے آدمی کو سماجی زندگی کی اصلی حقیقت اور سماج کو ان اکیلوں کے بس ایک ڈھیر یا انبوہ ماننے لگے ہیں”۔سماج کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح کچھ عرصے میں جسم کا ایک ایک ذرہ بدل جاتا ہے مگر جسم کی زندگی برابر جاری رہتی ہے،جس طرح درختوں کی پتّیاں بدل جاتی ہیں مگر درخت وہی رہتا ہے،اسی طرح سماج کے افراد بھی برابر ختم ہوتے رہتے ہیں مگر سماجی زندگی باقی رہتی ہے۔ہر زندہ چیز کی طرح سماج میں بھی دو کام برابر ہوتے رہتے ہیں،ایک تو بدلتے رہنے کا اور دو اپنے حال پر قائم رہنے کا۔ان میں سے کوئی ایک کام بھی رک جائے تو موت کا سامنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔تعلیم دراصل کسی سماج کی اس جانی بوجھی ،سوچی سمجھی کوشش کا نام ہے جو وہ اس لیے کرتی ہے کہ اس کا وجود باقی رہ سکے اور اس کے افراد میں یہ قابلیت پیدا ہو کہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ سماجی زندگی میں بھی مناسب اور ضروری تبدیلی کر سکیں۔تعلیمانسانی ذہن کی مکمل پرورش کا نام ہے۔نیز نصب العین کے متعین ہونے کے بعد ہی نصاب اور طریقہ تعلیم یعنی ان وسائل و ذرائع کا تعین ممکن ہوتا ہے جن سے وہ نصب العین حاصل کیا جا سکے۔قوم کی خراب صورتحال پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنی قومی زندگی کی موجودہ پستی پر مطمئن ہیں تو میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ آپ کے ثانوی مدرسے ہی کیا آپ کا ساراتعلیمی نظام بالکل ٹھیک ہے۔اس میں ذرا برابر تبدیلی نہ کیجئے، وہ معاشرت میں اُتھلی تقلید،مذہب میںکھوکھلی رسمیت،سیاست میں محکومیت پسندی کے پیدا کرنے، علم میں ذوقِ تحقیق سے اور فنون میں ذوق تخلیق سے نوجوانوں کے بے بہرہ رکھنے اور کم زور جسم، بے نور دماغ اور بے سوز دل پیدا کرنے کے نہایت کامیاب کارخانے ہیں۔برخلاف اس کے نصب العین کے حصول کے لیے منجملہ اور چیزوں کے اپنا ایک خاص نظام تعلیم بھی مرتب کرنا ہوگا جو کسی دوسرے ناقص نظام کی نقل نہ ہوگا بلکہ ہماری مخصوص تخلیق ہوگا۔ہمیں ثانوی تعلیم کے نظام سے پہلے عام ابتدائی تعلیم کا نظام بنانا اور جاری کرنا ہوگا، ایک خاص عمر پر بچوں کے رجحانات کی پڑتال کاانتظام کرنا ہوگا ۔کتابی تدریس کی جگہ عملی اکتشافات کو جگہ دینی ہوگی اور خالی واقفیت کی جگہ صحیح ذہنی تربیت اور خالی علم کی جگہ اچھی سیرت کو مرکز توجہ بنانا ہوگا۔
علامہ اقبال ؒکے تعلیمی نظریات:
یہ حقیقت ہے کہ افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ افراد کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین ، مقصد حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے قومی زندگی کے اِسی اہم پہلو پر گہرا غور و خوص کیا ہے۔ اور اپنے افکار کے ذریعہ ایسی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق کا باعث بن سکے۔اقبال نے اپنے زمانے کی تصویر کشی کرتے ہوئے اُن عالم دین حضرات پربحث کی اور توجہ دلائی ہے جو درحقیقت اپنی حیثیت سے ناواقفیت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ایسے بے عمل اور بے حیثیت و لاشعوری کی زندگی گزارنے والے عالم دین حضرات کو ‘ملّا’سے تعبیر دی ہے۔مُلّا سے اقبال بیزار تھے اور وہ اس لیے کہ اس کے پاس دین ہے نہ دین کی حرارت ،دراصل وہ دین کی روح سے بیگانہ ہوگیا ہے۔ اس کی نماز ، روزہ ، سب رسمی بن گئے ہیں اور حیات کے اُن اعلیٰ مقاصد تک اس کی پہنچ نہیں رہی جو دین کا نصب العین ہیں ۔”بال جبریل”وہ فرماتے ہیں:
اْٹھا میں مدرسہ و خانقا ہ سے غمناک نہ زندگی ، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ
تیری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال تیری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
قوم کیا چیز ہے ، قوموں کی امامت کیاہے اس کو کیا سمجھیں یہ بیچار ے دو رکعت کے امام
اقبال کو دینی عالموں سے جو توقع ہے اور ان کے علم کا جو تقاضا ہے وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کی اصلاح اور صحیح تعلیم و تربیت ہے اسی لئے وہ تما م تر مایوسی کے باوجود دعوت دیتے ہیں۔قدیم دینی مدارس کی جامد ، بے روح اور زمانہ کے تقاضوں سے نا آشنا تعلیم کے ساتھ اقبال جدید انگریز ی تعلیم سے بھی نالاں تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تعلیم سراسر مادیت پر مبنی تھی اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی نظر میں یہ نظام ِ تعلیم دین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی جو،جوانوں کو اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم کر رہی تھی۔ یہ تعلیم ضرورت سے زیادہ تعقل زدہ تھی اس نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہے جسے اقبال نفر ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔”بانگ درا”میں وہ فرماتے ہیں:
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اقبال رسمی اور جامد تعلیم سے اس قدر نالاں نہیں جتنے جدید مغربی تعلیم سے ہیں مغربی تعلیم کے بارے میں وہ بہت تلخ ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ۔i)مغربی تعلیم کی بنیاد ہی مادیت پر ستی ہے وہ عقل پرستی ، تن پروری ، تعیش و آرام کا سبق دیتی ہے ۔ii)اس سے مسلمان نوجوانوں کے عقائد متزلزل ہو جاتے ہیں ۔iii)مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ان سے ان کا نصب العین چھین لیتی ہے اور انہیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے ۔iv)یہ بے دینی اور الحاد انہیں احساس ِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے اور ان شاہیں بچوں کو خاکبازی کا سبق دے کر انہیں توحید کے نظریہ سے دور لے جاتی ہے۔v)مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے اس کا نصب العین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو پیٹ کا غلام بنا کر اسے دنیاوی لذتوں میں اْلجھا دیتی ہے ،اس طر ح بلند مقاصد سے وہ بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔vi)مغربی تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے۔ vii) مغرب کے جھوٹے میعار ، جھوٹے نظریات اور جھوٹی اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیر ہ کر دیتی ہے اس طرح وہ اپنی فطری حریت ، دلیری ، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کراحساس ِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔viii)مغرب کی بھونڈی تقلید کی کوشش میں وہ مغرب کی خرابیوں کو اپنا لیتے ہیں اور خوبیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ix)مغربی تعلیم کا ایک بہت بڑا لمیہ یہ ہے اس نے عورت کو جذبہ امومیت سے بیگانہ کر دیا ہے۔ عورت اس فرض سے جان چرانے لگی ہے جونئی نسل کی تخلیق اور تعلیم و تربیت کی صورت میں قدرت نے اس کے سپرد کیا تھا یہ گویا قومی خود کشی کے مترادف ہے۔x)مغربی تعلیم نے تدریس کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی ہے وہ خود بے راہ ہیں۔ وہ نہ ان علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں جو وہ پڑھاتے ہیں اور نہ تعلیم کے حقیقی مقاصد سے آشنا ہیں اور جسے خود راہ کی خبر نہ ہوگی وہ دوسرے کی رہنمائی کیونکر کر سکتا ہے اقبال نے ’’ضرب کلیم ‘‘ میں اساتذہ کے عنوان سے لکھا ہے۔مختصر یہ کہ مغربی نظام تعلیم اقبال کی نظر میں سرتاپا بے مقصد اور لغو ہے اور قوم کے لئے زہر ِ ہلاہل کا اثر رکھتی ہے اس سے نوجوانوں کی تما م تر صلاحیتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔ اور قوم اپنی راہ سے یکسر بھٹک جاتی ہے۔”ضرب کلیم”میں فرماتے ہیں:
مقصد ہو اگر تربیت لعل و بدخشاں بے سودہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار کیا مدرسہ ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
ایسی تعلیم جو اقبال کے اس معیار پر پوری اترنے والی ہو وہ کیا ہو سکتی ہے ؟اس سلسلہ میں اقبال نے خواجہ غلام حسین کے نام اپنے ایک ’’خط‘‘ میں وضاحت کی ہے۔” علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہے عام طورپر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے”۔علم کے حصول کے دوذریعے ہیں ایک علم وہ ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا وہ جس کی بنیاد ایمان اور وجدان پر ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ دونوں باہم متصادم نہیں ہیں۔ بلکہ ان دونوں کا ارتباط ضروری ہے۔”ضرب کلیم “میں وہ کہتے ہیں:
جوہر میں ہو لاالہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ
اقبال کے نزدیک دین اور سائنس دو الگ الگ مضمون نہیں بلکہ ایک ہی مضمون کے دو حصے ہیں کیوں کہ قرآن نے بار بار مسلمانوں کو مطالعہ کائنات اور تسخیر فطرت کی دعوت دی ہے اقبال کے خیا ل میںدینی علوم ، خدا، کائنات اور انسان تینوں کے مجموعی تشخص پر مشتمل ہیں اور انہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا اسی تصور کے زیر اثر اقبال نے ایک ایسے نظام ِ تعلیم کاخاکہ پیش کیا ہے جس میں دین، سائنس اور حکمت کو ایک واحد مضمون کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔
مقاصد تعلیم مولانا مودودیؒ کی نظر میں:
مولانا مودویؒ دور جدید کے ایک اہم ترین مجدد گزرے ہیں۔وہ ایک مشہور عالم دین اور مفسر قرآن بھی ہیں۔ان کا لٹریچر زمانہ حال میں اسلامی نظام حیات کو سمجھنے اور اس کے قیام و استحکام میں حد درجہ معاون ہے ۔ساتھ ہی انہوں نے دور جدید کے فتنوں کا احاطہ کیا ہے اور نوجوانان ملت کو حوصلہ بخشا ہے کہ وہ اسلام کو مکمل طور پر اپنی زندگی میں اختیار کریں۔اِس کے لیے نہ صرف انہوں ایک خاکہ پیش کیا بلکہ علمی و تحقیقی بنیادوں پر ایک ضخیم لٹریچر بھی فراہم کیا ۔ساتھ ہی ایک جماعت قائم کی جو برصغیر ہندوپاک کی معروف ترین جماعت ہے۔
علم کے تعلق سے وہ بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی علوم و فنون ہیں وہ سب درحقیقت دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ایک حصہ تو خالص ان معلومات پر مشتمل ہے جو انسان کو دنیا اور اس کی زندگی اور خود اس کی اپنی زندگی کے متعلق مختلف زمانوں میں حاصل ہوتی ہیں۔اور دوسرا حصہ اس چیز کا ہوتا ہے کہ حاصل شدہ معلومات کو ہر گروہ اور ہر قوم اپنے ذہن اور اپنے طرز فکر اور اپنے نقطۂ نظر کے مطابق مرتب کرتی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھئے کہ روئے زمین پر، جو غذا کا سامان پھیلا ہوا ہے، قریب قریب مشترک ہے،بجزان فرقوں کے ،جو جغرافیائی اعتبار سے ہوتے ہیں۔ورنہ ایک ہی قسم کے مواد انسان کی غذا کے لیے اس زمین پر موجود ہیں لیکن ہر قوم کے لوگ اپنے اپنے مذاق کے مطاق ،اسی مواد کو اپنے مخصوص طریقوں سے پکاتے ہیں اور اپنے لیے مختلف شکلوں کی غذائیں تیار کرتے ہیں۔ایسا ہی معاملہ علمی معلومات کا بھی ہے کہ جہاں تک حقائق اشیاء کا تعلق ہے اوراس کے بارے میں معلومات کا تعلق ہے،ان میں کوئی فرق نہیں۔فرق اس صورت میں واقع ہوتا ہے کہ ان معلومات کو جمع اور مرتب کرنے والا ذہن جس طرز پر وسوچتا ہے اور ، جو نظریہ رکھتا ہے اس کے مطابق ان کو مرتب کرکے کون سا فلسفۂ زندگی بناتاہے۔کیسا نظام فکر و عمل مرتب کرتا ہے؟اور اسی وجہ سے تہذیبوں کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔چناں چہ تمام دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں ہیں وہ ان معلومات ہی پر مبنی ہیں، جو اس کائنات کے متعلق انسانوں کو حاصل ہیں۔لیکن ہر تہذیب نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ان معلومات کو مرتب کیا ہے اور اس سے ایک نظام فکر و عمل بنایاہے اور اسی نظام فکر وعمل کا نام ایک خاص تہذیب ہے۔ ہر تہذیب کے امتیازی خطوط اور امتیازی خدو خال اسی چیز کی بدولت پائے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر کوئی قوم ایسی ہو،جو سوچنا اور تحقیق کرنا اور معلومات جمع کرنا اور نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دے تو وہ جمود میں مبتلا ہوجاتی ہے۔جمود کا نتیجہ آخر کار انحطاط ہوتا ہے اور انحطاط کا نتیجہ آخر کار ، اس پر کسی دوسری قوم کا غلبہ ہوتا ہے۔پھر جب کسی دوسری قوم کا غلبہ ہوتا ہے تو لامحالہ وہ محض سیاسی اور معاشی حیثیت ہی سے غالب نہیں ہوتی بلکہ سب سے بڑھ کے اس کا غلبہ فکری حیثیت سے ہوتا ہے۔یعنی اس کی تہذیب مغلوب قوم کی تہذیب پر غالب آجاتی ہے۔اب اس کے بعد دوسرا مرحلہ اس مغلوب قوم کا یہ شروع ہوتا ہے کہ یہ دوسروں کی تقلید کرنا شروع کردیتی ہے۔دوسروں کا پس خوردہ کھانا شروع کردیتی ہے۔تحقیقات دوسرے کرتے ہیں، ان کو جمع دوسرے لوگ کرتے ہیں،ان کو مرتب کرکے ایک فلسفہ حیات دوسرے لوگ بناتے ہیں،ایک نظام فکر و عمل دوسرے لوگ تیار کرتے ہیں۔اور یہ ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کی ہر چیز کوقبول کرتی چلی جاتی ہے۔یہ عمل جس قدر بڑھتا جائے گا اور اسی قدر تکمیل تک پہنچتا جائے گا، اس مغلوب قوم کی انفرادیت ختم ہوتی چلی جائے گی۔یہاں تک کہ یہ فنابھی ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے۔ایسی قومیں دنیا میں گزری ہیں،جو اس طرح مٹیں کہ اب ان کی تہذیب صرف تاریخ کا سرمایہ ہے اور دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیںہے۔
اسلامی تحریک جب دنیا میں اٹھی تھی اس وقت مسلمانوں نے دوسری قوموں پر محض سیاسی یا فوجی غلبہ ہی حاصل نہیں کیا تھا بلکہ اس سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلمان بھی اس وقت ایسے تھے، جو تحقیقات کا کام کرنے میں سب سے پیش پیش تھے،جنہوں نے نہ صرف یہ کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی بلکہ ان معلومات کو اپنے نقطہ نظر ، اپنے طرز فکر اور اپنے عقیدے کے مطابق مرتب بھی کیا۔ چناںچہ ایک ایسی غالب تہذیب اس کی بہ دولت وجود میںآئی جس کے رنگ میں دنیا رنگتی چلی گئی(“علمی تحقیقات کیوں اور کس طرح؟”، از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی)۔
حاصل کلام:
ڈاکٹر ذاکر حسینؒ،علامہ اقبال ؒاور مولانا مودودی ؒکے تعلیمی افکار کی روشنی میں یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ تعلیم کا مقصد بیک وقت خود شناسی اور خدا شناسی دونوں ہیں۔ساتھ ہی دنیا میں جس حیثیت سے ہم موجود ہیں ،اس حقیقت سے واقفیت اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو زندگی کے اعلیٰ ترین ارتقائی مراحل سے گزارناہے۔مقصد و نصب العین کے حصول کے لیے دین و دنیا ہر دوسطح پر علم کے تمام سرچشموں سے فیض یاب ہونا ہے۔ساتھ ہی وحی پر مبنی نظریہ تعلیم کے حصول وفروغ کی منظم و منصوبہ بند کوششیں کرنی ہیں ۔تاکہ دنیا میں امن قائم ہواور عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ اور نظام تشکیل پائے ساتھ ہی روحانی بالیدگی اور اخلاقی نشونما بھی پروان چڑھے۔اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :” تم میں بہترین وہ ہے جس نے قرآن کا علم سیکھا اور پھر اسے دوسروں تک پہنچایاـ”(بخاری:۵۰۲۷)۔یعنی ہر مسلمان طالب علم کو حصول علم کی سعی و جہد بھی کرنی ساتھ ہی اسے عام بھی کرنا ہے اور چونکہ اسلام میں تعلیم کا مفہوم خدا شناسی اور تقویٰ ہے ،جہاں خدا ہی سے تمام امیدیں وابستہ ہیں تو وہیں ہر کام سے قبل خوفِ خدا بھی مقصود ہے۔
اسلام میں تعلیم مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔ اللہ کے رسول پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد رَبانی ہے: “پڑھو اس رب کے نام سے، جس نے تمہیں پیدا کیا”(العلق:۱)۔ گویا اسلام کا آغاز ہی تعلیم سے ہواہے۔ اسی آیت میں آگے چل کر فرمایا گیا:”وہی اللہ ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا”(العلق:۵،۴)۔نیز سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:”اللہ نے آدم ؑ کو ساری چیزوں کا علم سکھایا”(البقرۃ:۳۱)۔علم انسان میں وسعتِ نظر اور بالغ نظری پیدا کرتا ہے۔ علم ہی سے انسان میں یہ صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکے۔ یعنی حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟یہ خوب اچھی طرح واضح ہوناچاہیے۔ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:”بے شک مجھے معلّم بناکر بھیجا گیا ہے”(مشکوٰۃ)۔مزید فرمایا: عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ قابلِ ستائش ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بہت بڑی بات ہے۔ جو شخص طلبِ علم کے دوران فوت ہوا، وہ شہید ہیـ” (مشکوٰۃ)۔ایک اور جگہ فرمایا:”علم کے لیے کوشاں رہیں تو زندگی عبادت بن جاتی ہے” (مشکوٰۃ)۔ علم حاصل کرنے کے علاوہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ: اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچائو۔ یعنی علم پھیلائو، تعلیم دو اور آسانی پیدا کرو اور مشکل پیدا نہ کروـ”(مشکوٰۃ) ۔کہا کہ بخیل صرف وہ ہی نہیںجو روپے پیسے میں کنجوسی کرتا ہے۔ بخیل وہ بھی ہے، جس کے پاس علم ہو اور وہ اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ نہ پہنچائے۔ علمِ نافع بہت بڑی چیز ہے۔ اس کے لیے تعلیم عام ہونی چاہیے تاکہ اس کا نفع دور دور تک پہنچے۔ تعلیم کا مقصد انسان کو اخلاقِ حَسنہ سے آراستہ کرنا اور صحیح راستہ دکھانا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں حصولِ علم کی تاکید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم سے انسان میں علم و بصیرت اور عملی زندگی کی بنیادیں فراہم ہوتی ہے۔ قرآن مجید علم کی فضیلت کو اہمیت دیتا ہے، کیوں کہ علم انسان کو متوازن زندگی گزارنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔علم و عمل کی راہ تعلیم ہی سے روشن ہوتی ہے، قومی تعمیر و ترقی کا پیش خیمہ بھی تعلیم ہی ہے ،ساتھ ہی تعلیم سے تحقیق کے دروازے بھی کھلتے چلے جاتے ہیں۔

 

از: محمد آصف ا قبال

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں