خاموشی

محمد صادق پرویز

خاموشی انسان کو خود کلامی و خود احتسابی سکھاتی ہے۔

فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ ( مسند احمد – 6621)

مومن کو چاہیے کہ وہ بہتر بولے یا  خاموش رہے۔

 

ہم اچھی گفتگوں کو قابل تحسین سمجھتے ہیں ، البتہ خاموشی کو حیثیت کم دیتے ہیں۔ جبکہ خاموشی جو معنوی ہو وہ نایاب جوہر ہے۔ خاموشی اختیار کرنےسے ذہن یکسو ہوتاہے۔ قلب اور روح پر اس کے مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ خاموشی ہمیں غور و فکر ، تدبر و تفکر کے بہترین لمحات فراہم کرتی ہے۔ اسی غور و فکر کے نتیجہ میں خدا کاقرب حاصل ہوتا ہے۔ انسان اس وسیع و عریض کا ‎‎ئنات سے اپنی مطابقت پیدا کرتاہے۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب کہ کا ئنات میں خدا کی نشانیاں ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ ہم اس وقت خدا کی صفات کا مشاہدہ قدرے بہتر کر سکتے ہیں۔ خاموشی انسان کو خود کلامی و خود احتسابی سکھاتی ہے۔ انسان کی تخلیقی صلاحیت بھی اس وقت نمو پاتی ہے جب کہ وہ خاموش رہ کر اپنے تخلیقی کام میں لگا رہے۔

 خاموشی کا یہ عمل تعمیری ہونا چاہئے نا کہ تخریبی۔ تخریبی خاموشی وہ ہوتی ہے جب  ہم سازشی ذہن لے کر علیحد ہ بیٹھے رہیں۔ ایسی خاموشی جو تعمیری ہو وہ دل کو نرم بناتی ہے۔ خاموشی اختیار کرنے سے بڑے بڑے گناہوں سے بچا جا سکتا ہے۔ بعض دفعہ فضو ل گوئی سے انسان ایسی باتیں کہہ گزرتا ہے جو دل کو بری لگتی ہیں۔ دل آزاری ہوتی ہے  اور شکوہ شکایت ، چغل خوری جیسے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں  اور خاموشی اختیار کرنے والا شخص ان گناہوں سے بچ جاتا ہے۔ تلخ لہجہ رشتوں کاقاتل ہوتا ہے جو کہ فوری  رد عمل کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے جبکہ  خاموشی اختیارکرنے سے رد عمل کو سوچ سمجھ کر کرنے کا موقع ملتا ہے جس کی وجہ سے انسان ان نازک رشتوں کو بچا لیتا ہے۔

حالیہ شمارے

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں